ایچ ای سی نے ماسٹرز، پی ایچ ڈی طلباء کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا

ایچ ای سی نے ماسٹرز، پی ایچ ڈی طلباء کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا   ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے سال 2023 کے لیے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا ہے۔ CSC نے 30,000 سے زیادہ افراد کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور مہارت حاصل کرنے، علم حاصل کرنے، اور عالمی ترقی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نیٹ ورکس بنانے کے لیے مالی اعانت فراہم کی ہے۔ ایچ ای سی کی ویب سائٹ کے مطابق ماسٹرز کے لیے 26، پی ایچ ڈی کے لیے 30 اور ٹیچنگ فیکلٹی پی ایچ ڈی کے لیے 10 نامزدگیاں دستیاب ہیں۔ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر (AJK) کے طلباء وظائف کے لیے CSC پورٹل پر 17 اکتوبر (منگل) تک درخواست دے سکتے ہیں۔ درخواست دہندگان اس لنک پر جا کر ماسٹرز، پی ایچ ڈی اور ٹیچنگ فیکلٹی (پی ایچ ڈی) اسکالرشپس کے لیے درخواست دے سکتے ہیں: کامن ویلتھ اسکالرشپس یوکے میں کامن ویلتھ اسکالرشپ کمیشن (سی ایس سی) بین الاقوامی ترقی کے مقاصد کے تحت یوکے حکومت کی دولت مشترکہ اسکالرشپ اسکیم فراہم کرتا ہے۔

ایچ ای سی نے ماسٹرز، پی ایچ ڈی طلباء کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا Read More »

پنجاب  رواں سال 2023 میں 2 ارب ڈالر  مالیت کا چاول برآمد کرے گا۔

پنجاب  رواں سال 2023 میں 2 ارب  امریکی  ڈالر  مالیت کا چاول برآمد کرے گا۔   لاہور: نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کی قیادت میں پنجاب حکومت نے زرعی شعبے میں شاندار ترقی حاصل کرتے ہوئے کپاس کے بعد چاول کی پیداوار میں اہم سنگ میل عبور کیا۔ کامیابی کی یہ کہانی صوبے کی نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ جاری ہے بلکہ اس سال 2 بلین امریکی ڈالر مالیت کے چاول برآمد کرنے کے لیے بھی تیار ہے، جس سے پاکستان کی مجموعی طور پر 3 بلین ڈالر مالیت کے چاول برآمد ہوئے ہیں۔ یہ پچھلے سال پنجاب سے چاول کی برآمدات میں ایک بلین ڈالر کے مقابلے میں 100 فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کپاس میں کامیابیوں کے بعد چاول کی پیداوار میں اس قابل ذکر کامیابی پر سیکرٹری زراعت اور سرشار ٹیم کو مبارکباد دی۔ انہوں نے مزید اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے دو سالوں میں پاکستان کی چاول کی برآمدات ممکنہ طور پر 5 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ مزید برآں، پنجاب اس سال روئی کی گانٹھوں میں گزشتہ کے مقابلے میں 125 فیصد اضافہ دیکھنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی روشنی میں سی ایم نقوی نے روئی کی قیمت کو مستحکم کرنے اور بڑھانے کے لیے کوششوں کی ہدایت کی ہے۔ صوبائی وزیر صنعت و زراعت ایس ایم تنویر سیکرٹری زراعت کے ہمراہ اس معاملے پر وفاقی حکومت سے رابطہ کریں گے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان سے روئی کی فوری خریداری شروع کرنے کے لیے رابطہ کیا جائے گا۔ پنجاب میں گندم کی پیداوار کا ابتدائی ہدف 40 ملین ٹن ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، سفارش کی گئی ہے کہ معیاری بیج استعمال کیے جائیں اور 15 نومبر تک گندم کی بوائی شروع کی جائے۔ مزید برآں، صوبے نے 19 لاکھ ایکڑ اراضی پر تیل کے بیجوں کی کاشت کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ایک خصوصی اجلاس میں نگران وزیراعلیٰ نے فصلوں کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے اہم اقدامات کی منظوری دی۔ اجلاس میں صوبائی وزیر صنعت و زراعت ایس ایم تنویر کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، سیکرٹریز زراعت، آبپاشی اور خزانہ سمیت اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

پنجاب  رواں سال 2023 میں 2 ارب ڈالر  مالیت کا چاول برآمد کرے گا۔ Read More »

Latest News and Updates

  شیر افضل مروت اور سینیٹر افنان کی ٹی وی پر  دوران سیاسی پروگرام میں  لڑائی 

  شیر افضل مروت اور سینیٹر افنان کی ٹی وی پر  دوران سیاسی پروگرام میں  لڑائی  براہ راست ٹیلی ویژن نشریات کے دوران واقعات کے ایک چونکا دینے والے موڑ میں، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے سینیٹر افنان اللہ خان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شیر افضل مروت کے درمیان جسمانی جھگڑا ہوگیا۔ یہ واقعہ چند روز قبل ایکسپریس نیوز کے اینکر جاوید چوہدری کے ٹاک شو “کل تک” کے دوران پیش آیا، جس نے ناظرین اور میڈیا برادری کو بے یقینی میں ڈال دیا۔ یہ جھگڑا، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہونے والے ایک وائرل ویڈیو کلپ میں پکڑا گیا، جب شو کے دوران دو مہمانوں، سینیٹر افنان اللہ خان اور شیر افضل مروت کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ تنازعہ تیزی سے بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں مروت نے سینیٹر افنان پر جسمانی حملہ کیا۔ اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے ترجمان کے مطابق سینیٹر افنان کی درخواست پر آبپارہ تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506 اور 352 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد کو اپنی درخواست میں، جس میں ، سینیٹر افنان نے الزام لگایا کہ مروت نے ان پر حملہ کیا، جھگڑے کے دوران انہیں تین تھپڑ مارے۔ سینیٹر نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنے چہرے اور سر پر چوٹوں کا طبی علاج کروانا پڑا کیونکہ وہ جھگڑے کے دوران بے ہوش ہو گئے۔ ٹاک شو کے میزبان جاوید چوہدری نے واقعات کے موڑ پر اپنی حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اگرچہ سیاسی ٹاک شوز میں زبانی جھگڑا کوئی معمولی بات نہیں ہے، لیکن انہیں کبھی بھی یہ توقع نہیں تھی کہ تصادم جسمانی تشدد تک بڑھ جائے گا۔ مزید یہ بھی پڑھیے جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی     مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کے حامیوں نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر جھڑپ میں اپنے اپنے نمائندوں کی جیت کا دعویٰ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، دستیاب ویڈیو کلپس میں جسمانی جھگڑے کی اکثریت مبہم ہے۔ سینیٹر افنان اور پی ٹی آئی کے وکیل مروت دونوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔ سینیٹر خان نے دعویٰ کیا کہ مروت نے حملہ شروع کیا تھا لیکن انہوں نے صرف مناسب جواب دیا تھا۔ “جب کہ میں عدم تشدد پر پختہ یقین رکھتا ہوں، میں نواز شریف (پی ایم ایل این سپریمو) کا ایک سرشار سپاہی ہوں۔ مروت کو جو سبق ملا ہے وہ پی ٹی آئی کے تمام اراکین خاص طور پر عمران خان کے لیے ایک اہم یاد دہانی ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔” اپنے چہروں کو دکھانے کے لیے اور انہیں [داغ چھپانے کے لیے] رنگین چشمے پہننا ہوں گے،” سینیٹر افنان نے ایک ٹویٹ میں کہا۔ اپنے یوٹیوب چینل پر جاوید چوہدری نے زور دے کر کہا کہ افنان نے مروت کو مؤثر طریقے سے زیر کر لیا، صورتحال کو قابو میں لایا۔ جواب میں مروت نے ٹی وی میزبان پر واقعے کے حوالے سے غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ سینیٹر افنان نے ہاتھا پائی کے دوران بالادستی حاصل کی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ افنان اللہ خان اسٹوڈیو سے بھاگ گیا تھا اور قریبی کمرے میں پناہ لی تھی۔ اپنے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد، مروت نے جاوید چوہدری سمیت بعض میڈیا شخصیات کی طرف سے بنائے گئے بیانیے پر سوال اٹھایا اور سینیٹر افنان کے گرد “بلیک بیلٹ” کے بیانیے پر وضاحت طلب کی۔ “کیا وسیم بادامی، جاوید چوہدری، اور منصور علی خان بلیک بیلٹ افنان کے بیانیے پر اپنی پوزیشن واضح کریں گے؟ سینیٹر افنان نے اپنی شکایت میں آپ کی مکمل تردید کی ہے کیونکہ آپ سب نے اپنے مختلف وی لاگز میں دعویٰ کیا تھا کہ فاتح بلیک بیلٹ تھا۔ تاہم، بلیک بیلٹ نے اپنی شکایت (مشال یوسفزئی کی طرف سے مجھ سے شیئر کی گئی شکایت) میں دعویٰ کیا کہ اسے بے دردی سے مارا گیا، زخمی کیا گیا، اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ بلیک بیلٹ کے اس بیانیے نے آپ کی پیشہ ورانہ سالمیت پر عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا ہے؟” مروت نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر لکھا۔

  شیر افضل مروت اور سینیٹر افنان کی ٹی وی پر  دوران سیاسی پروگرام میں  لڑائی  Read More »

Relatives are standing next to blast victim at a hospital in Quetta on September 30, 2023, a day after suicide bomber targeted a 12th Rabiul Awwal procession in Mastung district.

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں را   ملوث ہے، وزیر داخلہ

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں را   ملوث ہے، وزیر داخلہ   عبوری وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے ہفتے کے روز الزام لگایا کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں ہندوستان کی غیر ملکی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (را) ملوث ہے۔ کوئٹہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے دعویٰ کیا: “وہ لوگ جو سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو بھی یہ کر رہا ہے – چاہے وہ کوئی بھی ہو، آپ اسے جو بھی کہیں – وہ سب ہمارے لیے ایک ہیں، سب کی اصل ایک ہے، سب ایک ہیں۔ ایک جگہ سے ہینڈل کیا جا رہا ہے، ان سب کے پیچھے را کا ہاتھ ہے۔ وزیر نے مزید کہا، “اس سے پہلے ہونے والے تمام واقعات… وہ سب بے نقاب ہو گئے – تمام بڑے واقعات جو بلوچستان میں ہوئے – اور ان سب کے پیچھے RAW کا ہاتھ رہا ہے، اور وہ قوتیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔” انہوں نے اپنے بیانات کی حمایت کے لیے کوئی ثبوت یا ثبوت فراہم نہیں کیا۔ بگٹی کا یہ تبصرہ بلوچستان کے مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس کو نشانہ بناتے ہوئے ایک خوفناک خودکش دھماکے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جس میں ایک پولیس افسر سمیت 55 افراد کی جانیں گئیں۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے، جو پاکستان میں ہونے والے کچھ خونریز حملوں کی ذمہ دار ہے، نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ بلوچستان کی نگراں حکومت نے حملے کے بعد تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسرا بم حملہ کل خیبر پختونخواہ کے ہنگو میں ہوا، جس میں شہر میں ایک پولیس اسٹیشن کی مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں مسجد کی چھت گرنے سے 5 افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوگئے۔ آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے، بگٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کو ان کے “گھروں” تک لے جائیں گے اور خوش کرنے کی پالیسی “اب نہیں چلے گی”۔ “ہم کیا جانتے ہیں کہ یہ خوشامد کی پالیسیوں پر عمل کیا گیا – جو ہم نے پچھلے دو تین سالوں میں دیکھا – اس کے لئے کوئی رواداری نہیں ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ریاست جانتی ہے کہ دہشت گرد کہاں سے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے زور دے کر کہا، “ہم ان کے اڈوں میں جائیں گے، جہاں ان کی پرورش ہوتی ہے اور جو ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، اور ہم ان کے خلاف جائیں گے۔” یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ بعض اوقات ایک تنظیم کی طرف سے حملہ کیا جائے گا اور دوسری اس کی ذمہ داری قبول کرے گی، وزیر داخلہ نے کہا کہ حالیہ حملوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ “چاہے وہ داعش ہو یا ٹی ٹی پی یا کوئی اور… کوئی بھی کسی بھی جھنڈے تلے تشدد کر رہا ہے… تشدد صرف ریاست کرے گی،” بگٹی نے دہشت گردوں کا شکار کرنے کا عہد کرتے ہوئے کہا۔ اس ماہ کے شروع میں ہونے والے ایک حملے کو یاد کرتے ہوئے جس میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) کے رہنما حافظ حمد اللہ زخمی ہوئے تھے، وزیر نے کہا کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ بعد میں مارا گیا۔ انہوں نے دہشت گرد عناصر کے ساتھ نمٹنے کے دوران ریاست کی جانب سے “خوشامد کی پالیسی” کی طرف جانے کے ماضی کے واقعات پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: “میں آپ کو ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ایک خاص سطح تک پہنچ جاتے ہیں – چاہے وہ قوم پرستی کے نام پر دہشت گردی ہو یا مذہب کے نام پر – ہم طاقت کی ایک خاص پوزیشن پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اچانک، ہماری ریاست۔ خوشامد کی پالیسی پر سوئچ کرتا ہے اور ہم اپنی [کارروائی] کو کم کرتے ہیں۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی “ڈی سیز (ڈسٹرکٹ کمشنرز) اور ایس پیز (پولیس سپرنٹنڈنٹس) کو معطل کرنے کے معاملے کے بارے میں تفصیل سے بتا سکتے ہیں، اور زور دے کر کہا کہ اس کی “مکمل تحقیقات” کی جائیں گی۔ وزیر نے روشنی ڈالی کہ کل کا دھماکا “بلوچستان میں 12 ربیع الاول کے حوالے سے پہلا” تھا اور نوٹ کیا کہ ماضی میں ہزارہ برادری اور محرم کے جلوسوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس ماہ کے شروع میں ڈیرہ بگٹی ضلع سے اغوا کیے گئے فٹبالرز کے معاملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بگٹی نے تصدیق کی کہ ان میں سے چار واپس آچکے ہیں۔ جب ایک رپورٹر کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بازیاب ہو گئے ہیں یا اغوا کاروں نے رہا کر دیا ہے، بگٹی نے کہا، “چار [واپس] آ چکے ہیں اور باقی دو کو بھی، انشاء اللہ بازیاب کرایا جائے گا۔” سی ٹی ڈی نے مستونگ دھماکے کی ایف آئی آر درج کر لی   دریں اثنا، بلوچستان کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کہا کہ اس نے مستونگ حملے کی پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی ہے جس میں کل ایک پولیس افسر سمیت 55 افراد کی جانیں گئیں۔ آج جاری ہونے والے ایک بیان میں، سی ٹی ڈی نے کہا کہ ایک نامعلوم حملہ آور کے خلاف قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے ساتھ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ اس مہلک حملے کے نتیجے میں کم از کم 55 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ آج بلوچستان اسمبلی، وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس اور بلوچستان ہائی کورٹ سمیت سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ مستونگ کا پورا علاقہ “غم میں ڈوبا ہوا” ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دل ٹوٹنے کے باوجود، “جرات

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں را   ملوث ہے، وزیر داخلہ Read More »

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی برطانیہ مقیم پاکستانی

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی۔۔۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد شہریوں میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ کیا؟ برطانیہ کی ہاؤس آف کومنز ریسرچ لائبریری کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں رہنے والی تمام نسلی اکائیوں میں پاکستانی نژاد افراد کی بے روزگاری کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں اکتوبر سے دسمبر سنہ 2022 میں بے روزگاری کی شرح 3.8 فیصد تھی جس میں سفید فام آبادی کی شرح 3.1 فیصد جبکہ باقی سب نسلی اقلیتوں کی شرح 7.5 فیصد تھی لیکن جو بات سب سے زیادہ حیرت کی تھی وہ پاکستانی نژاد آبادی کی شرح تھی جو کہ 8.7 ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاروں کی تعداد نو جوانوں اور خواتین کی تھی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد لوگ ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی پہلی آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی جب تباہ شدہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور لیبر کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد مسلسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ کو اپنا گھر بناتی رہی ہے۔ برطانیہ کی حکومت ملک کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانی کمیونٹی کی خدمات کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن بیشتر پاکستانی ثقافتی اور روایتی وجوہات کی بنا پر اپنے مخصوص علاقوں میں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم پاکستانی تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے‘   رپورٹ میں چھپنے والے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں سولہ سے چوبیس برس کے تقریباً چودہ لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں، یعنی بیس فیصد پاکستانی نژاد نوجوان بے روزگار ہیں جو سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈین اور چینی نژاد نوجوان، ملازمتوں میں دوسری اقلیتوں سے بہت آگے ہیں۔ خواتین میں بے روزگاری کا تناسب پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد خواتین میں سب سے زیادہ ہے اور ان میں یہ شرح تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ بی بی سی اردو نے مشرقی لندن کے مصروف علاقے الفورڈ میں پاکلستانی نژاد شہریوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستانی نژاد برطانوی شہری بے روزگاری کی شرح میں دوسری برادریوں سے اتنے پیچھے ہیں۔ ایک شہری نے کہا کہ شاید اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ’جب وہ اس ملک میں آتے ہیں تو شاید اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہاں رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔‘ ایک اور شہری نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی اپنی خواتین کو نوکری کرنے کے لیے اتنا سپورٹ نہیں کرتے جتنی دوسری برادریاں کرتی ہیں۔ ایک پاکستانی نژاد شہری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’ہم تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے۔‘ ایک خاتون نے کہا کہ جب پاکستانی کسی ملازمت کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انھیں اگر انٹرویو کی کال آ بھی جائے تو وہ انٹرویو میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔ دردانہ انصاری نے بھی اس بات پھر زور دیا کہ جہاں حکومت اس پر بات کر رہی ہے کہ بے روزگاری ہے تو اسے یہ بھی چاہیے کہ وہ مسئلے کو صحیح طرح سمجھے اور اسے حل کرے لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔‘ وجہ نسلی امتیاز یا کم قابلیت؟ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی کارکن اور برطانوی رائل نیوی میں پہلی مسلمان اور پاکستانی اعزازی کیپٹن دردانہ انصاری نے اپنے تجربے کی روشنی میں پاکستانی برطانویوں کی بے روزگاری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم مین سٹریم میں شامل ہونے سے جھجکتے ہیں۔ ’ہم اپنے دائروں میں رہتے ہیں۔ دوسرا ماں باپ بھی بچے کو نئی راہیں ڈھونڈنے سے روکتے ہیں۔‘ انھوں نے مثال دی کہ جب بھی میں کہوں کہ بچے مسلح افواج جانے کی کوشش کریں تو ماں باپ اکثر کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ’اس طرح بچہ مین سٹریم سے دور ہی رہتا ہے اور جہاں دنیا میں انتہائی مقابلہ ہے تو وہاں ہم مقابلے سے ہی دور ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ آپ کو زیادہ تر پاکستانی بچے ٹیکسی چلاتے ہوئے ملیں گے، خصوصاً ملک کے شمالی شہروں میں۔ ’اگرچہ ٹیکسی چلانا کوئی برا کام نہیں لیکن بہت سوں کی سوچ ’کوئک منی‘ یا تیزی سے آنے والے پیسے کی طرف ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تعلیم حاصل کر کے بھی اسی طرف دوڑتے ہیں۔‘ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانوی حکومت کی اپنی ہی دیگر رپورٹس کے مطابق نسلی اقلیتوں کو روزگار کے حصول میں نسلی امتیاز کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ایک سفید فام کو جس درخواست اور سی وی پر نوکری مل سکتی ہے، ضروری نہیں کہ ایک پاکستانی نژاد شخص کو بھی ملے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سب کے لیے برابر مواقعوں کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی برطانیہ مقیم پاکستانی Read More »

Operation Wrath of God

آپریشن فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘

آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیا رواں سال 18 جون کو خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اس قتل کے پیچھے انڈین ایجنسیوں کے ہاتھ ہونے کا امکان ظاہر کیا تاہم انڈیا نے نہ صرف ایسے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا بلکہ اس قتل میں کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی ملک نے دوسرے کسی ملک پر انٹیلیجنس آپریشنز کا الزام لگایا گیا ہو۔ ماضی میں انڈیا اور پاکستان کئی بار ایک دوسرے پر انٹیلیجنس مشن کے تحت مختلف سرگرمیاں کرنے کا الزام بھی لگا چکے ہیں تو آئیے خفیہ ایجنسی  کے دو  خطرناک مشنز کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں کیے گئے۔ 1960: ’آپریشن فائنل‘ سنہ 1957 میں مغربی جرمنی کی ریاست ہیسے کے چیف پراسیکیوٹر فرٹز باؤر نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے رابطہ کر کے اطلاع دی کہ ایڈولف ایکمان زندہ ہیں اور ارجنٹائن میں واقع ایک خفیہ اڈے میں مقیم ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل ایڈولف ایکمان ایک طویل عرصے تک ہٹلر کی بدنامِ زمانہ ریاستی خفیہ پولیس ’گسٹاپو‘ میں ’جیوئش ڈیپارٹمنٹ‘ کے سربراہ رہے۔ ان کے دور میں ’فائنل سلوشن‘ (یعنی آخری حل) کے نام سے یہودیوں پر ظلم پر مبنی ایک انتہائی خطرناک پروگرام شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت جرمنی اور دیگر ہمسایہ ممالک میں مقیم ہزاروں یہودی شہریوں کو ان کے گھروں سے حراستی کیمپوں میں لے جا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سنہ 1933 اور سنہ 1945 کے درمیان نازی جرمن حکومت اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہولوکاسٹ کے تحت تقریبا 40 لاکھ سے زائد یورپی یہودیوں پر ریاستی سرپرستی میں منظم طور پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوا اور انھیں قتل کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد ایڈولف ایکمان کو تین بار پکڑنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ ہر بار گرفتاری سے بال بال بچ نکلتے۔ فریٹز بوور کو ارجنٹینا میں ایڈولف ایکمان مین کے قیام کی خبر وہاں رہنے والے ایک مقامی یہودی سے ملی جن کی بیٹی اور ایڈولف کے بیٹے کے درمیان افیئر چل رہا تھا۔ ابتدا میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ان معلومات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن بعد میں جب انھوں نے اس کی اپنے طریقے سے چھان بین کی تو انھیں اس کی حقیقت پر یقین آ گیا۔ چارلس ریورس اپنی کتاب ’دی کیپچر اینڈ ٹرائل آف ایڈولف ایکمن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایڈولف ایکمان بھلے ہی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے افسر رہے ہوں تاہم نازی دور میں ان کا رتبہ کسی جنرل سے کم نہ تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ ہٹلر کی سب سے قریبی ساتھیوں کو براہ راست رپورٹ کیا کرتے تھے۔‘ ارجنٹائن میں ایکمان کے روپوش ہونے کی خبر کی تصدیق ہونے کے بعد اسرائیل کے موساد کے سربراہ نے رفیع ایتان کو اس مشن کا کمانڈر مقرر کیا اور انھیں احکامات جاری کیے گئے کہ ایجنٹ انھیں زندہ پکڑ کر اسرائیل واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ موساد کی ٹیم نے بیونس آئرس میں ایک گھر کرائے پر لیا، جسے خفیہ رکھنے کے لیے ’کیسل‘ کا نام دیا گیا۔ اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ ارجنٹائن 20 مئی کو اپنی آزادی کی 150 ویں سالگرہ منائے گا۔ اس خبر کے سامنے آنے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسرائیل بھی وزیر تعلیم عبا ابن کی قیادت میں ایک وفد ارجنٹینا بھیجے گا۔ انھیں وہاں لے جانے کے لیے اسرائیل کی ایئرلائن نے اپنے خصوصی طیارے ’وسپرنگ جائنٹ‘ کا انتظام کیا۔ اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس میں طے پایا کہ اسرائیلی وزیر تعلیم کے علم میں لائے بغیر ایکمان کو اغوا کر کے اس طیارے میں واپس اسرائیل لایا جائے۔ ایکمان ہر شام تقریباً سات بج کر 40 منٹ پر بس نمبر 203 کے ذریعے گھر واپس آتے اور پھر اپنے گھر پہنچنے کے لیے تھوڑا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔ اس معمول کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بنایا گیا کہ اس آپریشن میں دو کاریں حصہ لیں گی اور انھیں ایک کار میں اغوا کر لیا جائے گا۔ ایکمان کو بس سے اترتے ہی اغوا کر لیا گیا۔ 20 مئی کی رات ایکمان کو اسرائیلی ایئرلائن کے کارکن کا لباس پہنایا گیا تھا۔ زیف ذکرونی کے نام سے ایک جعلی شناختی کارڈ ان کی جیب میں رکھا گیا اور اگلے دن ان کا طیارہ تل ابیب میں اُترا۔ یہ خبر ان کے اسرائیل پہنچنے کے دو دن بعد دنیا کے سامنے رکھی گئی۔ کئی ماہ تک چلنے والے مقدمے میں 15 کیسز میں قصوروار پائے جانے کے بعد انھیں بلآخر موت کی سزا سنائی گئی۔ آپریشن ’رتھ آف گاڈ‘ سال 1972 کا تھا اور جرمنی میں میونخ اولمپکس کھیلوں کے مقابلے جاری تھے۔ پانچ ستمبر کی رات کو میونخ اولمپک ویلیج میں اسرائیلی کھلاڑی اپنے فلیٹ میں سو رہے تھے کہ اچانک پوری عمارت مشین گنوں کی آوازوں سے گونج اٹھی۔ ’بلیک ستمبر لبریشن آرگنائزیشن‘ کے آٹھ فلسطینی جنگجو کھلاڑیوں کے لباس پہن کر اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 11 اسرائیلی کھلاڑی اور ایک جرمن پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کے صرف دو دن بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں پی ایل او کے 10 ٹھکانوں پر بمباری کر کے انھیں تباہ کر دیا۔ کئی سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اسرائیل نے اس وقت دراصل کیا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت کی اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا میر نے جوابی کارروائی کے لیے ’کمیٹی‘ تشکیل دی تھی جس کے انچارج موساد کے اس وقت کے سربراہ تھے۔ سائمن ریو کی کتاب ’ون ڈے ان ستمبر‘ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے اس آپریشن کی تیاری میں ایک طویل وقت صرف کیا تھا تاکہ دنیا کے

آپریشن فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ Read More »

Mastung Attack Balochistan Pakistan

‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘

مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے تھے‘   ’وہاں جو صورتحال تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے سمجھ لیں کہ قیامت کا منظر تھا۔ لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے، کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کے ہاتھ پاؤں نہیں تھے۔‘ یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے ایک عینی شاہد برکت علی کا۔ مستونگ شہرمیں کوڑا خان روڈ پر واقع مدینہ مسجد کے سامنے لوگ عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والے ایک جلوس میں شرکت کے لیے اکھٹے ہو رہے تھے جب زوردار دھماکہ ہوا۔ مستونگ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رشید محمدشہی نے بتایا کہ دھماکے میں 52 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق زخمیوں میں سے 52 افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹرمنتقل کیا گیا جبکہ بعض زخمیوں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر احمد جمالی نے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے کیا جانے والا ایک واقعہ ہے۔ عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟   مستونگ سے تعلق رکھنے والے برکت علی اُن لوگوں میں شامل تھے جو کہ عیدمیلاد النبی کی جلوس میں شرکت کے لیے مدینہ مسجد پہنچے تھے۔ وہ خود تو اس دھماکے کے نتیجے میں محفوظ رہے تاہم جائے وقوعہ سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو ایمبولینسوں میں منتقل کرنے کے دوران اُن کے کپڑے خون آلود ہو گئے جبکہ وہ غم کی شدت سے نڈھال تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر تھے اسی لیے وہ بچ گئے لیکن وہاں جو حالات تھے وہ بالکل ناقابل بیان تھے۔ ’آج میں نے قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دھماکے کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو سامنے بہت درد ناک مناظر تھے، ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے ہوئے تھے۔‘ اس واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد عید میلاد النبی کے جلوس کا حصہ ہیں۔ جلوس میں موجود گاڑی پر نعتیہ کلام بلند آواز سے چل رہا تھا جبکہ بہت سے شرکا کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے۔ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور انسانی اعضا فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ بی بی سی اس ویڈیو کی آذادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ سیف اللہ بھی اسی جلوس کا حصہ تھے اور وہ دھماکے کے بعد اپنے زخمی ہونے والے بھائی کے ہمراہ ٹراما سینٹر کوئٹہ آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعہ میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے 10 کے قریب ان کے رشتہ دار ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جلوس کی روانگی کے انتظار میں تھے کہ اس دوران زور دار دھماکہ ہوا۔ میں دھماکے کی جگہ سے لگ بھگ ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر تھا اس وجہ سے دھماکے کی زد میں نہیں آیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جس مسجد کے سامنے یہ دھماکہ ہوا اس کے خطیب بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جن زخمیوں کو ٹراما سینٹر لایا گیا تھا ان میں جامعہ مدینہ کے مدرس مولانا شیر احمد حبیبی بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عید میلاد النبی کا جلوس بڑی دھوم دھام کے ساتھ اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے والا تھا جب دھماکہ ہوا۔ ہمارے ساتھی درود کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔‘ سرفراز ساسولی دھماکے کا نشانہ بننے والے جلوس کی سکیورٹی پرمامور تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جلوس سے ایک ڈیڑھ کلومیٹرکے فاصلے پر تھے اور جلوس کے راستے کو کلیئر کرنے کے کام میں مصروف تھے جب انھیں دھماکے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے وہ تو محفوظ رہے لیکن جلوس میں ہونے کی وجہ سے ان کے دو بھائی اس میں زخمی ہوئے۔دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حکام کا کیا کہنا ہے ؟ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے بارے میں تحقیقات جاری ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ ایک خود کش دھماکہ تھا۔ بلوچستان پولیس کے انسپیکٹر جنرل عبدالخالق شیخ نے بتایا کہ ’مستونگ میں پہلے بھی سکیورٹی آپریشن ہو رہے ہیں اور ہماری جوٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں انھوں نے بہت ساری مفید معلومات حاصل کی ہیں جن کی روشنی میں مزید آپریشن کیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ مستونگ کہاں واقع ہے؟ مستونگ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ سے متصل جنوب میں واقع ایک ضلع ہے۔ یہ مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ضلع مستونگ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پرمشتمل ہے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع مستونگ میں بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ضلٰع مستونگ میں رواں مہینے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ پربم حملہ ہوا تھا جس میں حافظ حمداللہ سمیت 13افراد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ مستونگ کے علاقے کانک میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 125سے زائد افراد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مستونگ میں رونما ہونے والے واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں جبکہ بعض کہ ذمہ داری مذہبی شدت پسندتنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ تاہم اس واقعے کی ذمہ داری فی الحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان

‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘ Read More »

Sher Afzal Marwat and Afnan Ullah fight in Talk show

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی: اس ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار کون اور شو میزبان کو کیا کرنا چاہیے؟   پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے پرائم ٹائم ٹاک شو ’کل تک جاوید چودھری کے ساتھ‘ کا ایک کلپ وائرل ہے، جس میں پروگرام کے مہمان آپس میں تلخ کلامی اور سخت جملوں کے تبادلے کے بعد ایک دوسرے پر تھپڑ اور مکے برساتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پروگرام میں ہاتھا پائی کرنے والے یہ مہمان مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی کور کمیٹی کے رکن اور وکیل شیر افضل خان مروت ہیں۔ واضح رہے یہ پروگرام براہ راست نشر نہیں کیا گیا تھا اور دونوں سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ جھگڑا بدھ کے روز ہونے والے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہوا تاہم سوشل میڈیا پر اس کا کلپ وائرل ہوا۔ پروگرام کا مختصر کلپ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے جہاں اس جھگڑے کی مذمت کی تو وہیں کچھ لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو ٹی وی سٹوڈیو سے لیک ہونے اور ایسی صورتحال میں پروگرام اینکر کی ذمہ داری پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ اس وائرل ویڈیو کلپ میں کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس وائرل ویڈیو کلپ میں پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے رکن شیر افضل خان مروت اپنی اپنی سیاسی جماعت کے بیانیے پر بحث کر رہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی قیادت کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس دوران بات بڑھتی ہیں اور دونوں مہمان ایک دوسرے کی سیاسی قیادت کی کردار کشی سے متعلق جملے کستے ہیں اور اسی گرما گرمی میں دونوں مہمان ذاتی نوعیت کے لفظی حملے کرنے لگتے ہیں۔ اس دوران پروگرام اینکر جاوید چودھری ایک دو مرتبہ مہمانوں کو ٹوکتے ہوئے تلخ کلامی سے روکتے ہیں۔ اسی اثنا میں پی ٹی آئی کے شیر افضل خان مروت اپنی نشست سے اٹھتے ہیں اور ساتھ بیٹھے مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان کو تھپڑ رسید کر دیتے ہیں۔ جس کے بعد دونوں مہمان دست و گریبان ہو جاتے ہیں اس دوران پروگرام اینکر جاوید چودھری دونوں کو ہاتھا پائی روکنے کا کہتے ہیں اور فوراً سٹوڈیو میں موجود عملے کو اندر آ کر مہمانوں میں بیچ بچاؤ کروانے کا کہتے ہیں۔ کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پروگرام اینکر بھی اپنی نشست سے اٹھ کر دونوں مہمانوں کے قریب آتے ہوئے ڈاکٹر افنان کو شیر افضل خان مروت کو چھوڑنے کا کہتے ہیں۔ جس کے بعد سٹوڈیو میں موجود ایک شخص ڈاکٹر افنان کو پکڑ کے ایک طرف لے جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بدھ کی شب ہونے والی اس ریکارڈنگ کے بعد یہ پروگرام ٹی وی پر نشر بھی کیا گیا تھا تاہم اس میں اس لڑائی والے حصے کو کاٹ دیا گیا تھا۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ سینیئر صحافی و اینکر پرسن جاوید چودھری کے پروگرام میں ایسا ہوا ہو۔ اس سے قبل بھی جون 2021 میں ان کے ایک پروگرام میں اس وقت پی ٹی آئی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے لفظی تکرار کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما قادر مندوخیل کو تھپڑ رسید کر ڈالا تھا۔ ناخوشگوار واقعے پر لڑنے والے سیاستدانوں کا کیا ردعمل ہے؟ نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک جاوید چودھری کے پروگرام میں ہاتھ پائی کرنے والے مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی رہنما شیر افضل خان مروت نے وائرل کلپ کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنا ردعمل دیا۔ شیر افضل خان مروت نے اس واقعے پر کہا کہ ’ ایکسپریس ٹی وی کے میزبان جاوید چوہدری گذشتہ رات ہونے والے ناخوشگوار واقعے کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔‘ ’وہ یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ میرا مخالف کوئی سپرمین تھا۔ وہ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ افنان نے سٹوڈیو سے بھاگ کر قریبی کمرے میں پناہ لی، جس کا مجھے آج ان کا پروگرام دیکھ کر پتا چلا۔ میں تقریباً پانچ سے سات منٹ تک سٹوڈیو میں رہا۔ بعد میں،مجھے بتایا گیا کہ اس حصے کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور میں وہاں سے چلا گیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے متعصب ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جو میں اتوار کو میڈیا سے شیئر کروں گا۔ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ اور مجرمانہ شکایت کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں اور اپنی ریکارڈ شدہ آڈیو گفتگو بھی شیئر کروں گا جو آج ان کے اور میرے درمیان ہوئی۔ میرے پاس اس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں۔ دیکھتے رہنا۔‘ جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مروت نے کل ٹاک شو میں مجھ پر حملہ کیا، میں عدم تشدد پر یقین رکھتا ہوں مگر میں نواز شریف کا سپاہی ہوں۔ جو پھینٹا مروت کو لگایا ہے یہ تمام پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کے لیے ایک اہم سبق ہے، کہیں شکل دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، بڑی بڑی کالی عینکیں لگانی پڑیں گی۔‘ پروگرام اینکر جاوید چودھری کا کیا موقف ہے؟ اس ناخوشگوار واقعے پر جب ہم نے پروگرام کے اینکر و سینیئر صحافی جاوید چودھری سے سوال کیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ان کے پروگرام میں ایسا واقعہ پیش آیا ہو تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو یہ واقعتاً ایک قابل مذمت واقعہ ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کیونکہ یہ اچانک ہوا اور ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر دو لوگ بیٹھے ہوں تو ایک اچانک اٹھ کر دوسرے پر کافی پھینک دے گا یا ہاتھا پائی کرے تو آپ کو کیسے پتا چل گا یہ وہ یہ قدم اٹھانے لگا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’آج تک ایسی کوئی مشین نہیں بنی جو کسی انسان کی نیت کو جانچ سکے کہ وہ چند لمحوں بعد کیا کرنے والا ہے۔‘

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی Read More »

Australian war Memorial

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں     آپریشن جے وک ایک دلیرانہ منصوبہ تھا جو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادیوں کے سب سے کامیاب سبوتاژ آپریشنز میں سے ایک تھا۔ اس آپریشن کی کہانی کسی ایکشن فلم جیسی لگتی ہے: 14 برطانوی اور آسٹریلوی کمانڈوز آسٹریلیا سے ہزاروں کلومیٹر دور ایک کشتی کے ذریعے سنگاپور پہنچتے ہیں جو اس وقت جاپان کے قبضے میں تھا۔ ان کمانڈوز کو لنگیاں پہنا کر چہرے پر بھورا رنگ ملنے کو کہا گیا تاکہ وہ مقامی مچھیرے لگیں۔ پھر انھوں نے اپنی کشتی سنگاپور سے کچھ دور چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں ایک بندرگاہ میں گھسنا تھا۔ اس مشن کا آخری لمحہ وہ تھا جس میں ان کمانڈوز نے جاپانی بحری جہازوں پر ٹائم بم لگا کر وہاں سے غائب ہونا تھا۔ یہ کام 26 ستمبر 1943 کی رات کو ہوا جس کے اگلے دن سات بحری جہاز 30 ہزار ٹن سامان سمیت تباہ ہوئے یا ڈوب گئے۔ یہ 14 افراد کامیابی سے آسٹریلیا واپس پہنچے جہاں انھوں نے اپنے 48 دن کے سفر کی کہانی سنائی جس کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب ایک جاپانی جنگی جہاز انڈونیشیا کے پانیوں میں ان کے بہت قریب سے گزرا تو کمانڈوز دھماکہ خیز مواد سے لدی ہوئی اپنی کشتی کو تباہ کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے۔ 80 سالہ برائن ینگ اسی عملے میں شامل ریڈیو آپریٹر ہوری ینگ کے بیٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد نے ایک صحافی کو بتایا کہ اگر ہم ایسا کرتے تو ہمای کشتی کے ساتھ جاپانی جہاز بھی تباہ ہو جاتا لیکن وہ جہاز چلا گیا اور ان سب نے اپنی قسمت پر شکر ادا کیا۔‘ اس پرخطر مشن کو 80 سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک یہ ایک مشہور موضوع ہے جس پر لاتعداد کتابیں، ڈاکومنٹریز، ٹی وی اور فلمیں بن چکی ہیں۔ کریٹ، وہ کشتی جس پر ان کمانڈوز نے سفر کیا تھا، 1988 سے آسٹریلیا کے نیشنل میری ٹائم میوزیئم میں موجود ہے۔ بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’دشمن کی دفاعی لائن کے دو ہزار میل پیچھے ایسے جرات مندانہ مشن کی منصوبہ بندی اور تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔‘ اس مشن کو ٹاسک فورس زیڈ سپیشل یونٹ کی مدد سے مکمل کیا گیا تھا جو اتحادیوں کی جانب سے سبوتاژ کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ یونٹ تھی۔ اس کے سربراہ کیپٹن ایوان لیون تھے جنھوں نے مشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کو چنا اور پھر ان کی تربیت کی۔ سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ملٹری سٹڈیز کے این لی کا خیال ہے کہ آپریشن جے وک ایسی جنگی حکمت عملی کی مثال ہے جس میں غیر روایتی طریقوں سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ روس کیخلاف یوکرین کی سپیشل فورسز کے چھوٹے دستوں کے حملوں کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جے وک کی طرح ان حملوں کی علامتی اہمیت ہوتی ہے جس سے دشمن کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ آپریشن جے وک سے بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکا کیوںکہ زیادہ تر جاپانی جنگی جہاز ہفتوں میں مرمت ہونے کے بعد قابل استعمال ہو چکے تھے۔ تاہم اس حملے کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہوا کیوںکہ یہ بندرگاہ ایک محفوظ مقام مانا جاتا تھا جہاں تک اتحادی فوج کی رسائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’جاپانی کبھی یہ دریافت ہی نہیں کر پائے کہ یہ حملہ کیسے ہوا جس کا مطلب تھا کہ جنگ کی باقی ماندہ مدت کے دوران کافی وقت اور افرادی قوت اس بندرگاہ کو محفوظ بنانے پر استعمال ہوئی جو کہیں اور نہیں لڑ سکتی تھی۔‘ تاہم اس حملے کے نتائج سنگاپور میں بسنے والے عام شہریوں کو بھگتنا پڑے کیوں کہ اتحادیوں نے اس آپریشن کی خبر عام کرنے کا فیصلہ تبدیل کر دیا تاکہ وہ مستقبل میں ایسے ہی حملے کر سکیں۔ جاپانی حکام کو یقین تھا کہ مقامی جیل کے قیدی ہی اس حملے کے ذمہ دار ہیں اور 10 اکتوبر کو 57 قیدیوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ان میں سے 15 تشدد سے ہلاک ہو گئے جسے ڈبل ٹینتھ واقعہ کہا جاتا ہے۔ جب برائن ینگ پیدا ہوئے تو ان کے والد اسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اپنے جنگی تجربات پر شازونادر ہی بات کیا کرتے تھے۔ ’ایک بات وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ انھیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مقامی لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔‘ 1944 میں لیون کی سربراہی میں، جو اس وقت تک لیفٹینینٹ کرنل بن چکے تھے، اس بندرگاہ پر ایک اور حملے کی کوشش کی گئی لیکن اس بار جاپانیوں نے بروقت انھیں دیکھ لیا۔ 23 افراد پر مشتمل اس ٹیم کے تمام اراکین مارے گئے یا انھیں گرفتار کرنے کے بعد مار دیا گیا۔ کریٹ کشتی کا عملہ تو اب نہیں رہا لیکن یہ ایسی کہانی ہے جس کی بازگشت ان کے بچوں میں اب بھی سنائی دیتی ہے۔   برائن ینگ کہتے ہیں کہ ’میرے والد اور ان کے ساتھی ایک جیسے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ اس مشن پر جانے والے آرتھر جونز اکثر ان سے ملنے آتے اور ’وہ دونوں اس وقت کو یاد کرتے جب انھیں اپنے جسم پر رنگ ملنا پڑا تھا۔‘ ’وہ کہتے تھے کہ اگر کوئی جاپانی ہم سے 100 میٹر قریب تک آ جاتا تو وہ جان لیتا کہ ہم مقامی نہیں۔‘ رون مورس کے بیٹے ایوان مورس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی وفات کے بعد ہی میں نے اس مشن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ یہ بہادری کی کہانی ہے۔‘ ان کی تحقیق اب ایک کتاب کی صورت میں چھپی ہے جس کا نام ’دی ٹائیگرز ریونج‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ کتاب انھوں نے اپنے خاندان اور پوتوں کے لیے لکھی ہے۔ رون مورس نے بھی جنگ کے

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں Read More »

Ex Prime Minister of Pakisan Mian Muhammad Nawaz Sharif

جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد نون لیگ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟

جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد نون لیگ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟ سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی اکتوبر میں متوقع طور پر پاکستان واپسی سے قبل نئے سوال اور تنازعے جنم لے رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر خود ن لیگ کے بیانات کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کی بقیہ سزا کا سوال موجود ہے وہیں ایک تنازع ان کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت موجودہ سپریم کورٹ جج اعجاز الاحسن کے خلاف کارروائی کا عندیہ دینے کی وجہ سے کھڑا ہوا۔ یہ بیان نواز شریف نے لندن میں دیا تھا جس میں انھوں نے ان افراد کو سنہ 2017 میں ان کی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، عظمت سعید، اعجاز الاحسن پاکستان اور 22 کروڑ عوام کے مجرم ہیں۔ نواز شریف کے مطابق ’جب تک اس سازش میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘ اس بیان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے پاکستانی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو مشورہ دیا کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہ کرے اور ایسی محاذ آرائی سے گریز کرے۔ ایسے میں ن لیگی رہنماوں سے بھی صحافیوں کے سوالات کا تانتا بندھا تو منگل کے دن ن لیگی رہنما جاوید لطیف نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مٹی ڈالیں۔ تو چلیں 2017 کے کرداروں کا احتساب نہ کریں، اگر کوئی نہیں کروانا چاہتا، ادارے نہیں کرنا چاہتے، سمجھتے ہیں کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، کوئی کہتا ہے اس سے پھر ٹکراو کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔‘ جاوید لطیف نے اسی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’میں اور پارٹی میں نوے فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنے قصوروار جنرل فیض ہیں، اتنے ہی قصوروار جنرل باجوہ ہیں۔‘ ’ہم تو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا کسی طور پر بھی ڈیمانڈ نہیں کر رہے کہ ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔۔۔ ہم تو ڈیمانڈ آج کر رہے ہیں اور پورے زور سے کر رہے ہیں کہ اگر نو اور دس مئی کے کرداروں کو، سہولت کاروں کو اور آج کے موجودہ جو ہیڈ ہیں اس ادارے کے، ان کے خلاف، ادارے کے خلاف بغاوت پر اکسانے والوں کو آپ کیفر کردار تک نہیں پہنچائیں گے ، وہ کوئی بھی ہو۔۔۔ تو کیا کل اداروں میں کوئی انصاف کر سکے گا۔‘ جاوید لطیف کے اس بیان کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا کہ نواز شریف کی جانب سے سابق فوجی افسران اور ججوں کے خلاف کارروائی کی بات پر پارٹی پیچھے ہٹ رہی ہے۔ بدھ کی رات پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے پروگرام میں میزبان کاشف عباسی نے ن لیگ کے رہنما محمد زبیر سے سوال کیا کہ کیا نواز شریف احتساب چاہتے ہیں یا نہیں تو محمد زبیر نے جواب دیا کہ ’تھوڑا سا انتظار کر لیں، وہ آئیں گے تو پتا چل جائے گا۔‘ نواز شریف نے پاکستان واپسی سے کچھ ہی عرصہ پہلے یہ بیان کیوں دیا اور اب ن لیگ اس بیان سے پسپائی کیوں اختیار کر رہی ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ جب بی بی سی نے جاوید لطیف سے یہی سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ادارے قانون کے مطابق کام کریں۔ کسی کو شکایت نہ ہو کہ کسی فرد نے ماورائے آئین کام کیا۔ پاکستان میں چاہے بھٹو کا کیس ہو یا کسی اور کا، ایک طبقہ کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے، ایک طبقہ کہتا ہے سیاست دانوں کا قصور ہے اور عوام کنفیوز ہو جاتی ہے۔ جس کے پاس ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں وہ حاوی ہو جاتا ہے۔‘ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ’ہر ادارے میں خود احتسابی کا طریقہ موجود ہے اور اگر اس طریقے کے مطابق ادارے کام کر لیں تو قوم کو ان سے کبھی بھی شکایت نہیں ہو گی لیکن ان اداروں میں طاقتور لوگ جن سے اصل شکایت ہوتی ہے، احتساب کرنے والے ان کے سامنے کمزور ہو کر احتساب نہیں کر پاتے۔‘ جاوید لطیف نے نواز شریف کے بیانیے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کہہ رہے ہیں کہ عوام کی حمایت سے اگر ہمیں موقع ملا تو ہم کوشش کریں گے کہ اس ادارہ جاتی خود احتسابی کے طریقہ کار کو اتنا موثر کریں کہ کوئی کتنا ہی طاقتور ہو وہ اس سے بچ نہ سکے تاکہ ریاست بھی چلے اور بار بار بیانیے کا سوال بھی نہ اٹھے۔‘ نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل خود ہی جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بحث کیوں چھیڑی؟ لیکن بیانیے کا سوال ن لیگ اور نواز شریف کا پیچھا شاید نہیں چھوڑے گا۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنشن کا معاملہ ہو یا پھر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا، ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کا معاملہ زیر بحث آتا رہے گا۔ تو ایسے میں نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل خود ہی جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بحث کیوں چھیڑی؟ صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے نزدیک بیانیہ بنانے سے زیادہ ایک ’واٹر چیک‘ تھا کیونکہ ’ابھی یہ بات تنظیمی ڈھانچے سے خطاب میں کہی گئی تھی، واضح بیانیہ ابھی سامنے نہیں آیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بیانیہ بنانے سے پہلے انھیں اپنی صفوں میں بھی چیزیں دیکھنی ہیں کیونکہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ اب شہباز شریف کا بھی جماعت پر اثرورسوخ ہے۔‘ ’یہی وجہ ہے کہ جب انھوں

جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد نون لیگ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟ Read More »