Lahore

آج پاکستان میں پہلی مصنوعی بارش ہوگئی،محسن نقوی

نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی نےکہا کہ الحمدللہ آج پاکستان میں پہلی مصنوعی بارش ہوگئی ہے،یواےای حکومت کی وجہ سے ہم مصنوعی بارش کرسکے۔ نگران وزیراعلی پنجاب نے لاہورمیں پریس کانفرنس کے دوران کہا مصنوعی بارش کیلئے 48 فلیئر فائر کیےگئےہیں ہیں،دوسرا مشن اب سےتھوڑی دیربعددوبارہ ٹیک آف کرےگا۔فرسٹ فائرشاہدرہ اور مریدکے اطراف ہوئے۔ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ مصنوعی بارش میں الحمدللہ ایک روپیہ بھی نہیں لگا۔آج صبح بھی لاہوردنیاکادوسرا آلودہ ترین شہرتھا۔لاہورکے10علاقوں میں ہلکی پھلکی بارش ہوگئی۔ وزیراعلی کا مزید کہنا ہےکہ دوسرے مشن کارزلٹ شام یارت تک آجائےگا،انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ،یواےای کی پوری ٹیم ایک ایک چیزدیکھ رہی تھی،کلاؤڈسیڈنگ کے پہلے مشن کوکچھ دیرپہلےکیاگیا۔

آج پاکستان میں پہلی مصنوعی بارش ہوگئی،محسن نقوی Read More »

Learner Driving Licence

لاہور: گھر بیٹھے لرننگ لائسنس بنوانے کی سہولت متعارف

لاہور: شہریوں کے لیے گھر بیٹھے لرننگ لائسنس بنوانے کی سہولت متعارف کروا دی گئی۔ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز کے مطابق اب شہریوں کو دفاتر نہیں جانا پڑے گا بلکہ گھر بیٹھے اپنا لرنر پرمٹ حاصل کریں گے۔ نگراں وزیراعلٰیٰ پنجاب محسن نقوی نے گزشتہ رات لائسنس کی اپگریڈیشن کا افتتاح کیا جس کے مطابق شہری گھر بیٹھے https://dlims.punjab.gov.pk/register پر لائسنس بنا سکیں گے۔ شہری پنجاب پولیس ایپ کے ذریعے بھی اب لرنر لائسنس بنوا سکیں گے۔ پنجاب بھر کے 737 پولیس اسٹیشنز، فرنٹ ڈیسک اور  پیٹرولنگ پوسٹوں پر بھی سہولت متعارف کروائی گئی ہے۔ سی ٹی او لاہور کا کہنا تھا کہ خدمت مراکز پر بے جاء رش کے پیش نظر آن لائن سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

لاہور: گھر بیٹھے لرننگ لائسنس بنوانے کی سہولت متعارف Read More »

Opium Factory in Lahore

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ پوست کا پودا آج جہاں بھی نظر آئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس کے سبز بیج سے نکلنے والا مادہ یعنی ’افیون‘ کرہ عرض پر موجود چند طاقتور ترین اور انسانی صحت کے لیے خطرناک نشوں کو زندگی دیتا ہے۔ ہیروئن اسی کی پیداوار ہے۔ تاہم لگ بھگ دو صدیاں قبل ہندوستان میں پوست قیمتی ترین فصلوں میں شمار تھا۔ نوآبادیاتی طاقت برطانیہ نے بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اس کی کاشت کروائی۔ اس سے ملنے والی افیون اس نے چین کو سمگل کی اور اتنا منافع کمایا کہ چین کے ساتھ اپنا تجارتی خسارہ پورا کر لیا۔ اسی افیون پر چین نے برطانیہ کے ساتھ دو جنگیں بھی لڑیں۔ ان میں اسے شرمنات شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ہانگ کانگ جیسے جزیرے اور کئی بندگارہیں اس سے چھن گئیں۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ کے بعد اسے چین میں افیون کی برآمدات اور کاشت کو قانونی قرار دینا پڑا۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب چین کے اندر افیون کی کاشت اتنی بڑھ گئی کہ اس کے صرف ایک خطے کی پیداوار پورے ہندوستان کی پیداوار سے زیادہ تھی۔ لاکھوں کی تعداد میں چینی باشندے افیون کے نشے میں مبتلا ہو گئے۔ چینی حکومتی اکابرین کو لگا کہ ’اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو نہ تو چین کی فوج میں لڑنے کے لیے کوئی سپاہی بچے گا نہ فوج کو ہتھیار مہیا کرنے کے لیے پیسے۔‘ برطانیہ نے افیون تیار کرنے کے لیے ہندوستان میں بنگال اور بہار میں دو وسیع و عریض فیکٹریاں قائم کی تھیں جہاں سے افیون کی تجارت کے لیے سپلائی لی جاتی۔ چین کے ساتھ یہ تجارت بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی۔ جب یہ تجارت بند ہوئی اور دنیا افیون اور اس کے انسانی صحت اور معاشرے پر مضر اثرات سے واقف ہونا شروع ہوئی، تو بھی ہندوستان مین بنی فیکٹریاں بند نہیں ہوئیں۔ اس کی وجہ پوست کے پودے سے ملنے والے سیاہی مائل مادے افیون کی وہ خصوصیات ہیں جن سے انیسویں صدی میں تیزی سے جدت حاصل کرتی میڈیکل سائنس آشنا ہو چکی تھی۔ برطانیہ اب ہندوستان میں قائم فیکٹریوں میں وہ افیون تیار کرنے لگا جو ادویات میں استعمال ہو رہی تھی یا جس پر مزید تحقیق کی جا رہی تھی۔ ان میں سب سے نمایاں درد کو کم کرنے والی دوا ’مارفین‘ ہے۔ شاید یہ مارفین ہی ہے جس کی وجہ سے افیون کو ’دنیا کے لیے انڈیا کا تحفہ‘ بھی کہا گیا۔ مختلف بیماریوں کے خلاف اور ان کے علاج کے دوران مارفین اور افیون سے ملنے والے دیگر مرکبات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج میں اس کا خاص عمل دخل ہے۔ افیون کی اسی میڈیکل خصوصیت کے پیش نظر سنہ 1947 میں تقسیم کے بعد انڈیا نے اس کے حصے میں آنے والی دونوں افیون فیکٹریوں کو بند نہیں کیا۔ پاکستان کے حصے میں ایسی کوئی فیکٹری نہیں آئی تھی۔ نہ ہی ان علاقوں میں سے کوئی پاکستان کے حصے میں آیا جہاں حکومتی سرپرستی میں افیون کے لیے پوست کاشت کی جاتی تھی۔ کیا پاکستان کو افیون کی ضرورت تھی؟ یہ وہ دور تھا جب دوسری عالمی جنگِ کو ختم ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کو افیون کے مرکبات اور خاص طور پر مارفین کی ضرورت تھی۔ ’ہندوستانی افیون‘ کو دنیا میں اچھی کوالٹی کی اقسام میں شمار کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں یہ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ پوست ہندوستان کی چند منافع بخش فصلوں میں شمار رہی تھی۔ اس کو تجارت کے اعتبار سے بھی ایک پیسہ کمانے والی جنس کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر وراثت میں پاکستان کو بھی یہ ’قیمتی افیون‘ بنانے کی فیکٹریاں ملتیں تو وہ اسے برآمد کر کے منافع کما سکتا تھا اور مقامی مانگ کو بھی پورا کر سکتا تھا۔ انڈیا نے پاکستان کو ضرورت کی افیون فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ زیادہ دیر نہیں چل سکا۔ اس لیے جلد ہی پاکستان نے اپنی ایک ایسی فیکٹری بنانے کا فیصلہ کیا جہاں خام افیون سے ایسے ایلکلائیڈز یا مرکبات کو الگ کیا جا سکے جو ادویات کے طور پر یا ان کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ مارفین اور کوڈین وغیرہ۔ افیون بنانے کے لیے حکومتی فیکٹری کی ضرورت کیوں؟ پاکستان کی پہلی اور واحد اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری پاکستان بننے کے آس پاس ہی لاہور میں قائم کی گئی۔ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ ہی کے دفتر میں اس کی عمارت تعمیر کی گئی۔ قانونی طور پر وہی اس کا نظم و نسق چلانے کا ادارہ تھا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب رضوان اکرم شیروانی نے ایگنایٹ پاکستان   سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور کی اس سرکاری ’اوپیئم ایلکلائیڈ فیکٹری‘ میں اسی طرح خام افیون سے مرکبات الگ کیے جاتے تھے جیسے تقیسم سے پہلے ہندوستان کی دیگر فیکٹریوں میں ہوتا تھا۔ تاہم سوال یہ تھا کہ اگر یہ افیون ادویات میں استعمال ہوتی ہے تو اس

لاہور میں ’افیون‘ بنانے کی سرکاری فیکٹری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ Read More »

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا

پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے بچوں کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار خون کے کینسر میں مبتلا بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا۔ پاکستان میں اگرچہ متعدد نجی ہسپتالوں میں بچوں سمیت بالغ افراد کے بھی بون میرو ٹرانسپلانٹ کیے جا چکے ہیں،تاہم پہلی بار کسی بھی سرکاری ہسپتال میں اب یہ کارنامہ سر انجام دے دیا گیا۔ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ماہرین نے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے 10 سالہ بچے کا بون میرو ٹرانسپلانٹ گزشتہ ماہ نومبر میں کیا تھا اور اب مریض کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ’ایگنایٹ پاکستان  ‘ کے مطابق لاہور چلڈرن ہسپتال کے ماہرین نے خون کینسر میں مبتلا بچے کا پہلے تین سال تک علاج کرکے اسے صحت یاب کردیا تھا لیکن بچے میں دوبارہ کینسر آیا تو انہوں نے ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا۔ دس سالہ ابراہیم میں چند سال قبل بلڈ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی لیکن اب ان کے ٹرانسپلانٹ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس لیے ڈاکٹرز نے ان کا ٹرانسپلانٹ کیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ مریض کے بون میرو کے لیے ان کی بڑی بہن کا عطیہ کردہ کچھ بون میورو لیا گیا، جسے ابراہیم کے جسم میں داخل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق نئے بون میرو ڈالنے سے پہلے مریض کا اپنا پورا بون میورو نکالا گیا، پھر اس میں عطیہ کردہ بون میورو ڈال کر اس کے کام کرنے تک مریض کو مانیٹر کیا گیا۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ جیسے ہی مریض میں نئے بون میرو نے کام شروع کردیا، مریض کو سخت حفاظتی انتظامات کے تحت گھر جانے کی اجازت دے دی گئی اور کم از کم اگلے 6 ماہ مریض کے لیے انتہائی اہم ہیں، اگر انہیں کوئی خطرناک انفیکشن نہ ہوا تو وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹرز کے مطابق بون میرو نہ ہونے کی وجہ سے انسان کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے، جسم میں سفید اور سرخ خون سمیت پلیٹی لیٹس نہیں بنتے جب کہ دیگر کمزوریاں بھی ہوجاتی ہیں، اس لیے ایسے مریضوں کو انفیکشن سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ 10 سالہ ابراہیم کے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا کیس پاکستان کے کسی بھی سرکاری ہسپتال کا پہلا ٹرانسپلانٹ ہیں جب کہ چلڈرن ہسپتال 2018 سے مختلف بیماریوں کے ٹرانسپلانٹ کر چکا ہے لیکن پہلی بار بون میرو کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ ڈاکٹرز سمیت ابراہیم کے والدین کو بھی امید ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔

لاہور کے سرکاری ہسپتال میں پہلی بار بون میرو ٹرانسپلانٹ کردیا گیا Read More »

Irani Diplomat Family Harassed in Lahore Market

لاہور کے پوش علاقے میں ایرانی سفارتکار کی فیملی کو ہراساں کیئے جانے کا انکشاف

لاہور میں گزشتہ روز ایرانی سفارتکار کی فیملی کو حراساں کیئے جانے کا انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے ۔ پولیس کے مطابق ایرانی ڈپلومیٹ کی فیملی گزشتہ روز گلبرگ کے نجی پلازہ میں شاپنگ کیلئے گئی جہاں گاڑی میں سوار دو افراد نے انہیں حراساں کیاں تھانہ غالب مارکیٹ کے ایس ایچ او نے خوفزدہ فیملی کی جانب سے آج شکایت موصول ہونے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے ، پولیس اہلکارگلبرگ میں موجود تمام کیمروں کا جائزہ لیتے ہوئے گاڑی کی تلاش کر رہے ہیں ۔فیملی کی جانب سے حراساں کرنے والے دونوں افراد کے حلیے اور گاڑی کی شناخت بتائی گئی ہے ۔

لاہور کے پوش علاقے میں ایرانی سفارتکار کی فیملی کو ہراساں کیئے جانے کا انکشاف Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

Artificial Rain in Lahore is planned

لاہور میں مصنوعی بارش کیلئے 35 کروڑ کا تخمینہ، چینی ماہرین جلد آئیں گے

لاہور ( این این آئی) اسموگ کی روک تھام کے اقدامات کے سلسلے میں لاہور میں مصنوعی بارش کرنے پر 35 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ذرائع وزارتِ خزانہ کے مطابق سیکریٹری خزانہ کی بھجوائی گئی سمری نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اجازت سے مشروط ہو گی۔ نگراں وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے کہا کہ کلائوڈ سیڈنگ مصنوعی بارش برسانے میں سب سے تیز ٹیکنالوجی ہے۔عامر میر نے کہا کہ چین سے بات ہو گئی ہے جلد چینی ماہرین پاکستان آئیں گے، نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب کی کوشش ہے کہ رواں سال ہی مصنوعی بارش کا تجربہ کیا جائے۔

لاہور میں مصنوعی بارش کیلئے 35 کروڑ کا تخمینہ، چینی ماہرین جلد آئیں گے Read More »

سموگ کے پیش نظرپنجاب کے 10 اضلاع میں آج لاک ڈاؤن ہے

دنیا بھر کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور سرفہرست ہے، اسموگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر لاہور سمیت چھ ڈویژنز میں لاک ڈاؤن نافذ ہے۔تمام سرکاری و نجی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ لاہور میں صبح سویرے شہرکی فضا میں آلودگی کا تناسب 379 ہوگیا، عالمی ماحولیاتی ویب سائٹ نے لاہورپھردُنیا کا سب سے آلودہ ترین شہر قرار دیدیا۔ پنجاب بھر کے10 اضلاع میں سمارٹ لاک ڈاون نافذ ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی کی شرح 500 سے زائد ہوگئی، اپر مال کینال روڈ 564 اے کیو آئی کے ساتھ سب سے زیادہ آلودہ علاقہ ہے،شملہ پہاڑی کے اطراف میں 523، مال روڈ میں 496، گلبرگ میں 475 ریکارڈ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کی زیرصدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ لاہور سمیت پنجاب کے 10 اضلاع میں جمعہ اور ہفتہ کے روز تعلیمی ادارے بند رہیں گے،لاہور ،فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، ساہیوال اور ملتان ڈویژن میں بھی تعلیمی ادارے بند رہیں گے۔ اجلاس میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ سموگ پر قابو پانے کیلئےمصنوعی بارش کیلئے بھی تیاریاں شروع کر دی ہیں،لاہور میں انسداد سموگ کیلئے سموگ ٹاورز لگائے جائیں گے۔

سموگ کے پیش نظرپنجاب کے 10 اضلاع میں آج لاک ڈاؤن ہے Read More »

Lahore Collision of Vehicle in DHA

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟

پاکستان کے شہر لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے میں حال ہی میں ایک گاڑی کی ٹکر سے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کے ہلاک ہونے کے واقعے کے مقدمے میں پولیس نے ملزم کے خلاف قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کا اضافہ کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف یہ دونوں دفعات مرنے والوں کے لواحقین کی درخواست پر مقدمے میں شامل کی گئی ہیں۔ تاہم ملزم کے وکیل نے پولیس کے اس اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔ یاد رہے کہ لاہور کے علاقے ڈی ایچ اے فیز 7 میں گذشتہ سنیچر کو ایک تیز رفتار گاڑی نے دوسری گاڑی کو ٹکر ماری، جس میں سوار ایک ہی خاندان کے چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ابتدا میں پولیس کا کہنا تھا کہ ٹکر مارنے والی گاڑی کو چلانے والا کم عمر ڈرائیور تھا جو گاڑی چلانے یا لائسنس رکھنے کا اہل نہیں تھا۔ اس وقت پولیس نے اس واقعے کو ٹریفک حادثہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر درج کی تھی، جس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 279 اور 322 لگائی گئی تھیں۔ یہ دفعات ٹریفک حادثے کی صورت میں دیت کے حوالے سے ہیں۔ اس میں ملزم کے باآسانی رہا ہونے کی گنجائش موجود ہے۔ خیال رہے کہ اس مقدمے میں اس وقت پولیس نے پی پی سی کی دفعہ 320 نہیں شامل کی تھی۔ دفعہ 320 کے تحت ’لاپرواہی سے گاڑی چلاتے ہوئے نقصان کرنے کی صورت میں ملزم کو دیت کے ساتھ ساتھ دس سال تک سزا بھی ہو سکتی ہے۔‘ اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ اس واقعے کا مقدمہ تھانہ ڈیفنس سی سے کاہنہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق مقدمے میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات مدعی مقدمہ کی درخواست پر شامل کی گئی ہیں جنھوں نے پولیس کو نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ ہلاک ہونے والے چھ افراد میں سے ایک کے والد رفاقت علی مدعی مقدمہ ہیں۔ لاہور پولیس کے مطابق انھوں نے نئی معلومات میں پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے سے قبل ملزم کی ان کے بیٹے سے تلخ کلامی ہوئی تھی۔ مدعی نے پولیس کو بتایا ہے کہ ’میرے بیٹے نے اور میں نے گاڑیاں روک کر ملزم کو منع کیا تھا کہ وہ ہماری گاڑیوں کا پیچھا نہ کرے کیونکہ وہ کافی فاصلہ سے اس گاڑی کا تعاقب کر رہا تھا جس میں خواتین بھی سوار تھیں۔’ مدعی نے پولیس کو بتایا کہ منع کرنے پر ملزم نے ان کو دھمکایا اور ان کا تعاقب جاری رکھا۔ مدعی کے مطابق اس کے بعد ہی ملزم نے تیز رفتاری سے اپنی گاڑی کی ٹکر اس گاڑی کو ماری جس میں ان کا بیٹا اور خاندان کے پانچ دیگر افراد سوار تھے۔ مدعی مقدمہ نے پولیس کو یہ بھی بتایا کہ ملزم اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ دو افراد گاڑی میں اور بھی سوار تھے؟ کیا ملزم کو کم عمر ملزم تصور کیا جا رہا ہے؟ پولیس کی طرف سے نئی دفعات مقدمے میں شامل کرنے کے خلاف ملزم نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ان کے وکیل کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان کی عمر 17 سال کے لگ بھگ ہے اور اس لیے وہ قانونی طور پر جووینائل یا کم عمر ملزم تصور ہونے چاہئیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی درخواست میں ملزم کے وکیل نے موقف اپنایا ہے کہ ‘یہ واقعہ ایک ٹریفک حادثہ تھا جو پولیس اپنی پہلی ایف آئی آر میں کہہ چکی ہے اور ٹریفک حادثے کے نتیجے میں چھ لوگوں کی اموات ہوئی۔’ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نگران وزیراعلی محسن نقوی کے حکم پر پولیس نے ایف آئی آر میں قتل اور انسدادِ دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں۔ ‘پولیس کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا جائے اور ملزم کو اس کے تمام آئینی حقوق فراہم کیے جائیں۔’ انھوں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان حقوق میں منصفانہ ٹرائل کا بنیادی حق بھی شامل ہے۔ ‘جووینائل ہونے کے ناطے ملزم کو جووینائل عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور اسی جیل میں رکھا جانا چاہیے تاہم ایسا نہیں کیا گیا جو ملزم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘ عدالت نے ان کی درخواست پر پولیس سے جواب طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ ملزم 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر ڈسٹرکٹ جیل لاہور میں قید ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق ملزم کی حقیقی عمر کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں، جس وجہ سے پولیس ان کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ٹیسٹ کروانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کم عمر بچے ڈرائیونگ کیوں کرتے ہیں؟ پاکستان یا لاہور میں یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں کوئی کم عمر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے حادثے کا سبب بنا ہوا۔ لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز نے ایگنایٹ پاکستان  سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کم عمر ڈرائیورز لاہور پولیس کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رواں برس اب تک پولیس 20 ہزار سے زیادہ کم عمر ڈرائیورز کے چالان کر چکی ہے۔ ’ان میں زیادہ تر کاریں اور موٹر سائیکلیں وغیرہ شامل ہیں اور اس نوعیت کے جرائم زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں سے سامنے آتے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ زیادہ تر واقعات میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کم عمر ڈرائیورز وہ ہوتے ہیں جو شوقیہ گاڑی چلا رہے ہوتے ہیں۔ ’یہ ممکن نہیں کہ سکول آنے جانے والے بچوں کے لیے پرائیویٹ یا پبلک ٹرانسپورٹ تک رسائی نہ ہو۔ یہ زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو شوق سے ڈرائیونگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے تو اس میں کوئی مجبوری کا عنصر بظاہر نہیں ہوتا۔‘ سی ٹی او لاہور مستنصر فیروز نے بتایا کہ ٹریفک پولیس اس حوالے کم عمر ڈرائیورز کی روک تھام کے حوالے سے آگاہی مہمات چلاتی رہتی ہے جو اس نوعیت کے جرائم کو روکنے کا ایک طریقہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ لاہور میں 70 لاکھ سے زیادہ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں ہیں جبکہ دوسری

لاہور میں گاڑی کی ٹکر سے چھ افراد کی ہلاکت کے مقدمے میں اب نئی دفعات کیوں شامل کی گئی ہیں؟ Read More »

Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »