Casualties

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔

غزہ: غزہ کے ایک اسپتال میں منگل کے روز ہونے والے دھماکے میں تقریباً 500 فلسطینی ہلاک ہو گئے جس کے بارے میں فلسطینی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا تھا لیکن اسرائیلی فوج نے “فلسطینی جنگجو گروپ کی جانب سے ناکام راکٹ لانچ” کا الزام لگایا۔7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیلی کمیونٹیز پر سرحد پار حماس کے ایک مہلک حملے کے بدلے میں اسرائیل کی جانب سے گنجان آباد علاقے کے خلاف بے لگام بمباری کی مہم شروع کرنے کے بعد سے یہ دھماکہ غزہ میں سب سے خونریز ترین واقعہ تھا یہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اسرائیل کے دورے کے موقع پر ہوا ہے تاکہ غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرنے والے حماس کے ساتھ جنگ ​​میں ملک کی حمایت کا اظہار کیا جا سکے اور یہ سننے کے لیے کہ اسرائیل کس طرح شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ رائٹرز آزادانہ طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکے کہ دھماکے کا ذمہ دار کون تھا۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام حکومت کی وزیر صحت مائی الکائیلہ نے اسرائیل پر قتل عام کا الزام لگایا۔ غزہ کے ایک شہری دفاع کے سربراہ نے کہا کہ 300 افراد ہلاک ہوئے اور وزارت صحت کے ایک اہلکار نے کہا کہ 500 افراد ہلاک ہوئے۔منگل کے واقعے سے پہلے، غزہ میں صحت کے حکام نے کہا تھا کہ اسرائیل کی 11 روزہ بمباری میں کم از کم 3,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جو 7 اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیلی قصبوں اور کبوتز میں گھسنے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,300 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔تاہم، اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے العہلی العربی اسپتال میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا، اور تجویز کیا کہ اس اسپتال کو انکلیو کے فلسطینی اسلامی جہاد ملٹری گروپ کے ناکام راکٹ سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ایک ترجمان نے کہا، “آئی ڈی ایف کے آپریشنل سسٹمز کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ راکٹوں کا ایک بیراج غزہ سے فائر کیا گیا تھا، جو غزہ میں الاہلی ہسپتال کے قریب سے گزرا تھا، جس وقت اسے نشانہ بنایا گیا تھا۔” ترجمان نے مزید کہا کہ “ہمارے ہاتھ میں متعدد ذرائع سے حاصل ہونے والی انٹیلی جنس اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے ہسپتال کو نشانہ بنانے والے ناکام راکٹ کے لیے اسلامی جہاد ذمہ دار ہے۔” اسلامی جہاد کے ترجمان، داؤد شہاب نے رائٹرز کو بتایا: “یہ جھوٹ اور من گھڑت ہے، یہ بالکل غلط ہے۔ قابض اس خوفناک جرم اور قتل عام پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جو انہوں نے شہریوں کے خلاف کیے تھے۔ 2021 میں اسرائیل اور حماس کے آخری تنازع کے دوران، اسرائیل نے کہا کہ حماس، اسلامی جہاد اور دیگر جنگجو گروپوں نے غزہ سے تقریباً 4,360 راکٹ فائر کیے جن میں سے تقریباً 680 اسرائیل اور غزہ کی پٹی میں گرے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں فلسطینی سیکیورٹی فورسز نے پتھراؤ کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے اور صدر محمود عباس کے خلاف نعرے بازی کی کیونکہ دھماکے کے بعد عوام کا غصہ ابل پڑا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ فلسطینی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں مغربی کنارے کے کئی دوسرے شہروں میں شروع ہوئیں، جن پر عباس کی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار کون تھا، جس کے بارے میں حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے مریض، خواتین اور بچے مارے گئے اور دیگر بے گھر ہو گئے، یہ ممکنہ طور پر بحران پر قابو پانے کے لیے اور بھی پیچیدہ سفارتی کوششیں کرے گا۔ ایک سینئر فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ عباس نے دھماکے کے بعد بائیڈن کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ یہ ملاقات اردن میں ہونے والی تھی، جہاں عباس کی رہائش ہے، لیکن فلسطینی عہدیدار نے کہا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کی حکومت کی نشست رام اللہ واپس جا رہے ہیں۔ حماس کے حکام کی جانب سے ابتدائی طور پر منگل کے اسپتال میں ہونے والے دھماکے کا الزام اسرائیلی فضائی حملے پر عائد کرنے کے بعد، عرب ممالک، ایران اور ترکی نے اس کی شدید مذمت کی۔ فلسطینی وزیر اعظم نے اسے “ایک ہولناک جرم، نسل کشی” قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک بھی اس کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

مغربی کنارے کے احتجاجی مظاہروں کے دوران غزہ کے ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ Read More »

Continuous firing

اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟

سنیچر کی صبح حماس کی جانب سے غزہ سے اب تک کا سب سے بڑا آپریشن کیا گیا ہے اور اسرائیل اس کے لیے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اس وقت جو ہو رہا ہے اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ حماس کے عسکریت پسندوں نے حفاظتی باڑ کو مختلف جگہوں سے کاٹا اور غزہ سے اسرائیل کی حدود میں داخل ہوئے۔ یہ گذشتہ کئی دہائیوں میں سرحد پار سے ہونے والا سب سے بڑا آپریشن تھا۔ یہ مصر اور شام کی جانب سے سنہ 1973 میں کی جانے والی اچانک کارروائی کی 50 ویں سالگرہ کے ایک دن بعد کیا گیا جس نے اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی شروعات کر دی تھی۔ حماس کی قیادت یقیناً اس تاریخ کی اہمیت سمجھتی ہے جس کے باعث اسے چنا گیا۔ ادھر اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ ملک اس وقت حالتِ جنگ میں ہے اور وہ اپنے دشمنوں سے اس حملے کے بدلے میں بھاری قیمت وصول کریں گے۔ سوشل میڈیا پر ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجیوں اور بچوں کی ویڈیوز اور تصاویر ہر طرف شیئر کی جا رہی ہیں۔ ان کے علاوہ ایسی ویڈیوز بھی شیئر ہو رہی ہیں جن میں حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی فوجیوں اور عام شہریوں کو غزہ میں یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور ان کے باعث جہاں اسرائیلی غصے میں ہیں وہیں اس سے خبردار بھی ہیں۔ اس کارروائی کے چند ہی گھنٹوں بعد اسرائیل نے غزہ میں فضائی حملوں کے ذریعے جوابی کارروائی کی جس کے باعث سینکڑوں فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اسرائیلی جرنیل اب ایک زمینی آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اسرائیلی یرغمالیوں کی غزہ میں موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ یہ صورتحال ماضی میں کی جانے والی کسی بھی کارروائی سے زیادہ پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے یہ بات تو واضح تھی کہ فلسطینی مسلح گروہ اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ تاہم یہ کب اور کہاں ہو گی یہ بات حماس کے مسلح گروہ کے علاوہ سب کے لیے ہی ایک سرپرائز ثابت ہوا۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کا خیال تھا کہ اس قسم کا حملہ مقبوضہ غربِ اردن سے ہو سکتا ہے اور ان دونوں کی توجہ وہاں مرکوز تھی۔ مقبوضہ بیت المقدس اور اردن کی سرحد کے درمیان موجود یہ علاقہ سنہ 1967 کے بعد سے اسرائیل کے قبضے میں ہے اور یہاں گذشتہ ایک سال میں مسلسل پرتشدد واقعات ہوتے رہے ہیں۔ مسلح فلسطینی گروہ، خاص کر وہ جو غربِ اردن کے قصبوں جنین اور نابلس سے کارروائی کرتے ہیں نے اس سے پہلے بھی اسرائیلی فوجیوں اور اسرائیلی آبادکاروں پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اس دوران درجنوں کارروائیاں بھی کی ہیں اور مسلح آباد کاروں نے قانون اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے فلسطینی گاؤں پر حملے کیے ہیں۔ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت میں موجود شدت پسند مذہبی قوم پرستوں نے اس دعوے کو دہرایا ہے کہ مقبوضہ علاقے مکمل طور پر یہودی سرزمین کا حصہ ہیں۔ تاہم کسی کو بھی حماس کی جانب سے غزہ سے اس قسم کا پیچیدہ اور مربوط آپریشن کرنے کی امید نہیں تھی۔ اسرائیل میں اسے ملک کے خفیہ اداروں کی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان کے خفیہ ادارے اس منصوبے کو بھانپ نہیں پائے۔ اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ ان کے خفیہ ایجنٹس اور مخبروں کے ایک وسیع نیٹ ورک اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے کی گئی نگرانی انھیں محفوظ رکھے گی لیکن اس صورت میں ایسا نہیں ہوا۔ آخر میں اسرائیلی خفیہ ادروں کو حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن نے اس وقت چونکا دیا جب اسرائیلی ایک مذہبی تہوار کے باعث پرسکون انداز میں چھٹی کے دن عبادت کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ کارروائی مقبوضہ بیت المقدس میں موجود مساجد کو لاحق خطرے کے باعث کی۔ گذشتہ ہفتے کے دوران کچھ یہودیوں نے مسجد الاقصیٰ کمپاؤنڈ میں جا کرعبادت کی تھی جو مسلمانوں کے لیے سعودی عرب میں مکہ اور مدینہ کے بعد تیسری سب سے زیادہ مقدس جگہ سمجھی جاتی ہے۔ یہی جگہ یہودیوں کے لیے بھی مقدس ہے کیونکہ یہاں قدیم زمانے میں ایک یہودی عبات گاہ ہوا کرتی تھی۔ یہاں عبادت کرنا شاید اتنی بڑی بات محسوس نہ ہو لیکن اسرائیل کی جانب سے ایسا کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ فلسطینیوں کے لیے یہ بہت زیادہ اشتعال انگیز عمل ہے۔ حماس کے آپریشن کی پیچیدگی یہ بتاتی ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کئی ماہ تک کی جاتی رہی۔ یہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مقبوضہ بیت المقدس میں ہونے والے واقعات کا فوری ردِ عمل نہیں تھا۔ اسرائیل اور حماس ایک بار پھر حالتِ جنگ میں کیوں ہیں اس کی وجوہات بہت گہری ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع اس وقت بھی شدت اختیار کر رہا ہوتا ہے جب اس پر بین الاقوامی میڈیا کی نظریں نہیں ہوتیں۔ اس کے باوجود اکثر ایسے ممالک بھی اسے نظر انداز کرتے ہیں جو اب تک سرکاری طور پر ایک دو ریاستی حل یعنی آزاد فلسطین اور اسرائیل کی ایک ساتھ موجودگی کو اس کا واحد حل بتاتے ہیں۔ سنہ 1990 کی دہائی میں اوسلو امن عمل کے دوران دو ریاستی حل کے حوالے سے امید موجود تھی۔ تاہم اب یہ صرف ایک کھوکھلا نعرہ ہے۔ فلسطین اسرائیل تنازع صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ انتظامیہ کی جانب سے سعودی عرب کو اس حوالے سے فلسطین کی سکیورٹی گارنٹیاں دی جا رہی ہیں تاکہ وہ اس کے بدلے میں اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ امریکہ کی جانب سے سے امن عمل شروع کرنے کی کوشش صدر باراک اوباما کے دور میں تقریباً دس برس قبل ناکام ہو گئی تھی۔ اس تنازع کے پیچھے دراصل عربوں اور یہودیوں کے درمیان موجود زمین پر کنٹرول حاصل کرنے کا تنازع ہے جو بحیرۂ روم اور دریائے اردن کے درمیان واقع ہے۔ ان حالیوں کارروائیوں سے ایک بات تو واضح ہے کہ اس تنازع کو کسی عام طریقے سے حل نہیں جا سکتا ہے۔ جب اسے مزید بھڑکنے دیا جاتا ہے تو

اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں موساد اور شاباک حماس کے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کو روکنے میں کیسے ناکام رہیں؟ Read More »