Pakistan Cricket Team in India

Pakstan And India two Cricket Rivals

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘

سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔ انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔ فائنل کھیلنے کے باوجود انڈیا کو لارڈز کے دو پاس نہ ملے کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ ’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘ اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔ ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔ کیوں نہ اگلے ورلڈکپ کے میزبان انڈیا اور پاکستان ہوں؟ اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔ پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘ نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘ سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔) اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘ اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کااستعمال کیا۔‘ انڈیا اور پاکستان کو اس کی توقع تھی اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘ نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔ ’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘ اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔ ’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘ ’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘ ’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘ ’نسیم حسن شاہ میز پر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا‘ آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔ امرت ماتھر لکھتے

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘ Read More »

Great Imran Khan and KapilGreat Pakistan Cricket Team Captain Imran Khan and India Cricket Team Captain Kapil dev of 1987 Dev

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا

ہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ ’پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔ مہمان نوازی لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ ’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا Read More »

ICC Mens Cricekt World Cup 2023 India

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘

  آج (6 اکتوبر) دن ڈیڑھ بجے جب پاکستان کی کرکٹ ٹیم بابر اعظم کی کپتانی میں انڈیا کے شہر حیدر آباد کے راجیو گاندھی سٹیڈیم میں کرکٹ ورلڈ کا پہلا میچ کھیلنے کے لیے اُترے گی تو شاید وہاں زیادہ تعداد میں پاکستانی شائقین موجود نہ ہوں کیونکہ انڈین حکومت نے اب تک پاکستانی شائقین کرکٹ کو ویزوں کا اجرا نہیں کیا ہے۔ شاید خود بابر اعظم کو بھی اس کا احساس ہے اور انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ پر بات کرتے ہوئے پاکستانی شائقین کو انڈیا کا ویزا نہ ملنے کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بہتر ہوتا کہ پاکستانی شائقین کو بھی انڈیا کا ویزا ملتا۔ شائقین نے ورلڈ کپ کے لیے بہت سی تیاریاں کر رکھی ہیں۔‘ انھوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ ’آنے والے میچوں کے لیے پاکستانی شا‏ئقین کو ویزا دیا جائے گا اور پاکستانی ٹیم کو حیدرآباد میں سپورٹ ملے گی۔‘ بابر اعظم کی پہلی خواہش کے بارے میں تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن حیدرآباد میں کرکٹ شائقین سے بات کرنے کے بعد اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان کی دوسری خواہش پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم حیدرآباد کے راجیو گاندھی انٹرنیشنل سٹیدیم میں نیدر لینڈز کے خلاف آئی سی سی کے عالمی کپ کا پہلا میچ آج کھیلے گی جس کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ ایسے میں جہاں پاکستانی شائقین پر انڈیا کا ویزا نہ ملنے کی وجہ سے کسی حد تک مایوسی کا غلبہ ہے، وہیں دوسری جانب اس وقت حیدرآباد میں کافی جوش و خروش پایا جاتا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح ان کا استقبال کیا گیا، سٹیڈیم میں اسی طرح کی سپورٹ انھیں ملے گی۔‘ اس بات کا ایک ثبوت تو بنگلور سے خصوصی طور پر پاکستان اور نیدرلینڈز کا میچ دیکھنے کے لیے حیدرآباد تک کا سفر کرنے والے انڈین شہری نوید خان ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نوید خان کا کہنا تھا کہ ’یہ عالمی کپ دونوں ملکوں کے لیے محبت کا پیغام بنے گا، جس انداز میں پاکستان کی ٹیم کا استقبال کیا گیا وہ بہت خوش آئند ہے۔ یہ ٹورنامنٹ بہت اچھے ماحول میں ہو گا۔‘ ایک خاتون مہوا دتا نے کہا کہ ’پاکستان کی ٹیم سات برس بعد انڈیا آئی ہے اور ان کا بہت شاندار خیرمقدم ہوا ہے۔ میں دونوں ٹیموں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتی ہوں۔ جو جیتا وہی سکندر۔‘ واضح رہے کہ پاکستان کی ٹیم حیدرآباد میں ایک ہفتے سے مقیم ہے اور اس دوران اُن کی میزبانی اور کھانے کے چرچے بھی ہوتے رہے ہیں۔ ایک اور نوجوان وجاہت علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں پاکستانی ٹیم بہت مضبوط بن کر آئی ہے۔ شاہین آفریدی، حارث رؤف بہترین بولرز ہیں۔ بابر اعظم، رضوان، افتخار یہ سبھی ورلڈ کلاس کے بلے باز ہیں۔ نیدر لینڈز بھی اچھی ٹیم ہے۔ یہ میچ دلچسپ ہو گا۔‘ ’انڈیا کی پچز اچھی دکھائی دے رہی ہیں‘ پاکستان کی ٹیم اس میچ سے قبل دو وارم اپ میچ کھیل چکی ہے اور اب تک متعدد ٹریننگ سیشن بھی کر چکی ہے۔ دوسری جانب نیدر لینڈز کی ٹیم نے بھی خود کو انڈیا کے موسم اور حالات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خوب ٹریننگ کی ہے۔ بابر اعظم نے میچ سے پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ڈیجیٹل سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیم کی سب سے بڑی طاقت بیٹنگ لائن ہے جو ٹاپ سے نیچے تک مضبوط ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بولنگ میں فاسٹ بالرز پاکستان کی حکمت عملی کی بنیاد ہیں، لیکن یہاں کی پچ پر سپنرز کو بھی فائدہ ہو گا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’حیدرآباد کی پچ سے ٹیم مانوس ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جہاں تک میرا تجربہ ہے اور انڈیا میں ہونے والے میچز جو میں نے ٹی وی پر دیکھے ہیں ان کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ انڈیا کی پچز واقعی اچھی دکھائی دے رہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ میچز بڑے سکور والے ہوں گے۔‘ جمعے کے میچ میں کتنا سکور ہو گا؟ یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہے تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دلچسپ میچ بن سکتا ہے اگرچہ پاکستان کے لیے نیدرلینڈز اتنا بڑا چیلنج نہیں سمجھی جا رہی۔ پاکستان اور نیدرلینڈز کے درمیان یہ ایک روزہ میچز کا ساتواں مقابلہ ہو گا۔ اس سے پہلے پاکستان کی ٹیم نیدرلینڈز سے چھ بار کھیل چکی ہے اور ان سبھی میچوں میں پاکستان نے نیدر لینڈز کو شکست دی تھی۔ پاکستان نے گذشتہ برس نیدرلینڈز کے اپنے پہلے دورے کے دوران سیریز بھی اپنے نام کی تھی۔ آئی سی سی کے مطابق جب یہ دونوں ٹیمں جمعہ کو مد مقابل ہوں گی تو یہ تقریباً گذشتہ 11 برس میں پہلا موقع ہو گا جب یہ انڈیا کی سرزمین پر 50 اوورز کا ون ڈے میچ کھیل رہی ہوں گی۔ دونوں ہی ٹیموں نے 1987 سے حیدرآباد میں 50 اوورز کا ون ڈے انٹرنیشنل گیم نہیں کھیلا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ حیدرآباد کی اسی پچ پر پاکستان کا آئندہ میچ 10 اکتوبر کو سری لنکا سے ہو گا اور اسی تناظر میں حیدرآباد میں بتایا ہوا وقت پاکستان کی ٹیم کے لیے کافی اہم ہے۔ سپورٹس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم مثبت اور پُراعتماد دکھائی دے رہی ہے اور اگر ابتدائی دو میچوں میں اسے مسسلسل کامیابی حاصل ہوتی ہے تو یہ اعتماد مزید مضبوط ہو گا۔ حیدرآباد میں پایا جانے والا جوش و خروش اور کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز سے جڑا شائقین کا ذوق و شوق اپنی جگہ تاہم انڈیا میں شائقین کی بڑی تعداد کو اس میچ کا شدت سے انتظار ہے جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان 14 اکتوبر کو احمدآباد میں ہو گا۔ لیکن احمدآباد میں انڈیا سے ہونے والے ٹاکرے سے قبل پاکستان کے لیے دونوں میچز جیتنا بہت اہم ہو گا۔

پاکستان بمقابلہ نیدر لینڈز: ’پاکستانی ٹیم کی آمد پر جس طرح استقبال ہوا، سٹیڈیم میں اُسی طرح سپورٹ ملے گی‘ Read More »