لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس
لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »