Political Parties

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟

فروری اب صرف دو ماہ کی دوری پر ہے۔ یہی وہ وقت ہے کہ جب انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے فنڈز کی لین دین عروج پر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات کے قریب سب سے زیادہ رقم خرچ کرتی ہیں۔ تو لازمی طور پر جماعتیں انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ ذرائع سے رقم وصول کرنے کی کوششوں میں بھی رہتی ہیں۔ فنڈز کا مقبول ذریعہ پارٹی ٹکٹ کی درخواست کے ساتھ دی جانے والی فیس ہوتی ہے جوکہ پارٹی ٹکٹس حاصل کرنے والے امیدواروں سے وصول کی جاتی ہے۔ آنے والے انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) نے قومی اسمبلی کے پارٹی ٹکٹوں کے لیے 2 لاکھ جبکہ صوبائی اسمبلی کے ٹکٹوں کی درخواست لیے ایک لاکھ روپے کی ناقابلِ واپسی فیس مقرر کی ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ کم از کم ملک کی 3 بڑی سیاسی جماعتیں جیسے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، ٹکٹ درخواستوں کی فیس سے خاطر خواہ رقم حاصل کریں گی۔ ہر سال الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سیاسی جماعتوں کے گوشواروں کی تفصیلات میں سیاسی جماعتوں کی مجموعی آمدنی میں بڑا حصہ ٹکٹ درخواستوں کا دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی نے 2018ء کے عام انتخابات اور بعدازاں ضمنی انتخابات میں ٹکٹ درخواستوں کی مد میں 47 کروڑ 80 لاکھ روپے جمع کیے۔ مالی سال 18-2017ء اور 19-2018ء میں یہ رقم پی ٹی آئی کی کُل آمدنی کا 45 فیصد تھی۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے مقابلے میں صرف 14 کروڑ روپے جمع کیے لیکن پارٹی نے انتخابی فیس پر بظاہر زیادہ انحصار کیا کیونکہ یہ انتخابی سال 18-2017ء میں پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 95 فیصد تھے۔ پی پی پی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے مل کر ٹکٹ درخواستوں سے 9 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جوکہ 18-2017ء میں ان کی کُل آمدنی کا 89 فیصد تھے۔ طویل مدتی نقطہ نظر سے بھی ٹکٹ درخواستوں کی فیس سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کیے گئے فنڈز کا ایک اہم حصہ ہے۔ گزشتہ 13 سالوں میں سیاسی جماعتوں کی کُل آمدنی میں اس فیس کا حصہ پی ٹی آئی کے لیے 19 فیصد، مسلم لیگ (ن) کے لیے 33 فیصد جبکہ پی پی پی کے لیے 64 فیصد ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے درخواستوں کی مد میں 59 کروڑ 60 لاکھ روپے حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں 12 کروڑ 40 لاکھ روپے حاصل کیے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں یہ حساب الٹ گیا اور پی ٹی آئی نے 33 کروڑ 50 لاکھ روپے جمع کیے جبکہ مسلم لیگ (ن) صرف 12 کروڑ 50 لاکھ روپے ہی جمع کرسکی۔ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی مانگ زیادہ تھی۔ یہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کو رپورٹ کیے گئے اعداد و شمار ہیں۔ یہ اعداد و شمار اشارہ کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران ’عطیات‘ اور ٹکٹ دینے کی مد میں امیدواروں سے بھاری رقم وصول کرتے ہیں۔ اس سے یہ وضاحت بھی ہوتی ہے کہ کہ تقریباً تمام جماعتوں میں امیر اور امیر ترین امیدواروں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہورہا ہے۔ ٹکٹ درخواستوں کی فیس پر سیاسی جماعتوں کے انحصار سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں نوجوان امیدواروں کی تعداد کم کیوں ہے۔ اگر نوجوان زمیندار، اشرافیہ یا صنعتی طبقے سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو وہ پارٹی کو عطیات کی مد میں خطیر رقم دینے کی حالت میں نہیں ہوتے۔ اگرچہ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کا 45 فیصد نوجوان (35 سال یا اس سے کم) ووٹرز ہیں لیکن ملک کی 10 بڑی سیاسی جماعتوں میں نوجوانوں کی نمائندگی صرف 19 فیصد کے قریب ہے۔ پی ٹی آئی جسے نوجوانوں کی جماعت کہا جاتا ہے، اس نے پچھلے انتخابات میں صرف 129 یعنی 16 فیصد نوجوان امیدواروں کو پارٹی کی نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری جوکہ متعدد سیاسی جماعتوں کے زائدالعمر رہنماؤں پر تنقید کرتے ہیں اور نوجوانوں کو موقع دینے کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کی جماعت نے خود 2018ء کے انتخابات میں 727 امیدواروں میں سے صرف 122 یعنی 17 فیصد سے بھی کم نوجوانوں کو نمائندگی کرنے کا موقع دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی اس سے بھی خراب رہی، 2018ء کے عام انتخابات میں اس کے 646 امیدواروں میں سے صرف 86 امیدوار یعنی 13 فیصد نوجوان تھے۔ پارٹی ممبرشپ پر سیاسی جماعتوں کا انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی نے بتایا کہ گزشتہ 13 سالوں میں پارٹی ممبرشپ کی مد میں 2 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع ہوئے جوکہ مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 6 فیصد ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک کروڑ 10 لاکھ روپے کی رقم ظاہر کی جوکہ ان کی مجموعی آمدنی کا صفر اشاریہ 9 فیصد ہے جبکہ پی پی پی 4 کروڑ 10 لاکھ روپے جمع کرکے ان دونوں جماعتوں سے قدرے بہتر رہی، یہ رقم پیپلز پارٹی کی مجموعی آمدنی کا 9 فیصد ہے۔ تاہم غیر اراکین کی جانب سے چندہ سیاسی جماعتوں کے لیے آمدنی کا ایک اور اہم ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی گزشتہ 13 سالوں میں ڈھائی ارب روپے کے عطیات وصول کرکے سرفہرست رہی۔ مسلم لیگ (ن) نےاس مد میں 64 کروڑ 10 لاکھ روپے یا کُل آمدنی کا 33 فیصد جمع کیا جبکہ پی پی پی نے ایک کروڑ 80 لاکھ روپے یعنی مجموعی آمدنی کا 4 فیصد جمع کیا۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 17 کی شق 3 سیاسی جماعتوں سے اپنے فنڈنگ کے ذرائع کا محاسبہ کرنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کی طرف سے جمع کروائے گئے گوشوارے عام طور پر عطیہ دہندگان کی شناخت ظاہر نہیں کرتے اور ان کا ’عطیہ دہندگان‘ کے طور پر حوالہ دیا جاتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر پی پی پی اپنے بینک ڈپازٹ پر تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ روپے کا

پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ کیسے ہوتی ہے؟ Read More »

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ تو دے دی ہے لیکن ابھی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اکثر سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ٹکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنی شروع کر دی ہیں۔ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے تین نومبر کو جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پانچ دسمبر تک درخواستیں طلب کیں ہیں۔ یہ درخواستیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی امیدوار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور سیاسی جماعت اس کی مقبولیت اور دیگر پہلووں کا جائزہ لے کر اسے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلے کرتی ہے۔ لیکن جہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پیپلز پارٹی اس درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 30 ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ بھیجنے کی ہدایت دے رہی ہیں، ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے قومی اور صوبائی حلقوں کے درخواست گزاروں کے لیے بلترتیب ڈیڑھ اور ایک لاکھ کی فیس مقرر کی ہے۔ سابق حکمراں جماعت اور اس بار کی مبینہ طور پر فیورٹ سمجھی جانے والی مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ کے لیے دو لاکھ اور صوبائی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ٹکٹ فیس مقرر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غریب آدمی اپنے جیسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچتا ہے تو اسے پہلے تو یہ بڑی رقم جمع کرانا ہوگی بعد میں انتخابی مہم کے اخراجات تو الگ ہیں۔ کیا بلوچستان کا کویی غریب آدھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟ باپ پارٹی نے اقومی اخبارات میں مہنگے اشتہارات کے ذریعے درخوستیں طلب کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے درخواستیں اس سال مارچ کو طلب کی تھیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا امکان موجود تھا۔ پارٹی نے یہ درخواستیں سابق صدر آصف علی زرداری کے نام بھیجنے کا کہا اور ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی اور رابطہ نمبر کا تقاضہ بھی کیا۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ ‘غریب کو الیکشن لڑنا ہے تو چندا اور ادھار لینا ہوگا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی کی ہر نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے لاکھوں کی فیس بطور رجسٹریشن کے دینا ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ مسائل۔ بدحالی کا شکار غریب خود سیاست میں آکر اپنے جیسوں کی قسمت بدلنے کا خوب تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔‘

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟ Read More »

ملک بھر میں عام انتخابات ممکنہ طور پر 28 جنوری 2024 کو ہوں گے

ملک بھر میں عام انتخابات کی ممکنہ تاریخ سامنے آگئی ہے ، جس کے مطابق جنرل الیکشن اٹھائیس جنوری دو ہزار چوبیس کومتوقع ہیں۔الیکشن کمیشن میں ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات جمع کرانے کا آج آخری روز ہے۔  باخبر ذرائع کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات کیلئے پولنگ کی متوقع تاریخ سامنے آ گئی ہے، اور ممکنہ طور پرجنرل الیکشن اٹھائیس جنوری دو ہزار چوبیس بروز اتوار کو ہوں گے۔     ذرائع کے مطابق اس حوالے سےا لیکشن کمیشن سپریم کورٹ کو دو دن بعد تحریری طور پر آگاہ کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے مجوزہ تاریخ پر انتخابات کی تیاریاں بھی شروع کر دی ہیں۔   یاد رہے کہ دو روز قبل صدر عارف علوی نےنجی ٹی وی کو انٹرویو میںعام انتخابات میں تاخیر کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیںجنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن ہونے کا یقین نہیں۔  الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے قیاس آرائیوں کی تردیدکی گئی تھی ۔اورصدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے عام انتخابات میں التوا سے متعلق بیان پر ردعمل میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے تیاریاں مکمل ہیں۔ حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کے فوراً بعد انتخابات کے شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات الیکشن کمیشن میں قائم سہولت سینٹر پر آج رات بارہ بجے تک جمع کروائے جا سکیں گے۔ الیکشن کمیشن اعتراضات پر سماعت اٹھائیس اکتوبر سے چھبیس نومبر تک کرے گا۔ حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت تیس نومبر کو ہوگی۔ دوسری جانب حلقہ بندیوں پر اعتراضات نمٹانے کیلئے الیکشن کمیشن  نے دو بینچ بھی قائم کردئیے جو یکم نومبر سے سماعت کرینگے۔ پہلا بینچ اسلام آباد، شکار پور، خضدار، سیالکوٹ اور راجن پور کے اعتراضات پر سماعت کرے گا۔  دوسرا بینچ کرم، اٹک، جہلم، ننکانہ، کوہاٹ اور کورنگی کے اعتراضات نمٹائے گا۔ دو نومبر کو ملیر، سانگھڑ، سوات، ہری پور، چکوال اور پشین کے اعتراضات سنے جائیں گے جبکہ مردان، کراچی، شرقی، موسیٰ خیل، لودھراں، نوشہرہ فیروز اور حب کی سماعت بھی اسی روز ہوگی۔

ملک بھر میں عام انتخابات ممکنہ طور پر 28 جنوری 2024 کو ہوں گے Read More »