Electricity

Electricity Over billing scandal

بجلی کمپنیوں کی دو ماہ میں ایک کروڑ سے زائد صارفین سے اوور بلنگ ثابت، وزارت توانائی

 اسلام آباد: نیپرا کے بعد وزارت توانائی نے بھی بجلی کمپنیوں کی صارفین سے اوور بلنگ کا انکشاف کردیا۔ تفصیلات کے مطابق پاورڈویژن کی جانب سے قائم کی گئی تحقیقیاتی کمیٹی نے بھی بجلی کمپنیوں کی جانب سے لاکھوں صارفین کی زائد بلنگ کا اعتراف کرلیا۔ نیپرا کی تحقیقاتی رپورٹ کے جواب میں پاور ڈویژن نے بھی رپورٹ تیار کرلی جس میں زائد بلنگ کے ساتھ خراب میٹرز، صارفین کے سلیب تبدیل ہونے کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں پاور ڈویژن کے حکام نے نیپرا ٹیم کے اوور بلنگ کی رپورٹ تیار کرنے کے طریقہ کار کو غلط اور غیر موثر قرار بھی دیا اور کوالٹی کنٹرول سمیت ڈیٹا پروسیسنگ کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی۔ پاور ڈویژن نے کہا کہ سیمپلنگ کرتے وقت نیپرا ٹیم نے جانبداری کا مظاہرہ کیا اور بجلی کمپنیوں کی آپریشنل مشکلات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔ وزارت توانائی کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمپٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جولائی میں45لاکھ سے زیادہ بجلی صارفین کو31 دن سے زائد کے بل بھیجےگئے، ان میں40 لاکھ صارفین کو32 سے 34 دن کے بل بھجوائے گئے۔ پاور ڈویژن نے 3 لاکھ81 ہزار 510 صارفین کے خراب میٹرز سے زائد بلنگ کا اعتراف کیا اور رپورٹ میں انکشاف کیا کہ جولائی میں45 لاکھ43  ہزار717صارفین کو زیادہ دن کے بلز بھیجے گئے۔ جولائی میں سلیب کی تبدیلی سے 8 لاکھ 46 ہزار 468 صارفین متاثر ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی میں ایک لاکھ 98 ہزار 166 صارفین پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکٹد میں چلے گئے، اسی طرح 11 ہزار276 لائف لائن سے نان لائف لائن میں چلے گئے۔ وزارت توانائی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگست میں 55 لاکھ 74 ہزار 275 صارفین کو زیادہ دن کے بلز بھیجے گئے، سلیب کی تبدیلی سے 8 لاکھ 25 ہزار562 صارفین متاثر ہوئے۔ وزارت توانائی کی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر بھی پہنچی کہ اگست میں ایک لاکھ 13 ہزار 879 صارفین پروٹیکٹڈ سے نان پروٹیکیڈ میں چلے گئے جبکہ 6 ہزار 217 صارفین  لائف لائن سے نان لائف لائن میں چلے گئے۔

بجلی کمپنیوں کی دو ماہ میں ایک کروڑ سے زائد صارفین سے اوور بلنگ ثابت، وزارت توانائی Read More »

بجلی مزید مہنگی، فی یونٹ قیمت میں 3 روپے 7 پیسے اضافہ

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان) نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی مزید مہنگی کر دی۔ نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کا فیصلہ جاری کر دیا جس کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 7 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے، قیمتوں میں اضافہ اکتوبر کی فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق لائف لائن اور کے الیکٹرک کے علاوہ تمام صارفین پر ہو گا۔ نیپرا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اکتوبر میں ریفرنس سے کم بجلی پیدا کی گئی، اکتوبر میں 9 ارب 25 کروڑ یونٹ بجلی پیدا کی گئی، پن بجلی ذرائع سے 3 ارب 11 کروڑ یونٹ بجلی پیدا کی گئی۔

بجلی مزید مہنگی، فی یونٹ قیمت میں 3 روپے 7 پیسے اضافہ Read More »

بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان، صارفین پر 40 ارب کا اضافی بوجھ

 اسلام آباد: بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کیے جانے کا امکان ہے، جس سے صارفین پر 40 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ ایگنایٹ  پاکستان  کے مطابق بجلی کی قیمت میں 3 روپے 53 پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان ہے۔ یہ اضافہ اکتوبر 2023ء کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے، جس پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے سی پی پی اے کی درخواست پر آج سماعت کی۔ مزید یہ بھی پڑھیں عالمی بنک کی مخالفت کے باوجود بجلی مہنگی  فیول پرائس اور بقایا جات کی مد میں سی پی پی اے کی درخواست پر بجلی کی قیمت میں من و عن اضافے کی صورت میں جی ایس ٹی سمیت بجلی صارفین پر تقریباً 40 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ نیپرا کے مطابق سی پی پی اے کی درخواست پر سماعت مکمل ہو چکی ہے۔ اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ جاری کیا جائے گا

بجلی مزید مہنگی ہونے کا امکان، صارفین پر 40 ارب کا اضافی بوجھ Read More »

Harkishan Lal

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘

آج کے اِس تیز رفتار دور میں بھی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچنے میں لگ بھگ آدھا دن لگ جاتا ہے، اور لالا ہرکِشن لال تو سنہ 1882 میں اِس سفر پر نکلے تھے۔ وہ بھی پیدل! 13 اپریل 1864 کو پیدا ہونے والے ہر کشن لال کو والدین کی وفات کے بعد چچا لالا ہرجس رائے نے پالا اور پڑھایا۔ ہرکشن لال خود بھی لائق طالبعلم تھے اور وظیفہ لیتے تھے۔ وظیفے ہی پر انھیں لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لینا تھا لیکن سفر کے لیے پیسے نہ تھے چنانچہ وہ پیدل ہی چل پڑے۔ اُن کے بیٹے کے ایل گابا کے مطابق انھوں نے ’کئی دن سفر کیا، زیادہ تر پیدل اور کہیں کوئی چھکڑا مل جاتا تو اس پر۔ دن میں سفر کرتے اور رات کو سڑک کنارے پُلوں پر سو جاتے۔‘ گورنمنٹ کالج لاہور میں ریاضی، معاشیات اور فارسی اُن کے پسندیدہ مضامین تھے۔ جب انھوں نے بی اے میں صوبے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تو انھیں کیمبرج میں تین سالہ پڑھائی کے لیے سکالرشپ مل گیا۔ کتب فروشوں کا مقروض جو بینکوں کا مالک بنا گابا لکھتے ہیں کہ ‘1890 میں انگلستان میں لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رقم کی امید میں ہندوستان واپس آئے۔ ان میں سے زیادہ تر قرضے کتب فروشوں کے تھے۔ سو گورنمنٹ کالج میں ریاضی اور اورینٹل کالج میں فارسی پڑھانے لگے۔ سنہ 1891 میں دوبارہ بیرون ملک گئے اور اس کے بعد 1892 میں پہلے ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر لاہور میں وکالت شروع کی۔ سنہ 1896 میں انھوں نے اپنے چند دوستوں سے مدد طلب کی، جن میں سے ایک دیال سنگھ مجیٹھیا تھے اور بھارت انشورنس کمپنی شروع کی، جو ایک مقامی شخص کی اپنی نوعیت کی پہل کاری تھی۔ اس سے ایک سال قبل انھوں نے پنجاب نیشنل بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ بینک کے پہلے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں مجیٹھیا چیئرمین اور لالا ہر کشن اعزازی سیکریٹری تھے۔ لالا لاجپت رائے انارکلی لاہور میں آریا سماج مندر کے سامنے قائم اس بینک کے پہلے کھاتے دار بنے۔ ان کے چھوٹے بھائی بینک کے مینیجر تھے۔ لاہور سے باہر پہلی شاخ 1900 میں راولپنڈی میں کھولی گئی اور سنہ 1904 میں بینک نے کراچی اور پشاور میں اپنی شاخیں قائم کیں۔ لالا ہرکشن لال، مجیٹھیا کے اخبار دی ٹربیون کے ٹرسٹی بھی تھے۔ انھوں نے 1901 سے 1906 تک، کئی کمپنیاں اور مالیاتی ادارے قائم کیے جیسے پنجاب کاٹن پریس کمپنی، پیپلز بینک آف انڈیا، امرتسر بینک، کان پور فلور ملز، سنچری فلور ملز، صابن کے کارخانے، اینٹوں کے بھٹے، آرے، برف خانے اور لانڈری۔ پنجاب نیشنل بینک سمیت کچھ ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ بینک پاکستان بننے سے پہلے ہی دلی منتقل ہو گیا تھا۔   لاہور میں آٹھ آنے فی یونٹ بجلی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت سرکاری دفاتر میں بجلی کی فراہمی چاہتی تھی۔ حکومت نے خود سے کئی بار اس ضمن میں کوشش کی جو ناکام رہی۔ سنہ 1910 میں اس کے لیے اشتہار دیا گیا جس میں یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ کامیاب بولی دینے والے کو لاہور شہر میں بجلی فراہم کرنے کا لائسنس بھی دیا جائے گا۔ اس اشتہار کے جواب میں بہت سی مقامی اور برطانوی کمپنیوں کے ٹینڈر آئے۔ اسی طرح کے کاروبار میں مصروف ’دلی الیکٹرک ٹرام ویز اینڈ لائٹنگ کمپنی لمیٹڈ‘ کے پاس لائسنس حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ تاہم اس کمپنی کے لندن آفس نے ٹینڈر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت لالا ہرکشن لال اس کمپنی کے لوکل بورڈ کے ڈائریکٹر تھے۔ 24 فروری 1911 کو اس فیصلے کا علم ہونے پر، لالا نے یہ کام خود ہی کرنے کا انتخاب کیا۔ ٹینڈر جمع کرانے کے لیے صرف چار دن باقی تھے۔ لالا نے اپنے بینک، پیپلز بینک آف انڈیا، کے نام پر ٹینڈر جمع کروا دیا جو اسی سال جولائی میں منظور ہو گیا۔ حکومت کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ پندرہ منٹ سے اوپر بجلی جانے پر ہر بار 25 سے 200 روپے جرمانہ ہو گا۔ فروری 1912 میں لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی پانچ لاکھ روپے کے سرمائے سے قائم ہوئی۔ 21 مارچ 1912 کو رجسٹرڈ ہوئی۔ لا لا کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے پہلے چیئرمین بنے۔ تاریخ دان احمد سعید کے مطابق نومبر 1912 میں لاہور الیکڑک سپلائی کمپنی نے بجلی کی سپلائی کا سلسلہ شروع کیا اور گول باغ میں ایک افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاح پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر(1908-1913) لوئی ڈین نے کیا۔ تب کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ڈین نے اپنی تقریر میں کہا: ’لاہور کو بجلی سے روشن کرنے کے منصوبے کا اعلان ہر ممکنہ جگہ کیا گیا تھا تاکہ کوئی ایسا شخص اس کا بیڑا اٹھائے جو عوامی جذبے سے معمور ہو۔ تاہم یہ ایک ایسا کام تھا جسے خود ہندوستانی عوام نے انجام دیا۔ بنیادی طور پر ایسا جناب ہرکشن لال کی پہل کی وجہ سے ہے کہ یہ منصوبہ اتنی کامیابی سے شروع ہوا ہے۔‘ اگرچہ سپلائی تو 18 نومبر کو شروع کردی گئی تھی لیکن لائسنس کا گزٹ نوٹیفیکیشن 25 نومبر کو ہوا۔ سرکاری عمارتوں کو سب سے پہلے بجلی دی گئی۔ کنکشن کے لیے درخواستیں تیزی سے آئیں۔ چند ماہ کے اندر (31 مارچ 1913 کو ختم ہونے والے مالی سال کے اختتام تک) صارفین کی تعداد 98 تک پہنچ گئی تھی۔ اگلے سال تک یہ تعداد 542 اور اس کے بعد کے سال میں یہ بڑھ کر 884 ہو گئی۔ کمپنی نہ صرف اس مختصر وقت میں تمام ابتدائی اخراجات نمٹانے میں کامیاب رہی بلکہ ساڑھے سات فیصد منافع کمانے کا اعلان بھی کیا۔   بجلی کی طلب بڑھ رہی تھی اور مشینوں کی تبدیلی بھی درکار تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کی وجہ سے کافی مشکلات تھیں۔ اس کے باوجود کمپنی، اپنے وسائل کے محتاط استعمال سے، سال 1915-16 کے لیے نو فیصد کے منافع کا اعلان کرنے میں کامیاب رہی۔ اگلے سالوں میں یہ بڑھتا گیا۔ احمد سعید اپنی کتاب ’لاہور اک شہرِ بے مثال‘ میں لاہور سے چھپنے والے اخبار ’بندے ماترم‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

لاہور کو بجلی دینے والے پنجاب کے بڑے سرمایہ کار جو آخری وقت میں ’کوڑی کوڑی کو محتاج ہوئے‘ Read More »

جنوبی پنجاب میں جاری آپریشن کے دوران 142 بجلی چور گرفتار

ملتان الیکٹرک سپلائی کمپنی ( میپکو) کے جنوبی پنجاب میں بجلی چوروں اور نادہندگان کے خلاف جاری آپریشن کے دوران ایک روز میں مزید 142 صارفین کو بجلی چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا گیا۔ ترجمان میپکو کے مطابق 88 بجلی چوروں کےخلاف مقدمات درج کرائے گئے جبکہ 6 افراد کو موقع سے بجلی چوری کرتے ہوئے پکڑ لیا۔ میپکو کی جانب سے بجلی چوروں کو 77 لاکھ 30 ہزار روپے جرمانہ عائد کیاگیا، جس میں سے 18 لاکھ 90 ہزار روپے جرمانہ موقع پر وصول کر لیا گیا۔ میپکو ذرائع کے مطابق احمد یار اور قبولہ سب ڈویژن کے علاقوں میں 50 لاکھ روپے سے زیادہ واجبات کی عدم ادائیگی پر 10 ٹیوب ویل کنکشن منقطع کر کے ٹرانسفارمرز اتار لئے گئے۔ واضح رہے کہ جنوبی پنجاب میں نادہندگان کے خلاف ریکوری مہم کے دوران ایک روز میں نادہندگان سے 7 کروڑ 18 لاکھ روپے وصول کرلیے گئے۔

جنوبی پنجاب میں جاری آپریشن کے دوران 142 بجلی چور گرفتار Read More »

Over-billing grand drama

ملک میں بجلی صارفین سے اربوں روپے کی اوور بلنگ کا انکشاف

لاہور( این این آئی)ملک میں بجلی صارفین سے اربوں روپے کی اوور بلنگ کا انکشاف ہوا ہے،اگست میں تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی صارفین سے اربوں روپے زائد کے بل وصول کیے۔نجی ٹی وی کے مطابق نیپرا نے اگست میں اوور بلنگ کے معاملے پر نوٹس اور انکوائری کا فیصلہ کیا تھا۔ نیپرا ذرائع کے مطابق انکوائری رپورٹ میں اگست کے بلوں میں اوور بلنگ ثابت ہوگئی۔ اربوں روپے کی اوور بلنگ میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں ملوث پائی گئی ہیں۔ نیپرا ذرائع کے مطابق لیسکو اور حسیکو ریجن میں سب سے زیادہ اوور بلنگ ہوئی،ڈسکوز کی جانب سے پروٹیکٹڈ صارفین سے نان پروٹیکٹڈ والے بل وصول کیے گئے اور اوور بلنگ کے لیے ریڈنگ میں تاخیر کا حربہ استعمال کیا گیا۔ ریڈنگ میں تاخیر کر کے پروٹیکٹڈ صارفین کو نان پروٹیکٹیڈ میں شامل کیا گیا۔ذرائع کے مطابق مقررہ تاریخ کے بجائے جان بوجھ کر 3 سے 4 دن تاخیر سے ریڈنگ لی گئی، لیسکو اور حیسکو کے علاوہ دیگر ڈسکوز میں بھی اوور بلنگ ہوئی،نان پروٹیکٹڈ صارفین سے بھی اوربلنگ کی گئی۔ ڈسکوز کی جانب سے میٹر تبدیلی کے نام پر بھی اضافی وصولیاں کی گئیں۔

ملک میں بجلی صارفین سے اربوں روپے کی اوور بلنگ کا انکشاف Read More »

افراط زر کی شرح چار ماہ کی بلند ترین سطح پر واپس آ گئی۔

بجلی اور  ایندھن کی قیمتوں میں انتظامی اضافے کی وجہ سے ستمبر میں مہنگائی 31.4 فیصد پر اسلام آباد: بجلی اور پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں  اضافے کی وجہ سے ستمبر میں پاکستان میں افراط زر کی شرح 31.4 فیصد پر واپس آگئی – جو کہ چار ماہ کی بلند ترین شرح ہے، جس نے صارفین کو اس وقت سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جب غربت اور بے روزگاری پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ انڈیکس میں بنیادی طور پر توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوا،       ۔ بجلی کا ایک یونٹ گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں آج کل 164 فیصد زیادہ مہنگا ہے۔ اسی طرح، گیس کی قیمت ایک سال پہلے کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ ہے – یہاں تک کہ گیس کی قیمتوں میں آئندہ اضافے سے پہلے۔ پیٹرول بھی ایک سال پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ مہنگا ہے، 324 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ غیر خراب ہونے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں، جیسے سیاسی طور پر حساس چینی، اوپر کی رفتار پر رہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) – قومی ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ادارے نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ گزشتہ ماہ صارفین کی قیمتوں کا انڈیکس ایک سال پہلے کے مقابلے میں 31.4 فیصد تک بڑھ گیا۔ یہ پچھلے چار مہینوں میں سب سے زیادہ افراط زر کی ریڈنگ تھی اور یہ بھی چار مہینوں میں پہلی بار جب اس نے دوبارہ 30 فیصد رکاوٹ کو عبور کیا۔ تازہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک بار پھر شرح سود کو 22 فیصد پر بلند رکھنے سے خزانے اور کاروباری اداروں پر بھاری اخراجات اٹھانے کے باوجود 21 فیصد کے اپنے سالانہ افراط زر کے ہدف کو وسیع مارجن سے کھونے کے لیے تیار ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ سپلائی کے جھٹکے، کرنسی کی قدر میں کمی اور ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پر کوئی چیک نہ ہونے کی وجہ سے مئی میں پاکستان کی سالانہ افراط زر کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح 38 فیصد تک پہنچ گئی۔ عبوری وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال تک 95 ملین افراد یا تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ مہنگائی ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے جب روزی روٹی کے مواقع کم ہیں اور پچھلے دو سالوں میں لوگوں کی قوت خرید میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ پی بی ایس کے مطابق مہنگائی کی شرح شہروں میں 29.7 فیصد اور دیہی علاقوں میں 34 فیصد تک پہنچ گئی جہاں ملک کی بڑی اکثریت رہتی ہے۔ پی بی ایس کے مطابق، خوراک کی افراط زر شہری علاقوں میں 34 فیصد اور دیہی علاقوں میں 34.4 فیصد رہی۔ پی بی ایس نے رپورٹ کیا کہ گزشتہ ماہ چینی ایک سال پہلے کے مقابلے میں 94 فیصد تک مہنگی ہوئی تھی – پی ایم ایل (ن) کی گزشتہ حکومت کے چینی برآمد کرنے کے غلط فیصلے کی بدولت۔ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کے پیچھے اشیا کی عالمی قیمتیں، سبسڈی کا خاتمہ، بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کرنسی کی قدر میں کمی اہم وجوہات تھیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیچھے نوٹوں کی ضرورت سے زیادہ چھپائی بھی ایک وجہ ہے۔ مرکزی بینک نے شرح سود 22 فیصد مقرر کی تھی جو کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے لیکن وہ انڈیکس کو گرفت میں نہیں لے سکا۔ شاید ہی کوئی قابل استعمال سامان ہو جس نے حالیہ مہینوں میں اپنی قیمتوں میں اضافہ نہ دیکھا ہو۔ بنیادی افراط زر، جس کا شمار غیر مستحکم توانائی اور خوراک کی قیمتوں کو چھوڑ کر کیا جاتا ہے، ستمبر میں شہری علاقوں میں 18.6% اور دیہی علاقوں میں 27.3% تک بڑھ گئی – مرکزی بینک کی شرح سود سے بہت زیادہ۔ شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود بنیادی افراط زر میں کمی نہیں آئی۔ کھانے اور غیر الکوحل مشروبات کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ 33 فیصد اضافہ ہوا۔ غیر خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں 38.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا لیکن بہتر سپلائی کی وجہ سے خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں 5 فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔ ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کنزیومر پرائس گروپ کے لیے افراط زر کی شرح 31.3 فیصد تھی۔ گندم کے آٹے – لوگوں کی اکثریت کے لیے اہم خوراک – کی قیمتوں میں 88 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ مصالحہ جات کی قیمتوں میں 79 فیصد اور چائے کے نرخوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ پی بی ایس کے مطابق، چاول – ایک اور اہم غذائی شے – کی قیمتوں میں تقریباً دو تہائی اضافہ دیکھا گیا۔ پی بی ایس کے مطابق، نان فوڈ کیٹیگری میں، بجلی کے چارجز میں 164 فیصد اضافہ ہوا، نصابی کتابیں 102 فیصد مہنگی ہوئیں، اور گیس کے چارجز میں 63 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال کے جولائی تا ستمبر کے عرصے کے لیے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی کی اوسط شرح 29 فیصد رہی جو کہ رواں مالی سال کے 21 فیصد کے سرکاری ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں پہلی سہ ماہی میں مہنگائی کی اوسط شرح 32 فیصد تھی جبکہ شہری علاقوں میں یہ 27 فیصد تھی۔

افراط زر کی شرح چار ماہ کی بلند ترین سطح پر واپس آ گئی۔ Read More »

حکومت نے فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی

اسلام آباد (این این آئی)نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد بجلی مہنگی کرنے کا اپنا فیصلہ جاری کردیا جس کے مطابق فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی گئی ،نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دی تھی،اب وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نیپرا نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی صارفین کو 6 ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی، بجلی صارفین اکتوبر 2023 تا مارچ 2024 تک ادائیگیاں کریں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا اطلاق کے الیکڑک صارفین پر بھی ہو گا۔  

حکومت نے فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی Read More »