Hamas

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پراتفاق

قطر : (ایگنایٹ پاکستان) قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں عارضی وقفے کا اعلان کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کردیا ۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ کیا جائے گا، جنگ میں وقفے کا آغاز 24گھنٹے کے اندر ہوگا۔ قطری وزارت خارجہ کاکہنا ہے کہ معاہدے کے تحت درجنوں فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔ معاہدے کے تحت حماس اپنے پہلے مرحلے میں تقریباً 50 اسرائیلی خواتین اور بچوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں اسرائیل تقریباً 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، ان میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ ہیں۔ اس میں اسرائیل کی طرف سے مصر سے روزانہ 300 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور جنگ روکنے کے دورن مزید ایندھن غزہ میں داخل کرنا شامل ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں حماس کئی دنوں تک جنگ بندی میں توسیع کے بدلے درجنوں اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے۔ حماس کے ساتھ غزہ کے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری آج صبح اسرائیل کابینہ نے جنگ میں وقفے کی منظوری دی تھی ، کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ مشکل لیکن درست ہے۔  اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں حماس کی قید میں موجود 50 افراد کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کےمعاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ حماس کیساتھ جنگ جاری رکھنے کا اعلان  اسرائیل نے جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے ، کابینہ اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی مدد سے عارضی جنگ بندی اور حماس کے پاس قید یرغمالیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچے ہیں لیکن اسرائیل اپنا مشن جاری رکھے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جانب سے بھی جنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔  حماس نے اپنے بیان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ خیال رہے کہ قطر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کے ساتھ یرغمالیوں اور اسرائیلی تحویل میں لیے گئے فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق کئی دنوں سے مذاکرات جاری تھے۔ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد صدربائیڈن کا   مؤقف امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جنگ بندی معاہدے میں کردار ادا کرنے پر امیرِ قطر اور مصر کے صدر کا شکریہ ادا کیا ہے ، امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے تمام پہلوؤں پر مکمل طور پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ میں وقفے کے لیے اسرائیلی صدر اور ان کی حکومت کے عزم کو سراہتا ہوں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ روز اشارہ دیاتھا کہ اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کے زیر حراست قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ اور عارضی جنگ بندی اب بہت قریب ہے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 14 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جبکہ 33 ہزار سے زائد زخمی ہیں جن میں دوتہائی خواتین اور بچے شامل ہیں ۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پراتفاق Read More »

غزہ کےسکول پراسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری،200 سے زائد فلسطینی شہید

غزہ میں الفخورہ اسکول پراسرائیلی طیاروں کی وحشیانہ بمباری سے200 سے زائدفلسطینی شہید ہوگئے۔جبکہ اسرائیلی فوج نے غزہ کے الشفا اسپتال کو زبردستی خالی کر الیا۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی طیاروں کی غزہ میں الفخورہ اسکول پروحشیانہ بمباری کے نتیجے میں200 سے زائدفلسطینی شہید ہوگئے، شہید ہونیوالوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ادھر اسرائیلی فوج نے غزہ کا الشفا اسپتال زبردستی خالی کرا لیا۔ مریضوں،طبی عملے اور پناہ گزینون کو بندوق کی نوک پر اسپتال سے نکال دیا گیا۔جبکہ شدید زخمیوں اور نومولود بچوں کو ریڈ کراس کے حوالے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے صلاح الدین روڈ پرمہاجرین کا تانتا بندھ گیا، شمالی غزہ اور خان یونس پر بمباری سے سو سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے۔ جبکہ شہدا کی مجموعی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کر گئی۔  الشفا اسپتال کے ایک ڈاکٹر نےعرب ٹی وی الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں بندوق کی نوک پر اسپتال چھوڑنے پر مجبور کیا گیا،چلنے پھرنے کے قابل زخمیوں اور پناہ گزینوں کوخان یونس بھیج دیا گیا ،الشفا اسپتال میں صرف شدید زخمی اور نومولود بچے رہ گئے ہیں،جنہیں کسی اور اسپتال منتقل کرنے کے لیے ریڈ کراس سے رابطہ کیا گیا ہے جبکہ اسپتال میں ہر طرف اسرائیلی اسنائپرز تعینات کیے گئے ہیں. دوسری جانب امریکی صدرجوبائیڈن نے کہا ہے غزہ سے شہریوں کی زبردستی نقل مکانی نہیں ہونی چاہیے،بین الاقوامی برادری کو غزہ کیلئے طویل مدتی طریقہ کارطے کرنا چاہیے،غزہ اور مغربی کنارے کو ایک ہی حکومتی ڈھانچے کے تحت دوبارہ متحد ہونا چاہیے۔

غزہ کےسکول پراسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری،200 سے زائد فلسطینی شہید Read More »

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟

اسرائیلی فوج کو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں داخل ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ابھی بھی اس ہسپتال کو حماس کے کمانڈ مرکز کے طور پر ثابت کرنے کے لیے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہسپتال کے اندر کوئی خود مختار سکروٹنی نہیں، صحافی غزہ میں آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتے اور چند ایک صحافی جو وہاں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ اسرائیلی فوج کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ اب تک اسرائیل نے جو ثبوت پیش کیے ہیں، ان کے حوالے سے میں قائل نہیں ہوں کیونکہ اسرائیلی اس ہسپتال کے بارے میں جس قسم کے بیان دے رہے تھے، اس سے تو یہ تاثر ملتا تھا کہ الشفا ہسپتال حماس کے آپریشن کا اہم مرکز تھا۔ لیکن اگر واقعی الشفا ہسپتال میں حماس کا کوئی مرکز موجود تھا، جس کے بارے میں سنہ 2014 سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں تو اسرائیل پھر ابھی تک دنیا کے سامنے اس کے وجود کے ثبوت کیوں نہیں لا سکا۔ الشفا ہسپتال سے ابھی تک چند کلاشنکوف ملی ہیں جو کہ مشرق وسطیٰ میں عام ہیں، ایک سرنگ کا داخلی راستہ ملا ہے اور ایسی کئی سرنگیں غزہ میں موجود ہیں، کچھ فوجی یونیفارم اور دھماکہ خیز مواد سے لیس ایک گاڑی بھی ملی ہے۔ لیکن ہسپتال میں حماس کے ایک بڑے ہیڈکوارٹر کی دریافت اور اس متعلق شواہد سامنے لانا یقیناً اب بھی ممکن ہے۔ اس پسپتال کو 1970 کی دہائی میں اسرائیلیوں نے اس وقت تک تعمیر کیا تھا جب ان کے پاس اس علاقے کا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ بہت بڑی جگہ ہے جس کی مکمل تلاشی میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ الشفا ہسپتال کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اسے ڈیزائن کرنے والے اسرائیلی معماروں نے یہاں وسیع تہہ خانے بھی بنائے تھے۔ الشفا سے ملنے والے شواہد پر منحصر اسرائیل کا بیانیہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کو یہاں سے کچھ مل بھی گیا ہو لیکن اپنی فوجی یا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھوں نے ابھی اسے سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا ہو۔ اسی کی وجوہات ابھی تک غیر واضح ہیں تاہم اسرائیل کے بیانیے کا بہت زیادہ انحصار الشفا سے ملنے والے ثبوتوں پر ہے۔ سات اکتوبر کو اس جنگ کے آغاز سے جب حماس کی جانب سے ایک اچانک حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے، اسرائیل کہہ چکا ہے کہ اس ہسپتال تک پہنچنا اس کے اہم ٹارگٹوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کا ایک اہم مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حماس غزہ کی طبی سہولیات کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے تاہم حماس بار بار اس الزام کی تردید کر چکا ہے۔ غزہ میں ایک ماہ کے دوران تقریباً 11 ہزار 500 افراد کومارنے کے پیچھے اسرائیل یہ جواز پیش کرتا ہے کہ حماس ان لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے جمعرات کے روز ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ اس ہسپتال میں حماس کا ملٹری کمانڈ موجود ہے۔ وہ اس بات کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ ہسپتال میں یرغمالیوں کو بھی رکھا گیا کیونکہ اسرائیل کی ڈیفینس فورسز کے مطابق 65 برس کی یہودت ویس، جنھیں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا، کی لاش الشفا ہسپتال کے قریب ایک گھر سے ملی۔ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 200 سے زائد اسرائیلی افراد کی بازیابی کے لیے قطر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ لیکن اگر الشفا ہسپتال کے حماس کے ہیڈکوارٹر ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتے تو پھر اسرائیل پر بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے سیز فائر کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ 42 دن میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے طریقوں پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ امریکہ وہ واحد بین الاقوامی طاقت ہے جس کے بارے میں اسرائیلیوں کو واقعی تشویش لاحق ہے۔ امریکہ کے صدر بائیڈن اس جنگ کے آغاز سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسے یہ صحیح طریقے سے کرنا چاہیے یعنی جنگ کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز ایک قرارداد منظور کی، جس میں انسانی بنیادوں پر سیز فائر کے لیے کہا گیا تاہم امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ ’یہ کارروائیاں خطے اور اس سے باہر بھی دہشتگردی کو ہوا دیں گی‘ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ پیشرفت وہ اشاعت ہے جس میں دنیا بھر کے ریٹائر وزرائے اعظم، صدور، بزرگ سیاستدانوں اور خواتین کے ایک گروپ نے حماس کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں تباہی اور شہریوں کا قتل عام اسرائیل کو محفوظ نہیں بنا رہا۔ یہ کارروائیاں پورے خطے اور اس سے باہر دہشت گردی کو مزید ہوا دیں گی اور اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔‘ تو اسرائیل کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اسرائیل کی حمکت عملی پر اٹھنے والوں سوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو کہ اسرائیل یہ کہے کہ اس نے اپنا کام کر لیا اور اب وہ غزہ سے نکل رہا ہے۔ حکومت کے پاس بھی آنے والے دنوں کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ نتن یاہو نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ وہاں ’دہشتگردی کے دوبارہ ابھرنے‘ کو روکنے کے لیے سکیورٹی کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں جو کچھ بھی کرتا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی ہوئی، اسے ان 20 لاکھ سے زائد لوگوں سے نمٹنا ہو گا جو اس سے نفرت کریں گے۔ اسرائیل کو ممکنہ طور پر بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے لیے یہ ثابت کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے پاس یہ طریقے استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟ Read More »

غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں

سرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کے جواب میں غزہ کی پٹی کے نیچے تعمیر کی گئی سرنگوں کی خفیہ بھول بھلیوں کے کچھ حصوں پر حملہ کر رہا ہے۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان نے جمعرات کو ایک ویڈیو میں کہا کہ ’سمجھیں کہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کے لیے ایک پرت ہے اور پھر حماس کے لیے دوسری پرت۔ ہم اس دوسری پرت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حماس نے بنائی ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ غزہ کے شہریوں کے لیے بنائے گئے بنکر نہیں ہیں۔ یہ صرف حماس اور دیگر دہشت گردوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اسرائیل پر راکٹ داغتے، کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے اور دہشت گردوں کو اسرائیل میں داخل کرتے رہیں۔‘ سرنگوں کے اس نیٹ ورک کے حجم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، جسے اسرائیل نے ’غزہ میٹرو‘ کا نام دیا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے کے نیچے پھیلی ہوئی ہیں جو صرف 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔ 2021 میں ہونے والی لڑائی کے بعد، اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے فضائی حملوں میں 100 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس دوران حماس نے دعویٰ کیا کہ اس کی سرنگیں 500 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور صرف پانچ فیصد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کو تناظر میں رکھنے کے لیے جانیں کہ لندن کا انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم 400 کلومیٹر لمبا ہے اور زیادہ تر زمین سے اوپر ہے۔ غزہ میں سرنگوں کی تعمیر کا عمل سنہ 2005 میں اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے انخلا سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا لیکن دو سال بعد حماس کی جانب سے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس میں تیزی لائی گئی، جس کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شروع کی۔ اپنے عروج پر، مصری سرحد کے نیچے چلنے والی تقریباً 2500 سرنگوں کو حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے تجارتی سامان، ایندھن اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ 2010 کے بعد غزہ کے لیے اس سمگلنگ کی اہمیت اس وقت کم ہو گئی، جب اسرائیل نے اپنی کراسنگ کے ذریعے سامان درآمد کرنے کی اجازت دینا شروع کی۔ مصر نے بعد میں ان سرنگوں کو پانی چھوڑ کر یا تباہ کر کے سمگلنگ کا سلسلہ بند کر دیا۔ حماس اور دیگر دھڑوں نے اسرائیلی افواج پر حملوں کے لیے بھی سرنگیں کھودیں۔ 2006 میں، عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے نیچے ایسی ہی ایک سرنگ کا استعمال کرتے ہوئے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا اور تیسرے فوجی گیلاد شالیت کو پکڑ لیا، جسے انھوں نے پانچ سال تک قید رکھا۔ 2013 میں، اسرائیلی فوج نے ایک 1.6 کلومیٹر لمبی، 18 میٹر گہری ایسی سرنگ دریافت کی جس میں کنکریٹ کی چھت اور دیواریں تھیں اور جو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی کبوتز کے قریب تک جاتی تھی۔ اگلے سال اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑی فضائی اور زمینی کارروائی کے لیے سرحد کے نیچے ایسی ’دہشت گردی کی سرنگوں‘ کی موجودگی اور استعمال کو بطور حوالہ استعمال کرنے کی بات کی۔ آئی ڈی ایف نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے جنگ کے دوران 30 سے زائد سرنگوں کو تباہ کیا لیکن عسکریت پسندوں کا ایک گروپ حملہ کرنے کے لیے ایک سرنگ کو استعمال کرنے میں کامیاب رہا جس میں چار اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ زیر زمین جنگ کی ماہر اور اسرائیل کی ریخمین یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر ڈیفنی رچمنڈ باراک کے مطابق ’سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگیں شکل میں بہت بنیادی ہوتی ہیں، یعنی انھیں بمشکل محفوظ بنایا جاتا ہے۔ وہ ایک بار استعمال کے مقصد کے لیے کھودی جاتی ہیں اور ان کا مقصد ’اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرنا‘ ہوتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’غزہ کے اندر کی سرنگیں مختلف ہیں کیونکہ حماس انھیں مستقل بنیادوں پر استعمال کر رہی ہے۔ وہ شاید زیادہ دیر تک قیام کے لیے زیادہ آرام دہ ہیں۔ وہ یقینی طور پر طویل اور پائیدار موجودگی کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘ ’رہنما وہاں چھپے ہوئے ہیں، ان کے پاس کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز ہیں، وہ انھیں نقل و حمل اور مواصلات کی لائنوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بجلی، روشنی اور ریل کی پٹریوں سے لیس ہیں۔ آپ ان میں گھوم پھر سکتے ہیں اور آرام سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ حماس نے حالیہ برسوں میں سرنگوں کی تعمیر اور جنگ کے فن میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے حلب میں شامی باغی جنگجوؤں اور موصل میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی حکمت عملیوں کا مشاہدہ کر کے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘ خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ کے اندر سرنگیں سطح سے 30 میٹر (100 فٹ) نیچے ہیں اور ان کے داخلی دروازے مکانات، مساجد، اسکولوں اور دیگر عوامی عمارتوں کی نچلی منزلوں پر واقع ہیں تاکہ عسکریت پسند نشاندہی سے بچ سکیں۔ اس نیٹ ورک کی تعمیر کی قیمت مقامی آبادی نے بھی ادا کی ہے۔ اسرائیلی فوج حماس پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے غزہ کو ملنے والی لاکھوں ڈالر کی امداد اور ماضی کی لڑائیوں میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کے لیے دیے گئے لاکھوں ٹن سیمنٹ کو سرنگوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔ یہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے حملوں کے دوران حماس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ کفار عزہ کے کبوتز کے قریب ایک سرنگ کا دہانہ دریافت ہوا ہے۔ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ سرنگ زیر زمین کنکریٹ کی رکاوٹ کے نیچے بنائی گئی ہو گی جس میں جدید ترین اینٹی ٹنل ڈٹیکشن سینسر لگے ہوں گے جو اسرائیل نے 2021 کے آخر میں نصب کر لیے تھے۔ ڈاکٹر ڈیفنی باراک کا کہنا ہے کہ یہ ایک دھچکا ہوگا لیکن

غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں Read More »

parachutes

حماس کے عسکریت پسند پیراشوٹس کی مدد سے اسرائیل میں کیسے داخل ہوئے

جب حماس نے سنیچر کو اسرائیل پر حملہ کیا تو حملہ آور جنگجوؤں میں پیرا شوٹ کے ذریعے سرحد پار کرنے والے جنگجو بھی شامل تھے۔ تحریک کے عسکری ونگ ’عز الدین القسام بریگیڈ‘ نے غزہ کی پٹی کے آس پاس کے اسرائیلی قصبوں اور تہوار منانے والوں پر حملے کیے۔ اس اچانک حملے کو ’آپریشن طوفان الاقصی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان رچرڈ ہیچٹ نے تصدیق کی ہے کہ فلسطینی جنگجوؤں نے ’پیراشوٹس‘، سمندر اور زمین کے راستے حملہ کیا۔ فضا سے سرحدی باڑ عبور کرنا فلسطینی عسکریت پسند غزہ کو اسرائیل سے الگ کرنے والی باڑ کو فضا سے عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ ایسے پیراشوٹ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ایک یا دو افراد کے لیے نشست تھی۔ ایک جنریٹر اور بلیڈز کی مدد سے انھیں غزہ کی پٹی کے آس پاس کے علاقے میں پیش قدمی کرتے ہوئے چلایا گیا۔ ،تصویر کا ذریعہREUTERS دوسری عالمی جنگ کی حکمت عملی فوجی پیراشوٹ باقاعدگی سے فوجی یونٹوں کے فضا سے اترنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جس کا مقصد میدان ِجنگ کے عقب سے دشمن کی صفوں میں گھسنا ہے۔ پیراشوٹ ٹیموں کو پہلی بار دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی اور اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے مقابلہ کرنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES 1987 کا گلائیڈر حملہ حماس کی جانب سے سنیچر کے روز کیا جانے والا حملہ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین جنرل کمانڈ کے دو فلسطینیوں، ایک شامی اور ایک تیونسی شہری کی جانب سے کیے جانے والے گلائیڈر آپریشن کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے نومبر 1987 میں اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ کرنے کے لیے لبنان سے اڑان بھری تھی۔ موٹر اور کنٹرول سے لیس پیراشوٹ کا استعمال کرتے ہوئے جنگجو زمین سے لانچ کرنے میں کامیاب رہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پہاڑی پر چڑھنے یا ہوائی جہاز سے اتارے جانے کی ضرورت کے بغیر سفر کر سکتے تھے۔ انجن پیراشوٹ کو 56 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی پروپلشن فورس دینے میں مدد کرتا ہے۔ پیرا گلائیڈرز زمین سے اوسطا پانچ ہزار میٹر کی اونچائی پر تین گھنٹے تک پرواز کر سکتے ہیں۔ پیراگلائیڈنگ ویب سائٹس کے مطابق وہ 230 کلوگرام تک وزن اٹھا سکتے ہیں یا یہ 4 افراد کے برابر ہیں۔ چھتری جیسے ان کنٹرپٹیشنز میں ایک شخص کے لیے نشست یا تین پہیوں والی گاڑی ہوسکتی ہے جس میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ عز الدین القسام بریگیڈ کے ’ملٹری میڈیا‘ کی جانب سے ویڈیو کلپس پوسٹ کی گئی ہیں، جن میں پیراگلائیڈرز کو زمین سے لانچ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کو ایک یا دو جنگجو چلا رہے ہیں۔ دیگر فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عسکریت پسند اترنے سے پہلے فضا سے فائرنگ کر رہے ہیں اور اسرائیلی ٹھکانوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ کچھ پیراشوٹ موٹر سائیکلوں پر جنگجوؤں کو لے جا رہے تھے۔ حماس نے ان پیراٹروپرز کے گروپ کو ’ساکر سکواڈرن‘ کا نام دیا۔ ،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES اسرائیلی فوج کو پیراشوٹس کا کیوں پتا نہیں چلا؟ حماس کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع کی جانے والی ویڈیو کلپس میں مسلح پیرا گلائیڈرز کو غزہ کی پٹی سے بڑے پیمانے پر راکٹ فائر کی آڑ میں پرواز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کم اونچائی پر پرواز کرتے دکھائی دے رہے تھے، جبکہ دیگر آسمان میں اونچے تھے۔ انھیں غزہ کے ارد گرد آسمان میں براہِ راست آنکھوں سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ اسرائیلی میڈیا نے سوال اٹھایا ہے کہ فوجی یونٹ ان کا سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہے؟ اسرائیلی افواج نے ابھی تک نہیں بتایا ان کے فضائی دفاع کو عسکریت پسندوں کے فضائی راستے سے گزرنے کا علم کیوں نہیں ہوا، خاص طور پر پیراشوٹس اتنے نمایاں تھے کہ لوگوں نے اپنے فونز پر ان کی ویڈیو بنائیں۔ ،تصویر کا ذریعہEPA ،تصویر کا کیپشناسرائیل کے شہر عسقلان کے آسمان کا منظر آئرن ڈوم تو کیا اسرائیلی گشت کے بجائے ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار کر تے تھے؟ کچھ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ، جیسے آئرن ڈوم اور ریڈار، اس طرح کی چھوٹی اڑنے والی اشیا سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے تھے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام نے راکٹ حملوں کو ناکام بنایا کثیر جہتی حملہ القسام بریگیڈ کے کمانڈر محمد الدیف کی جانب سے پہلے روز جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق حماس نے اپنے اچانک حملے کا آغاز پانچ ہزار راکٹ داغ کر کیا۔ ،تصویر کا کیپشنحماس کے راکٹ حملوں سے اسرائیل میں ہونے والا نقصان راکٹ لانچ کے ساتھ ہی حماس کے جنگجوؤں نے زمین اور سمندر سے حملہ کیا جس کے لیے انھوں نے گن بوٹس اور پیراشوٹ کا استعمال کیا۔ میڈیا اور عسکری رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ پیراشوٹ حملہ اور فضائی دفاع کو بائی پاس کرنے کی اس کی صلاحیت نے باڑ پار کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس حملے کے پہلے دن اسرائیل میں عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو بڑے پیمانے پر نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگجوؤں نے 100 سے زائد اسرائیلی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو اغوا کیا، جنھیں حماس اب جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔

حماس کے عسکریت پسند پیراشوٹس کی مدد سے اسرائیل میں کیسے داخل ہوئے Read More »

محمد دیف اسرائیل پر حماس کے حملے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ،ایک معمہ “

  محمد دیف، ایک پراسرار آدمی، جو سات قاتلانہ حملوں میں بچ گیا ہے اور اسے “نیا اسامہ بن لادن” کا لقب دیا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ حماس کے اس اچانک حملے کا ماسٹر مائنڈ ہے جس نے اسرائیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا – جسے تاریخ کی سب سے بڑی انٹیلی جنس ناکامی کہا جاتا ہے۔ ظالم یہودی ریاست کا۔ محمد دیف کئی دہائیوں سے اسرائیل کا سب سے زیادہ مطلوب شخص رہا ہے۔ 58 سالہ شخص ہمیشہ کے لیے وہیل چیئر پر قید ہے جب اسے مارنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں اس کے دونوں ہاتھ، ٹانگیں اور ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔ وہ مختلف محفوظ گھروں کا سفر کرکے یا غزہ کے زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک میں چھپ کر زندہ رہتا ہے، جس کی منصوبہ بندی میں اس نے مدد کی۔ اس نے اپنا نام بدل کر ڈیف رکھ دیا، جس کا عربی میں مطلب ہے “مہمان،” ایک خاندان سے دوسرے خاندان میں اس کی بہت سی منتقلی کی علامت ہے۔ وہ ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوا تھا۔ ان کا اصل نام محمد دیاب ابراہیم المصری ہے، جو 1965 میں غزہ میں پیدا ہوئے۔ اس نے ایک ریکارڈنگ بنائی جب اس کے سپاہی حماس کے فوجی بازو القسام بریگیڈ کے رہنما کی حیثیت سے مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل یا اغوا کرنے کے لیے اسرائیل میں داخل ہو رہے تھے۔ انہوں نے فلسطینیوں سے “قابضین کو نکال باہر کرنے اور دیواروں کو گرانے” کی التجا کی۔ اس نے عالمی بغاوت کے خدشات کو بڑھاتے ہوئے دوسری قوموں کے پیروکاروں سے بھی اس جنگ میں شامل ہونے کی اپیل کی۔ غزہ کی الازہر یونیورسٹی میں سیاست کے لیکچرر، مخیمر ابوسدا کے مطابق، حملے کے بعد، وہ “نوجوانوں کے لیے دیوتا کی طرح” ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’وہ بالکل بن لادن جیسا ہے۔ یہ ایک قاتل قاتل ہے۔” ڈیف کی صرف دو معروف تصاویر، جن میں 30 سال قبل کی ایک اسرائیلی شناختی تصویر بھی شامل ہے، منظر عام پر آئی ہیں، اور غزہ میں بھی صرف چند افراد ہی اس کی شناخت کر سکیں گے۔ درحقیقت، اس کے عرف “مہمان” کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ فلسطینی جنگجو ہر رات اسرائیلی انٹیلی جنس سے بچنے کے لیے مختلف ہمدردوں کے گھر ٹھہرتے ہیں۔ اس کا ماضی بم دھماکوں اور کئی غیر مسلح راہگیروں کے قتل سے بھرا پڑا ہے۔ ڈیف نے متعدد دہشت گرد حملوں کی نگرانی کی، بشمول اسرائیل میں بس بم دھماکے جن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے حماس کی عسکری شاخ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ ڈیف، جسے ابو خالد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اب تک غزہ میں اسرائیل کا اولین ترجیحی ہدف ہے۔ اسرائیل نے 2001، 2002، 2006، اور 2014 میں کوششوں کے بعد مئی 2021 میں اسے پانچ بار قتل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ڈیف حالیہ بم دھماکوں میں زخمی ہونے سے بچنے میں کامیاب رہا، لیکن پہلے والوں نے اسے اندھا چھوڑ دیا، اس کی دونوں ٹانگیں اور ایک بازو ضائع ہو گیا، اور اس کی بیوی اور دو بچوں کو قتل کر دیا۔ جو لوگ اس خطرناک شخصیت سے واقف ہیں انہوں نے اسے ایک خاموش، توجہ مرکوز آدمی کے طور پر بیان کیا ہے جو فلسطینی دھڑوں کے درمیان دیرینہ تنازعات میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔ اس کے بجائے، وہ اسرائیل اور عرب تنازعہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے ہر موقع پر تشدد کا استعمال کرتا ہے۔ جیسا کہ سنیچر کی خوفناک فلم میں دیکھا گیا ہے، جس کے بارے میں الزام ہے کہ وہ ایک اداکاری کے گروپ میں اپنے تجربے سے نکلا ہے جس میں وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں رہتے ہوئے شامل ہوا تھا، وہ تھیٹر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ جب 1980 کی دہائی کے آخر میں حماس کی بنیاد رکھی گئی تو ڈیف 20 سال کے تھے۔ اسی وقت اسرائیلی فوجیوں نے اسے قید کر لیا۔ “حماس میں اپنی زندگی کے آغاز سے، اس کی توجہ ملٹری ٹریک پر تھی،” غازی حماد، جنہوں نے ڈیف کے ساتھ جیل کا ایک سیل شیئر کیا، نے فنانشل ٹائمز کو بتایا۔ “وہ بہت مہربان تھا، ہر وقت محب وطن تھا جو ہمیں ہنسانے کے لیے چھوٹے چھوٹے کارٹون بناتا تھا۔” لیکن جیسے ہی ڈیف کو 1996 میں خودکش بم حملوں کے ایک سلسلے میں ملوث کیا گیا جس میں 50 سے زیادہ شہریوں کی جانیں گئیں، انسانیت کی کوئی جھلک غائب ہوگئی۔ انہوں نے تنظیم کے ابتدائی راکٹوں کی ترقی میں بھی حصہ ڈالا، جن کی تعداد آج ہزاروں میں ہے۔ ایک اسرائیلی افسر جو کمانڈر کے سیکیورٹی ڈوزئیر سے واقف ہے نے دعویٰ کیا کہ ڈیف کے والد یا چچا نے ہفتے کے روز اسی علاقے میں مسلح فلسطینی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ ڈیف اور حماس کے دیگر ارکان کا خیال ہے کہ اوسلو معاہدے، جس نے 1990 کی دہائی کے اواخر میں مذاکراتی امن تصفیہ کا ایک عارضی وعدہ کیا تھا، نے ان کی مزاحمت اور اس گروپ کے اسرائیل کی جگہ فلسطینی ریاست قائم کرنے کے اصل ارادے کو دھوکہ دیا۔ اسرائیلی فوج کے ذخائر کے ایک کرنل ایال روزن نے کہا، “ڈیف نے اسرائیل کی آزادی کی دوسری جنگ شروع کرنے کی کوشش کی ہے، جس نے سابقہ ​​کردار میں غزہ کی پٹی پر توجہ مرکوز کی تھی۔” “بنیادی مقصد – قدموں کے ذریعے – اسرائیل کو تباہ کرنا ہے۔ یہ پہلے قدموں میں سے ایک ہے – یہ صرف شروعات ہے۔” پچاس سال قبل یوم کپور جنگ کے بعد سے اسرائیل میں خونریزی کا سب سے خونریز دن ہفتے کے روز پیش آیا جب فلسطینی تنظیم حماس کے بندوق برداروں نے اسرائیلی شہروں میں دھاوا بول دیا، جس میں سینکڑوں اسرائیلی ہلاک اور درجنوں اسیروں کے ساتھ فرار ہو گئے۔ یہودی ریاست کے خلاف طویل عرصے سے جاری مہم کے پیچھے ایک شخص ڈیف نے حماس کے میڈیا پر ایک نشریات میں اعلان کیا کہ “آج زمین پر آخری قبضے کے خاتمے کے لیے سب سے بڑی جنگ کا دن ہے۔” انہوں نے پوری دنیا کے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ اس جنگ

محمد دیف اسرائیل پر حماس کے حملے کے پیچھے ماسٹر مائنڈ،ایک معمہ “ Read More »

Continuous firing

اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟

سنیچر کی صبح حماس کی جانب سے غزہ سے اب تک کا سب سے بڑا آپریشن کیا گیا ہے اور اسرائیل اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اس وقت جو ہو رہا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ حماس کے عسکریت پسندوں نے حفاظتی باڑ کو مختلف جگہوں سے کاٹا اور غزہ سے اسرائیل کی حدود میں داخل ہوئے۔ یہ گذشتہ کئی دہائیوں میں سرحد پار سے ہونے والا سب سے بڑا آپریشن تھا۔ یہ مصر اور شام کی جانب سے سنہ 1973 میں کی جانے والی اچانک کارروائی کی 50 ویں سالگرہ کے ایک دن بعد کیا گیا جس نے اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی شروعات کر دی تھی۔ حماس کی قیادت یقیناً اس تاریخ کی اہمیت سمجھتی ہے جس کے باعث اسے چنا گیا۔ ادھر اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ملک اس وقت حالتِ جنگ میں ہے اور وہ اپنے دشمنوں سے اس حملے کے بدلے میں بھاری قیمت وصول کریں گے۔ سوشل میڈیا پر ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں اور بچوں کی ویڈیوز اور تصاویر ہر طرف شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ایسی ویڈیوز بھی شیئر ہو رہی ہیں جن میں حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی فوجیوں اور عام شہریوں کو غزہ میں یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور ان کے باعث جہاں اسرائیلی غصے میں ہیں وہیں اس سے خبردار بھی ہیں۔ اس کارروائی کے چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیل نے غزہ میں فضائی حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی جس کے باعث سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی جرنیل اب ایک زمینی آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی غزہ میں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ یہ صورتحال ماضی میں کی جانے والی کسی بھی کارروائی سے زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے یہ بات تو واضح تھی کہ فلسطینی مسلح گروہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ تاہم یہ کب اور کہاں ہو گی یہ بات حماس کے مسلح گروہ کے علاوہ سب کے لیے ہی ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا خیال تھا کہ اس قسم کا حملہ مقبوضہ غربِ اردن سے ہو سکتا ہے اور ان دونوں کی توجہ وہاں مرکوز تھی۔ مقبوضہ بیت المقدس اور اردن کی سرحد کے درمیان موجود یہ علاقہ سنہ 1967 کے بعد سے اسرائیل کے قبضے میں ہے اور یہاں گذشتہ ایک سال میں مسلسل پرتشدد واقعات ہوتے رہے ہیں۔ مسلح فلسطینی گروہ، خاص کر وہ جو غربِ اردن کے قصبوں جنین اور نابلس سے کارروائی کرتے ہیں نے اس سے پہلے بھی اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیلی آبادکاروں پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اس دوران درجنوں کارروائیاں بھی کی ہیں اور مسلح آباد کاروں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فلسطینی گاؤں پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت میں موجود شدت پسند مذہبی قوم پرستوں نے اس دعوے کو دہرایا ہے کہ مقبوضہ علاقے مکمل طور پر یہودی سرزمین کا حصہ ہیں۔ تاہم کسی کو بھی حماس کی جانب سے غزہ سے اس قسم کا پیچیدہ اور مربوط آپریشن کرنے کی امید نہیں تھی۔ اسرائیل میں اسے ملک کے خفیہ اداروں کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان کے خفیہ ادارے اس منصوبے کو بھانپ نہیں پائے۔ اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ ان کے خفیہ ایجنٹس اور مخبروں کے ایک وسیع نیٹ ورک اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کی گئی نگرانی انھیں محفوظ رکھے گی لیکن اس صورت میں ایسا نہیں ہوا۔ آخر میں اسرائیلی خفیہ ادروں کو حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن نے اس وقت چونکا دیا جب اسرائیلی ایک مذہبی تہوار کے باعث پرسکون انداز میں چھٹی کے دن عبادت کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کارروائی مقبوضہ بیت المقدس میں موجود مساجد کو لاحق خطرے کے باعث کی۔ گذشتہ ہفتے کے دوران کچھ یہودیوں نے مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ میں جا کرعبادت کی تھی جو مسلمانوں کے لیے سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے بعد تیسری سب سے زیادہ مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے۔ یہی جگہ یہودیوں کے لیے بھی مقدس ہے کیونکہ یہاں قدیم زمانے میں ایک یہودی عبات گاہ ہوا کرتی تھی۔ یہاں عبادت کرنا شاید اتنی بڑی بات محسوس نہ ہو لیکن اسرائیل کی جانب سے ایسا کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ فلسطینیوں کے لیے یہ بہت زیادہ اشتعال انگیز عمل ہے۔ حماس کے آپریشن کی پیچیدگی یہ بتاتی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ تک کی جاتی رہی۔ یہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ بیت المقدس میں ہونے والے واقعات کا فوری ردِ عمل نہیں تھا۔ اسرائیل اور حماس ایک بار پھر حالتِ جنگ میں کیوں ہیں اس کی وجوہات بہت گہری ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع اس وقت بھی شدت اختیار کر رہا ہوتا ہے جب اس پر بین الاقوامی میڈیا کی نظریں نہیں ہوتیں۔ اس کے باوجود اکثر ایسے ممالک بھی اسے نظر انداز کرتے ہیں جو اب تک سرکاری طور پر ایک دو ریاستی حل یعنی آزاد فلسطین اور اسرائیل کی ایک ساتھ موجودگی کو اس کا واحد حل بتاتے ہیں۔ سنہ 1990 کی دہائی میں اوسلو امن عمل کے دوران دو ریاستی حل کے حوالے سے امید موجود تھی۔ تاہم اب یہ صرف ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازع صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے سعودی عرب کو اس حوالے سے فلسطین کی سکیورٹی گارنٹیاں دی جا رہی ہیں تاکہ وہ اس کے بدلے میں اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ امریکہ کی جانب سے سے امن عمل شروع کرنے کی کوشش صدر باراک اوباما کے دور میں تقریباً دس برس قبل ناکام ہو گئی تھی۔ اس تنازع کے پیچھے دراصل عربوں اور یہودیوں کے درمیان موجود زمین پر کنٹرول حاصل کرنے کا تنازع ہے جو بحیرۂ روم اور دریائے اردن کے درمیان واقع ہے۔ ان حالیوں کارروائیوں سے ایک بات تو واضح ہے کہ اس تنازع کو کسی عام طریقے سے حل نہیں جا سکتا ہے۔ جب اسے مزید بھڑکنے دیا جاتا ہے تو

اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟ Read More »