Military Coup 12th October 1999

’ریلیکس میجر، گولی مت چلانا‘: 12 اکتوبر کی یادیں

Ex. Army Chief Pervaiz Musharaf sb

ویسے تو پاکستان کی بری فوج نے جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں بارہ اکتوبر کی شام وزیراعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا لیکن اس حکومت میں شامل بعض اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انھیں کئی ہفتے پہلے ایسی اطلاعات مل چکی تھیں کہ فوجی سربراہ نے حکومت پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔

ان میں سے ایک واقعہ 14 ستمبر 1999 کا ہے جس کی تفصیل اس وقت کی نواز شریف کابینہ کے اہم ترین رکن اور وزیر اطلاعات مشاہد حسین نے بی بی سی کو بتائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف بطور وزیرِ اعظم، متعدد وزرا (جن میں مشاہد حسین سید خود بھی شامل تھے) اور دیگر حکام کے ہمراہ سکردو گئے جہاں انھیں لینے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف اور فوج کی اعلیٰ کمانڈ کے افسران موجود تھے۔

مشاہد حسین کے مطابق وہیں طے ہوا کہ شام کو محفل منعقد ہو گی جس میں پرانے گانے گائے اور سنے جائیں گے۔ ’اُسی خوشگوار محفل کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھ موجود فوج کے دیگر افسران نے ’نواز شرف زندہ باد‘ کے نعرے بھی لگائے۔‘

سینیٹر مشاہد حسین بتاتے ہیں کہ اس دوران انھوں نے نوٹ کیا کہ راولپنڈی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمود، جن کے ماتحت شمالی علاقہ جات بھی آتے تھے، وہاں موجود نہیں تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس موقع پر انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا کہ جنرل محمود کہاں ہیں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ راولپنڈی میں مصروفیات کی بنا پر نہیں آ سکے۔

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ عموماً ایسا نہیں ہوتا، اس وقت یہ واضح ہو گیا کہ حکومت کا تختہ الٹنے کی تمام تر پلاننگ ہو چکی تھی اور اگر سکردو میں کسی وجہ سے بات بگڑ جاتی اور جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کر لیا جاتا تو متبادل پلان پنڈی سے بغاوت کرنے کا تھا۔

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ ستمبر 1999 کے دوران وزیرِ اعظم ہاؤس کا گارڈ بھی تبدیل کر دیا گیا اور 111 بریگیڈ، جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی فوجی بغاوت کے دوران یہ بریگیڈ سب سے پہلے حاضر ہوتی ہے، اس کا کمانڈر تبدیل کر دیا گیا تھا۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگست کے اواخر اور ستمبر کے اوائل میں چند سیاسی و سماجی کارکنان، جن میں انسانی حقوق کے کارکنان اور وکلا بھی شامل تھے، سے مبینہ طور پر پاکستان کی افواج سے منسلک اہلکاروں نے بات کی اور اس دوران انھیں بتایا گیا کہ حکومت جانے والی ہے اور کیا آپ نئی حکومت میں بطور وزیر شامل ہونا پسند کریں گے؟

مشاہد حسین کے مطابق دونوں طرف سے تیاری مکمل تھی۔ اور میاں نواز شریف کو بھی سمجھ آ چکا تھا کہ موجودہ حالات میں گزارا نہیں ہو سکتا۔ لیکن انتظار اس بات کا تھا، کہ پہل کون کرے گا؟

سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف اس تاثر کی تردید کرتے رہے ہیں کہ انھوں نے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ نواز شریف کے خلاف فوج نے ایک ادارے کے طور پر ایکشن لیا تھا اور اس کی وجہ اپنے سربراہ کی غیر منصفانہ اور غیر شفاف برطرفی کی کوشش تھی۔

نواز شریف

فوجی بغاوت کیسے ہوئی؟

12 اکتوبر 1999 کے روز بی بی سی کے اس وقت کے نامہ نگار ظفر عباس اسلام آباد سے چھٹیاں لے کر کراچی آئے ہوئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں ‘میں کراچی میں بیٹھا خبریں سن رہا تھا اور خبریں سنتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ نواز شریف نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جنرل مشرف کو ان کہ عہدے سے ہٹا دیا جائے اور ان کی جگہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیا الدین کو فوج کا سربراہ بنا دیا جائے۔ اب یہ اپنے طور پر بھی خاصی بڑی خبر تھی۔ اور اس وقت مجھے افسوس بھی ہو رہا تھا کہ میں اس وقت کیوں چھٹی پر ہوں۔‘

ظفر عباس کے مطابق تھوڑی دیر بعد سرکاری نشریاتی چینل یعنی پاکستانی ٹیلی ویژن کی نشریات بند ہو گئی اور ایک اعلان چلنے لگا کہ تھوڑی دیر بعد سروس بحال ہو جائے گی۔

وہ کہتے ہیں ‘صحافی ہونے کے ناطے مجھے اندازہ ہوا کہ گڑبڑ بہت زیادہ ہے۔ میں نے اپنے ساتھی اور صحافی ادریس بختیار سے رابطہ کیا اور ہم دونوں نے طے کیا کہ فوری طور پر کراچی سے معلومات اکٹھی کی جائیں۔ اسی وقت ہمیں پتا چلا کہ جنرل مشرف کولمبو سے کراچی واپس آ رہے ہیں لہذا ہم دونوں نے طے کیا کہ کراچی ایئرپورٹ جانا چاہیے۔‘

ظفر عباس کے مطابق کراچی ایئرپورٹ پہنچنے پر بھی صورتحال واضح نہیں ہوئی ’یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ نواز شریف انچارج ہیں یا فوج؟‘ تاہم ‘اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف اور وزیرِ اعظم نواز شریف کے درمیان شدید قسم کا تناؤ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘اسی دوران مختلف قسم کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔ اسی دوران حالات کو بہتر کرنے کے لیے جنرل پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف بھی بنا دیا گیا تھا۔‘

‘جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ شاید حالات بہتر ہوں۔ لیکن کشیدگی کی صورتحال ایسی تھی کہ کافی لوگوں کو لگ رہا تھا کہ شاید اس کا کوئی حل نہ نکل پائے۔‘

ظفر عباس کہتے ہیں کہ پھر جب 12 اکتوبر کا واقعہ ہوا تو تمام باتیں کھل کر سامنے آ گئیں کہ ایک طرف نواز شریف نے غالباً یہ طے کر لیا تھا کہ وہ فوج کے سربراہ کو ہٹا دیں گے اور اس کے ردعمل میں پاکستان کی فوج نے جنرل مشرف کے ملک میں نہ ہونے کے باوجود ٹیک اوور کا فیصلہ کر لیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ فوج نے بھی طے کر لیا تھا کہ اگر نواز شریف کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں چاہے جنرل مشرف ملک میں ہوں یا نہ ہوں وہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔

مشرف مارشل لا
پی ٹی وی کے باہر موجود فوجی اہلکار

رلیکس میجر، گولی مت چلانا

مشاہد حسین سیّد کہتے ہیں ‘12 اکتوبر کی شام سات بجے میں اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔ سات بج کر پانچ منٹ پر مجھے آپریٹر کا فون آیا اور اس نے کہا کہ فوج آ گئی ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اسی وقت مجھے یہ بھی پتا چلا کہ میرے گھر آنے سے پہلے وزیرِ اعظم ہاؤس کا محاصرہ کیا جا چکا ہے۔

مشاہد حسین سیّد کہتے ہیں کہ ‘میرے گھر کے شیشے اور دروازے توڑے گئے۔ میں اوپر کی منزل پر تھا، بوٹوں کی آواز آئی اور میں سمجھ گیا کہ فوجی بغاوت ہو چکی ہے۔ اب ایسی صورتحال میں شروع کے چند لمحات بڑے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ گھبراہٹ پھیل چکی ہوتی ہے اور خوف بھی طاری ہوتا ہے۔ ایک میجر سامنے آیا اور اس نے اسلحہ نکالا ہوا تھا، میں نے انھیں کہا ‘ریلیکس میجر، یہاں کسی کے پاس اسلحہ نہیں ہے۔ گولی مت چلانا۔‘

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ انھیں ڈر تھا کہ ان کے گھر والوں کے سامنے گولیاں نہ چلنا شروع ہو جائیں۔

میجر نے انھیں اسی آرام سے جواب دیا ‘سر، وی ہیو ٹیکن اوور۔ آپ آرام سے بیٹھ جائیں۔‘

مشاہد حسین کہتے ہیں ‘میں نے پھر انھیں بتایا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہوں، آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھ جائیں۔ اس وقت میری اہلیہ کو یہ فکر تھی کہ یہ لوگ ڈرائنگ روم میں سگریٹ پی رہے ہیں۔ تو انھوں نے ایک دو کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ سموکنگ ایریا نہیں ہے یہاں سگریٹ نہ پیئں۔‘

مشاہد حسین کا دعویٰ ہے کہ اس وقت منسٹرز کالونی میں اور بھی وزیر تھے لیکن ان کے گھر فوج نہیں گئی۔ جس کے بعد انھیں یہ بھی پتا چلا کہ پی ٹی وی کا بھی محاصرہ کیا جا چکا ہے۔

آئین جسم کا حصہ ہے

اس دوران جہاں لاہور میں لوگوں کی پریشانی میں اضافہ ہوتا رہا وہیں ڈان اخبار میں 13 اکتوبر کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئے کہ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔

اسی طرح کئی حکومتی عمارتوں کے باہر لوگ ہجوم کی شکل میں نظر آئے تاکہ کسی طرح یہ جان سکیں کہ ملک کس کے ہاتھ میں ہے۔

جب تمام تر باتیں سامنے آ گئیں تو اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جی ایچ کیو میں اپنے کور کمانڈرِ سے خطاب کیا۔

17 اکتوبر کو کور کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ ‘میں دو کام کر سکتا تھا یا تو میں پورا جسم ختم کروں یا پھر جسم کا صرف ایک عضو ختم کروں۔ قوم جسم ہے اور آئین جسم کا ایک عضو ہے۔ اس لیے میں نے آئین کو رد کیا۔‘

اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت پر لکھی گئی کتاب ‘بے نیام تلواریں‘ میں مصنف شجاع نواز نے اس خطاب کا تذکرہ کیا ہے۔

ڈان

نواز شریف ٹُو پوائنٹ او

شجاع نواز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘نواز شریف اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ کچن کابینہ بنا کر جیسے حکومت چلاتے رہے ہیں اب اپنی جماعت بھی ویسے ہی چلا رہے ہیں۔ وہ ہی چار پیارے پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ مجھے ان میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔‘

جبکہ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے مطابق پہلے کے مقابلے میں نواز شریف میں خاصی تبدیلی آئی ہے اور ان کا یہ مطالبہ کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے، آئین کے عین مطابق ہے۔

ان کا کہنا تھا ‘گزشتہ ادوار میں بھی ہم نے دیکھا کہ سنہ 2013 سے لے کر ان کے دورِ حکومت کے اواخر تک فوج اور ان کے درمیان جاری چپقلش اور اختلافات میں کمی نہیں آئی۔ لہدا فوج کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘

اس حوالے سے مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ‘اس وقت وہ (یعنی نواز شریف) روایتی سیاست اور روایتی سیاستدانوں سے بھی دور ہو گئے ہیں۔ سنہ 1981 میں جو لوگ انھیں سرکاری یا اسٹیبلشمنٹ رہنما یا ضیا کی باقیات کہتے تھے، اب وہ تاثر بھی بہت حد تک بدل گیا ہے۔‘

لیکن اسی (2013 کے) دورِ حکومت میں بلوچستان میں نواز شریف کی اتحادی حکومت نے صوبے میں پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لیے راستہ استوار کرنے کے لیے صوبے کے جنوب مشرق میں ان تمام مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی شروع کی جن کی وجہ سے صوبے میں کئی سالوں سے شورش چل رہی تھی۔

اس سے ایک بار پھر ان کا ‘ریاست‘ سے آمنا سامنا ہوا۔ لیکن وہ اس طرح منظرِ عام پر نہیں آیا جس طرح 2016 میں ڈان لیکس کا معاملہ ناصرف سامنے آیا بلکہ نواز شریف کے لیے مفاہمت کے راستے بھی بند کرتا چلا گیا۔

ڈان لیکس کے ذریعے حکومت اور فوج کے درمیان ہونے والی ایک میٹنگ کے نکات سامنے آئے تھے جس میں حکمران جماعت نے فوج کو کہا تھا کہ اگر دہشتگردی پر قابو نہیں کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہائی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ خبر آنے کے بعد 2016 میں اس وقت کے آرمی چیف راحیل شریف نے اسے قومی سلامتی کا معاملہ کہتے ہوئے، اس ‘غلط خبر‘ کی تفتیش کرنے کو کہا تھا۔

اس بارے میں ڈان اخبار کے اڈیٹر ظفر عباس کہتے ہیں کہ ‘میڈیا سے حکومتوں اور ریاست کا تنازعہ چلتا رہتا ہے۔ جب بھی کوئی ایک ادارہ تنقید سننے کو تیار نہیں ہوتا تو صحافیوں کے ساتھ بھی معاملہ خراب ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ تنقید برداشت نہیں کی جارہی، اور اگر آپ یہ بیانیہ لے کر چلتے ہیں تب آپ کو حب الوطن مانا جائے گا ورنہ یہ تنازعہ چلتا رہے گا۔‘

مشاہد حسین سید

سویلین سپریمیسی، صرف ایک خیال؟

حالیہ دنوں میں ‘سویلین سپریمیسی‘ اور ‘فوج کی مداخلت‘ جیسے الفاظ کئی بار دہرائے جا چکے ہیں۔ جن کو سن کر یہ سوال بھی بارہا اٹھا گیا ہے کہ کیا سویلین سپریمیسی صرف ایک خیال ہی رہ جائے گا، یا اس پر عمل بھی ہوسکے گا؟

دوسری جانب یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت محدود کی جاسکتی ہے؟ سیاست دان، سیاسی تجزیہ نگار اور صحافی اس پر ملی جلی رائے رکھتے ہیں۔

شجاع نواز میثاقِ جمہوریت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا کہتے ہیں، جس کے ذریعے جماعتیں اپنا دفاع کرسکتی ہیں۔

جبکہ سینیٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ‘سیاست دانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اسلام آباد تک کا راستہ راولپنڈی جی ایچ کیو سے ہوتا ہوا نہیں جاتا۔ اسلام آباد تک پہنچنے کا راستہ انتخابات کے ذریعے جاتا ہے۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں، جبکہ سیاستدان فوج کو مزید دعوت نہ دیں تاکہ وہ ان کے مخالفین کے خلاف استعمال کیے جائیں۔‘

اب ایسا تاثر مل رہا کہ جلد یا بدیر یہ سبق سیکھنا ہی پڑے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *