Dev Ratudi

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے   دیو رتوڑی کی ایک فلم کا چینی زبان میں پوسٹر بی واٹر مائی فرینڈ۔۔۔’ یعنی آپ پانی کی طرح ہو جاؤ۔ خود کو اتنا لچکدار اور آسان بناؤ کہ آپ ہر صورتحال اور ماحول کے مطابق ڈھل سکو۔ اس ڈائیلاگ سے اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے دیو رتوڑی کہتے ہیں: ’میری زندگی میں بروس لی (مارشل آرٹ کے مشہورِ زمانہ اداکار) کے اس مکالمے کی وجہ سے یو ٹرن آیا۔ دوسری تبدیلی بروس لی کی زندگی پر مبنی فلم ڈریگن دیکھنے کے بعد آئی۔‘ ’میں نے بروس لی کو دیکھ کر مارشل آرٹ سیکھا، وہ فن آج میرے لیے مفید ثابت ہو رہا ہے۔ میری فلموں میں ایکشن بہت ہے، اس لیے میں اس فن کا بھرپور استعمال کرتا ہوں کہانی انڈیا کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے گاؤں کیمریا سور کے 46 سالہ دوارکا پرساد رتوڑی کی ہے جنھیں آج دنیا ’دیو رتوڑی‘ کے نام سے جانتی ہے۔ بہرحال جب پہلی بار سنہ 1998 میں انھیں ممبئی میں ایک بار کیمرے کا سامنا کرنے کا موقع ملا تھا تو وہ بہت زیادہ نروس ہو گئے تھے۔ اس وقت انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن وہ بھی آنے والا ہے جب چینی فلم انڈسٹری میں نہ صرف وہ بہت شہرت کے حامل ہوں گے بلکہ اتنے کامیاب ہو جائیں گے کہ چین کے سکولوں کی نصابی کتابوں میں ان کی کامیابیوں کا تذکرہ ہو گا۔ دیو رتوڑی کی جدوجہد کی کہانی انھی کی زبانی سنیے۔ یہ آٹھویں کلاس کی بات ہے۔ اس وقت میرے گھر کی مالی حالت اتنی خراب تھی کہ میں ننگے پاؤں سکول جاتا تھا۔ اس وقت میری فیملی کے پاس گاؤں کے سرکاری سکول کی ایک روپیہ فیس بھی ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا تھا کہ جب میں سکول سے گھر لوٹتا تھا تو گھر میں کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ہم پانچ بھائی بہن تھے، ہمارے والد جو کماتے تھے اس میں ہمارے خاندان کا گزارا انتہائی مشکل سے ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے میں خواہش کے باوجود دسویں جماعت سے آگے نہیں پڑھ سکا۔ خراب حالات کی وجہ سے 1991 میں دسویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں روزگار کی غرض سے دہلی پہنچا۔ وہاں ایک ڈیری فارم میں 350 روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے لگا۔ مجھے یہ نوکری اپنے چچا کی سفارش پر ملی تھی۔ وہ دہلی میں رہتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔ میں کاپ سہیرا اور آس پاس کے گاؤں میں ڈیری فارم سے ملنے والا دودھ سائیکل پر بیچتا تھا۔ مجھے خوشی تھی کہ نوکری ملنے کے ساتھ ساتھ میں نے سائیکل چلانا بھی سیکھ لیا تھا۔ میں تقریباً ایک سال تک ڈیری میں کام کرتا رہا اور پھر وہیں ایک بلڈر (تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والے شخص) کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ یہاں میں کبھی اُن کی گاڑی صاف کرتا اور کبھی اسے چلاتا۔ اب میری تنخواہ 500 روپے تھی۔ میں نے 1993 سے 2004 تک ان کے ساتھ 11 سال کام کیا۔ کبھی کبھی ان کے سخت رویے کی وجہ سے پریشانی ہو جاتی تھی۔ اپنی زندگی کے اہم موڑ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں ایک بار 1998 میں ان سے ناراض ہو گیا تو میں نے ان کا کام یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ میں ہیرو بننے جا رہا ہوں۔‘ دیو نے کہا: ‘اس وقت مجھے بروس لی کی فلمیں دیکھنے کا جنون تھا۔ بروس لی کی شاید ہی کوئی ایسی فلم ہو گی جو میں نے نہ دیکھی ہو گی۔‘ پہلی فلم جو میں نے دیکھی وہ بروس لی کی ’انٹر دی ڈریگن‘ تھی۔ بروس لی کی فلمیں دیکھنے کے بعد مجھے مارشل آرٹس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ان فلموں کو ڈب کیا گیا تھا، اور اسی وجہ سے ان میں بولی جانے والی انگریزی صاف اور آسان تھی، جو میرے لیے انگریزی سیکھنے کا ایک اچھا موقع تھا۔ میں نیچے لکھے گئے سب ٹائٹلز پڑھ کر انگریزی سیکھتا تھا۔ میں بروس لی کی زندگی پر مبنی فلم ڈریگن کو دیکھ کر سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس میں بروس لی کی ہانگ کانگ سے امریکہ منتقل ہونے کے وقت سے لے کر تمام جدوجہد کو دکھایا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر مجھے لگا کہ اگر یہ آدمی کر سکتا ہے تو میں بھی کر سکتا ہوں۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد مجھ پر ایک بھوت سوار ہو گیا اور میں ہیرو بننے کے لیے ممبئی چلا گیا۔ میں نے وہاں ایک سال تک مارشل آرٹ سیکھا۔ 1998 میں پنیت اِسّر (کیریکٹر ایکٹر جن کے ساتھ لڑتے ہوئے فلم قلی میں امیتابھ بچن زخمی ہو گئے تھے) ہندوستانی نامی ٹی وی سیریل کی ہدایتکاری کر رہے تھے اور انھوں نے مجھ سے کیمرے کے سامنے ایک مختصر ڈائیلاگ بولنے کے لیے کہا۔ میں نے ڈائیلاگ یاد کر لیا تھا، لیکن جیسے ہی لائٹ اور کیمرہ میرے چہرے پر پڑا، میں سب کچھ بھول گیا اور کچھ نہ کہہ سکا۔ میں اس دن بہت اداس تھا۔ کچھ دنوں بعد میں واپس دہلی آ گیا۔ میں اپنے فلمی عزائم میں ناکام ہو گیا تھا، لیکن ممبئی میں رہتے ہوئے میں نے مارشل آرٹس میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ دہلی میں ویٹر کی نوکری سے چین کا سفر انھوں نے آگے کی کہانی بتاتے ہوئے کہا: ’دہلی واپس آنے کے بعد 2004 میں مجھے ہریانوی فلم ‘چھنو دی گریٹ’ میں کام کرنے کا موقع ملا، جس میں میرا تقریباً چھ منٹ کا ایکشن رول تھا۔‘ لیکن میں بروس لی کو اپنے دماغ سے نہیں نکال سکا۔ ہر وقت میرے ذہن میں یہی فکر رہتی تھی کہ میں بروس لی کی سرزمین تک کیسے پہنچوں گا۔ مجھے وہاں مارشل آرٹ سیکھنا تھا۔ میں وہاں جانا چاہتا تھا۔ اس وقت میرے ذہن میں ایک غلط فہمی تھی کہ تمام چینی لوگ مارشل آرٹ جانتے ہیں۔ چین جانے میں مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے دیو کہتے ہیں: ’لیکن اب میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ چین جانے کے لیے

غربت سے نکل کر چین میں سٹار بننے والا انڈین شہری، جس کی کامیابی کی کہانی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے Read More »