پاکستان میں انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں انتخابی معرکہ مارنے کے لیے بڑھ چڑھ کر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہیں۔ کہیں انتخابی مہم شروع کر دی گئی ہے تو کہیں ٹکٹوں کے لیے مضبوط امیدوار میدان میں اتارنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔
سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کرتی سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اگرچہ جماعت کے چیئرمین عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے اکثر مرکزی رہنما پابند سلاسل ہیں اور کئی منظر نامے سے غائب بھی۔
پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر شیر افضل مروت کے بقول: ’ایسے حلقوں میں جہاں امیدوار کمزور ہیں یا کارروائی کا خطرہ ہے، تحریک انصاف وکلا اور خواتین کو ٹکٹ جاری کرے گی۔‘
اگرچہ پی ٹی آئی قیادت کا دعویٰ ہے کہ انہیں سب سے زیادہ عوامی مقبولیت اور حمایت حاصل ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح انتخابی عمل پورا کرے گی اور اپنی توقعات کے مطابق نشستیں لینے میں کامیاب ہو گی؟
وکلا اور خواتین کو ٹکٹ دینے کا مقصد
شیر افضل مروت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کی قیادت جیل میں ہے۔ مرکزی رہنماؤں کو بھی سخت انتقامی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جہاں کوئی مضبوط امیدوار نہیں ملے گا اور جس حلقے کا امیدوار پارٹی چھوڑ چکا ہے، وہاں ہم وکلا اور ان خواتین کو ٹکٹ جاری کریں گے، جو پارٹی کے ساتھ سختیاں برداشت کر کے وفاداری سے کھڑے ہیں۔‘
شیر افضل کے بقول: ’وکلا پر انحصار اس لیے زیادہ کیا جا رہا ہے کیونکہ ان کے ساتھ بار ایسوسی ایشنز بھی ہوتی ہیں اور عدالتوں تک رسائی بھی ان کے لیے قدرے آسان ہوتی ہے۔ اس لیے اگر کسی وکیل امیدوار کے خلاف انتقامی کارروائی کی کوشش کی گئی تو وہ اس کا سامنا بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔
’اسی طرح خواتین کو بھی معاشرے میں مختلف مقام حاصل ہے لہذا انہیں بلاوجہ کارروائی کا نشانہ بنانا مشکل ہوتا ہے، اس لیے خواتین جو پی ٹی آئی کے ساتھ مشکل وقت میں کھڑی ہیں اور مؤثر کردار ادا کر رہی ہیں، انہیں ٹکٹ دینے میں ترجیح ہو گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’نو مئی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت، رہنماؤں اور ہمارے سابق اراکین اسمبلی کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ ان حالات میں کم عرصے کے دوران تمام حلقوں سے متبادل امیدوار لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’ہماری حکمت عملی ہے کہ ایک تو وکلا اور خواتین کو ٹارگٹ کرنا مشکل ہے، دوسرا پارٹی ٹکٹ انہیں دیے جائیں جو آئندہ بھی پارٹی اور قیادت کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہیں۔‘
وکلا اور خواتین کو ٹکٹ دینے کی حکمت عملی کتنی کامیاب ہو گی؟
اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ ’بظاہر پی ٹی آئی کی یہ حکمت عملی بہتر ثابت ہو سکتی ہے کہ وکلا اور خواتین کو ٹکٹ جاری کریں۔ ان کے خلاف کارروائی کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا عام شہری یا کاروباری افراد کے خلاف ہوتا ہے۔‘
مجیب الرحمٰن شامی نے مزید کہا کہ ’تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ وہ کھمبے کو بھی کھڑا کریں گے تو جیت جائے گا۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کیونکہ ماضی کی کارکردگی کو بھی مد نظر رکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک موجود ہے۔
’پی ٹی آئی جس طرح کا مزاحمتی طریقہ اپنا رہی ہے اس میں نقصان ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ حالات کا جائزہ لیتے، اپنی غلطیوں کا احساس کرتے، آزادانہ انتخابات کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں سے رجوع کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔‘
مجیب الرحمٰن شامی کے بقول: ’پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ وہ وکلا جن کے ساتھ پریشر گروپ ہوتے ہیں اور خواتین جنہیں معاشرے میں خاص مقام حاصل ہے، کو ٹکٹ دے کر کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے کیونکہ وکلا یا خواتین، جنہیں عوامی سیاست کا تجربہ نہ ہوئے، آسانی سے کامیاب نہیں ہو سکتے۔
’جس طرح تجربہ کار وکلا اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ پر انحصار کیا جا رہا تھا تو وہ تو کہہ چکے ہیں کہ ان کا تعلق اب بھی پیپلز پارٹی سے ہے۔ اس لیے یہ ان کی اپنی حکمت عملی تو ہو سکتی ہے مگر اس سے کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تحریک انصاف نے سیدھا نہیں بلکہ پیچیدہ راستہ اختیار کیا ہے۔ اس خیال کا نتیجہ بھی الیکشن کے دن معلوم ہو گا کہ وہ بہت مقبول ہیں اور کسی کو بھی کھڑا کریں گے تو وہ جیت جائے گا۔‘
سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب اور تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف ان دنوں مشکلات سے دوچار ہے، ایسے حالات میں ان کے کئی سابق اراکین اسمبلی پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ خوف کی وجہ سے ٹکٹ لینے میں بھی لوگوں کی زیادہ دلچسپی دکھائی نہیں دے رہی۔
’پی ٹی آئی کو اگر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت ملی تو ان کے پاس نئے لوگوں خاص طور پر وکلا اور خواتین کو ٹکٹ دینے کا ہی آپشن رہ جاتا ہے۔‘
حسن عسکری کے مطابق: ’جنہیں ٹکٹس جاری کی جائیں گی، وہ کس حد تک پریشر برداشت کر سکتے ہیں اور کامیاب بھی ہو سکتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔‘
ان کے خیال میں وکلا کے پیچھے بارز کا تاثر بھی زیادہ موثر نہیں لگتا کیونکہ بارز میں دوسری جماعتوں کے گروپ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ’البتہ وکلا اس لحاظ سے ضرور بہتر رہیں گے کہ انہیں عدالتوں سے رجوع کرنے کے لیے وکلا کی فیس نہیں دینا پڑے گی بلکہ وہ خود ہی پیش ہو جائیں گے۔‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے لیے نیا چیلنج الیکشن کمیشن کے حکم پر انٹرا پارٹی الیکشن کروانا ہو گا۔
’ویسے تو ہر جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن نامزدگیوں کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی برائے نام پارٹی الیکشن کروا لے گی، مگر اصل مسئلہ قیادت کا ہو گا۔ چیئرمین، وائس چیئرمین اور صدر تو جیل میں ہیں، ان کی غیر موجودگی میں پارٹی الیکشن بھی مشکل ہو گا۔‘
حسن عسکری نے مزید کہا کہ ’وکلا اور خواتین کو ٹکٹ جاری کرنے کی حکمت عملی تو ہو سکتی ہے لیکن اس سے کامیابی ملنا یقینی نہیں ہے۔‘