جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا
ہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ ’پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔ مہمان نوازی لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ ’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی
جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا Read More »