غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کی کون سے ممالک حمایت کر رہے ہیں، کون مخالف ہے اور کون خاموش؟
غزہ میں جیسے جیسے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور حالات خراب ہو رہے ہیں، غزہ پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی رائے عامہ کو تیزی سے تقسیم کر رہا ہے۔ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے فوراً بعد بہت سے ممالک نے ابتدا میں اسرائیل کی حمایت کی تھی تاہم اسرائیل کے غزہ پر فضائی حملوں اور حماس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیے جانے والے بڑے زمینی حملوں کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بعض ممالک نے جنگ کے حوالے سے اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی ہے۔ اس تنازع پر موجودہ بین الاقوامی بحث کا مرکز اب جنگ بندی کا مسئلہ ہے۔ 27 اکتوبر کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں اسرائیلی افواج اور حماس کے جنگجوؤں کے درمیان ’فوری اور پائیدار جنگ بندی‘کا مطالبہ کیا گیا۔ اُردن کی جانب سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی اس قرارداد کے حق میں 120، مخالفت میں 14 ووٹ آئے جبکہ 45 ممالک نے ووٹنگ میں شرکت نہیں کی۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اقوام متحدہ کی قرارداد کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے بعد میں جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اب آپریشن روکنا حماس کے سامنے ’ہتھیار ڈالنا‘ جیسا ہو گا۔ اس بیان کے بعد سے کچھ ممالک نے اسرائیل پر اپنی تنقید بڑھا دی ہے جبکہ بہت سے ممالک نے اپنے سفیروں کو یا تو اسرائیل سے واپس بُلا لیا ہے یا اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ووٹ دینے والے امریکہ نے بھی اپنا مؤقف نرم کر لیا ہے اور اس حوالے سے امریکی صدر جو بائیڈن نے لڑائی میں ’وقفے‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہاں ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسرائیل حماس جنگ کے بارے میں دنیا بھر کے ممالک نے کیا کہا ہے اور اقوام متحدہ میں انھوں نے کس کی حمایت اور کس کی مخالفت میں ووٹ دیے۔ واضح رہے کہ یہ تمام خیالات مختلف حکومتوں کے ہیں اور بعض دیگر ممالک میں ان خیالات کے بارے میں عوامی جذبات نمایاں طور پر مختلف ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کہاں کھڑا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلنکن نے اسرائیل کا دوبارہ دورہ کیا ہے اور انسانی بنیادوں میں جنگ بندی کی درخواست کی ہے بعض مغربی ممالک کی حکومتوں نے جنگ کے آغاز سے ہی کُھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن کے ابتدائی بیانات اس بات کی تصدیق ہیں کہ واشنگٹن اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ یہ یقینی بنائے گا کہ ’اسرائیل اپنے شہریوں کا خیال رکھے۔‘ تاہم 2 نومبر کو ایک انتخابی مہم کے پروگرام میں جب صدر بائیڈن سے ایک شخص نے جنگ بندی کے لیے جرح شروع کر دی تو انھوں نے جنگ میں توقف یعنی وقفے کی بات کہی۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنگ میں کوئی بھی وقفہ عارضی نوعیت کا ہو گا۔ وائٹ ہاؤس نے عرب اور دیگر ممالک کی جانب سے مکمل جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کر دیا۔ وائٹ ہاؤس کی اس وضاحت کے اگلے ہی دن امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن انسانی بنیادوں پر جنگ میں وقفے پر زور دینے اور غزہ میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات پر بات چیت کرنے کے لیے تل ابیب کے اپنے دوسرے دورے پر روانہ ہوئے۔ بلنکن نے تل ابیب میں نتن یاہو اور دیگر سینیئر رہنماؤں سے ملاقات کے بعد کہا کہ ’امریکہ اس بات پر قائل ہے اور مجھے لگتا ہے کہ 7 اکتوبر کے بعد سے ہمارا یقین مزید مضبوط ہوا ہے کہ اس کا بہترین راستہ اور شاید واحد راستہ بھی یہ ہے کہ دو اقوام کے لیے دو (الگ الگ) ملک ہوں۔‘ یورپی ممالک لندن میں دسیوں ہزار لوگ غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے متعدد مظاہروں میں شریک ہوئے ہیں کینیڈا اور برطانیہ کے وزرائے اعظم نے بھی اس جنگ پر اپنے ابتدائی ردعمل میں ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق‘ کی حمایت پر زور دیا تھا تاہم دونوں ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ حالیہ ہفتوں میں دسیوں ہزار فلسطینی حامی مظاہرین نے سینٹرل لندن کے مظاہروں میں شرکت کی اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ’حماس کے حملوں کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے‘ لیکن مختلف رکن ممالک میں جنگ بندی کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ جرمنی اور اٹلی نے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی ہے لیکن انھوں نے اقوام متحدہ کی ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سپین اور فرانس جیسے دیگر ممالک نے اسرائیل کے حق میں ووٹ دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے ابتدائی طور پر کہا تھا کہ فرانس ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کا حامی ہے‘ لیکن اب انھوں نے اپنی پوزیشن میں قدرے تبدیلی کی ہے۔ یہ تبدیلی شاید غزہ کے شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں آئی ہے۔ میکخواں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’غزہ میں حماس اور شہری آبادی کے درمیان فرق کیا جانا ضروری ہے۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ سب سے زیادہ کمزور لوگوں کی حفاظت اور دہشت گردوں کے خلاف بہتر ہدف پر مبنی کارروائیاں ممکن ہوں۔‘ مشرق وسطیٰ مشرق وسطیٰ کی بیشتر ریاستوں نے اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے اور بہت سے ممالک نے اسرائیل کے فوجی آپریشن کی شدید مذمت کی ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین جیسے ممالک نے ابتدا میں حماس کے حملوں کی مذمت کی تھی کیونکہ یہ دونوں ممالک ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تاہم گذشتہ ہفتے بحرین نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور بحرین میں اسرائیلی سفیر ملک چھوڑ کر