Ceasefire

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پراتفاق

قطر : (ایگنایٹ پاکستان) قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ میں عارضی وقفے کا اعلان کرتے ہوئے اعلامیہ جاری کردیا ۔ قطر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفہ کیا جائے گا، جنگ میں وقفے کا آغاز 24گھنٹے کے اندر ہوگا۔ قطری وزارت خارجہ کاکہنا ہے کہ معاہدے کے تحت درجنوں فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کا تبادلہ ہوگا۔ معاہدے کے تحت حماس اپنے پہلے مرحلے میں تقریباً 50 اسرائیلی خواتین اور بچوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں اسرائیل تقریباً 150 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، ان میں زیادہ تر خواتین اور نابالغ ہیں۔ اس میں اسرائیل کی طرف سے مصر سے روزانہ 300 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دینا اور جنگ روکنے کے دورن مزید ایندھن غزہ میں داخل کرنا شامل ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق معاہدے کے دوسرے مرحلے میں حماس کئی دنوں تک جنگ بندی میں توسیع کے بدلے درجنوں اسرائیلی قیدیوں کو رہا کر سکتی ہے۔ حماس کے ساتھ غزہ کے یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری آج صبح اسرائیل کابینہ نے جنگ میں وقفے کی منظوری دی تھی ، کابینہ کے اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ مشکل لیکن درست ہے۔  اسرائیلی حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں حماس کی قید میں موجود 50 افراد کی رہائی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کےمعاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ حماس کیساتھ جنگ جاری رکھنے کا اعلان  اسرائیل نے جنگ بندی کے خاتمے کے فوراً بعد غزہ میں حماس کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا ہے ، کابینہ اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی مدد سے عارضی جنگ بندی اور حماس کے پاس قید یرغمالیوں کی رہائی اور عارضی جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچے ہیں لیکن اسرائیل اپنا مشن جاری رکھے گا اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ اس سے قبل حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جانب سے بھی جنگ بندی معاہدے کے قریب پہنچنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔  حماس نے اپنے بیان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ خیال رہے کہ قطر کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کے ساتھ یرغمالیوں اور اسرائیلی تحویل میں لیے گئے فلسطینیوں کی رہائی سے متعلق کئی دنوں سے مذاکرات جاری تھے۔ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے بعد صدربائیڈن کا   مؤقف امریکا کے صدر جوبائیڈن نے جنگ بندی معاہدے میں کردار ادا کرنے پر امیرِ قطر اور مصر کے صدر کا شکریہ ادا کیا ہے ، امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ معاہدے کے تمام پہلوؤں پر مکمل طور پر عمل کیا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ میں وقفے کے لیے اسرائیلی صدر اور ان کی حکومت کے عزم کو سراہتا ہوں۔ یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی گزشتہ روز اشارہ دیاتھا کہ اسرائیل کے زیر حراست فلسطینی قیدیوں کے بدلے حماس کے زیر حراست قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ اور عارضی جنگ بندی اب بہت قریب ہے۔ دوسری جانب غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 14 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جبکہ 33 ہزار سے زائد زخمی ہیں جن میں دوتہائی خواتین اور بچے شامل ہیں ۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں کے بدلے چار روزہ جنگ بندی پراتفاق Read More »

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟

اسرائیلی فوج کو غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں داخل ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ابھی بھی اس ہسپتال کو حماس کے کمانڈ مرکز کے طور پر ثابت کرنے کے لیے ثبوت ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہسپتال کے اندر کوئی خود مختار سکروٹنی نہیں، صحافی غزہ میں آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں سکتے اور چند ایک صحافی جو وہاں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں وہ اسرائیلی فوج کی زیر نگرانی کام کر رہے ہیں۔ اب تک اسرائیل نے جو ثبوت پیش کیے ہیں، ان کے حوالے سے میں قائل نہیں ہوں کیونکہ اسرائیلی اس ہسپتال کے بارے میں جس قسم کے بیان دے رہے تھے، اس سے تو یہ تاثر ملتا تھا کہ الشفا ہسپتال حماس کے آپریشن کا اہم مرکز تھا۔ لیکن اگر واقعی الشفا ہسپتال میں حماس کا کوئی مرکز موجود تھا، جس کے بارے میں سنہ 2014 سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں تو اسرائیل پھر ابھی تک دنیا کے سامنے اس کے وجود کے ثبوت کیوں نہیں لا سکا۔ الشفا ہسپتال سے ابھی تک چند کلاشنکوف ملی ہیں جو کہ مشرق وسطیٰ میں عام ہیں، ایک سرنگ کا داخلی راستہ ملا ہے اور ایسی کئی سرنگیں غزہ میں موجود ہیں، کچھ فوجی یونیفارم اور دھماکہ خیز مواد سے لیس ایک گاڑی بھی ملی ہے۔ لیکن ہسپتال میں حماس کے ایک بڑے ہیڈکوارٹر کی دریافت اور اس متعلق شواہد سامنے لانا یقیناً اب بھی ممکن ہے۔ اس پسپتال کو 1970 کی دہائی میں اسرائیلیوں نے اس وقت تک تعمیر کیا تھا جب ان کے پاس اس علاقے کا مکمل کنٹرول تھا۔ یہ بہت بڑی جگہ ہے جس کی مکمل تلاشی میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ الشفا ہسپتال کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ اسے ڈیزائن کرنے والے اسرائیلی معماروں نے یہاں وسیع تہہ خانے بھی بنائے تھے۔ الشفا سے ملنے والے شواہد پر منحصر اسرائیل کا بیانیہ یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کو یہاں سے کچھ مل بھی گیا ہو لیکن اپنی فوجی یا سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انھوں نے ابھی اسے سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا ہو۔ اسی کی وجوہات ابھی تک غیر واضح ہیں تاہم اسرائیل کے بیانیے کا بہت زیادہ انحصار الشفا سے ملنے والے ثبوتوں پر ہے۔ سات اکتوبر کو اس جنگ کے آغاز سے جب حماس کی جانب سے ایک اچانک حملے میں تقریباً 1200 اسرائیلی مارے گئے، اسرائیل کہہ چکا ہے کہ اس ہسپتال تک پہنچنا اس کے اہم ٹارگٹوں میں سے ایک ہے۔ اسرائیل کا ایک اہم مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حماس غزہ کی طبی سہولیات کو اپنی کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہا ہے تاہم حماس بار بار اس الزام کی تردید کر چکا ہے۔ غزہ میں ایک ماہ کے دوران تقریباً 11 ہزار 500 افراد کومارنے کے پیچھے اسرائیل یہ جواز پیش کرتا ہے کہ حماس ان لوگوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے جمعرات کے روز ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ اس ہسپتال میں حماس کا ملٹری کمانڈ موجود ہے۔ وہ اس بات کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ ہسپتال میں یرغمالیوں کو بھی رکھا گیا کیونکہ اسرائیل کی ڈیفینس فورسز کے مطابق 65 برس کی یہودت ویس، جنھیں ان کے گھر سے اغوا کیا گیا تھا، کی لاش الشفا ہسپتال کے قریب ایک گھر سے ملی۔ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 200 سے زائد اسرائیلی افراد کی بازیابی کے لیے قطر کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ لیکن اگر الشفا ہسپتال کے حماس کے ہیڈکوارٹر ہونے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتے تو پھر اسرائیل پر بین الاقوامی کمیونٹی کی جانب سے سیز فائر کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ 42 دن میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہزاروں عام شہریوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں اسرائیل کے طریقوں پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ امریکہ وہ واحد بین الاقوامی طاقت ہے جس کے بارے میں اسرائیلیوں کو واقعی تشویش لاحق ہے۔ امریکہ کے صدر بائیڈن اس جنگ کے آغاز سے ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے لیکن اسے یہ صحیح طریقے سے کرنا چاہیے یعنی جنگ کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بدھ کے روز ایک قرارداد منظور کی، جس میں انسانی بنیادوں پر سیز فائر کے لیے کہا گیا تاہم امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ ’یہ کارروائیاں خطے اور اس سے باہر بھی دہشتگردی کو ہوا دیں گی‘ اس حوالے سے ایک اور دلچسپ پیشرفت وہ اشاعت ہے جس میں دنیا بھر کے ریٹائر وزرائے اعظم، صدور، بزرگ سیاستدانوں اور خواتین کے ایک گروپ نے حماس کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’غزہ میں تباہی اور شہریوں کا قتل عام اسرائیل کو محفوظ نہیں بنا رہا۔ یہ کارروائیاں پورے خطے اور اس سے باہر دہشت گردی کو مزید ہوا دیں گی اور اس تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں۔‘ تو اسرائیل کو معلوم ہے کہ جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور اسرائیل کی حمکت عملی پر اٹھنے والوں سوالوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ سب آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ ایسا ہو کہ اسرائیل یہ کہے کہ اس نے اپنا کام کر لیا اور اب وہ غزہ سے نکل رہا ہے۔ حکومت کے پاس بھی آنے والے دنوں کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔ نتن یاہو نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ وہاں ’دہشتگردی کے دوبارہ ابھرنے‘ کو روکنے کے لیے سکیورٹی کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ اسرائیل غزہ میں جو کچھ بھی کرتا ہے، ایک ایسی جگہ جہاں بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی ہوئی، اسے ان 20 لاکھ سے زائد لوگوں سے نمٹنا ہو گا جو اس سے نفرت کریں گے۔ اسرائیل کو ممکنہ طور پر بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا اسرائیل کے لیے یہ ثابت کرنا بہت ضروری ہے کہ اس کے پاس یہ طریقے استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا

کیا الشفا ہسپتال سے کوئی ثبوت نہ ملنے پر اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ بڑھ سکتا ہے؟ Read More »