Israel-Palestine

غزہ کےسکول پراسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری،200 سے زائد فلسطینی شہید

غزہ میں الفخورہ اسکول پراسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے200 سے زائدفلسطینی شہید ہوگئے۔جبکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے الشفا اسپتال کو زبردستی خالی کر الیا۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی طیاروں کی غزہ میں الفخورہ اسکول پروحشیانہ بمباری کے نتیجے میں200 سے زائدفلسطینی شہید ہوگئے، شہید ہونیوالوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ کا الشفا اسپتال زبردستی خالی کرا لیا۔ مریضوں،طبی عملے اور پناہ گزینون کو بندوق کی نوک پر اسپتال سے نکال دیا گیا۔جبکہ شدید زخمیوں اور نومولود بچوں کو ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے صلاح الدین روڈ پرمہاجرین کا تانتا بندھ گیا، شمالی غزہ اور خان یونس پر بمباری سے سو سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے۔ جبکہ شہدا کی مجموعی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر گئی۔  الشفا اسپتال کے ایک ڈاکٹر نےعرب ٹی وی الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں بندوق کی نوک پر اسپتال چھوڑنے پر مجبور کیا گیا،چلنے پھرنے کے قابل زخمیوں اور پناہ گزینوں کوخان یونس بھیج دیا گیا ،الشفا اسپتال میں صرف شدید زخمی اور نومولود بچے رہ گئے ہیں،جنہیں کسی اور اسپتال منتقل کرنے کے لیے ریڈ کراس سے رابطہ کیا گیا ہے جبکہ اسپتال میں ہر طرف اسرائیلی اسنائپرز تعینات کیے گئے ہیں. دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن نے کہا ہے غزہ سے شہریوں کی زبردستی نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے،بین الاقوامی برادری کو غزہ کیلئے طویل مدتی طریقہ کارطے کرنا چاہیے،غزہ اور مغربی کنارے کو ایک ہی حکومتی ڈھانچے کے تحت دوبارہ متحد ہونا چاہیے۔

غزہ کےسکول پراسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری،200 سے زائد فلسطینی شہید Read More »

Ghaza Poetess

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں

غزہ (این این آئی)غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں معروف مصنفہ، شاعرہ اور ناول نگار حبا ابوندا بھی شہید ہوگئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کی معروف مصنفہ حبا ابوندا نے اپنی شہادت سے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا تھا جس میں اْنہوں کہا تھا کہ ” اگر ہم مرجائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں”۔32 سالہ مصنفہ حبا ابوندا کو اپنے ناول ”آکسیجن ازناٹ فاردی ڈیڈ”سے شہرت ملی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر حبا ابوندا کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہورہا ہے۔ وائرل ویڈیو میں حبا ابوندا سوال کر رہی ہیں کہ ”ہم کس جہنم میں رہ رہے ہیں؟ ایسا کیسے کب تک چلے گا؟”اس سے قبل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں وہ 12 سالہ فلسطینی یوٹیوبر عونی الدوس بھی شہید ہوگیا تھا جو یوٹیوب پر ایک لاکھ سبسکرائبرز مکمل ہونے کا خواب سجائے ہوا تھا۔عونی الدوس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں سے کچھ عرصہ قبل ہی یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا تھا، وہ اپنے چینل پر ”گیمنگ ویڈیوز” اپ لوڈ کرتے تھے اور اْن کا خواب تھا کہ وہ ایک مشہور اور کامیاب انسان بنیں۔

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں Read More »

’خون کا پیسہ نہیں چاہیے‘، حماس-اسرائیل تنازع پر معروف میک اپ برانڈ کی بانی کا خاتون کو کرارا جواب

عراقی نژاد امریکی میک اپ آرٹسٹ اور معروف میک اپ برانڈ ہدیٰ بیوٹی کی چیف ایگزیکٹو ہدیٰ قطان نے اسرائیل-حماس تنازع پر اپنا مؤقف اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کرنے والی خاتون صارف کو کرارا جواب دے دیا۔ ہدیٰ بیوٹی ایک مشہور غیر ملکی میک اپ برانڈ ہے جس کے سوشل میڈیا پر کروڑوں فالوورز ہیں، پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش سمیت دیگر ایشیائی اور یورپی ممالک میں اس برانڈ کی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔ ہدیٰ بیوٹی برانڈ کی بانی ہدیٰ قطان نے حال ہی میں فلسطین کی کھل کی حمایت کی جس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے میک اپ برانڈ کے بائیکاٹ کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں۔ حال ہی میں ہدیٰ قطان نے فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے انسٹاگرام پر کچھ ویڈیو پوسٹ کی تھیں، جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’آپ حماس کے خلاف ہوکر فلسطینیوں اور ان کے حقوق کو سپورٹ کر سکتے ہیں، آپ فلسطینیوں کے حقوق کی وکالت کر سکتے ہیں اور حزب اللہ یا ایرانی حکومت کے خلاف بھی ہوسکتے ہیں، آپ یوکرین کی حمایت کر سکتے ہیں اور اسرائیل کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو بھی مسترد کر سکتے ہیں، یہ موقف متضاد نہیں ہیں۔‘ انہوں نے کہا تھا کہ گزشتہ چند روز کے دوران میں نے جو تصاویر دیکھیں، مجھے بہت دکھ ہوا، عام شہریوں کو کبھی قتل یا یرغمال نہیں بنایا جانا چاہیے، یہ ایک جرم ہے، حماس نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ بھی جرم ہے، اسرائیل کی نسل پرست ریاست نے فلسطینیوں کے ساتھ ظلم کیا ہے کیونکہ یہ ریاست فلسطینی شہریوں اور مسلح افراد کے درمیان فرق نہیں کرتی ہے۔ ہدیٰ قطان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کئی دہائیوں سے فلسطینی بچوں کا قتل کر رہا ہے، غزہ میں 50 فیصد بچے ہیں، قبضہ کرنے سے کبھی امن نہیں آئے گا، فلسطین کو آزاد کرو۔

’خون کا پیسہ نہیں چاہیے‘، حماس-اسرائیل تنازع پر معروف میک اپ برانڈ کی بانی کا خاتون کو کرارا جواب Read More »

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔

غزہ: غزہ کے ایک اسپتال میں منگل کے روز ہونے والے دھماکے میں تقریباً 500 فلسطینی ہلاک ہو گئے جس کے بارے میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا تھا لیکن اسرائیلی فوج نے “فلسطینی جنگجو گروپ کی جانب سے ناکام راکٹ لانچ” کا الزام لگایا۔7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیلی کمیونٹیز پر سرحد پار حماس کے ایک مہلک حملے کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے گنجان آباد علاقے کے خلاف بے لگام بمباری کی مہم شروع کرنے کے بعد سے یہ دھماکہ غزہ میں سب سے خونریز ترین واقعہ تھا یہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کے موقع پر ہوا ہے تاکہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے حماس کے ساتھ جنگ ​​میں ملک کی حمایت کا اظہار کیا جا سکے اور یہ سننے کے لیے کہ اسرائیل کس طرح شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ رائٹرز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ دھماکے کا ذمہ دار کون تھا۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام حکومت کی وزیر صحت مائی الکائیلہ نے اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگایا۔ غزہ کے ایک شہری دفاع کے سربراہ نے کہا کہ 300 افراد ہلاک ہوئے اور وزارت صحت کے ایک اہلکار نے کہا کہ 500 افراد ہلاک ہوئے۔منگل کے واقعے سے پہلے، غزہ میں صحت کے حکام نے کہا تھا کہ اسرائیل کی 11 روزہ بمباری میں کم از کم 3,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیلی قصبوں اور کبوتز میں گھسنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔تاہم، اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے العہلی العربی اسپتال میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، اور تجویز کیا کہ اس اسپتال کو انکلیو کے فلسطینی اسلامی جہاد ملٹری گروپ کے ناکام راکٹ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک ترجمان نے کہا، “آئی ڈی ایف کے آپریشنل سسٹمز کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ راکٹوں کا ایک بیراج غزہ سے فائر کیا گیا تھا، جو غزہ میں الاہلی ہسپتال کے قریب سے گزرا تھا، جس وقت اسے نشانہ بنایا گیا تھا۔” ترجمان نے مزید کہا کہ “ہمارے ہاتھ میں متعدد ذرائع سے حاصل ہونے والی انٹیلی جنس اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے ہسپتال کو نشانہ بنانے والے ناکام راکٹ کے لیے اسلامی جہاد ذمہ دار ہے۔” اسلامی جہاد کے ترجمان، داؤد شہاب نے رائٹرز کو بتایا: “یہ جھوٹ اور من گھڑت ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ قابض اس خوفناک جرم اور قتل عام پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جو انہوں نے شہریوں کے خلاف کیے تھے۔ 2021 میں اسرائیل اور حماس کے آخری تنازع کے دوران، اسرائیل نے کہا کہ حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو گروپوں نے غزہ سے تقریباً 4,360 راکٹ فائر کیے جن میں سے تقریباً 680 اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں گرے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی سیکیورٹی فورسز نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے اور صدر محمود عباس کے خلاف نعرے بازی کی کیونکہ دھماکے کے بعد عوام کا غصہ ابل پڑا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں مغربی کنارے کے کئی دوسرے شہروں میں شروع ہوئیں، جن پر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار کون تھا، جس کے بارے میں حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے مریض، خواتین اور بچے مارے گئے اور دیگر بے گھر ہو گئے، یہ ممکنہ طور پر بحران پر قابو پانے کے لیے اور بھی پیچیدہ سفارتی کوششیں کرے گا۔ ایک سینئر فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ عباس نے دھماکے کے بعد بائیڈن کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ یہ ملاقات اردن میں ہونے والی تھی، جہاں عباس کی رہائش ہے، لیکن فلسطینی عہدیدار نے کہا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کی حکومت کی نشست رام اللہ واپس جا رہے ہیں۔ حماس کے حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر منگل کے اسپتال میں ہونے والے دھماکے کا الزام اسرائیلی فضائی حملے پر عائد کرنے کے بعد، عرب ممالک، ایران اور ترکی نے اس کی شدید مذمت کی۔ فلسطینی وزیر اعظم نے اسے “ایک ہولناک جرم، نسل کشی” قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک بھی اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ Read More »

Power outages in Palestine

غزہ میں بجلی کی بندش: ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں‘

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی بجلی منقطع کرنے کے بعد جبالیہ کے شمالی علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنے والی 36 سالہ فلسطینی خاتون فاطمہ علی کا کہنا ہے کہ بجلی کے بغیر ان کی پہلی رات ناقابل برداشت تھی۔ عمارتوں پر گرنے والے اسرائیلی گولوں کی دھماکوں نے اسے تقریباً ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’غزہ اب مکمل اندھیرے میں ہے۔‘ وہ خوف سے کانپ رہی ہیں۔ فاطمہ لرزتی ہوئی آواز میں کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں ہیں۔ دکانیں بند ہیں اور ہمارے پاس صرف ایک چھوٹی سی ایل ای ڈی ٹارچ ہے جو عام طور پر صرف پانچ گھنٹے چلتی ہے۔‘ وہ بجلی کی فراہمی کے بغیر صورتحال کو ’غیر انسانی‘ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ بجلی کی کمی پینے اور نہانے کے لیے پانی کی فراہمی کو متاثر کرتی ہے۔ ’بجلی نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس پانی نہیں پہنچایا جائے گا۔‘ اسرائیل کی طرف سے نو اکتوبر کو غزہ کا مکمل محاصرہ کرنے کے حکم کے دو دن بعد تقریباً دوپہر دو بجے پوری پٹی کی بجلی منقطع کر دی گئی تھی۔ فاطمہ اور ان کے بوڑھے والدین اس وقت پانی کے دو چھوٹے ڈرموں پر انحصار کر رہے ہیں جو انھوں نے اسرائیلی حملے سے پہلے ذخیرہ کیے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بجلی نہ ہونے کا مطلب ریفریجریشن نہیں، اس لیے کھانے کی فراہمی بھی محدود ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’فریج میں کھانا بالکل خراب ہو گیا ہے اور ہم نے اسے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے خاندان کو دن میں پانچ بار نماز کے لیے وضو کرنا بھی بہت مشکل ہو رہا ہے۔ ’ہم صرف تھائم اور زیتون پر انحصار کر رہے ہیں‘ بجلی کے منقطع ہونے کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے فاطمہ اور ان کی عمارت میں مقیم تقریباً ان کے تمام پڑوسی اپنی کم ہوتی خوراک اور پانی کے ذخیرے کو زیادہ سے زیادہ دیر تک برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو جنگ شروع ہونے سے پہلے ہمارے پاس بچا ہوا تھوڑا سا ذخیرہ تھا۔ ہم صرف تھائم اور زیتون پر انحصار کر رہے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ’میرے بھانجے اور بھانجی جو میرے بہن بھائیوں کے ساتھ اسی عمارت میں دوسری منزلوں پر رہتے ہیں، وہ سب سے زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘ فاطمہ روتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کس طرح ان بچوں کے لیے کھیلنے یا اپنے بچپن سے لطف اندوز ہونے کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔ ’یہ تباہ کن جنگ ہے‘ جب میں شمال مشرقی غزہ میں جبالیہ کے گنجان پناہ گزین کیمپ میں پہنچا تو لوگ اپنے تباہ شدہ گھروں سے بھاگ رہے تھے۔ سب سے زیادہ خوش قسمت لوگ اپنے ساتھ لے جانے کے لیے کمبل یا کپڑے پکڑ سکے تھے۔ میرے لیے اس کیمپ میں زندگی تقریباً ناممکن لگتی ہے، کیونکہ اسے بار بار اسرائیلی گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبالیہ پناہ گزین کیمپ کے اندر بھی عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ کیمپ کے وسط میں روتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ ’ہمارے پاس نہ پانی ہے، نہ کھانا، اور نہ ہی ہوا ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں ’یہ کیسی زندگی ہے؟‘ ان کے ساتھ کھڑا ایک اور شخص چیختا ہے کہ ’یہ کوئی عام جنگ نہیں، یہ تباہی کی جنگ ہے۔‘ کیمپ میں موجود درجنوں فلسطینی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ صورت حال سنگین ہے۔ ستر کے پیٹے میں ایک فلسطینی ابو صقر ابو روکبہ اپنے تینوں بچے کھو چکے ہیں۔ انھوں نے روتے ہوئے مجھے اپنا حال بیان کیا کہ ’میں نے اپنا سارا خاندان کھو دیا ہے۔ جب میں اپنے بچوں کو دفنانے کے لیے قبرستان گیا اور واپس آیا تو دیکھا کہ میرا گھر مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کہاں جاؤں۔‘ کیمپ میں موجود افراد میں سے کچھ دوسرے علاقوں میں ہونے والے بم دھماکوں سے بچنے کے بعد چند دن پہلے یہاں پہنچے تھے۔ لیلیٰ (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی کے شمال مشرقی کنارے پر واقع بیت حنون سے آئی تھیں اور انھیں جبالیہ میں بھی ایک بدتر صورتحال کا سامنا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کو کھو دیا ہے۔ میرے باقی بچے شدید زخمی ہیں۔‘ وہ اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہر روز ہمیں گولہ باری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر ایک دن۔‘ غزہ میں خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے خوراک اور پانی کی کمی پر بے گھر افراد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی خوراک کے محدود سٹاک اور خیراتی اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ امکان ہے اگلے ہفتے کے اوائل تک سپلائی ختم ہو جائے گی۔ کچھ کو پانی کی کم سے کم فراہمی کے لیے قریبی کنوؤں کا سہارا لینا ہو گا۔ دوسرے لوگ روایتی طریقے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جیسے موم بتیاں روشن کرنا تاکہ وہ رات کو دیکھنے کے قابل ہو سکیں کیونکہ غزہ میں بجلی منقطع ہے۔ ایندھن کی کمی کا سامنا پاور جنریٹرز چلانے کے لیے ایندھن تلاش کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے لیے کوئی پناہ گاہ نہیں ہے، جو کبھی جبالیہ پناہ گزین کیمپ کو برسوں سے اپنا واحد گھر سمجھتے تھے۔ اوپر آسمان میں سیاہ دھوئیں کے بادل اڑتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی صبح بارود کی تیز بو سے شروع ہوتی ہے جو ان کے ناک کو بند کر دیتی اور انھیں کھانسی کرتی ہے۔ فضلہ پروسیسنگ کی سہولیات بجلی کے بغیر نہیں چل سکتیں۔ میں نے تاریک اور بھیڑ والے کیمپ کے ارد گرد چہل قدمی کی اور دیکھا کہ کچرے کے ڈھیر بڑھنے لگے ہیں اور بہت دور تک پھیل رہے ہیں۔ جبالیہ کیمپ کے گلیوں میں کوڑے کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ وہ

غزہ میں بجلی کی بندش: ’ہمارے پاس جلانے کے لیے موم بتیاں بھی نہیں‘ Read More »

parachutes

حماس کے عسکریت پسند پیراشوٹس کی مدد سے اسرائیل میں کیسے داخل ہوئے

جب حماس نے سنیچر کو اسرائیل پر حملہ کیا تو حملہ آور جنگجوؤں میں پیرا شوٹ کے ذریعے سرحد پار کرنے والے جنگجو بھی شامل تھے۔ تحریک کے عسکری ونگ ’عز الدین القسام بریگیڈ‘ نے غزہ کی پٹی کے آس پاس کے اسرائیلی قصبوں اور تہوار منانے والوں پر حملے کیے۔ اس اچانک حملے کو ’آپریشن طوفان الاقصی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان رچرڈ ہیچٹ نے تصدیق کی ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے ’پیراشوٹس‘، سمندر اور زمین کے راستے حملہ کیا۔ فضا سے سرحدی باڑ عبور کرنا فلسطینی عسکریت پسند غزہ کو اسرائیل سے الگ کرنے والی باڑ کو فضا سے عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ ایسے پیراشوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ایک یا دو افراد کے لیے نشست تھی۔ ایک جنریٹر اور بلیڈز کی مدد سے انھیں غزہ کی پٹی کے آس پاس کے علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے چلایا گیا۔ ،تصویر کا ذریعہREUTERS دوسری عالمی جنگ کی حکمت عملی فوجی پیراشوٹ باقاعدگی سے فوجی یونٹوں کے فضا سے اترنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جس کا مقصد میدان ِجنگ کے عقب سے دشمن کی صفوں میں گھسنا ہے۔ پیراشوٹ ٹیموں کو پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے مقابلہ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES 1987 کا گلائیڈر حملہ حماس کی جانب سے سنیچر کے روز کیا جانے والا حملہ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین جنرل کمانڈ کے دو فلسطینیوں، ایک شامی اور ایک تیونسی شہری کی جانب سے کیے جانے والے گلائیڈر آپریشن کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے نومبر 1987 میں اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ کرنے کے لیے لبنان سے اڑان بھری تھی۔ موٹر اور کنٹرول سے لیس پیراشوٹ کا استعمال کرتے ہوئے جنگجو زمین سے لانچ کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پہاڑی پر چڑھنے یا ہوائی جہاز سے اتارے جانے کی ضرورت کے بغیر سفر کر سکتے تھے۔ انجن پیراشوٹ کو 56 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی پروپلشن فورس دینے میں مدد کرتا ہے۔ پیرا گلائیڈرز زمین سے اوسطا پانچ ہزار میٹر کی اونچائی پر تین گھنٹے تک پرواز کر سکتے ہیں۔ پیراگلائیڈنگ ویب سائٹس کے مطابق وہ 230 کلوگرام تک وزن اٹھا سکتے ہیں یا یہ 4 افراد کے برابر ہیں۔ چھتری جیسے ان کنٹرپٹیشنز میں ایک شخص کے لیے نشست یا تین پہیوں والی گاڑی ہوسکتی ہے جس میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ عز الدین القسام بریگیڈ کے ’ملٹری میڈیا‘ کی جانب سے ویڈیو کلپس پوسٹ کی گئی ہیں، جن میں پیراگلائیڈرز کو زمین سے لانچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کو ایک یا دو جنگجو چلا رہے ہیں۔ دیگر فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسند اترنے سے پہلے فضا سے فائرنگ کر رہے ہیں اور اسرائیلی ٹھکانوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ کچھ پیراشوٹ موٹر سائیکلوں پر جنگجوؤں کو لے جا رہے تھے۔ حماس نے ان پیراٹروپرز کے گروپ کو ’ساکر سکواڈرن‘ کا نام دیا۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES اسرائیلی فوج کو پیراشوٹس کا کیوں پتا نہیں چلا؟ حماس کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع کی جانے والی ویڈیو کلپس میں مسلح پیرا گلائیڈرز کو غزہ کی پٹی سے بڑے پیمانے پر راکٹ فائر کی آڑ میں پرواز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کم اونچائی پر پرواز کرتے دکھائی دے رہے تھے، جبکہ دیگر آسمان میں اونچے تھے۔ انھیں غزہ کے ارد گرد آسمان میں براہِ راست آنکھوں سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے سوال اٹھایا ہے کہ فوجی یونٹ ان کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟ اسرائیلی افواج نے ابھی تک نہیں بتایا ان کے فضائی دفاع کو عسکریت پسندوں کے فضائی راستے سے گزرنے کا علم کیوں نہیں ہوا، خاص طور پر پیراشوٹس اتنے نمایاں تھے کہ لوگوں نے اپنے فونز پر ان کی ویڈیو بنائیں۔ ،تصویر کا ذریعہEPA ،تصویر کا کیپشناسرائیل کے شہر عسقلان کے آسمان کا منظر آئرن ڈوم تو کیا اسرائیلی گشت کے بجائے ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر تے تھے؟ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ، جیسے آئرن ڈوم اور ریڈار، اس طرح کی چھوٹی اڑنے والی اشیا سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے تھے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام نے راکٹ حملوں کو ناکام بنایا کثیر جہتی حملہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الدیف کی جانب سے پہلے روز جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق حماس نے اپنے اچانک حملے کا آغاز پانچ ہزار راکٹ داغ کر کیا۔ ،تصویر کا کیپشنحماس کے راکٹ حملوں سے اسرائیل میں ہونے والا نقصان راکٹ لانچ کے ساتھ ہی حماس کے جنگجوؤں نے زمین اور سمندر سے حملہ کیا جس کے لیے انھوں نے گن بوٹس اور پیراشوٹ کا استعمال کیا۔ میڈیا اور عسکری رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ پیراشوٹ حملہ اور فضائی دفاع کو بائی پاس کرنے کی اس کی صلاحیت نے باڑ پار کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس حملے کے پہلے دن اسرائیل میں عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگجوؤں نے 100 سے زائد اسرائیلی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو اغوا کیا، جنھیں حماس اب جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔

حماس کے عسکریت پسند پیراشوٹس کی مدد سے اسرائیل میں کیسے داخل ہوئے Read More »

ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے پیچھے تہران کا ہاتھ نہیں تھا۔

دبئی، 10 اکتوبر (رائٹرز) – تہران عسکریت پسند حماس گروپ کے اسرائیل پر ہفتے کے آخر میں ہونے والے حملے میں ملوث نہیں تھا، ایران کے اعلیٰ ترین اتھارٹی آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کو کہا، لیکن اس نے اسرائیل کی “ناقابل تلافی” فوجی اور انٹیلی جنس شکست کو سراہا۔ حملے کے بعد اپنے پہلے ٹیلی ویژن خطاب میں خامنہ ای نے، جو فلسطینی اسکارف پہنے ہوئے تھے، کہا، “ہم صیہونی حکومت پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے ہاتھ چومتے ہیں۔” خامنہ ای نے کہا کہ “اس تباہ کن زلزلے (حماس کے حملے) نے (اسرائیل میں) کچھ نازک ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے جن کی مرمت آسانی سے نہیں ہو سکے گی… صیہونی حکومت کے اپنے اقدامات اس تباہی کے لیے ذمہ دار ہیں،” خامنہ ای نے کہا۔ اسرائیل طویل عرصے سے ایران کے مذہبی حکمرانوں پر حماس کو ہتھیار فراہم کر کے تشدد کو ہوا دینے کا الزام لگاتا رہا ہے۔ تہران، جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کو کنٹرول کرنے والے گروپ کی اخلاقی اور مالی مدد کرتا ہے۔ فلسطینی کاز کی حمایت 1979 کے انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کا ایک ستون رہا ہے اور شیعہ اکثریتی ملک نے خود کو مسلم دنیا کے رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ امریکہ نے پیر کو کہا کہ ایران اسرائیل پر حماس کے حملے میں ملوث ہے، لیکن اس نے مزید کہا کہ اس کے پاس اس دعوے کی حمایت کرنے والی کوئی انٹیلی جنس یا ثبوت نہیں ہے۔ اعلیٰ امریکی جنرل نے پیر کے روز ایران کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بحران میں شامل نہ ہو، اور کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ تنازعہ وسیع ہو۔ اسرائیل نے منگل کے روز کہا تھا کہ اس نے غزہ کی سرحد پر دوبارہ کنٹرول قائم کر لیا ہے اور وہ بارودی سرنگیں بچھا رہا ہے جہاں عسکریت پسندوں نے اپنے خونی ہفتے کے آخر میں حملے کے دوران رکاوٹ کو گرا دیا تھا، ایک اور رات کے انکلیو پر مسلسل اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد۔ خامنہ ای نے کہا کہ غزہ پر حملہ “غصے کا ایک بہت بڑا دھار نکالے گا”۔ خامنہ ای نے کہا، “قابض حکومت اپنے جرائم کو مزید بڑھانے کے لیے خود کو ایک شکار کے طور پر پیش کرنا چاہتی ہے… یہ ایک گمراہ کن حساب ہے… اس کا نتیجہ اور بھی بڑی تباہی ہو گا،” خامنہ ای نے کہا۔ اسرائیلی ٹی وی چینلز کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 900 تک پہنچ گئی ہے جب کہ کم از کم 2600 زخمی ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ہفتے کے روز سے محاصرہ شدہ انکلیو پر اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 687 فلسطینی ہلاک اور 3,726 زخمی ہوئے ہیں۔

ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے پیچھے تہران کا ہاتھ نہیں تھا۔ Read More »

Fire fighters are trying to extinguish fire

اسرائیل کے غزہ محاصرے کے حکم کے بعد حماس نے یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی:

غزہ سے اسرائیل کی جانب فائر کیے گئے راکٹوں کے ایک بیراج کے ساتھ ہفتے کے روز شروع ہونے والے اس حملے میں دونوں طرف سے تقریباً 1500 شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطین کے حماس گروپ نے ان یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی ہے جب وہ سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی طرف گھسیٹ کر لے گئے تھے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ کیا تھا اور پانی کی سپلائی منقطع کر دی تھی۔ جنگ میں اب تک کم از کم 1600 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس بڑی کہانی میں سرفہرست 10 نکات یہ ہیں: 1.حماس کے مسلح ونگ نے خبردار کیا ہے کہ “ہمارے لوگوں کو بغیر کسی انتباہ کے نشانہ بنانے والے شہریوں کو یرغمال بنانے والوں میں سے ایک کو پھانسی دی جائے گی۔” حماس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے فضائی حملوں میں غزہ میں یرغمال بنائے گئے ان کے چار شہری مارے گئے۔ دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ 2. وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس کو سخت انتباہ جاری کیا ہے کہ ان کی حکومت مبینہ طور پر 3,00,000 فوجیوں کو متحرک کر رہی ہے۔ انہوں نے قوم کو بتایا کہ “اسرائیل حالت جنگ میں ہے۔ ہم یہ جنگ نہیں چاہتے تھے۔ یہ ہم پر انتہائی سفاکانہ اور وحشیانہ طریقے سے مجبور کیا گیا تھا۔ لیکن اگرچہ یہ جنگ اسرائیل نے شروع نہیں کی تھی، لیکن اسرائیل اسے ختم کر دے گا۔” 3.”حماس سمجھے گی کہ ہم پر حملہ کرکے، اس نے تاریخی تناسب کی غلطی کی ہے۔ ہم اس کی قیمت ادا کریں گے جو آنے والے عشروں تک انہیں اور اسرائیل کے دیگر دشمنوں کو یاد رہے گا،” مسٹر نیتن یاہو نے حماس کو داعش کا نام دیتے ہوئے کہا۔ 4.اسرائیل کے محاصرے کے حکم نے اقوام متحدہ کو بڑھتی ہوئی سنگین انسانی صورتحال کے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا کہ “جب کہ میں اسرائیل کے جائز سیکورٹی خدشات کو تسلیم کرتا ہوں، میں اسرائیل کو یہ بھی یاد دلاتا ہوں کہ فوجی آپریشن بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق سختی سے کیا جانا چاہیے۔” 5. غزہ سے اسرائیل کی طرف فائر کیے گئے راکٹوں کے ایک بیراج کے ساتھ ہفتے کے روز شروع ہونے والے حملے میں دونوں طرف سے تقریباً 1600 شہری اور فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس میں اسرائیل میں 900 سے زیادہ شامل ہیں، جس نے غزہ میں حماس کے مقامات کو “ملبے” تک کم کرنے کا عزم کیا ہے۔ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 687 ہو گئی ہے۔ 6. امریکا نے اسرائیل اور حماس کی جنگ میں 11 امریکیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حماس کے ہاتھوں متعدد دیگر افراد کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ لیکن وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکہ کا جنگ میں عسکری طور پر شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ انہوں نے ایران اور دیگر اداکاروں کو بھی اس میں ملوث ہونے سے خبردار کیا ہے۔ 7. اسرائیل نے غزہ میں حماس کی جگہوں کو “ملبے” تک کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے جس نے اقوام متحدہ میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیل طویل عرصے سے بند انکلیو کا “مکمل محاصرہ” کر دے گا۔ اس کے 2.3 ملین لوگوں پر اثر پڑے گا “نہ بجلی، نہ خوراک، نہ پانی، نہ گیس — یہ سب بند ہے”۔ 8. غریب اور پرہجوم ساحلی علاقے میں فلسطینی اسرائیلی زمینی حملے کی تیاری کر رہے ہیں جس کا مقصد حماس کو شکست دینا اور کم از کم 100 یرغمالیوں کو آزاد کرانا ہے۔ نیتن یاہو نے کل غزہ میں شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ حماس کے ان مقامات سے دور ہو جائیں جنہیں اس نے “ملبے” میں تبدیل کرنے کا عہد کیا ہے۔ 9. جنگ کے تیسرے دن، غزہ کے اوپر سے لڑاکا طیاروں کے گرجنے کے ساتھ ہی دھوئیں کے بادلوں سے آسمان سیاہ ہو گیا۔ حماس یروشلم تک راکٹ فائر کرتی رہی، جہاں فضائی حملے کے سائرن بجتے اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ غزہ کی سرحد کے قریب سے رپورٹ کرنے والے NDTV کے عملے کو فضائی حملے کے سائرن کی وجہ سے ایک ہوٹل کے تہہ خانے میں پناہ لینی پڑی۔ 10. 2007 میں حماس کے غزہ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل اور فلسطینی گروپوں کے درمیان کئی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ تازہ ترین تشدد ایک دن بعد شروع ہوا جب حماس نے کہا کہ “عوام کو قبضے کو ختم کرنے کے لیے ایک لکیر کھینچنی ہوگی” اور مزید کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں میں جرائم کا ارتکاب جاری رکھے ہوئے ہے۔ زمین، اور خاص طور پر یروشلم میں الاقصیٰ کے مقدس مقام پر۔

اسرائیل کے غزہ محاصرے کے حکم کے بعد حماس نے یرغمالیوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی: Read More »