’ایف‘ گریڈ اور نمبرز ختم۔۔۔ پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟
پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے نتیجے تیار کرنے کے طریقہ کار کو بدلا جا رہا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق امتحانات کے بعد نتیجہ اب نمبروں میں نہیں بلکہ گریڈز میں آیا کرے گا اور یہ گریڈز حتمی گریڈنگ پوائنٹس یعنی جی پی اے کا تعین بھی کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2025 کے بعد جب نیا نظام تین مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے طلبہ کے رزلٹ کارڈز پر نمبرز نہیں ہوں۔ ان کی جگہ ہر مضمون میں الگ الگ اور مجموعی طور پر حاصل کیے گئے گریڈز اور گریڈنگ پوائنٹس درج ہوں گے۔ آخر میں مجموعی طور پر حاصل کیا گیا کمیولیٹو یعنی سی جی پی اے بھی درج کیا جائے گا۔ نئے نطام میں ایک اور پیشرفت یہ بھی کی گئی ہے کہ ’ایف‘ گریڈ یعنی ’فیل‘ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ’یو‘ گریڈ لے گا جس کا مطلب ہو گا ’ان سیٹیسفیکٹری‘ یعنی یہ گریڈ لینے والے طالب علم کی کارکردگی ’تسلی بخش نہیں‘۔ پرانے نظام میں جب کسی طالب علم کو کوئی مضمون پاس کرنا ہوتا تھا تو اسے کم از کم 33 یا 33 فیصد نمبر درکار ہوتے تھے۔ نئے نظام میں پاس کے اس پیمانے کو تبدیل کر کے 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا جائے گا۔ اس نئے نظام کا نفاذ پورے ملک میں یکساں ہو گا اور اس کا آغاز رواں تعلیمی سال یعنی 2023 سے کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2024 کے امتحانات کے بعد آنے والے رزلٹ کارڈز پر نئے نظام کے گریڈ موجود ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مختلف پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ’میرٹ‘ کا نظام بھی بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے دوڑ میں امیدواروں کو معلوم ہوتا تھا کہ انھیں داخلے کیے لیے کم از کم کتنے نمبر درکار ہوں گے۔ نئے نظام کے مطابق یہ مقابلہ اب سی جی پی اے پر منتقل ہو جائے گا۔ تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس تبدیلی سے پاکستان میں تعلیم کے معیار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں؟ یہ نظام کام کیسے کرے گا اور پرانا نظام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے وضاحت کے لیے بی بی سی نے متعلقہ ادارے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن یعنی آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح سے بات کی۔ نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟ آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ امتحانات کے نتائج دینے کا نیا نظام باقی دنیا میں رائج جدید طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پرانے نظام کا متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دو قسم کے بین الاقوامی طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں ایک پوائنٹس سسٹم تھا یعنی 9 سے لے کر ایک تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں یا پھر دوسرا انگریزی حروف یعنی ایلفابیٹس کا 7 نکاتی نظام ہے۔ ان کے مطابق ’ہم نے اس نظام کو اپنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ پہلے سے بھی ہمارے ہاں کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے اور لوگ اس سے واقف ہیں‘ تاہم پاکستان میں رائج کیا جانا والا نیا نظام 7 نکاتی کے بجائے دس نکاتی ہو گا۔‘ اس نئے نظام کے دس پوائنٹس کے مطابق اے پلس پلس سب سے اول گریڈ ہو گا۔ یہ 95 فیصد سے 100 فیصد تک کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو ملے گا۔ اس کا مطلب ’ایکسیپشنل‘ ہو گا اور اس کے گریڈنگ پوائنٹس 5 ہوں گے جو کہ جی پی کی سب سے زیادہ حد ہے۔ اسی طرح اے پلس کا جی پی 4.7 ہو گا اور کارکردگی 90 سے 95 فیصد کے درمیان ہو گی۔ یوں دسواں اور سب سے آخری گریڈ ’یو‘ یعنی ’ان سیٹیسفیکٹری‘ ہو گا جو 40 فیصد سے کم کارکردگی پر دیا جائے گا اور اس کا جی پی اے صفر ہو گا۔ ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہو گا طالب علم کی کارکردگی تسلی بخش نہیں اور اس کو دوبارہ تیاری کر کے امتحان دینے کی ضرورت ہے۔‘ یو گریڈ بنیادی طور پر ایف گریڈ کو ختم کرے گا اور کوئی بھی مضموں یا مجموعی طور پر سیشن پاس کرنے کی حد 40 فیصد کارکردگی ہو گی۔ یہ نظام پرانے نظام سے کیسے مختلف ہے؟ پرانے نظام میں امحانات کے نتائج میں بنیادی طور پر نمبرز مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جن کی بنیاد پر گریڈز کا تعین کیا جاتا ہے تاہم اس میں جی پی یا سی جی پی اے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ نظام بنیادی طور پر انگریزی حروفِ تہجی کے 6 نکات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں سب سے بڑا گریڈ اے اور سب سے بُرا گریڈ ایف ہے، جس کا مطلب فیل ہے۔ لفظ ’فیل‘ اس کے سامنے درج کیا جاتا ہے جو رزلٹ کارڈ کا حصہ ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ تعلیمی معیار پرکھنے کے لیے امتحانات کے جدید بین الاقوامی نظام ’فیل‘ کے لفظ کو منظر پر آنے نہیں دیتے۔ ڈاکٹر غلام علی ملاح نے ایگنایٹ پاکستان کو بتایا کہ ’پرانے نظام کے مطابق طالب علموں کو نمبرز دیے جاتے تھے اور صرف اسی پر ان کی کارکردگی کو جانچا جاتا تھا۔ ضروری نہیں کہ یہ ان کی حقیقی کارکردگی کی صحیح عکاسی کرتے ہوں۔‘ اسی طرح وہ مزید کہتے ہیں کہ پرانے نظام کے مطابق رزلٹ کارڈز پر طالب علم کو اس کی کارکردگی کے حوالے سے فیڈبیک دینے کا کوئی طریقہ بھی نہیں تھا جو نئے نظام میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق ’اب جو نئے رزلٹ کارڈز آئیں گے ان پر پہلے مرحلے میں نمبرز بھی ہوں گے اور ساتھ جی پی اور گریڈز بھی ہوں کے جیسا کہ جی پی 5 اور گریڈ اے پلس پلس لیکن جب یہ مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو نمبرز مکمل طور پر