Elections

Elections and Controversies

انتخابات اور تنازعات

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) انتخابات کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو ختم کرتے ہوئے عام انتخابات کا شیڈول نا صرف جاری ہو چکا ہے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔ ملک بھر میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی وصولی شروع ہو چکی ہے جو 22 دسمبر تک جاری رہے گی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے عام انتخابات کی راہ میں حائل تمام آئینی اور قانونی رکاوٹیں دور کر دیں۔ ماضی میں حلقہ بندیوں سے متعلق ہائیکورٹس کے فیصلے انتخابی عمل کو شدید متاثر کرتے رہے مگر اس مرتبہ عدالت عظمیٰ نے ایک اصول طے کر دیا ہے کہ انتخابی شیڈول آنے کے بعد انتخابی عمل کو ڈی ریل نہیں کیا جاسکتا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلیں انتخابات کے بعد سنی جائینگی، حلقہ بندیوں کے مسائل عام انتخابات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، صرف یہی نہیں بلکہ انتخابی شیڈول آنے سے قبل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے بیوروکریسی کے زیر انتظام انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار عمیر نیازی کو توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا کہ انتخابی عمل کو ڈی ریل کرنے والے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی ہو گی۔ سپریم کورٹ نے عام انتخابات کی 8 فروری 2024 کی تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دینے کے دعوے کو سچ کر دکھایا اور اپنے کہے کا پہرا دیا مگر وکلا کی چار بڑی تنظیمیں یعنی پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حلقہ بندیوں اور لیول پلئنگ فیلڈ کے معاملے پر میدان کود پڑیں اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف اعلامیے جاری کر دیئے۔ چاروں وکلا تنظیموں نے سکندر سلطان راجہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انکی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے، تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیاں درست طریقے سے نہیں کی گئیں، جہلم ، گوجرانوالہ اور ضلع راولپنڈی سمیت کئی اضلاع کی نشستوں کی تقسیم میں عدم توازن رکھا گیا۔ آبادی کے تناسب سے موجودہ حلقہ بندیاں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہی ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے، ان سیاسی جماعتوں کو شاید اس بات کا ادراک ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا اس مرحلے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کیلئے مشکلا ت پیدا کر سکتا ہے۔ ترجمان تحریک انصاف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک انصاف انتخابات کو التوا کا شکار کرنے کی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں بنے گی۔ وکلا تنظیموں کے یہ الزامات کیا واقعی جائز ہیں؟ سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو لیول پلئنگ فیلڈ مل رہی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان تحریک انصاف شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ اسے اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ نگران کابینہ میں موجودہ کئی شخصیات پر الزام لگایا جا چکا ہے کہ ان کا تعلق ن لیگ سے ہے جبکہ سابق نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے الیکشن شیڈول جاری ہونے سے چند گھنٹے قبل استعفیٰ دے کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیا جا سکے، حالانکہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگران کابینہ کا کوئی بھی رکن آنے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔ سرفراز بگٹی کی سیاسی قسمت کا فیصلہ تو ریٹرننگ افسر یا اسکے بعد عدالتیں کرینگی جبکہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا معاملہ الیکشن کمیشن میں آیا، الیکشن کمیشن کئی ہفتوں بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ احد چیمہ گزشتہ کابینہ کا حصہ رہے آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، نگران حکومتوں میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والی شخصیات کی اس حد تک موجودگی پہلے نہیں دیکھی گئی۔ دوسری جانب ایگزیکٹو سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کا معاملہ ہے، اگرچہ اب اسکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک ایسے وقت میں حلقہ بندیوں کی تکمیل اور ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی کی ہے کہ ان پر نظر ثانی کا نتیجہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے نا صرف ریٹرننگ افسران سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا بلکہ حلقہ بندیوں سے متعلق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حلقوں سے متعلق اعتراضات کو الیکشن کے بعد سنا جائے گا۔ مگر یہ الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کا امتحان ہے کہ وہ عام انتخابات کا انعقاد ناصرف شفاف طریقے سے کرائیں بلکہ یہ شفاف نظر بھی آنے چاہئیں ورنہ زہر آلود سیاسی ماحول میں کسی بھی قسم کا منفی تاثر جلتی پر تیل کا کام کر سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر سیاسی عدم استحکام اور سیاسی انتشار کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ لیول پلئنگ فیلڈ سے جڑا ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر چکا ہے اور تحریک انصاف سے پارٹی انتخابات سے متعلق 40 سوالات کے جوابات مانگے گئے ہیں، اگر اس کیس کے منفی اثرات تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے پر آتے ہیں تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابات کو جانچنے کا پیمانہ بھی یہی ہے یا نہیں۔ ان سوالات اور اعتراضات کو نظر انداز کر کے انتخابات تو ہو جائیں گے مگر 8 فروری 2024 کے بعد ملک میں سیاسی استحکام لانا شاید ایک خواب ہی رہے گا ملک جسکا اب متحمل نہیں ہو سکتا۔ 

انتخابات اور تنازعات Read More »

Rumors on General election Date

الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں انتخابات میں تاخیر کی افواہیں کیوں؟

پاکستان میں انتخابات کے انعقاد میں غیر یقینی کا عنصر سماجی و سیاسی بیانیہ بن چکا ہے۔ ملکی سیاسی نظام اور مقتدر اداروں نے بذاتِ خود غیر یقینی کو سیاسی و سماجی بیانیہ بنانے کی کوششوں کے گاہے بہ گاہے ثبوت بھی دیے ہیں۔ یہ معاملہ سنہ 2018 کے الیکشن سے چلا آ رہا ہے۔ اُس وقت عام و خاص کا ایک بڑا طبقہ یقین سے یہ کہتا پایا جاتا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت دس سال کے لیے اقتدار میں آئی ہے۔ اس کے بعد یہ سوال اُٹھتا تھا کہ اگلا الیکشن تو پھر محض کارروائی ہی ٹھہرے گا؟ یہ بیانیہ اتنا زیادہ بنایا گیا کہ گذشتہ دِنوں آصف علی زرداری نے سینیئر صحافی حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم عمران کو نہ نکالتے تو وہ ایک فوجی کے ذریعے 2028 تک حکومت بنا لیتا۔ اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد الیکشن کے انعقاد میں غیر یقینی میں شدت آئی۔ جولائی میں جب 20 صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے اور اُس میں پی ٹی آئی نے حیران کن کارکردگی دکھائی تو اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی مقبولیت کا آغاز ہوا۔ پنجاب میں یکے بعد دیگرے وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے۔ پھر 14 جنوری 2023 کو پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی اور نگراں سیٹ اپ تشکیل پایا۔ 14 مئی 2023 کو پنجاب میں صوبائی انتخابات ہونا تھے، جو نہ ہوئے۔ بعدازاں قومی اسمبلی مُدت سے قبل تحلیل کر دی گئی تاکہ انتخابات کے لیے نوے دِن کا وقفہ لیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے نوے روز کے اندر الیکشن کروانے سے معذرت کر لی۔ اس طرح الیکشن کے انعقاد میں جب آئینی مُدت کی پاسداری نہ ہو سکی تو الیکشن میں تاخیر کی غیر یقینی، یقین میں بدلتی چلی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں مقامی سطح پر الیکشن کے حوالے سے سرگرمیاں مفقود ہیں حالانکہ الیکشن کے انعقاد کی تاریخ میں دو ماہ اور چند دِن ہی رہ گئے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دو درخواست گزاروں نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور عام انتخابات کی تاریخ میں تاخیر کی درخواست کی ہے۔ انھوں نے اپنی درخواست میں صوبے میں سکیورٹی صوتحال اور فروری میں برف باری کا ذکر کرتے ہوئے یہ استدعا کی ہے کہ انتخابات برف باری کے بعد کرائے جائیں۔ آٹھ فروری کی تاریخ کے باوجود افواہیں کیوں؟ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں نوے روز میں عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تھی، جس میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر مملکت سے مشاورت کا حکم دیا تھا۔ یوں الیکشن کمیشن اور ایوانِ صدر نے متفقہ طورپر 8 فروری کی تاریخ کا تعین کیا۔ بعد ازاں جب نوے روز کے اندر انتخابات کے کیس کو نمٹایا گیا تو چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے انتباہ کیا کہ اگر الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کیے گئے تو ایسا کرنے والے آئین کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہوں گے مگر اس انتباہ، الیکشن کی تاریخ اور الیکشن کمیشن کی انتخابی تیاریوں کے باوجود تاخیر کی افواہیں جنم لے چکی ہیں اور یہ بہت معنی خیز بھی ہیں۔ اس بابت سینیئرصحافی اور کالم نگار سہیل وڑائچ نے بھی گذشتہ دِنوں اپنے ایک کالم میں نقطہ اُٹھایا کہ اُمید ہے پاکستان میں دو خلیجی ممالک 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔ انھوں نے لکھا کہ ’معاشی بہتری اگر آتی ہے تو افواہ ہے کہ الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس افواہ کے پیچھے یہ تاثر بھی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سیاسی اُبھار کا مکمل تدارک نہیں ہو سکا تاہم سہیل وڑائچ کے خیال میں اگر الیکشن میں تاخیر کی بابت سوچا گیا تو دو رکاوٹیں آئیں گی۔ عدالتی اور سیاسی رکاوٹ۔ الیکشن کمیشن نے گذشتہ روز میڈیا کی سطح پر پیدا ہونے والی الیکشن میں تاخیر کی خبروں کو بے بنیاد قراردیا ہے۔ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن کمیشن مذکورہ افواہوں کی پُرزور تردید کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن میں تاخیر کی خبروں پر موقف کے بعد یہ افواہیں دَم توڑ جائیں گی؟ کیا یہ افواہیں الیکشن کمیشن کے کسی عمل سے پیدا ہوئیں تھیں کہ الیکشن کمیشن نے تردید کی تو یہ افواہیں دَم توڑجائیں گی؟ افواہوں نے جنم کیسے لیا اور الیکشن کمیشن کے موقف کے بعد الیکشن کے انعقاد میں وضاحت ہو گی؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی نے اہم نکتہ بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’افواہیں اس لیے پیدا ہوئیں کہ الیکشن کی تاریخ کے باوجود سیاسی جماعتوں نے نچلی سطح پر کسی طرح کی سرگرمیوں کا آغاز اس طریقے سے نہیں کیا جیسا ماضی میں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ’جیسے ہی الیکشن کی تاریخ سامنےآئی تھی، تو سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ الیکشن کا ماحول طاری کر دیتیں چونکہ ایسا نہ ہو سکا یوں اس طرح کی افواہیں پیدا ہوئیں۔‘ سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’الیکشن کمیشن نے افواہوں کی تردید کے بعد بھی یہ افواہیں اس وقت تک جنم لیتی رہیں گی۔ جب تک سیاسی جماعتیں الیکشن کا ماحول نچلی سطح پر نہیں بناتیں۔‘ تاہم الیکشن کمیشن کے سابق اور وفاقی سیکرٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ ’الیکشن کمیشن نے انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنا لائحہ عمل تیار کر لیا ہے اور 15 دسمبر سے پہلے انتخابی شیڈول جاری کر دیا جائے گا۔‘ لیکن تاخیر کی ان افواہوں کے پیچھے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟ سینیئر تجزیہ کار اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں کرنے کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔ ’ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ شاید یہ ’ٹیسٹ بیلون‘ کے طور پر دیکھ رہے ہوں کہ اگر یہ بات کی جائے تو عوام کے اندر کس حد تک اس کی پذیرائی ہے، لوگوں کا ردِعمل کس طرح کا ہو سکتا ہے؟ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جن کو انتخابات میں کوئی زیادہ فائدہ نظر نہیں آ رہا وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہوں۔‘ ’ابہام پیدا کرنے والے

الیکشن کمیشن کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں انتخابات میں تاخیر کی افواہیں کیوں؟ Read More »

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ تو دے دی ہے لیکن ابھی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اکثر سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ٹکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنی شروع کر دی ہیں۔ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے تین نومبر کو جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پانچ دسمبر تک درخواستیں طلب کیں ہیں۔ یہ درخواستیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی امیدوار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور سیاسی جماعت اس کی مقبولیت اور دیگر پہلووں کا جائزہ لے کر اسے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلے کرتی ہے۔ لیکن جہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پیپلز پارٹی اس درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 30 ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ بھیجنے کی ہدایت دے رہی ہیں، ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے قومی اور صوبائی حلقوں کے درخواست گزاروں کے لیے بلترتیب ڈیڑھ اور ایک لاکھ کی فیس مقرر کی ہے۔ سابق حکمراں جماعت اور اس بار کی مبینہ طور پر فیورٹ سمجھی جانے والی مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ کے لیے دو لاکھ اور صوبائی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ٹکٹ فیس مقرر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غریب آدمی اپنے جیسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچتا ہے تو اسے پہلے تو یہ بڑی رقم جمع کرانا ہوگی بعد میں انتخابی مہم کے اخراجات تو الگ ہیں۔ کیا بلوچستان کا کویی غریب آدھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟ باپ پارٹی نے اقومی اخبارات میں مہنگے اشتہارات کے ذریعے درخوستیں طلب کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے درخواستیں اس سال مارچ کو طلب کی تھیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا امکان موجود تھا۔ پارٹی نے یہ درخواستیں سابق صدر آصف علی زرداری کے نام بھیجنے کا کہا اور ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی اور رابطہ نمبر کا تقاضہ بھی کیا۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ ‘غریب کو الیکشن لڑنا ہے تو چندا اور ادھار لینا ہوگا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی کی ہر نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے لاکھوں کی فیس بطور رجسٹریشن کے دینا ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ مسائل۔ بدحالی کا شکار غریب خود سیاست میں آکر اپنے جیسوں کی قسمت بدلنے کا خوب تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔‘

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟ Read More »

PML N and MQM Electoral Alliance

مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم-پاکستان کا انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم پاکستان کے مابین یہ طے پایا ہے کہ انشااللہ ہم 8 فروری کے انتخابات میں مل کر حصہ لیں گے۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان)کے وفد کی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں بات کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی پچھلی حکومت میں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ن) نے آپس میں مذاکرات کیے تو اس وقت بھی ہم نے ایک چارٹر پر دستخط کیے تھے اور ایک بڑی انڈراسٹینڈنگ موجود رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دونوں جماعتوں کے درمیان یہ خواہش بھی موجود رہی ہے کہ دونوں جماعتیں انتخابات میں مل کر حصہ لیں، یہ بھی طے پایا ہے کہ مختلف قومی امور پر معاشی امور پر، سیاسی معاملات پر، آئینی اور قانونی معاملات پر بھی آپس میں مشاورت بھی کی جائے گی اور اس ضمن میں دونوں جانب سے کمیٹیوں کا اعلان بھی کیا جائے گا اور باقی سیاسی قوتوں سے بھی لارجر قومی مفاد میں اور مختلف امور پر بات چیت کے دروازے کھلے رکھے جائیں گے اور بات چیت کی جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح یہ اعلان آپ پہلے سن چکے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے پارٹی رہنماؤں سے مشورے کے بعد بشیر میمن صاحب کو پاکستان مسلم لیگ (ن) سندھ کا نیا صدر نامزد کیا ہے اور شاہ محمد شاہ صاحب کو مرکزی نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک کی مجموعی صورتحال خاص طور پر جو سیاسی اور معاشی حالات کے بحران اور چیلنجز ہیں اس کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ صرف انتخابات لڑنا ہی نہیں ہے، انتخابات کے بعد جو حکومت بنے گی، جو پارلیمان قائم ہوگی ، اسمبلیاں بنے گی ان کے لیے جو چیلنجز ہیں کیا ان چیلنجز کو حل کرنے کے لیے ابھی سے کوئی پیشرفت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیا ابھی سے آپس میں بیٹھ کر مشورہ کر کے جو بنیادی مسائل ہیں پاکستان کی عوام کے ، چاہے وہ مہنگائی سے متعلق ہوں، بے روزگاری سے متعلق ہوں ، چاہے وہ مسائل غربت سے متعلق ہوں یعنی جو معیشت کے سنگین مسائل ہیں ان کے حل کے لیے جو چیلنجز ہیں اس کا مقابلہ کیسے کریں؟ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے کہ کوئی ایک جماعت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ ملک کے جملہ مسائل اور جو عوام کے جن مسائل میں پسے ہوئے ہیں ان سے ان کو باہر نکال سکے تو ضروری ہے کہ اس کے لیے ایک وسیع تر مفاہمت اور اشتراک عمل قائم کرنا ہے۔ چنانچہ ہمارے درمیان تو یہ طے ہوگیا یہ سیاسی اشتراک ہے 

مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم-پاکستان کا انتخابات مل کر لڑنے کا اعلان Read More »