Punjab

Punjab Driving License Fee Increased after 20 years

آپ کو پنجاب میں ہر سال ڈرائیونگ لائسنس کی فیس ادا کرنی ہوگی۔

نگراں پنجاب حکومت نے آئندہ سال کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کی فیس پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ نمایاں اضافے کے علاوہ نگران حکومت نے ہر پانچ سال کے بجائے سالانہ فیس وصول کرنے کا فیصلہ کیا ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ ٹریفک پولیس حکام کے مطابق، یکم جنوری 2024 سے، لرنر ڈرائیونگ لائسنس کی فیس 1000 روپے ہوگی۔ 440 اضافہ، روپے سے جا رہا ہے۔ 60 فی پانچ سال سے روپے 500 فی سال۔ مزید برآں، موٹرسائیکل اور موٹرسائیکل دونوں رکشہ ڈرائیور اب روپے ادا کریں گے۔ 500 سالانہ ان کی لائسنس فیس کے طور پر، پچھلے روپے سے تبدیلی کا نشان لگا کر۔ 550 ہر پانچ سال بعد ادا کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، موٹر کار-جیپ کے لیے پانچ سالہ لائسنس کی فیس بڑھا کر روپے کر دی گئی ہے۔ 1,800 فی سال، پچھلے روپے کے مقابلے۔ پانچ سال کے لیے 950 فیس۔ ہیوی ٹرانسپورٹ کی فیس روپے سے بڑھا کر روپے کر دی گئی ہے۔ 400 ہر پانچ سال سے روپے۔ 2,000 سالانہ۔ تاہم، ایک قابل ستائش قدم میں، روپے۔ معذور افراد کے لیے 20 پانچ سالہ لائسنس فیس اب ختم کر دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ پبلک سروس گاڑیوں کی پانچ سالہ فیس روپے سے تبدیل کر دی گئی ہے۔ 450 سے روپے 1,500 فی سال۔ مذکورہ بالا کے علاوہ دیگر زمروں کے لیے ڈرائیونگ لائسنس کی فیس روپے سے بڑھا دی گئی ہے۔ 100 سے روپے 1,000 واضح رہے کہ لائسنس فیس میں 20 سال بعد پہلی بار نظر ثانی کی گئی ہے۔

آپ کو پنجاب میں ہر سال ڈرائیونگ لائسنس کی فیس ادا کرنی ہوگی۔ Read More »

پنجاب نے مالی سال 24 کے لیے 16.5 ملین ایکڑ پر گندم کی کاشت کا ہدف عبور کر لیا

صوبہ پنجاب نے رواں سیزن 2023-24 کے لیے اپنے گندم کی کاشت کے ہدف کو عبور کر لیا ہے، متاثر کن 16.5 ملین ایکڑ اراضی پر کاشت کرتے ہوئے مقررہ ہدف کو 500,000 ایکڑ سے زیادہ کر دیا ہے۔ ابتدائی بوائی کا ہدف گزشتہ سیزن کے مطابق 16 ملین ایکڑ رقبہ پر تھا، گزشتہ سال کی کامیابی 16.014 ملین ایکڑ تک پہنچ گئی۔ موجودہ پیداوار کا ہدف 25 ملین میٹرک ٹن ہے، جس کی متوقع فی ایکڑ پیداوار 40 من ہے۔ اس کامیابی میں معاون عوامل میں مارکیٹ کے سازگار حالات شامل ہیں۔ پچھلے سال کی امدادی قیمت روپے اوپن مارکیٹ میں 3,900 فی من بڑھ گئی، روپے سے زیادہ تک پہنچ گئی۔ 4,000 فی من اس وقت، مروجہ قیمتیں روپے کے درمیان ہیں۔ 4,400 سے روپے 4,500 فی من کاشتکاروں کی طرف سے گندم کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ خریف سیزن کی فصلوں کی کم قیمتوں اور عوامی خوراک میں گندم کی بنیادی نوعیت کی وجہ سے ہوا۔ موجودہ سیزن کے لیے امدادی قیمت کا بروقت اعلان، روپے مقرر کیا گیا ہے۔ 4,000 فی من، کاشتکاروں کو نہ صرف پورا کرنے بلکہ بوائی کے ہدف سے تجاوز کرنے کی ترغیب دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ مزید برآں، کووڈ کے دور میں کھانے پینے کی اشیاء کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے بعد اصلاح کی گئی، اور کپاس کی فصلوں کے لیے ناموافق قیمتوں نے گندم کی طرف تبدیلی کو متاثر کیا۔ کامیابی کی کہانی 1509 کی اقسام کے ساتھ مزید کھلتی ہے جس نے چاول کے موسم کے دوران 35 سے 40 فیصد رقبے پر قبضہ کر لیا۔ یہ قسم، جو اپنی جلد پختگی کے لیے جانی جاتی ہے، گندم کی بروقت بوائی کی اجازت دیتی ہے۔ پیداواری اہداف کے حصول کے لیے مثبت اشارے میں تصدیق شدہ بیجوں کا استعمال، ڈی اے پی کھاد کے استعمال کو دوگنا کرنا، اور اکتوبر اور نومبر کے دوران معاوضہ دینے والی بارشیں یوریا کی کمی کو کسی حد تک کم کرنا شامل ہیں۔ یوریا کی قلت اور کھاد کی زیادہ قیمتوں کو تسلیم کرتے ہوئے، ذرائع نے امید ظاہر کی، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ پانی کی دستیابی نے یوریا کی کمی کو پورا کر دیا ہے۔ مزید برآں، 19 دسمبر 2023 کے آس پاس متوقع بارشوں سے گندم کی پیداوار کو مزید بہتر بنانے میں مثبت کردار ادا کرنے کی توقع ہے۔

پنجاب نے مالی سال 24 کے لیے 16.5 ملین ایکڑ پر گندم کی کاشت کا ہدف عبور کر لیا Read More »

پنجاب نے کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کو الیکٹرک بائیکس دینے کی تجویز کو حتمی شکل دے دی۔

ایک مقامی میڈیا آؤٹ لیٹ نے رپورٹ کیا کہ پنجاب حکومت نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو الیکٹرک بائک فراہم کرنے کے اپنے منصوبے کو حتمی شکل دے دی ہے۔ ایگنایٹ پاکستان کے مطابق حکومتی دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت پنجاب یونیورسٹی اور کالج کے طلباء کو الیکٹرک بائیکس فراہم کرے گی۔ مزید برآں، اس پروگرام کے لیے مالی مدد بینک آف پنجاب فراہم کرے گا۔ صوبائی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی بلال افضل نے بتایا کہ ایک تجویز تیار کر لی گئی ہے جسے منظوری کے لیے نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بھجوایا جائے گا۔ تاہم الیکٹرک بائیکس پر رعایت کے بارے میں ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ صوبائی سیکرٹری ٹرانسپورٹ جاوید قاضی کے مطابق انہوں نے الیکٹرک بائیک بنانے والے اداروں اور ان کی قیمتوں کے حوالے سے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ طلباء کو آن لائن درخواستیں جمع کرانی ہوں گی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے قرعہ اندازی کی جائے گی۔ مزید برآں، منتخب طلباء کے اداروں کو ان کی جانب سے ضمانت فراہم کرنے کے لیے بورڈ پر لیا جائے گا۔ اہلکار نے انکشاف کیا کہ الیکٹرک بائک انتہائی کم شرح سود پر فراہم کی جائیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلباء کو تعلیم مکمل کرنے کے بعد موٹر سائیکل واپس کرنے اور اس وقت کی قیمت کے مطابق رقم واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔ پنجاب حکومت گرین فنانسنگ کے ذریعے الیکٹرک موٹر بائیکس لانچ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ بینک آف پنجاب اس اسکیم کو نرم قرض کے طور پر درجہ بندی کر رہا ہے، جس میں 6% تک شرح سود کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ بلال افضل نے دعویٰ کیا کہ صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد یہ اسکیم جنوری میں شروع کی جائے گی۔

پنجاب نے کالج اور یونیورسٹی کے طلباء کو الیکٹرک بائیکس دینے کی تجویز کو حتمی شکل دے دی۔ Read More »

Ban Imposed In Punjab on slaughter of Female Animals

پنجاب حکومت نے مادہ جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی۔

حکومت پنجاب نے صوبے بھر میں مفید مادہ جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ سرکاری ریڈیو کے مطابق، یہ فیصلہ منگل کو صوبائی دارالحکومت میں نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس کے دوران کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت پنجاب بھر میں جانوروں کی بیماریوں سے پاک زونز بنائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مملکت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت میں مویشیوں کی برآمد کی بہت گنجائش ہے۔ وزیراعلیٰ نے فوری اور قابل عمل پلان کے ذریعے لائیو سٹاک کی برآمدات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے صوبائی وزیر برائے لائیو سٹاک، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری لائیو سٹاک، سیکرٹری خزانہ، آل پاکستان میٹ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر اور ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے کمشنروں پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی اور کمیٹی کو پلان تیار کرنے کا ٹاسک دیا۔ لائیو سٹاک سیکٹر کی پیداوار بڑھانے کے لیے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب صوبائی حکومت نے مادہ جانوروں کے ذبح پر پابندی عائد کی ہو۔ پچھلی پابندیوں کے نتیجے میں منڈی میں سرخ گوشت اور مویشیوں کی قلت پیدا ہوگئی تھی۔

پنجاب حکومت نے مادہ جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد کر دی۔ Read More »

Learner Driving Licence

لاہور: گھر بیٹھے لرننگ لائسنس بنوانے کی سہولت متعارف

لاہور: شہریوں کے لیے گھر بیٹھے لرننگ لائسنس بنوانے کی سہولت متعارف کروا دی گئی۔ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز کے مطابق اب شہریوں کو دفاتر نہیں جانا پڑے گا بلکہ گھر بیٹھے اپنا لرنر پرمٹ حاصل کریں گے۔ نگراں وزیراعلٰیٰ پنجاب محسن نقوی نے گزشتہ رات لائسنس کی اپگریڈیشن کا افتتاح کیا جس کے مطابق شہری گھر بیٹھے https://dlims.punjab.gov.pk/register پر لائسنس بنا سکیں گے۔ شہری پنجاب پولیس ایپ کے ذریعے بھی اب لرنر لائسنس بنوا سکیں گے۔ پنجاب بھر کے 737 پولیس اسٹیشنز، فرنٹ ڈیسک اور  پیٹرولنگ پوسٹوں پر بھی سہولت متعارف کروائی گئی ہے۔ سی ٹی او لاہور کا کہنا تھا کہ خدمت مراکز پر بے جاء رش کے پیش نظر آن لائن سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

لاہور: گھر بیٹھے لرننگ لائسنس بنوانے کی سہولت متعارف Read More »

Opium Factory in Lahore

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان   سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے بچوں کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار خون کے کینسر میں مبتلا بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا۔ پاکستان میں اگرچہ متعدد نجی ہسپتالوں میں بچوں سمیت بالغ افراد کے بھی بون میرو ٹرانسپلانٹ کیے جا چکے ہیں،تاہم پہلی بار کسی بھی سرکاری ہسپتال میں اب یہ کارنامہ سر انجام دے دیا گیا۔ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ماہرین نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ گزشتہ ماہ نومبر میں کیا تھا اور اب مریض کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ’ایگنایٹ پاکستان  ‘ کے مطابق لاہور چلڈرن ہسپتال کے ماہرین نے خون کینسر میں مبتلا بچے کا پہلے تین سال تک علاج کرکے اسے صحت یاب کردیا تھا لیکن بچے میں دوبارہ کینسر آیا تو انہوں نے ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا۔ دس سالہ ابراہیم میں چند سال قبل بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی لیکن اب ان کے ٹرانسپلانٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹرز نے ان کا ٹرانسپلانٹ کیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ مریض کے بون میرو کے لیے ان کی بڑی بہن کا عطیہ کردہ کچھ بون میورو لیا گیا، جسے ابراہیم کے جسم میں داخل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق نئے بون میرو ڈالنے سے پہلے مریض کا اپنا پورا بون میورو نکالا گیا، پھر اس میں عطیہ کردہ بون میورو ڈال کر اس کے کام کرنے تک مریض کو مانیٹر کیا گیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ جیسے ہی مریض میں نئے بون میرو نے کام شروع کردیا، مریض کو سخت حفاظتی انتظامات کے تحت گھر جانے کی اجازت دے دی گئی اور کم از کم اگلے 6 ماہ مریض کے لیے انتہائی اہم ہیں، اگر انہیں کوئی خطرناک انفیکشن نہ ہوا تو وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرز کے مطابق بون میرو نہ ہونے کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، جسم میں سفید اور سرخ خون سمیت پلیٹی لیٹس نہیں بنتے جب کہ دیگر کمزوریاں بھی ہوجاتی ہیں، اس لیے ایسے مریضوں کو انفیکشن سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ 10 سالہ ابراہیم کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کیس پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال کا پہلا ٹرانسپلانٹ ہیں جب کہ چلڈرن ہسپتال 2018 سے مختلف بیماریوں کے ٹرانسپلانٹ کر چکا ہے لیکن پہلی بار بون میرو کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ ڈاکٹرز سمیت ابراہیم کے والدین کو بھی امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا Read More »

Punjab is introducing smart card for Vehicle Registration

گاڑی مالکان کیلئے سب سے بڑی خوشخبری آ گئی

محکمہ ایکسائز نے گاڑیوں کے رجسٹریشن کارڈ کی فراہمی میں تاخیر سے نمٹنے کیلئے ورچوئل سمارٹ کارڈ متعارف کروانے کا فیصلہ کر لیاہے جس سے مالکان کو فوری طور پرآن لائن سمارٹ کارڈ فراہم کر دیا جائے گی ۔ محکمہ نے فزیکل کارڈز کی پروسیسنگ میں ایک ماہ تک کی ممکنہ تاخیر کو تسلیم کیا، اس کی وجہ ٹینڈرنگ کے عمل میں مسائل ہیں۔محکمہ کی جانب سے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس عمل کو تیز کرنے کے لیے کام کر رہا ہے اور بشمول ورچوئل سمارٹ کارڈ کے متبادل حل تلاش کر رہا ہے۔اس سلسلے میں محکمے نے ورچوئل سمارٹ کارڈ اسکیم کے نفاذ کے لیے منظوری کے لیے صوبائی حکومت کو باضابطہ درخواست جمع کرادی ہے۔ منظوری کے بعد، گاڑیوں کے مالکان رجسٹریشن کے مطلوبہ طریقہ کار کو مکمل کرکے اپنے ورچوئل سمارٹ کارڈ آن لائن حاصل کر سکیں گے۔ ان کارڈز کو محکمہ ایکسائز کی آفیشل ویب سائٹ سے باآسانی ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ورچوئل سمارٹ کارڈز میں فزیکل کارڈز جیسی تمام معلومات شامل ہوں گی۔

گاڑی مالکان کیلئے سب سے بڑی خوشخبری آ گئی Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

سموگ کے پیش نظرپنجاب کے 10 اضلاع میں آج لاک ڈاؤن ہے

دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور سرفہرست ہے، اسموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر لاہور سمیت چھ ڈویژنز میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ لاہور میں صبح سویرے شہرکی فضا میں آلودگی کا تناسب 379 ہوگیا، عالمی ماحولیاتی ویب سائٹ نے لاہورپھردُنیا کا سب سے آلودہ ترین شہر قرار دیدیا۔ پنجاب بھر کے10 اضلاع میں سمارٹ لاک ڈاون نافذ ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کی شرح 500 سے زائد ہوگئی، اپر مال کینال روڈ 564 اے کیو آئی کے ساتھ سب سے زیادہ آلودہ علاقہ ہے،شملہ پہاڑی کے اطراف میں 523، مال روڈ میں 496، گلبرگ میں 475 ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لاہور سمیت پنجاب کے 10 اضلاع میں جمعہ اور ہفتہ کے روز تعلیمی ادارے بند رہیں گے،لاہور ،فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، ساہیوال اور ملتان ڈویژن میں بھی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ اجلاس میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ سموگ پر قابو پانے کیلئےمصنوعی بارش کیلئے بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں،لاہور میں انسداد سموگ کیلئے سموگ ٹاورز لگائے جائیں گے۔

سموگ کے پیش نظرپنجاب کے 10 اضلاع میں آج لاک ڈاؤن ہے Read More »