آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ اختتام کو پہنچ گیا۔ اگرچہ انڈیا ٹرافی نہیں جیت سکا لیکن اس نے پورے ٹورنامنٹ پر اپنا غلبہ جمائے رکھا۔
کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میں جہاں انڈیا اور آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی دیکھی گئی وہیں کرکٹ کمیونٹی کے درمیان اختلافات بھی سامنے آئے۔ خاص طور پر انڈین کرکٹ بورڈ کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا کے ہمسایہ ممالک بی سی سی آئی سے ناراض ہیں؟
افغانستان اور نیپال کے علاوہ جنوبی ایشیائی کرکٹ کھیلنے والے تین دیگر ممالک پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے سابق کھلاڑیوں اور منتظمین نے حالیہ دنوں میں بی سی سی آئی سے کھل کر ناراضی کا اظہار کیا۔
یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا ہوا کیا۔
جے شاہ راناٹنگا کے نشانے پر
سری لنکا کے سابق کرکٹر ارجونا راناٹنگا نے حال ہی میں بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ پر سری لنکن کرکٹ بورڈ (ایس ایل سی) کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اس الزام کے بعد سری لنکن حکومت کو نہ صرف باضابطہ طور معافی مانگنی پڑی بلکہ رانا ٹنگا کے اس بیان پر حکومت کو وضاحت بھی جاری کرنی پڑی۔
سری لنکن کرکٹ بورڈ پہلے ہی غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لیکن ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی شکست کے بعد ہنگامہ آرائی اور حکومتی مداخلت کے باعث آئی سی سی نے سری لنکن بورڈ کی رکنیت معطل کر دی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق راناٹنگا نے جے شاہ پر سری لنکن کرکٹ پر دباؤ ڈالنے کا الزام ’ٹروتھ ود چموڈیتھا‘ نامی ٹاک شو کے دوران لگایا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’سری لنکن کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں اور جے شاہ کے درمیان تعلقات کی وجہ سے بی سی سی آئی کو لگتا ہے کہ وہ سری لنکن کرکٹ کو کچل سکتے ہیں اور اس کا کنٹرول سنبھال سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سری لنکن کرکٹ جے شاہ چلا رہے ہیں۔ جے شاہ کے دباؤ کی وجہ سے سری لنکن کرکٹ خراب ہو رہی ہے۔‘
جے شاہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر بھی ہیں۔
سری لنکن حکومت نے رانا ٹنگا کے بیان کے بعد باضابطہ طور پر افسوس کا اظہار کیا اور اس پر معذرت بھی کی۔
وزیر کاچن وجے سیکرا نے پارلیمنٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایشین کرکٹ کونسل کے صدر یا دیگر ممالک کو ان کے ادارے کی خامیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔‘
آئی سی سی ورلڈ کپ یا بی سی سی آئی ٹورنامنٹ؟
عام طور پر آئی سی سی ایونٹس میں دنیا بھر سے شائقین اپنی ٹیموں کو سپورٹ کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔
لیکن بہت سے پاکستانی شائقین کو ویزا دینے سے انکار کی وجہ سے 14 اکتوبر کو احمد آباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں انڈیا اور پاکستان کے میچ میں انڈین شائقین کی بھرمار کی وجہ سے صرف ایک ’نیلا سمندر‘ دیکھا گیا۔
میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے ڈائریکٹر مکی آرتھر نے کہا تھا کہ ’سچ کہوں تو یہ آئی سی سی ایونٹ کی طرح نہیں لگ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ دو طرفہ سیریز ہو، گویا یہ بی سی سی آئی کا ایونٹ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ میں نے مائیک پر ’دل دل پاکستان‘ کو شاذ و نادر ہی سنا گیا جو پاکستان کے کھیلوں کے مقابلوں کا اہم جزو تصور ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ سابق کرکٹرز نے بھی ٹاس اور پچ کے حوالے سے اس گمان کا اظہار کیا کہ انڈیا غلط طریقوں اور راستوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔
گو کہ ان دونوں مُلکوں کے کرکٹرز کے لیے اس طرح کی باتیں کہنا کوئی نئی بات نہیں لیکن حالیہ دنوں میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ برصغیر کے دو بڑے کرکٹ بورڈز کے درمیان رسہ کشی بڑھ گئی ہے۔
اس سے قبل پی سی بی نے وضاحت طلب کی تھی کہ آئی سی سی رقم کی تقسیم کیسے کرتی ہے۔
اس کے بعد چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے اعتراف کیا کہ انڈیا کو زیادہ حصہ ملنا چاہیے کیونکہ یہ کرکٹ کا ’مالیاتی انجن‘ ہے تاہم انھوں نے مجوزہ ریونیو ماڈل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
ایشیا کپ اور پی سی بی کی مشکلات
ورلڈ کپ سے ٹھیک پہلے ایشیا کپ کے دوران دونوں ہمسایہ ممالک کے بورڈز کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا۔
گزشتہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کے حقوق دیے گئے تھے لیکن بی سی سی آئی نے سکیورٹی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کردیا تھا۔
رواں سال 28 مئی کو بی سی سی آئی نے سری لنکا، افغانستان اور بنگلہ دیش کے کرکٹ بورڈز کے صدور کو آئی پی ایل فائنل دیکھنے کے لیے مدعو کیا تھا۔
اس دوران انھوں نے ایشیا کپ اور ایشیا کرکٹ کونسل کے دیگر امور پر بھی تبادلہ خیال کیا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
بعد ازاں ایشیا کپ کے شیڈول میں تبدیلی کر دی گئی۔ سری لنکن کرکٹ بورڈ نے بی سی سی آئی کی حمایت کی اور پی سی بی ایشین کرکٹ میں اکیلا رہ گیا۔
ابتدائی طور پر پی سی بی نے کہا تھا کہ ’ٹورنامنٹ کا انعقاد متحدہ عرب امارات میں ہونا چاہیے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو مشترکہ میزبانی کرنی چاہیے۔‘
لیکن سری لنکا اور بنگلہ دیش نے متحدہ عرب امارات میں گرم موسم کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی اور بالآخر پی سی بی کو سری لنکا کو ایشیا کپ کی مشترکہ میزبانی کے لیے قائل کرنا پڑا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق سربراہ نجم سیٹھی نے بھی ایکس پر ایک طویل پوسٹ لکھی جس میں اے سی سی کے سربراہ اور بی سی سی آئی کے سیکریٹری جے شاہ کو نشانہ بنایا گیا۔
شاہ نے کہا تھا کہ ’پی سی بی میں قیادت میں اچانک تبدیلی کی وجہ سے مذاکرات مناسب طریقے سے نہیں ہو سکے۔‘
بعد ازاں جب کولمبو میں کھیلے گئے میچ بارش کی وجہ سے منسوخ ہوئے تو پی سی بی کے سربراہ ذکا اشرف نے اے سی سی سے معاوضے کی درخواست کی۔ اس پورے واقعے کی وجہ سے کرکٹ کے ان دونوں لیجنڈری ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو گئے۔
بنگلہ دیش کے تحفظات
بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ ایشیا کپ کے دوران پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمکش میں پھنس گیا۔
بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کی کرکٹ سے متعلق سرگرمیوں کے چیئرمین جلال یونس نے اس بات پر ناراضی کا اظہار کیا کہ ان کے کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ کے دوران سری لنکا اور پاکستان کا دورہ کرنا پڑا۔
بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ چندیکا ہتھورو سنگھا نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان کولمبو میں کھیلے جانے والے سپر فور میچ کے لیے آئی سی سی کی جانب سے ریزرو ڈے رکھنے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے اسے جانبدارانہ اقدام قرار دیا۔
کئی سابق انڈین کرکٹرز نے بھی اس میچ کے لیے ریزرو ڈے شامل کرنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔