ghaza

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟

اسرائیلی فوج کو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں داخل ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ابھی بھی اس ہسپتال کو حماس کے کمانڈ مرکز کے طور پر ثابت کرنے کے لیے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہسپتال کے اندر کوئی خود مختار سکروٹنی نہیں، صحافی غزہ میں آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتے اور چند ایک صحافی جو وہاں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ اسرائیلی فوج کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ اب تک اسرائیل نے جو ثبوت پیش کیے ہیں، ان کے حوالے سے میں قائل نہیں ہوں کیونکہ اسرائیلی اس ہسپتال کے بارے میں جس قسم کے بیان دے رہے تھے، اس سے تو یہ تاثر ملتا تھا کہ الشفا ہسپتال حماس کے آپریشن کا اہم مرکز تھا۔ لیکن اگر واقعی الشفا ہسپتال میں حماس کا کوئی مرکز موجود تھا، جس کے بارے میں سنہ 2014 سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں تو اسرائیل پھر ابھی تک دنیا کے سامنے اس کے وجود کے ثبوت کیوں نہیں لا سکا۔ الشفا ہسپتال سے ابھی تک چند کلاشنکوف ملی ہیں جو کہ مشرق وسطیٰ میں عام ہیں، ایک سرنگ کا داخلی راستہ ملا ہے اور ایسی کئی سرنگیں غزہ میں موجود ہیں، کچھ فوجی یونیفارم اور دھماکہ خیز مواد سے لیس ایک گاڑی بھی ملی ہے۔ لیکن ہسپتال میں حماس کے ایک بڑے ہیڈکوارٹر کی دریافت اور اس متعلق شواہد سامنے لانا یقیناً اب بھی ممکن ہے۔ اس پسپتال کو 1970 کی دہائی میں اسرائیلیوں نے اس وقت تک تعمیر کیا تھا جب ان کے پاس اس علاقے کا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ بہت بڑی جگہ ہے جس کی مکمل تلاشی میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ الشفا ہسپتال کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اسے ڈیزائن کرنے والے اسرائیلی معماروں نے یہاں وسیع تہہ خانے بھی بنائے تھے۔ الشفا سے ملنے والے شواہد پر منحصر اسرائیل کا بیانیہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کو یہاں سے کچھ مل بھی گیا ہو لیکن اپنی فوجی یا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھوں نے ابھی اسے سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا ہو۔ اسی کی وجوہات ابھی تک غیر واضح ہیں تاہم اسرائیل کے بیانیے کا بہت زیادہ انحصار الشفا سے ملنے والے ثبوتوں پر ہے۔ سات اکتوبر کو اس جنگ کے آغاز سے جب حماس کی جانب سے ایک اچانک حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے، اسرائیل کہہ چکا ہے کہ اس ہسپتال تک پہنچنا اس کے اہم ٹارگٹوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کا ایک اہم مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حماس غزہ کی طبی سہولیات کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے تاہم حماس بار بار اس الزام کی تردید کر چکا ہے۔ غزہ میں ایک ماہ کے دوران تقریباً 11 ہزار 500 افراد کومارنے کے پیچھے اسرائیل یہ جواز پیش کرتا ہے کہ حماس ان لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے جمعرات کے روز ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ اس ہسپتال میں حماس کا ملٹری کمانڈ موجود ہے۔ وہ اس بات کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ ہسپتال میں یرغمالیوں کو بھی رکھا گیا کیونکہ اسرائیل کی ڈیفینس فورسز کے مطابق 65 برس کی یہودت ویس، جنھیں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا، کی لاش الشفا ہسپتال کے قریب ایک گھر سے ملی۔ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 200 سے زائد اسرائیلی افراد کی بازیابی کے لیے قطر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ لیکن اگر الشفا ہسپتال کے حماس کے ہیڈکوارٹر ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتے تو پھر اسرائیل پر بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے سیز فائر کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ 42 دن میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے طریقوں پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ امریکہ وہ واحد بین الاقوامی طاقت ہے جس کے بارے میں اسرائیلیوں کو واقعی تشویش لاحق ہے۔ امریکہ کے صدر بائیڈن اس جنگ کے آغاز سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسے یہ صحیح طریقے سے کرنا چاہیے یعنی جنگ کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز ایک قرارداد منظور کی، جس میں انسانی بنیادوں پر سیز فائر کے لیے کہا گیا تاہم امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ ’یہ کارروائیاں خطے اور اس سے باہر بھی دہشتگردی کو ہوا دیں گی‘ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ پیشرفت وہ اشاعت ہے جس میں دنیا بھر کے ریٹائر وزرائے اعظم، صدور، بزرگ سیاستدانوں اور خواتین کے ایک گروپ نے حماس کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں تباہی اور شہریوں کا قتل عام اسرائیل کو محفوظ نہیں بنا رہا۔ یہ کارروائیاں پورے خطے اور اس سے باہر دہشت گردی کو مزید ہوا دیں گی اور اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔‘ تو اسرائیل کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اسرائیل کی حمکت عملی پر اٹھنے والوں سوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو کہ اسرائیل یہ کہے کہ اس نے اپنا کام کر لیا اور اب وہ غزہ سے نکل رہا ہے۔ حکومت کے پاس بھی آنے والے دنوں کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ نتن یاہو نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ وہاں ’دہشتگردی کے دوبارہ ابھرنے‘ کو روکنے کے لیے سکیورٹی کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں جو کچھ بھی کرتا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی ہوئی، اسے ان 20 لاکھ سے زائد لوگوں سے نمٹنا ہو گا جو اس سے نفرت کریں گے۔ اسرائیل کو ممکنہ طور پر بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے لیے یہ ثابت کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے پاس یہ طریقے استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟ Read More »

غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں

سرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کے جواب میں غزہ کی پٹی کے نیچے تعمیر کی گئی سرنگوں کی خفیہ بھول بھلیوں کے کچھ حصوں پر حملہ کر رہا ہے۔ اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ترجمان نے جمعرات کو ایک ویڈیو میں کہا کہ ’سمجھیں کہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کے لیے ایک پرت ہے اور پھر حماس کے لیے دوسری پرت۔ ہم اس دوسری پرت تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں جو حماس نے بنائی ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ غزہ کے شہریوں کے لیے بنائے گئے بنکر نہیں ہیں۔ یہ صرف حماس اور دیگر دہشت گردوں کے لیے ہیں تاکہ وہ اسرائیل پر راکٹ داغتے، کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے اور دہشت گردوں کو اسرائیل میں داخل کرتے رہیں۔‘ سرنگوں کے اس نیٹ ورک کے حجم کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے، جسے اسرائیل نے ’غزہ میٹرو‘ کا نام دیا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے علاقے کے نیچے پھیلی ہوئی ہیں جو صرف 41 کلومیٹر طویل اور 10 کلومیٹر چوڑا ہے۔ 2021 میں ہونے والی لڑائی کے بعد، اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے فضائی حملوں میں 100 کلومیٹر سے زیادہ طویل سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس دوران حماس نے دعویٰ کیا کہ اس کی سرنگیں 500 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں اور صرف پانچ فیصد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار کو تناظر میں رکھنے کے لیے جانیں کہ لندن کا انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم 400 کلومیٹر لمبا ہے اور زیادہ تر زمین سے اوپر ہے۔ غزہ میں سرنگوں کی تعمیر کا عمل سنہ 2005 میں اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے انخلا سے قبل ہی شروع ہو چکا تھا لیکن دو سال بعد حماس کی جانب سے علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس میں تیزی لائی گئی، جس کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے حفاظتی وجوہات کی بنا پر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگانا شروع کی۔ اپنے عروج پر، مصری سرحد کے نیچے چلنے والی تقریباً 2500 سرنگوں کو حماس اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے تجارتی سامان، ایندھن اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کیا گیا۔ 2010 کے بعد غزہ کے لیے اس سمگلنگ کی اہمیت اس وقت کم ہو گئی، جب اسرائیل نے اپنی کراسنگ کے ذریعے سامان درآمد کرنے کی اجازت دینا شروع کی۔ مصر نے بعد میں ان سرنگوں کو پانی چھوڑ کر یا تباہ کر کے سمگلنگ کا سلسلہ بند کر دیا۔ حماس اور دیگر دھڑوں نے اسرائیلی افواج پر حملوں کے لیے بھی سرنگیں کھودیں۔ 2006 میں، عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے ساتھ سرحد کے نیچے ایسی ہی ایک سرنگ کا استعمال کرتے ہوئے دو اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا اور تیسرے فوجی گیلاد شالیت کو پکڑ لیا، جسے انھوں نے پانچ سال تک قید رکھا۔ 2013 میں، اسرائیلی فوج نے ایک 1.6 کلومیٹر لمبی، 18 میٹر گہری ایسی سرنگ دریافت کی جس میں کنکریٹ کی چھت اور دیواریں تھیں اور جو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی کبوتز کے قریب تک جاتی تھی۔ اگلے سال اسرائیل نے غزہ میں ایک بڑی فضائی اور زمینی کارروائی کے لیے سرحد کے نیچے ایسی ’دہشت گردی کی سرنگوں‘ کی موجودگی اور استعمال کو بطور حوالہ استعمال کرنے کی بات کی۔ آئی ڈی ایف نے کہا کہ اس کے فوجیوں نے جنگ کے دوران 30 سے زائد سرنگوں کو تباہ کیا لیکن عسکریت پسندوں کا ایک گروپ حملہ کرنے کے لیے ایک سرنگ کو استعمال کرنے میں کامیاب رہا جس میں چار اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ زیر زمین جنگ کی ماہر اور اسرائیل کی ریخمین یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر ڈیفنی رچمنڈ باراک کے مطابق ’سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگیں شکل میں بہت بنیادی ہوتی ہیں، یعنی انھیں بمشکل محفوظ بنایا جاتا ہے۔ وہ ایک بار استعمال کے مقصد کے لیے کھودی جاتی ہیں اور ان کا مقصد ’اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرنا‘ ہوتا ہے۔‘ ان کے مطابق ’غزہ کے اندر کی سرنگیں مختلف ہیں کیونکہ حماس انھیں مستقل بنیادوں پر استعمال کر رہی ہے۔ وہ شاید زیادہ دیر تک قیام کے لیے زیادہ آرام دہ ہیں۔ وہ یقینی طور پر طویل اور پائیدار موجودگی کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘ ’رہنما وہاں چھپے ہوئے ہیں، ان کے پاس کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز ہیں، وہ انھیں نقل و حمل اور مواصلات کی لائنوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بجلی، روشنی اور ریل کی پٹریوں سے لیس ہیں۔ آپ ان میں گھوم پھر سکتے ہیں اور آرام سے کھڑے ہو سکتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ حماس نے حالیہ برسوں میں سرنگوں کی تعمیر اور جنگ کے فن میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ انھوں نے حلب میں شامی باغی جنگجوؤں اور موصل میں دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی حکمت عملیوں کا مشاہدہ کر کے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘ خیال کیا جاتا ہے کہ غزہ کے اندر سرنگیں سطح سے 30 میٹر (100 فٹ) نیچے ہیں اور ان کے داخلی دروازے مکانات، مساجد، اسکولوں اور دیگر عوامی عمارتوں کی نچلی منزلوں پر واقع ہیں تاکہ عسکریت پسند نشاندہی سے بچ سکیں۔ اس نیٹ ورک کی تعمیر کی قیمت مقامی آبادی نے بھی ادا کی ہے۔ اسرائیلی فوج حماس پر الزام لگاتی ہے کہ اس نے غزہ کو ملنے والی لاکھوں ڈالر کی امداد اور ماضی کی لڑائیوں میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کے لیے دیے گئے لاکھوں ٹن سیمنٹ کو سرنگوں کی تعمیر میں استعمال کیا۔ یہ عین ممکن ہے کہ اسرائیل میں گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہونے والے حملوں کے دوران حماس کے عسکریت پسندوں کی طرف سے سرحد کے آر پار بنائی گئی سرنگ کا استعمال کیا گیا ہو۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ کفار عزہ کے کبوتز کے قریب ایک سرنگ کا دہانہ دریافت ہوا ہے۔ اگر اس کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ سرنگ زیر زمین کنکریٹ کی رکاوٹ کے نیچے بنائی گئی ہو گی جس میں جدید ترین اینٹی ٹنل ڈٹیکشن سینسر لگے ہوں گے جو اسرائیل نے 2021 کے آخر میں نصب کر لیے تھے۔ ڈاکٹر ڈیفنی باراک کا کہنا ہے کہ یہ ایک دھچکا ہوگا لیکن

غزہ کے نیچے موجود حماس کی خفیہ سرنگوں کی بھول بھلیاں جو اسرائیل کے لیے بہت بڑا چیلنج ہیں Read More »

Israel airstrikes on Ghaza

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟

غزہ میں جیسے جیسے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حالات خراب ہو رہے ہیں، غزہ پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی رائے عامہ کو تیزی سے تقسیم کر رہا ہے۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے فوراً بعد بہت سے ممالک نے ابتدا میں اسرائیل کی حمایت کی تھی تاہم اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوں اور حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیے جانے والے بڑے زمینی حملوں کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بعض ممالک نے جنگ کے حوالے سے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ہے۔ اس تنازع پر موجودہ بین الاقوامی بحث کا مرکز اب جنگ بندی کا مسئلہ ہے۔ 27 اکتوبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان ’فوری اور پائیدار جنگ بندی‘کا مطالبہ کیا گیا۔ اُردن کی جانب سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی اس قرارداد کے حق میں 120، مخالفت میں 14 ووٹ آئے جبکہ 45 ممالک نے ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے بعد میں جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب آپریشن روکنا حماس کے سامنے ’ہتھیار ڈالنا‘ جیسا ہو گا۔ اس بیان کے بعد سے کچھ ممالک نے اسرائیل پر اپنی تنقید بڑھا دی ہے جبکہ بہت سے ممالک نے اپنے سفیروں کو یا تو اسرائیل سے واپس بُلا لیا ہے یا اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے امریکہ نے بھی اپنا مؤقف نرم کر لیا ہے اور اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے لڑائی میں ’وقفے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل حماس جنگ کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک نے کیا کہا ہے اور اقوام متحدہ میں انھوں نے کس کی حمایت اور کس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔ واضح رہے کہ یہ تمام خیالات مختلف حکومتوں کے ہیں اور بعض دیگر ممالک میں ان خیالات کے بارے میں عوامی جذبات نمایاں طور پر مختلف ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کہاں کھڑا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے اسرائیل کا دوبارہ دورہ کیا ہے اور انسانی بنیادوں میں جنگ بندی کی درخواست کی ہے بعض مغربی ممالک کی حکومتوں نے جنگ کے آغاز سے ہی کُھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے ابتدائی بیانات اس بات کی تصدیق ہیں کہ واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ یہ یقینی بنائے گا کہ ’اسرائیل اپنے شہریوں کا خیال رکھے۔‘ تاہم 2 نومبر کو ایک انتخابی مہم کے پروگرام میں جب صدر بائیڈن سے ایک شخص نے جنگ بندی کے لیے جرح شروع کر دی تو انھوں نے جنگ میں توقف یعنی وقفے کی بات کہی۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں کوئی بھی وقفہ عارضی نوعیت کا ہو گا۔ وائٹ ہاؤس نے عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے مکمل جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کی اس وضاحت کے اگلے ہی دن امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے پر زور دینے اور غزہ میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر بات چیت کرنے کے لیے تل ابیب کے اپنے دوسرے دورے پر روانہ ہوئے۔ بلنکن نے تل ابیب میں نتن یاہو اور دیگر سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’امریکہ اس بات پر قائل ہے اور مجھے لگتا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے ہمارا یقین مزید مضبوط ہوا ہے کہ اس کا بہترین راستہ اور شاید واحد راستہ بھی یہ ہے کہ دو اقوام کے لیے دو (الگ الگ) ملک ہوں۔‘ یورپی ممالک لندن میں دسیوں ہزار لوگ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے متعدد مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں کینیڈا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم نے بھی اس جنگ پر اپنے ابتدائی ردعمل میں ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق‘ کی حمایت پر زور دیا تھا تاہم دونوں ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ حالیہ ہفتوں میں دسیوں ہزار فلسطینی حامی مظاہرین نے سینٹرل لندن کے مظاہروں میں شرکت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ’حماس کے حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ لیکن مختلف رکن ممالک میں جنگ بندی کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جرمنی اور اٹلی نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے لیکن انھوں نے اقوام متحدہ کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سپین اور فرانس جیسے دیگر ممالک نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ فرانس ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا حامی ہے‘ لیکن اب انھوں نے اپنی پوزیشن میں قدرے تبدیلی کی ہے۔ یہ تبدیلی شاید غزہ کے شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں آئی ہے۔ میکخواں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’غزہ میں حماس اور شہری آبادی کے درمیان فرق کیا جانا ضروری ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت اور دہشت گردوں کے خلاف بہتر ہدف پر مبنی کارروائیاں ممکن ہوں۔‘ مشرق وسطیٰ مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے اور بہت سے ممالک نے اسرائیل کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے ابتدا میں حماس کے حملوں کی مذمت کی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم گذشتہ ہفتے بحرین نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور بحرین میں اسرائیلی سفیر ملک چھوڑ کر

غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟ Read More »

Israel Ghaza Operation

اسرائیل کا غزہ میں زمینی آپریشن کو وسعت دینے کا اعلان: کیا غزہ پر زمینی حملہ اپنے مقاصد حاصل کر پائے گا؟

جمعہ کی شام اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے غزہ میں شدید بمباری کے بعد اب اسرائیل نے کہا ہے کہ اس کی زمینی فوج ’آج رات اپنے آپریشنز کو وسعت دیں گی۔‘ اسرائیلی فوج کے ترجمان ڈینیئل ہیگاری نے کہا ہے کہ ’گذشتہ چند گھنٹوں میں ہم نے غزہ میں حملوں میں اضافہ کیا ہے۔ فضائیہ نے زیرزمین ٹارگٹس اور دہشت گردوں کے انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا ہے۔ گذشتہ کئی گھنٹوں سے جاری اسی سرگرمی کے تسلسل میں اب زمینی افواج اپنی سرگرمیوں کو وسعت دیں گی۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کی دفاعی افواج اپنے فوجی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ’تمام جہتوں میں طاقتور اور مؤثر طریقے سے کام کر رہی ہیں۔‘ زمینی آپریشن میں وسعت کی خبر دینے کے بعد فوج کے ترجمان نے غزہ کے شہریوں کو کہا ہے کہ شہر کی جنوب کی جانب نقل مکانی کر جائیں۔ اس سے قبل فوج کے ترجمان نے الزام عائد کیا کہ حماس غزہ میں موجود ہسپتالوں کو زیرزمین سرنگوں اور کمانڈ سینٹرز کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے، تاہم حماس نے اس کی تردید کی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے اس موقع پر خاص طور پر الشفا ہسپتال کا نام لیا اور کہا کہ اسے ’دہشت گردانہ کارروائیوں‘ کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس اعلان سے قبل اشکلون میں موجود بی بی سی کی ٹیم نے رپورٹ دی تھی کہ وہ غزہ شہر میں بڑے دھماکوں کی شدید آوازیں سُن سکتے ہیں۔ بی بی سی ٹیم کے مطابق دھماکوں کی یہ آوازیں گذشتہ دنوں ہونے والی بمباری کی آوازوں سے زیادہ تھیں۔ دوسری جانب غزہ کی پٹی میں مقامی حکومت نے کہا ہے کہ علاقے میں انٹرنیٹ کی سروس معطل یعنی کاٹ دی گئی ہے۔ اس کی تصدیق انٹرنیٹ مانیٹرنگ سروس ’نیٹ بلاکس‘ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ کیا کہ غزہ میں ’کنیکٹیویٹی میں بہت حد تک کمی‘ ہوئی ہے۔ مائندہ بی بی سی جیریمی بوون نے کہا ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں کیا ہونے والا ہے اس کے بارے میں صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق ایک چیز واضح ہے اور وہ یہ کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیوں میں شدت آ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہو گا۔ جیریمی کے مطابق اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ انٹیلیجنس کی بنیاد پر ٹارگٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں مگر اگر وہ زمینی افواج کو بھی غزہ میں بھیج رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جاری جنگ کا ردہم بدل رہا ہے۔ بیت المقدس میں موجود نمائندہ بی بی سی ٹام بیٹمین کے غزہ میں انٹرنیٹ اور فون کی سروسز بظاہر ختم کر دی گئی ہیں۔ انٹرنیٹ اور فون سروسز کی معطلی کے بعد فلسطین ریڈ کراس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کا غزہ کی پٹی میں واقع اپنے آپریشنز سینٹرز سے ’رابطہ مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔‘ اسی طرح فلاحی تنظیم ’ایکشن ایڈ‘ نے بھی کہا ہے کہ ان کا غزہ میں موجودہ اپنے تمام اہلکاروں سے رابطہ ختم ہو گیا ہے۔ بی بی سی کے بہت سے نمائندگان نے بتایا ہے کہ ان کی جانب سے غزہ میں بھیجے گئے واٹس ایپ میسجز کا کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا ہے۔ کیا غزہ پر زمینی حملہ اپنے مقاصد کو پورا کر سکتا ہے؟ پال کربی کا تجزیہ اسرائیل کے رہنما پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ حماس کا نام و نشان مٹا دیا جائے گا اور آئندہ غزہ میں صورتحال کبھی ویسی نہیں ہو گی جیسا کہ پہلے تھی۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’حماس کا ہر رکن ایک چلتی پھرتی لاش (ڈیڈ مین) ہے۔‘ انھوں نے حماس ’ٹیرر مشین‘ اور سیاسی ڈھانچے کو ختم کرنے کا عزم کا اعادہ بھی کیا تھا۔ اسرائیل نے غزہ میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس زمینی آپریشن ’سورڈز آف آئرن‘ کا ہدف اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو اسرائیل کی فوج نے اس سے قبل سوچا تھا اور یہ وہ منصوبہ ہے جو آئندہ کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن کیا اس زمینی آپریشن کے مقاصد حقیقت پسندانہ ہیں اور کیا اسرائیل کے فوج یہ مقاصد حاصل کر پائے گی؟ غزہ میں زمینی افواج کے داخل ہونے کا مطلب گھر گھر لڑائی ہو گا اور اس صورت میں غزہ کی پٹی میں آباد 20 لاکھ سے زیادہ کی شہری آبادی کو بے پناہ خطرات لاحق ہوں گے۔ حماس کے زیرانتظام غزہ میں حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فضائی بمباری میں اب تک 7000 سے زیادہ لوگ پہلے ہی مارے جا چکے ہیں اور سینکڑوں ہزاروں اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں۔ زمین پر آپریشن کے علاوہ اسرائیل کی ڈیفنس فورسزکے پاس ایک اضافی کام غزہ بھر میں نامعلوم مقامات پر قید 220 سے زائد مغویوں کو بچانا بھی ہے۔ اسرائیل کے عسکری تجزیہ کار امیر بار شالوم کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ اسرائیل حماس کے ہر رکن کو ختم کر سکتا ہے، کیونکہ یہ انتہا پسند اسلام کا تصور ہے۔ لیکن آپ حماس کو زیادہ سے زیادہ کمزور کر سکتے ہیں اور اس کی آپریشنل صلاحیتوں کو ختم کر سکتے ہیں۔‘ شالوم کے مطابق حماس کو کمزور کرنا اسے مکمل طور پر ختم کرنے سے زیادہ حقیقت پسندانہ مقصد ہو سکتا ہے۔ سرائیل ماضی میں حماس کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکا ہے اور اس کے حماس کی جانب سے کیے جانے والے راکٹ حملوں کو روکنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’اس سب کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حماس کے پاس اب اسرائیلی شہریوں کو دھمکی دینے یا قتل کرنے کی عسکری صلاحیت نہیں ہونی چاہیے۔‘ تل ابیب یونیورسٹی کے فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ مائیکل ملسٹین اس بات سے متفق ہیں کہ حماس کو تباہ کرنا انتہائی پیچیدہ ہو گا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ یقین کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہو گا کہ آپ اُس خیال کو جڑ سے

اسرائیل کا غزہ میں زمینی آپریشن کو وسعت دینے کا اعلان: کیا غزہ پر زمینی حملہ اپنے مقاصد حاصل کر پائے گا؟ Read More »

Ghaza Poetess

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں

غزہ (این این آئی)غزہ پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں معروف مصنفہ، شاعرہ اور ناول نگار حبا ابوندا بھی شہید ہوگئی ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کی معروف مصنفہ حبا ابوندا نے اپنی شہادت سے ایک روز قبل سوشل میڈیا پر پیغام جاری کیا تھا جس میں اْنہوں کہا تھا کہ ” اگر ہم مرجائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم ہیں اور ہم سچے ہیں”۔32 سالہ مصنفہ حبا ابوندا کو اپنے ناول ”آکسیجن ازناٹ فاردی ڈیڈ”سے شہرت ملی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر حبا ابوندا کا ایک ویڈیو کلپ بھی وائرل ہورہا ہے۔ وائرل ویڈیو میں حبا ابوندا سوال کر رہی ہیں کہ ”ہم کس جہنم میں رہ رہے ہیں؟ ایسا کیسے کب تک چلے گا؟”اس سے قبل اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں وہ 12 سالہ فلسطینی یوٹیوبر عونی الدوس بھی شہید ہوگیا تھا جو یوٹیوب پر ایک لاکھ سبسکرائبرز مکمل ہونے کا خواب سجائے ہوا تھا۔عونی الدوس نے غزہ پر اسرائیلی حملوں سے کچھ عرصہ قبل ہی یوٹیوب پر اپنا چینل بنایا تھا، وہ اپنے چینل پر ”گیمنگ ویڈیوز” اپ لوڈ کرتے تھے اور اْن کا خواب تھا کہ وہ ایک مشہور اور کامیاب انسان بنیں۔

غزہ کی معروف شاعرہ بھی اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں Read More »

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔

غزہ: غزہ کے ایک اسپتال میں منگل کے روز ہونے والے دھماکے میں تقریباً 500 فلسطینی ہلاک ہو گئے جس کے بارے میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا تھا لیکن اسرائیلی فوج نے “فلسطینی جنگجو گروپ کی جانب سے ناکام راکٹ لانچ” کا الزام لگایا۔7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیلی کمیونٹیز پر سرحد پار حماس کے ایک مہلک حملے کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے گنجان آباد علاقے کے خلاف بے لگام بمباری کی مہم شروع کرنے کے بعد سے یہ دھماکہ غزہ میں سب سے خونریز ترین واقعہ تھا یہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کے موقع پر ہوا ہے تاکہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے حماس کے ساتھ جنگ ​​میں ملک کی حمایت کا اظہار کیا جا سکے اور یہ سننے کے لیے کہ اسرائیل کس طرح شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ رائٹرز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ دھماکے کا ذمہ دار کون تھا۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام حکومت کی وزیر صحت مائی الکائیلہ نے اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگایا۔ غزہ کے ایک شہری دفاع کے سربراہ نے کہا کہ 300 افراد ہلاک ہوئے اور وزارت صحت کے ایک اہلکار نے کہا کہ 500 افراد ہلاک ہوئے۔منگل کے واقعے سے پہلے، غزہ میں صحت کے حکام نے کہا تھا کہ اسرائیل کی 11 روزہ بمباری میں کم از کم 3,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیلی قصبوں اور کبوتز میں گھسنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔تاہم، اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے العہلی العربی اسپتال میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، اور تجویز کیا کہ اس اسپتال کو انکلیو کے فلسطینی اسلامی جہاد ملٹری گروپ کے ناکام راکٹ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک ترجمان نے کہا، “آئی ڈی ایف کے آپریشنل سسٹمز کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ راکٹوں کا ایک بیراج غزہ سے فائر کیا گیا تھا، جو غزہ میں الاہلی ہسپتال کے قریب سے گزرا تھا، جس وقت اسے نشانہ بنایا گیا تھا۔” ترجمان نے مزید کہا کہ “ہمارے ہاتھ میں متعدد ذرائع سے حاصل ہونے والی انٹیلی جنس اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے ہسپتال کو نشانہ بنانے والے ناکام راکٹ کے لیے اسلامی جہاد ذمہ دار ہے۔” اسلامی جہاد کے ترجمان، داؤد شہاب نے رائٹرز کو بتایا: “یہ جھوٹ اور من گھڑت ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ قابض اس خوفناک جرم اور قتل عام پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جو انہوں نے شہریوں کے خلاف کیے تھے۔ 2021 میں اسرائیل اور حماس کے آخری تنازع کے دوران، اسرائیل نے کہا کہ حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو گروپوں نے غزہ سے تقریباً 4,360 راکٹ فائر کیے جن میں سے تقریباً 680 اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں گرے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی سیکیورٹی فورسز نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے اور صدر محمود عباس کے خلاف نعرے بازی کی کیونکہ دھماکے کے بعد عوام کا غصہ ابل پڑا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں مغربی کنارے کے کئی دوسرے شہروں میں شروع ہوئیں، جن پر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار کون تھا، جس کے بارے میں حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے مریض، خواتین اور بچے مارے گئے اور دیگر بے گھر ہو گئے، یہ ممکنہ طور پر بحران پر قابو پانے کے لیے اور بھی پیچیدہ سفارتی کوششیں کرے گا۔ ایک سینئر فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ عباس نے دھماکے کے بعد بائیڈن کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ یہ ملاقات اردن میں ہونے والی تھی، جہاں عباس کی رہائش ہے، لیکن فلسطینی عہدیدار نے کہا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کی حکومت کی نشست رام اللہ واپس جا رہے ہیں۔ حماس کے حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر منگل کے اسپتال میں ہونے والے دھماکے کا الزام اسرائیلی فضائی حملے پر عائد کرنے کے بعد، عرب ممالک، ایران اور ترکی نے اس کی شدید مذمت کی۔ فلسطینی وزیر اعظم نے اسے “ایک ہولناک جرم، نسل کشی” قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک بھی اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ Read More »