imran khan

عمران خان کو آج جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیے جانے کا امکان

اسلام آباد پولیس نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے کے سلسلے میں آج فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کی خصوصی عدالت میں پیش کرنے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے۔ ایگنایٹ  پاکستان  کی رپورٹ کے مطابق اڈیالہ جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی کو سخت سیکیورٹی میں عدالت لایا جائے گا، ایس یو وی گاڑیاں، پولیس موبائلیں اور بکتر بند گاڑیاں ہمراہ ہوں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ ’اعلیٰ حکام‘ سے گرین سگنل ملنے کے بعد ٹیم تشکیل دی گئی ہے، آدھی رات تک حتمی فیصلہ کرلیا جائے گا، چیئرمین پی ٹی آئی کو ممکنہ طور پر پشاور روڈ اور سری نگر ہائی وے کے ذریعے جوڈیشل کمپلیکس لایا جائے گا۔ پولیس کو جوڈیشل کمپلیکس، ریڈ زون کے اندر اور اس کے اطراف میں سیکیورٹی سمیت تمام متعلقہ پلان تیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

عمران خان کو آج جوڈیشل کمپلیکس میں پیش کیے جانے کا امکان Read More »

Pakistan Tehreek e Insaf (PTI) Facing difficulties in Election Campaign

نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟

’جلسہ گاہ جانے والے تمام راستوں پر پولیس نے رکاوٹیں لگا رکھی تھیں۔ وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ ’اوپر سے‘ آرڈر ہے کہ پی ٹی آئی کو جلسہ نہ کرنے دیا جائے۔ جلسہ تو ہم نے اپنی حکمت عملی سے کامیابی سے کر لیا لیکن اس کے فوری بعد پولیس نے گرفتاریاں بھی کیں اور گھروں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے۔‘ یہ کہنا ہے تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کا جنھوں نے اتوار کے روز خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ورکر کنوینشن کا انعقاد کیا تھا تاہم مقامی انتظامیہ نے جلسے کے بعد ان سمیت درجنوں پارٹی ورکرز کے خلاف انسداد دہشت گردی سمیت مختلف دفعات میں مقدمات درج کر لیے گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں روکنے کے لیے گولیاں تک چلائی گئیں، ورکرز کو مارا پیٹا اور دھمکایا گیا لیکن ہم نے جلسہ گاہ تک پہنچنے کی حکمت عملی پر عمل کر کے کامیابی سے جلسہ کیا۔ جس کے بعد کرک کے ہر تھانے میں ہمارے خلاف دہشت گردی کا پرچہ کاٹ کر ایف آئی آر درج کر لی گئی۔‘ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم اور عوامی رابطوں میں تیزی آئی ہے تو وہیں 2018 کے عام انتخابات میں اقتدار حاصل کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو جلسے یا کنوینشن کی اجازت ملنا ہی مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے یوں تو دو ٹوک کہا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل میں مساوی مواقع یعنی ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے مواقع حاصل ہیں لیکن زمینی حقائق ان کے بیان کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کو انٹرویو میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’کسی نے کسی جماعت کو نہ سیاسی جلسوں سے روکا نہ کسی اور سرگرمی سے۔ نو مئی کے توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ کے باعث کچھ لوگ قانون کا سامنا کر رہے ہیں، کچھ قید کاٹ رہے ہیں تو یہ قانونی کارروائیاں ہیں اور میرے اختیار سے باہر ہیں۔‘ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر اگر نظر ڈالیں تو ایک جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری چترال، دیر بالا اور ایبٹ آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔ دوسرے منظر میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف صوبہ بلوچستان سمیت مختلف علاقوں میں پارٹی تنظیم سازی اور رابطوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی انتخابی مہم پر نظر ڈالیں تو انھیں جلسے جلوس سمیت عوامی اجتماعات کی اجازت ملتی دکھائی نہیں دے رہی بلکہ ایسا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جانا بھی معمول ہے۔ اس کی حالیہ مثال گزشتہ دو روز کے دوران خیبرپختونخوا کے علاقے دیر بالا اور کرک میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسوں میں دیکھی گئی۔ آخر ملک کے نگران وزیر اعظم کے اعلان کے باوجود دیگر جماعتوں کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کو انتخابی مہم کے لیے مشکلات کا سامنا کیوں ہے۔ ہم نے اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن پہلے پی ٹی آئی کے کرک اور دیر بالا میں جلسوں کے بارے میں جان لیں۔ تحریک انصاف کے ضلعی صدر عنایت اللہ خٹک کے مطابق کرک میں جگہ جگہ پولیس کارکنوں کو روک رہی تھی ’رکاوٹوں کے باعث پلان بی تیار تھا جس پر عمل کر کے جلسہ گاہ پہنچے‘ پی ٹی آئی ضلع دیر کے صدرعنایت خٹک نے بتایا کہ انھوں نے سات نومبر کو مقامی انتظامیہ کو تحریری درخواست دی تھی کہ انھیں ٹاون ہال کرک میں 26 نومبر کو ورکرز کنوینشن کی اجازت کے لیے این او سی جاری کیا جائے تاہم دو ہفتے تک انھوں نے جواب نہ دیا جس کے بعد انھوں نے یاد دہانی کے لیے پھر درخواست دی جس پر انتظامیہ نے جواب دیتے ہوئے معذرت کر لی اور پھر پارٹی ورکرز کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مارے جانے لگے۔ عنایت خٹک نے بتایا کہ ’پولیس نے جلسے والے دن پورا علاقہ بلاک کر دیا۔ مرکزی روڈ بھی بند کر دی لیکن ہم نے ان کو جلسہ گاہ لانے کی حکمت عملی بنا رکھی تھی جس کے تحت ہم دو بجے کے قریب جلسہ گاہ تک آئے۔ اس دوران ورکرز کو روکنے کے لیے پولیس نے گولیاں تک چلائیں ہم تعداد میں بہت ذیادہ تھے اس لیے پھر پولیس پیچھے ہٹ گئی۔‘ ’جلسہ کامیابی سے ہوا تاہم جیسے ہی ہمارے لوگ نکل کر گئے انھوں نے پکڑ دھکڑ شروع کر دی۔‘ پی ٹی آئی کرک کے ایک اور ضلعی عہدیدار مزمل احمد اتوار کے جلسہ کےانتظامات میں پیش پیش تھے۔ بی بی سی سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ صبح آٹھ بجے سے ہی پولیس نے علاقےکا محاصرہ شروع کر دیا تھا اور اسی علاقے میں 12 بجے جماعت اسلامی کا ایک جلسہ ہوا جس کے ختم ہوتے ہی علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ ’جلسہ کرنے کا ہمارا پلان بی اور پلان سی تیار تھا جس کے تحت رکاوٹوں کے باوجود ہم جلسہ گاہ کے قریب پہنچ گئے۔ ہماری تعداد زیادہ تھی جس پر پولیس نے پحچھے ہٹ کر راستہ دے دیا۔ ہم نے پر امن طریقے سے جلسہ کیا۔ جیسے ہی ورکرز باہر نکلے پھر انھوں نے پکڑنا شروع کر دیا۔‘ پی ٹی آئی رہنما مزمل احمد کے مطابق اس وقت تک کرک کے مختلف تھانوں میں پی ٹی آئی کے 600 کے قریب کارکنان پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمے درج کیے جا چکے ہیں جبکہ 50 سے زائد کارکنان بھی گرفتار کیے گئے ہیں۔ کرک میں تحریک انصاف کے جلسے سے ملتے جلتے حالات سنیچر کو دیر بالا میں بھی دیکھنے کو ملے تھے جہاں ورکرز کنوینشن کا انعقاد کیا گیا تاہم ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس کنوینشن کو دفعہ 144 کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ دیر بالا میں ورکرز کنوینشن کا انعقاد روکنے کے لیے پولیس کی

نگران حکومت کے تمام جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کے دعووں کے باوجود پی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات کا سامنا کیوں؟ Read More »

Cipher Case against Imran khan Annulled

اسلام آباد ہا ئیکورٹ نے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قراردیدیا

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قانون کے مطابق ٹرائل جیل یا اوپن کورٹ میں ہوسکتا ہے۔  تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل دو رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔  عدالت عالیہ نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی انٹر اکورٹ اپیل منظور کر تے ہوئے جیل ٹرائل کا 29اگست کا نوٹیفکیشن کالعدم قراردیدیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین صفحات پر مشتمل اپنے محفوظ فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق ٹرائل جیل یا اوپن کورٹ میں ہوسکتا ہے،غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جاسکتا ہے۔ فیصلے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 13نومبرکوکابینہ منظوری کےبعدجاری نوٹیفکیشن کاماضی پراطلاق نہیں ہوگا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ منگل کے روز  سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل کرنے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے، جیل ٹرائل کا پہلا قدم جج ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے، جج کو جیل ٹرائل کی وجوہات پر مبنی واضح آرڈر جاری کرنا چاہئے، پھر چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے اور کابینہ سے منظوری ملے تو پھر ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جج نے 8 نومبر کو آخری خط لکھا تھا، جج کا خط جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہئے تھا لیکن جیل ٹرائل سے متعلق آج کے دن تک جوڈیشل آرڈر نہیں آیا ، مان لیں کہ 12نومبر سے کابینہ کی منظوری کے طریقہ کار پر عمل ہوا، اس صورت میں بھی پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوگی۔ سلمان اکرم راجہ نے جج ابو الحسنات ذوالقرنین کا 8 نومبر کا خط بھی پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر ہمارا مؤقف سننے کا حق دیتا ہے،  16 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی، 16 اگست کی سماعت کے بعد اسے ٹرائل جیل میں منتقل کردیا گیا، میرے خیال میں جیل ٹرائل کی پہلی درخواست پراسکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر جج کو اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی حق ملے گا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 8 نومبر کا خط دیکھیں تو پوزیشن مزید واضح ہو جاتی ہے، جج نے اس خط میں لکھا کہ کیس کا جیل ٹرائل جاری ہے۔ عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کابینہ کو خط اس وقت لکھا گیا جب انٹرا کورٹ اپیل زیر سماعت تھی؟ جس پر سلمان اکرم نے بتایا کہ جی بالکل اپیل پر سماعت بھی چل رہی تھی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جج نے لکھا کہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے جیل ٹرائل کی منظوری دی جائے، کابینہ کی منظوری کے باوجود نوٹیفکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوگا، جج بھی اپنے خط میں ماضی کی نہیں بلکہ مستقبل کی بات کررہے ہیں، یہ خط چیف کمشنر نے وزارت داخلہ کو بھجوایا، وہاں سے وزارت قانون کو گیا، 10نومبر کو سمری تیار کرکے کابینہ کو بھجوائی گئی، 10 نومبر کی تیار کردہ سمری میں بھی ماضی کے جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی جس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، ماضی کی کارروائی پر 13 نومبر کے نوٹیفکیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔ عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات پورا کرتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا ، کابینہ کی منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیر ہے۔ جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ روز رجسٹرار ہائیکورٹ سے 2 سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے بتایا کہ جج تعیناتی کا عمل اسلام آباد ہائیکورٹ سے شروع ہوا، یہ بھی بتایا کہ جج نے جیل سماعت سے پہلے بھی ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اتفاق کرتا ہوں جیل ٹرائل کو بند کمرے کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیئے، اس سےبھی متفق ہوں کہ جو کوئی سماعت دیکھنا چاہےاجازت ہونی چاہیئے، 2 اکتوبر کو چالان جمع ہوا ، 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہوئی،16 اگست کو ملزم کی تحویل تفتیشی ایجنسی کو نہیں دی گئی، ملزم پہلے سے ہی جیل میں تھا اس لئے کوئی حق متاثر نہیں ہوا، اس وقت کیس ہی یہ ہے کہ ٹرائل اس مقام پر نہیں ہوا جہاں ہونا چاہئے تھا۔ جسٹس ثمن رفعت نے ریمارکس دیئے کہ قانونی بے ضابطگیاں تو بہر حال موجود ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس پوائنٹ پر عدالت کی معاونت کروں گا ، جج نے اپنے 3 آرڈرز میں لکھا کہ ٹرائل جیل میں ہو رہا ہے ، بعدازاں ، عدالت عالیہ نے فریقین دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آج ہی 5 سے ساڑھے 5 کے درمیان مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔

اسلام آباد ہا ئیکورٹ نے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قراردیدیا Read More »

Pakstan And India two Cricket Rivals

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘

سنہ 1983 کا کرکٹ ورلڈ کپ، انڈیا کے کچھ کھلاڑیوں کے لیے سیر و تفریح کے موقع سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ کرکٹر سندیپ پاٹل لکھتے ہیں کہ ’انڈیا مقابلے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ پچھلے دو کرکٹ ورلڈ کپس میں اس نے شاید ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ اس لیے ہم انڈیا سے روانہ ہوئے تو عملی طور پر چھٹی کے موڈ میں تھے۔ کرکٹ ہماری پہلی ترجیح نہیں تھی۔‘ مگر ہوا یہ کہ انڈیا نہ صرف سیمی فائنل میں پہنچ گیا بلکہ اس نے اپنے مقابل اور مسلسل تیسرے ورلڈ کپ کے میزبان انگلینڈ کو شکست بھی دے دی۔ انڈیا کو اب 25 جون کو لارڈز کے میدان میں فائنل میں پچھلے دو مقابلوں کے فاتح ویسٹ انڈیز کا سامنا تھا جس نے سیمی فائنل میں پاکستان کو ہرایا تھا۔ فائنل کھیلنے کے باوجود انڈیا کو لارڈز کے دو پاس نہ ملے کرکٹ مؤرخ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ انڈیا کے سابق وزیر تعلیم سدھارتھ شنکر رے اُن دنوں نجی دورے پر انگلینڈ میں ہی موجود تھے۔ انڈیا فائنل میں پہنچا تو انھوں نے انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے صدر این کے پی سالوے سے یہ میچ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ ’سالوے نے انگلش کرکٹ بورڈ (ایم سی سی) سے دو ٹکٹوں کے حصول کی درخواست کی۔ گو انڈیا فائنل کھیل رہا تھا مگر اس درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ لارڈز پر پہلا حق ایم سی سی ارکان کا ہے اور انڈین کرکٹ بورڈ کو اضافی ٹکٹ نہیں دیے جا سکتے۔‘ ’سالوے کو اس پر بہت غصہ آیا اور اس معاملے میں انھیں پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے چیئرمین ایئر چیف مارشل نور خان کی حمایت بھی مل گئی۔‘ اس پر مستزاد یہ کہ فائنل مقابلے میں ایم سی سی اراکین کے لیے گراؤنڈ میں مخصوص نشستوں میں سے آدھی خالی رہیں کیونکہ انگلینڈ کے فائنل میں نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مقابلہ دیکھنے ہی نہ آئے۔ ٹکٹیں تو نہیں مل سکیں مگر کپل دیو کی قیادت میں انڈیا نے 1983کے ورلڈ کپ کا فائنل جیت لیا۔ کیوں نہ اگلے ورلڈکپ کے میزبان انڈیا اور پاکستان ہوں؟ اگلے روز لنچ پر سالوے اور نور خان پھر اکٹھے تھے۔ پیٹراوبورن پاکستانی کرکٹ کی تاریخ پر اپنی کتاب ’وونڈڈ ٹائیگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سالوے ٹکٹیں نہ ملنے پر شدید غصے میں تھے۔ انھوں نے کہا کہ کاش فائنل انڈیا میں ہوتا۔‘ نور خان فوراً بولے: ’ہم اگلا ورلڈ کپ اپنے ملکوں میں کیوں نہیں کھیل سکتے؟‘ سالوے نے فوراً نور خان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ (سالوے نے بھی اپنی کتاب میں اس واقعے کو یوں ہی بیان کیا ہے۔) اوبورن لکھتے ہیں کہ ’پہلے دونوں کو اپنی اپنی حکومتوں کو قائل کرنا تھا۔ نور خان کے جنرل ضیا کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور سالوے تھے ہی (انڈیا کے وزیرِاعظم) راجیو گاندھی کی کابینہ کے وزیر۔‘ اسی سال 1983 میں نور خان نے پہلی ایشیئن کرکٹ کانفرنس کے انعقاد میں مدد کی جہاں یہ تجویز پیش کی گئی اور انڈیا، پاکستان اور سری لنکا نے جنوبی ایشیا میں ورلڈ کپ کے انعقاد کی تجویز کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ سری لنکن بورڈ کے سربراہ گامنی ڈسانائیکے نے اس شرط پر ہاں میں ہاں ملائی کہ اُن کے ملک کا اس ایونٹ میں کوئی مالیاتی حصہ نہیں ہو گا، یوں ایک طرح سے یہ انڈیا اور پاکستان پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ 1987 کے کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کے مشترکہ خواب کو تعبیر کریں۔ اوبورن کے مطابق ’سالوے اور نور خان نے ایشین کرکٹ کونسل بنائی۔ اس کی تشکیل میں سری لنکا نے بھی ساتھ دیا، جسے تازہ تازہ ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ ملا تھا۔ بنگلا دیش، ملائشیا اور سنگا پور دیگر بانی ارکان تھے اور سالوے اس کے پہلے صدر بنے۔ یوں عالمی کرکٹ میں ایک نئے ووٹنگ بلاک کا اضافہ ہوا۔ رسمی تجویز کا مسودہ تیار کیا گیا۔ دوسری جانب آئی سی سی نے ورلڈ کپ کی میزبانی کسی اور ملک کو دینے کی تجویز کی مخالفت میں قانونی اعتراضات کااستعمال کیا۔‘ انڈیا اور پاکستان کو اس کی توقع تھی اُس دور میں کرکٹ کا ڈھانچا بہت مختلف تھا۔ کش سنگھ لکھتے ہیں کہ ’انگلش کرکٹ بورڈ کا سربراہ خود بخود آئی سی سی کا سربراہ بن جاتا۔ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے پاس ویٹو کا اختیار تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایشیئن بلاک کی تجاویز کو ایم سی سی بغیر وضاحت کے بھی مسترد کر سکتا تھا۔‘ نور خان نے انڈیا، پاکستان جوائنٹ مینجمنٹ کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی اور این کے پی سالوے کو اس کی سربراہی کے لیے کہا جبکہ بِندرا اس کے سیکریٹری بنے۔ ’ایک غیر رسمی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی اور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر جگموہن ڈالمیا نے آئی سی سی کے لیے اپنی تجویز میں لکھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کو پوری دنیا میں گھمایا جائے اور 1987 کے بعد آسٹریلیا کو 1992 میں کپ کی میزبانی کا حق دیا جائے۔‘ اور یوں پہلی دراڑ پیدا ہوئی۔ ’آسٹریلین کرکٹ بورڈ( اے سی بی) کے چیئرمین فریڈ بینیٹ نے پاکستان اور انڈیا کے کرکٹ بورڈز کو ضمانت دی کہ آسٹریلیا خفیہ رائے شماری میں اُن کی تجویز کے حق میں ووٹ دے گا۔ بینیٹ نے یقین دلایا کہ وہ اس تجویز کو ویٹو نہیں کریں گے۔‘ ’آئی سی سی میں کل ووٹ 37 تھے۔ ٹیسٹ کھیلنے والے آٹھ ممالک کے دو، دو کے حساب سے 16 ووٹ تھے اور باقی ووٹ ایسوسی ایٹ ممالک کے تھے۔ انگلینڈ آئی سی سی کے وسائل کا صرف 40 فیصد ایسوسی ایٹ ممالک کو دیتا تھا۔‘ ’آئی پی جے ایم سی نے ایسوسی ایٹ ممالک کو اس سے چار گنا ریونیو کی پیشکش کی جو انگلینڈ انھیں دے رہا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک کو پانچ گنا زیادہ آمدنی کی پیشکش کی جو انگلینڈ اس وقت تک دے رہا تھا۔‘ ’نسیم حسن شاہ میز پر کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر ووٹ دیا‘ آئی پی جے ایم سی نے ووٹنگ میں 16-12 سے کامیابی حاصل کی لیکن انگلینڈ نے اعتراض اٹھا دیا۔ امرت ماتھر لکھتے

فائنل کی دو ٹکٹیں نہ ملنے کا ’رنج‘ اور ضیاالحق کا دورہ: جب پاکستان، انڈیا نے مل کر انگلینڈ سے ورلڈ کپ کی میزبانی ’چھینی‘ Read More »

Great Imran Khan and KapilGreat Pakistan Cricket Team Captain Imran Khan and India Cricket Team Captain Kapil dev of 1987 Dev

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا

ہ 1955 کی بات ہے۔ ادیب اور مترجم سوم آنند انھی دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کی ٹیموں کا ایک ٹیسٹ میچ لاہورمیں تھا اور نئی دلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو شخص بھی میچ دیکھنا چاہتا ہے وہ پاکستان کا چار روز کا ویزا بغیر کسی تاخیرکے حاصل کر سکتا ہے۔ ’سرحد کا دروازہ جب اس طرح سے کھول دیا گیا تو اس صلائے عام پر تقریباً 20 ہزار ہندوستانی دوڑے۔ بہت سے لوگ (شائقین کرکٹ) تو امرتسر سے سائیکلوں پر لاہور جاتے دیکھے گئے۔‘ سوم آنند کا اپنا بچپن لاہور میں گزرا تھا چنانچہ انھیں اس شہر سے اُنس تھا۔ ’پاکستان کو ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کا درجہ انڈیا کی سفارش پر ملا‘ پاکستان سنہ 1948 میں امپیریل کرکٹ کانفرنس (موجودہ آئی سی سی) کا رُکن بنا تھا، مگر وہ ’فُل ممبر‘ نہیں تھا، بنتا تو ٹیسٹ میچ کھیلنے کا اہل ہوتا۔ علی خان کی تحقیق کے مطابق غیرمنقسم ہندوستان 1926 میں آئی سی سی کا مکمل رکن بن چکا تھا۔ پاکستان کو آئی سی سی میں مکمل داخلے کے لیے تقسیم کے بعد 5 سال تک انتظار کرنا پڑا۔ علی خان لکھتے ہیں کہ آئی سی سی کی رکنیت حاصل کرنے کی پاکستان کی ابتدائی دو کوششیں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے اِس بنیاد پر رد کر دیں کہ اس ’قوم کو ابھی ناقابل تسخیر مشکلات پر قابو پانا ہے۔ تاہم تیسری کوشش پر اینتھونی ڈی میلو (اُس وقت کے انڈین کرکٹ بورڈ کے صدر) کی سفارش پر پاکستان کو 1952 میں مکمل رکنیت دے دی گئی۔‘ آئی سی سی رکنیت کے حصول کے بعد اُسی سال انڈیا دلی میں پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ میچ کھیلنے والی پہلی ٹیم تھی۔ علی خان لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ تقسیم کی ہولناکیوں کے بعد عوام سے عوام کے رابطے کا پہلا حقیقی موقع تھا۔ دونوں ٹیموں کے کپتان تقسیم سے پہلے ایک دوسرے کو جانتے تھے اور دونوں لاہور کے مشہور کریسنٹ کلب کے لیے کھیل چکے تھے۔ عبدالحفیظ کاردار (پاکستان) اور لالا امرناتھ (انڈیا) دونوں نے کرکٹ لاہور کےمنٹو پارک کے میدانوں میں سیکھی تھی۔ وہ ایک ہی زبان بولتے تھے۔ مہمان نوازی لالا امرناتھ تو پاکستانی کرکٹرز کا استقبال کرنے دلی ٹرین سٹیشن بھی گئے۔ امرناتھ کی سوانح عمری کے مطابق ’جہاں کسی کو دشمنی کی توقع تھی وہاں صرف دوستی تھی۔‘ ٹیم کے ایک رکن وقار حسن نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’ٹیم کی مہمان نوازی اور دیکھ بھال ایسی تھی کہ دشمنی ہوا میں بکھر گئی۔‘ پانچ ٹیسٹ میچوں کی یہ سیریز انڈیا دو ایک سے جیت گیا جبکہ دو میچ برابر رہے۔ دلی ٹیسٹ پاکستان کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار اور امیر الٰہی کے علاوہ تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے یہ ڈیبیو ٹیسٹ تھا۔ کاردار اور الٰہی اس سے قبل غیرمنقسم ہندوستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کھیل چکے تھے۔ لکھنئو میں دوسرا ٹیسٹ تھا۔ لکھاری اور کرکٹر نجم لطیف کے مطابق پاکستانی ٹیم ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں کشش رکھتی تھی۔ ’اس کی بڑی وجہ نوجوان بلے باز حنیف محمد تھے۔ پاکستانی ٹیم رائل ہوٹل میں ٹھہری تھی۔ قریب ہی سے اسلامیہ کالج کے طلبا نے حنیف کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لابی پر دھاوا بول دیا۔‘ ’فضل محمود نے بیگم کی بات مانی‘ لکھنئو پہنچنے سے پہلے پاکستان کے فاسٹ بولرفضل محمود کے لیے ان کی اہلیہ کا ٹیلی گرام آ چکا تھا کہ وہ کم ازکم سات وکٹ ضرور لیں۔ ’پٹ سن کی مَیٹنگ پر کھیلے گئے اس میچ میں فضل محمود نے پہلی اننگز میں پانچ اور دوسری میں سات کھلاڑی آؤٹ کیے۔ یوں، ان کے میچ کے اعداد و شمار تھے: 92 رنز کے عوض 12 وکٹیں۔ نذر محمد نے ناقابل شکست 124 رنز بنائے۔ اس طرح پاکستان نے انڈیا کو ایک اننگز اور 43 رنز سے شکست دے کر اپنی پہلی جیت سمیٹی۔‘ لکھنؤ کا ہجوم کھلاڑیوں کا مذاق بھی شستہ اُردو زبان میں اڑا رہا تھا۔ وقارحسن اپنی سوانح عمری میں ایک خاص تبصرہ کو واضح طور پر یاد کرتے ہیں کہ جب وہ باؤنڈری پر فیلڈنگ کر رہے تھے تو طلبا کے ایک گروپ نے ان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے یوں کہا: ’اجی قبلہ، آپ اگر رخ ِزیبا اس طرف نہیں کریں گے تو ہم آپ کے ابا حضور کی شان میں گستاخی کر دیں گے۔‘ انڈین ٹیم کی ہار پر انڈیا میں حملہ تاہم نجم لطیف لکھتے ہیں کہ تقریباً 25000 کا یہ ہجوم انڈیا کی شکست کو ہضم نہ کر سکا۔ ’انھوں نے انڈین کھلاڑیوں کے کیمپوں پر حملہ کر کے انھیں آگ لگا دی۔ انھوں نے اس بس کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے جو انڈین کھلاڑیوں کو واپس ان کے ہوٹل لے جانے والی تھی۔ انڈین کھلاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا گیا اور وہ بڑی مشکل سے خود کو بچا کر اپنے ہوٹل تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔‘ بیگم اختر کی دعائیں پاکستانی ٹیم کے لیے واپس رائل ہوٹل میں، فضل محمود نے دیکھا کہ نذرمحمد تیار ہو کر کہیں جانے کی جلدی میں ہیں۔ فضل کے پوچھنے پر نذر نے بتایا کہ وہ ملکہ غزل بیگم اختر فیض آبادی کو آداب کہنے جا رہے ہیں۔ فضل بھی جانے کو تیار ہو گئے۔ نجم لطیف لکھتے ہیں کہ دونوں ان کے گھر پہنچے اور بیٹھک میں بیٹھ گئے۔ کچھ وقت تک جب وہ نہ آئیں تو فضل نے ملازم سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ ’جواب ملا کہ وہ اگلے کمرے میں نماز پڑھ رہی ہیں۔ فضل اور نذر دونوں اٹھ کر اس کمرے میں چلے گئے جہاں بیگم اختر تھیں۔ جائے نماز پر اپنے ہی خیالوں میں مگن تھیں۔ فضل اور نذر نے مخاطب کیا۔ وہ ان کو دیکھ کر چونک گئیں اور کہنے لگی ’آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو تو میچ جیتنے کے لیے کھیلنا چاہیے۔ میں یہاں آپ کی جیت کے لیے دعا کر رہی ہوں۔‘ فضل نے آگے کی طرف جھک کر کہا: ’آپ کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں۔ ہم جیت گئے ہیں۔ پاکستان جیت گیا۔‘ ’یہ بڑی خبر سُن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انھوں نے ان کی آنکھوں میں خوشی

جب ٹیسٹ میچ میں پاکستان سے شکست پر انڈین تماشائیوں نے اپنی ہی ٹیم پر حملہ کیا Read More »

Former Prime Minister of Islamic Republic of Pakistan Imran Khan

عمران خان کی زندگی کو ممکنہ ’خطرات‘ سے متعلق درخواست پر سماعت پانچ اکتوبر کو ہو گی: نعیم پنجوتھہ

سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل کے لوئر کلاس سیل میں منتقل کیا گیا ہے جہاں ان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر جاری اپنے بیان میں عمران خان کے وکیل نے الزام عائد کیا کہ انھیں اطلاع ملی ہے کہ عمران خان کو لوئر کلاس سیل میں منتقل کیا گیا ہے جبکہ سیل کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ توشہ خانہ کیس میں عدالت کی طرف سے تین سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو 5 اگست 2023 کو اٹک جیل منتقل کیا گیا تھا تاہم 26 ستمبر کو پی ٹی آئی کی طرف سے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے سینٹرل جیل اڈیالہ منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ جیل میں عمران خان کی حالات سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے جس پر پانچ اکتوبر کو سماعت ہوگی۔ مران خان کے وکیل کے مطابق عدالت کی طرف سے یہ اعتراضات اٹھائے گئے کہ اس پر پہلے ہی فیصلہ سنایا گیا ہے لیکن عمران خان کی صحت سے متعلق کوئی احکامات جاری نہیں کیے گئے جو کہ آئین میں دیا گیا بنیادی حق ہے۔ نعیم پنجوتھہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں، ان کو فوڈ پوائزن دیا جا سکتا ہے، انھیں ذہنی طور پر ٹارچر کیا جا رہا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

عمران خان کی زندگی کو ممکنہ ’خطرات‘ سے متعلق درخواست پر سماعت پانچ اکتوبر کو ہو گی: نعیم پنجوتھہ Read More »