خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟
’ہمارے جلسے بھی ہوتے ہیں اور وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں۔ وہ آتی ہیں جلسہ سنتی ہیں اور پُرامن بیٹھتی ہیں۔ وہاں کوئی دھمال یا ناچ گانا نہیں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کا کلچر نہیں ہے۔‘ سابق وزير اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شريف نے کوئٹہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انھوں نے خواتین سے متعلق اس نوعیت کا کوئی بیان دیتے ہوئے اپنے حریف عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نام لیے بغیر نشانہ بنایا ہو۔ گذشتہ ماہ جب وہ چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان پہنچنے تو انھوں نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’دیکھیں ہماری بہنیں کتنی آرام سے جلسہ سن رہی ہیں، کوئی ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانا نہیں ہو رہا، میری بات سمجھ گئے یا نہیں سمجھے؟‘ اب کوئٹہ میں دوبارہ ایسے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر نواز شریف کے خلاف ردعمل آیا ہے اور کئی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا خواتین کے حوالے سے یہ موقف آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے نئے بیانیے کا حصہ ہے۔ریف کے بیان کی مذمت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ناصر چغتائی نے تبصرہ کیا کہ ’یہ ان کی اندرونی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ہر مرتبہ یہ بات کیوں کر رہے ہیں؟‘ شمع جونیجو نے لکھا ’میاں نواز شریف کا جلسوں میں اپنے لیڈران (جن میں وہ خود بھی شامل ہیں) کے لیے دھمال ڈالنے والی خواتین کو دوسری بار ٹارگٹ بنانا انتہائی مایوس کُن ہے۔ ہمیں وہ دن نہیں بھولے جب نیند میں سونے والے سین میں بھی پی ٹی وی کے ڈراموں میں ہمیں سر پر دوپٹہ پہنا کے ریکارڈنگ کروائی جاتی تھی۔۔۔ یہ انیس سو نوے نہیں، دو ہزار تیئس ہے میاں صاحب!‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’خُوشی اور عقیدت کی دھمال پاکستان کا کلچر ہے۔ قلندر کی درگاہ ہو یا داتا دربار، دھمال صرف مردوں کے لیے نہیں!‘ صحافی مطیع اللہ جان نے پاکستان کے قومی لیڈران کے ایسے بیانات پر تبصرہ کیا کہ ’پس ثابت ہوا کہ انسان کے سیکھنے کے لیے لندن یا آکسفورڈ میں رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘ انھوں نے نواز شریف اور عمران خان دونوں کے بیانات پر طنز کیا کہ ’کچھ خواتین ناچ گانا نہیں کرتی، اور کچھ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ واہ رے ووٹروں کی قسمت جائیں تو کہاں؟‘ تاہم سماجی کارکن ایمان مزاری کے مطابق نواز شریف کی طرف سے اس قسم کے ’بدتمیزی پر مبنی تبصرے مسلم لیگ ن کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘ وہ اس بارے میں شمع سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’نواز شریف 90 کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہی تقریریں کر رہے ہیں۔‘ دریں اثنا خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت مارچ نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران نواز شریف کے خواتین مخالف بیان کی مذمت میں لکھا تھا کہ ’خواتین کو ’اچھی‘ اور ’بُری‘ عورت میں تقسیم کرنا پتھروں کے زمانے کا طریقہ کار ہے۔‘ ’ناچ گانے کا شوق رکھنے سے عورت یا کسی بھی انسان کے ذاتی کردار پر سوال اٹھانا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔‘ کیا پاکستانی سیاست میں خواتین کو ’پُرامن طریقے سے بٹھانا‘ ہی مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے؟ عمران خان ہوں یا نواز شریف، جب بھی پاکستان میں کوئی بڑا سیاسی لیڈر اس قسم کا بیان دیتا ہے تو عموماً جماعت کے دیگر رہنما اس پر وضاحت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بی بی سی نے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری سے نواز شریف کے بیان کا مطلب پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ میاں صاحب نے اس سیاق و سباق میں بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ ورکرز کنونشن میں خواتین بھی موجود تھیں، اس کے باوجود مسلم لیگ ن کا طرز تحریک انصاف سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے جلسے پاکستانی کلچر سے مطابقت رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں میاں صاحب نے کہا ہے کہ ’وہاں عورتیں دھمال ڈالتی ہیں مگر ہماری عورتیں چپ کر کے بیٹھتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔‘ عظمیٰ بخاری کے مطابق ’میاں صاحب نے کلچر اور (مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان) فرق کی بات کی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ آپ خود دیکھیں تحریک انصاف کے جلسوں میں ’کیا کچھ نہیں ہوتا رہا؟ خواتین پر جس نوعیت کے تبصرے ہوتے ہیں، ان سے جیسا سلوک ہوتا تھا، وہ بھی سب کو معلوم ہے۔۔۔ ہم اس لیے اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کی ایک مخصوص کلاس ہے جو اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔‘ جب بی بی سی نے عظمیٰ بخاری سے پوچھا کہ کیا خواتین سے متعلق یہ موقف مسلم لیگ ن کے بیانیے کا حصہ ہے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماڈرن ہونا صرف یہی نہیں کہ آپ ناچ گانا کریں کیونکہ مخصوص حالات میں ہمارے معاشرے میں اس پر ردعمل بھی آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نظریاتی طور پر ان کی جماعت ترقی پسند خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہے۔ ’ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ آپ نظریاتی طور پر جدت اور ترقی کا سفر طے کریں۔‘ سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں حلقے کی سیاست کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہیں بھولتی کہ میں ایک خاتون ہوں۔‘ انھوں نے گذشتہ الیکشنز میں بطور امیدوار حصہ لینے کے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ ’لوگوں کی اکثریت مجھے بغیر چادر کے قبول نہیں کرے گی۔ اگر میں اپنے کلچر کے ساتھ منسلک نہیں رہوں گی تو میں پاکستان میں سیاست نہیں کر سکوں گی۔‘ سائرہ افضل کے مطابق ان کی کامیابی کی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو اپنی تہذیب سے جوڑے رکھا ہے۔ ’میاں صاحب نے جو بات کی وہ کلچر سے منسلک ہونے سے متعلق ہے۔ پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں بدمزگی ہوتی ہے اور خواتین خود کو