‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘
مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے تھے‘ ’وہاں جو صورتحال تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے سمجھ لیں کہ قیامت کا منظر تھا۔ لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے، کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کے ہاتھ پاؤں نہیں تھے۔‘ یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے ایک عینی شاہد برکت علی کا۔ مستونگ شہرمیں کوڑا خان روڈ پر واقع مدینہ مسجد کے سامنے لوگ عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والے ایک جلوس میں شرکت کے لیے اکھٹے ہو رہے تھے جب زوردار دھماکہ ہوا۔ مستونگ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رشید محمدشہی نے بتایا کہ دھماکے میں 52 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق زخمیوں میں سے 52 افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹرمنتقل کیا گیا جبکہ بعض زخمیوں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر احمد جمالی نے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے کیا جانے والا ایک واقعہ ہے۔ عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟ مستونگ سے تعلق رکھنے والے برکت علی اُن لوگوں میں شامل تھے جو کہ عیدمیلاد النبی کی جلوس میں شرکت کے لیے مدینہ مسجد پہنچے تھے۔ وہ خود تو اس دھماکے کے نتیجے میں محفوظ رہے تاہم جائے وقوعہ سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو ایمبولینسوں میں منتقل کرنے کے دوران اُن کے کپڑے خون آلود ہو گئے جبکہ وہ غم کی شدت سے نڈھال تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر تھے اسی لیے وہ بچ گئے لیکن وہاں جو حالات تھے وہ بالکل ناقابل بیان تھے۔ ’آج میں نے قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دھماکے کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو سامنے بہت درد ناک مناظر تھے، ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے ہوئے تھے۔‘ اس واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد عید میلاد النبی کے جلوس کا حصہ ہیں۔ جلوس میں موجود گاڑی پر نعتیہ کلام بلند آواز سے چل رہا تھا جبکہ بہت سے شرکا کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے۔ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور انسانی اعضا فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ بی بی سی اس ویڈیو کی آذادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ سیف اللہ بھی اسی جلوس کا حصہ تھے اور وہ دھماکے کے بعد اپنے زخمی ہونے والے بھائی کے ہمراہ ٹراما سینٹر کوئٹہ آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعہ میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے 10 کے قریب ان کے رشتہ دار ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جلوس کی روانگی کے انتظار میں تھے کہ اس دوران زور دار دھماکہ ہوا۔ میں دھماکے کی جگہ سے لگ بھگ ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر تھا اس وجہ سے دھماکے کی زد میں نہیں آیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جس مسجد کے سامنے یہ دھماکہ ہوا اس کے خطیب بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جن زخمیوں کو ٹراما سینٹر لایا گیا تھا ان میں جامعہ مدینہ کے مدرس مولانا شیر احمد حبیبی بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عید میلاد النبی کا جلوس بڑی دھوم دھام کے ساتھ اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے والا تھا جب دھماکہ ہوا۔ ہمارے ساتھی درود کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔‘ سرفراز ساسولی دھماکے کا نشانہ بننے والے جلوس کی سکیورٹی پرمامور تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جلوس سے ایک ڈیڑھ کلومیٹرکے فاصلے پر تھے اور جلوس کے راستے کو کلیئر کرنے کے کام میں مصروف تھے جب انھیں دھماکے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے وہ تو محفوظ رہے لیکن جلوس میں ہونے کی وجہ سے ان کے دو بھائی اس میں زخمی ہوئے۔دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حکام کا کیا کہنا ہے ؟ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے بارے میں تحقیقات جاری ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ ایک خود کش دھماکہ تھا۔ بلوچستان پولیس کے انسپیکٹر جنرل عبدالخالق شیخ نے بتایا کہ ’مستونگ میں پہلے بھی سکیورٹی آپریشن ہو رہے ہیں اور ہماری جوٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں انھوں نے بہت ساری مفید معلومات حاصل کی ہیں جن کی روشنی میں مزید آپریشن کیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ مستونگ کہاں واقع ہے؟ مستونگ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ سے متصل جنوب میں واقع ایک ضلع ہے۔ یہ مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ضلع مستونگ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پرمشتمل ہے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع مستونگ میں بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ضلٰع مستونگ میں رواں مہینے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ پربم حملہ ہوا تھا جس میں حافظ حمداللہ سمیت 13افراد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ مستونگ کے علاقے کانک میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 125سے زائد افراد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مستونگ میں رونما ہونے والے واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں جبکہ بعض کہ ذمہ داری مذہبی شدت پسندتنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ تاہم اس واقعے کی ذمہ داری فی الحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان
‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘ Read More »