32 سال کی میڈی اس وقت شدید بیمار پڑ گئیں جب انھوں نے انسٹاگرام سے خریدے گئے جعلی سیمگلوٹائیڈ انجیکشن کو استعمال کیا۔
اس انجیکشن میں اوزیمپک نامی دوا ہوتی ہے اور بی بی سی کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ غیر قانونی طور پر کام کرنے والے کچھ گروہ سیمگلوٹائیڈ کو بغیر کسی نسخے کے وزن کم کرنے والی دوا کے طور پر فروخت کر رہے تھے۔
بی بی سی کی تحقیقات سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ یہ انجیکشن برطانیہ کے کئی شہروں جیسے مانچسٹر اور لیورپول کے بیوٹی سیلون میں بھی فروخت کی جاتی ہے۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس کے علاج کے لیے تجویز کردہ دوا وزیمپک کی مانگ پچھلے کچھ برسوں میں آسمان کو چھونے لگی ہے۔
بہت سے اخبارات نے اس دوا کو وزن کم کرنے کے لیے ہالی ووڈ کے ’خفیہ علاج‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ دوا خون میں شوگر لیول کو کم کرتی ہے اور ہاضمے کے عمل کو بھی سست کرتی ہے۔
اس دوا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں نے وزن کم کرنے کے لیے اس کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کی سپلائی میں مسائل ہوئے جبکہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس دوا کی قلت ہوئی۔
برطانیہ کی فارمیسیوں میں جب اس دوا کے حصول کے لیے جدوجہد جاری تھی تو دوسری ہی جانب سیمگلوٹائیڈ پر مشتمل ’ڈائیٹ کٹس‘ فروخت کرنے والی ایک آن لائن مارکیٹ پنپنے لگی۔
ان کٹس کو ڈاک کے ذریعے ڈیلیور کیا جاتا تھا۔ ان کٹس میں عام طور پر سوئیاں اور دو شیشیاں ہوتی تھیں۔ ایک شیشی میں سفید پاؤڈر اور دوسرے میں ایک محلول ہوتا تھا۔
یہ کٹ میڈی کو بذریعہ ڈاک اس وقت پہنچائی گئی، جب انھوں نے کسی تقریب میں جانے سے پہلے بہت کم وقت میں اپنا وزن کم کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنے کے لیے انسٹاگرام پر تلاش شروع کی۔
میڈی نے ہمیں بتایا کہ ’مجھے وزن کم کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنے جسم کو آسانی سے بدل سکتے ہیں۔‘
میڈی کا رابطہ ’لپ کنگ‘ نامی ایک کمپنی سے ہوا۔ ’لپ کنگ‘ کی انسٹاگرام پروفائل دبلی پتلی جسامت والی خواتین کی تصاویر اور صارفین کے ایسے ٹیکسٹ پیغامات کے سکرین شاٹس سے بھری ہوئی ہے، جس میں کمپنی کی پروڈکٹس کو سراہا گیا ہے۔
میڈی نے انھیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔
کمپنی مالک جارڈن پارکے کے ساتھ کچھ پیغامات کے تبادلے اور 200 پاؤنڈ ٹرانسفر کرنے کے بعد میڈی کو 10 ملی گرام سیمگلوٹائیڈ بھیجا گیا
میڈی کو واٹس ایپ پر ایک ویڈیو بھی موصول ہوئی، جس میں دوائیوں کو مکس کرنے اور انجیکشن لگانے کے طریقے کے بارے میں ہدایات کے ساتھ ساتھ انھیں صحت کے حکام کی تجویز کردہ مقدار سے زیادہ خوراک لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
پہلے انجیکشن کے فوراً بعد ہی میڈی ’انتہائی بیمار ہو گئیں اور قے کرنے لگیں۔‘
جارڈن پارکے نے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے میڈی کو بتایا کہ قے آنا معمول کی بات ہے۔
چند ہفتے بعد جب میڈی کو متلی آنا کم ہوئی تو میڈی نے دوبارہ اس دوا کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس بار انھوں نے اسے رات کو سونے سے پہلے لیا۔
میڈی کہتی ہیں کہ ’میں قے کی وجہ سے بیدار ہو گئی۔ یہ انتہائی خوفناک تھا۔ میں ساری رات قے کرتی رہی، یہاں تک کہ قے میں خون اور سفید جھاگ بھی آنے لگا۔
وہ اگلی صبح ایمرجنسی گئیں، جہاں ان کے جسم میں پانی کی کمی کا علاج کیا گیا۔
’میں نے سوچا میں مر جاؤں گی۔ میں اپنی ماں کے سامنے بھی رو پڑی۔ میں بہت غصے میں بھی تھی کیونکہ کسی نے بھی مجھے اس کے مضر اثرات کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے اپنے طور پر بھی تحقیق کی لیکن میں نے دیکھا کہ کسی کو بھی اتنی تکلیف نہیں ہو رہی، جتنی مجھے ہو رہی تھی۔‘
ذرائع نے اس معاملے میں جارڈن پارکے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جارڈن پارکے ان بہت سے غیر قانونی فروخت کنندگان میں سے ایک ہیں، جو سوشل میڈیا کے ذریعے سیمگلوٹائیڈ بیچتے ہیں۔
ان ادویات میں اصل میں کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے بی بی سی نے بغیر لائسنس کے مختلف فروخت کنندگان سے سیمگلوٹائیڈ کو خریدا اور ان مصنوعات کو لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا۔
لیبارٹری نتائج میں ہر نمونے کی ساخت میں تضادات ظاہر ہوئے۔ اگرچہ زیادہ تر مصنوعات میں سیمگلوٹائیڈ ہوتا ہے، لیکن متعدد فروخت کنندگان کی جانب سے فراہم کی جانے والی بوتلوں میں کوئی فعال اجزا نہیں ہوتے اور تقریباً سبھی، بشمول ’لپ کنگ‘ پروفائل سے خریدی گئی بوتلوں میں بھی، اُن پر لکھی مکمل خوراک موجود نہیں۔
برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے تحت اوزیمپک صرف ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے دستیاب ہے۔
ایک اور دوا ’ویگووی‘ جسے خاص طور پر موٹاپے کے علاج کے لیے تجویز کیا جاتا ہے لیکن این ایچ ایس کی تجاویز کے مطابق اسے بھی صرف ایسے لوگوں کو تجویز کیا جا سکتا ہے جن کا باڈی ماس انڈیکس (BMI) کم از کم 35 ہو۔
دوا ساز کمپنی نووو نورڈسک وہ واحد کمپنی ہے، جو سیماگلوٹائیڈ فروخت کرنے کی مجاز ہے لیکن فی الحال یہ جعلی ورژن کی آن لائن فروخت کے خلاف لڑ رہی ہے۔
اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ’جعلی سیمگلوٹائیڈ فروخت کرنے والی ویب سائٹس، اشتہارات یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو شناخت کرنے اور انھیں ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے‘ اور یہ بھی کہ وہ ’کاپی رائٹس کی خلاف ورزی، مجرمانہ نیٹ ورکس اور غیر قانونی طور پر اس کی مصنوعات کی فروخت پر تحقیق کر رہی ہے۔‘
لیکن بی بی سی کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ کچھ ایسے فروخت کنندگان، جن کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پروفائلز کو بلاک کر دیا گیا، اکثر نئے ناموں سے نئے پلیٹ فارم بنا کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔
ماہر قانون گیرارڈ ہینراٹے بتاتے ہیں کہ ’آپ ایک لیبل پر بہت سی چیزیں فروخت کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پروڈکٹ قانونی ہے اور ضوابط کی تعمیل کرتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اسے فروخت کرنے والوں کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اس پروڈکٹ کو انسانی استعمال کے لیے نہیں بلکہ تحقیق کے لیے بیچ رہے ہیں۔‘
بی بی سی تھری کی ایک دستاویزی فلم The Skinny Jab Uncovered نے انکشاف کیا کہ اس دوا کے غیر منظور شدہ ورژن برطانیہ کے کچھ بیوٹی پارلز میں بھی فروخت ہو رہے ہیں۔
صحافیوں نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر مانچسٹر اور لیورپول میں ایسے چار بیوٹی سیلون کا دورہ کیا۔
ایک کمرے میں ایک صحافی نے کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’اگر آپ زیادہ خوراک لیتے ہیں، تو آپ کو کچھ نہیں کھانا چاہیں۔ آپ بیمار محسوس کر سکتے ہیں لیکن یہ خطرناک نہیں۔‘
برطانیہ کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (MHRA) کا کہنا ہے کہ اسے جعلی اوزیمپک پین استعمال کرنے کے بعد لوگوں کے ہسپتال میں داخل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ جنوری سے اب تک مارکیٹ سے 300 سے زیادہ اوزیمپک پین کو بھی ضبط کیا جا چکا ہے۔
نووو نورڈسک کی مالی مدد سے سیمگلوٹائیڈ کا موٹاپے کے علاج کے لیے تجربہ کرنے والی ایک تحقیق کی مشیر باربرا میک گوون کا کہنا ہے کہ منظور شدہ ادویات جیسے اوزیمپک اور ویگووی منظوری سے پہلے سخت کوالٹی کنٹرول سے گزرتی ہیں۔
وہ متنبہ کرتی ہیں کہ قانونی سپلائی چین سے باہر سیمگلوٹائیڈ کو خریدنے والے ’انجیکیشن میں کچھ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘
باربرا میک گوون کے مطابق سیمگلوٹائیڈ جیسی دوائیں کچھ مریضوں میں ’نمایاں مضر اثرات‘ جیسے متلی وغیرہ کا سبب بن سکتی ہیں اور اس لیے مناسب طبی امداد اور نگرانی کی ضرورت ہے۔
’یہ صرف نسخے کا سوال نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اس کے استعمال سے قبل ماہرین صحت سے ملنے والی جامع ہدایات کو پوری توجہ کے ساتھ سمجھا جائے۔‘
برطانیہ میں مشرقی یارکشائر کے ایک ٹرینر ڈیل ڈینس اوزیمپک کی 10 ملی گرام کی شیشیوں کو فروخت کرتے ہیں، جو بغیر لائسنس کے پروڈکٹ ہے۔
ڈینس سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر کرتے ہیں اور خریداروں کو اس کے آرڈر کے لیے انھیں واٹس ایپ پر میسج کرنے کا کہتے ہیں۔
ان کی کمپنی کا نام Raw Peptides Limited ہے جو ایک ایسے کاروبار کے طور پر رجسٹر ہے، جہاں ’نئی کاریں اور چھوٹی گاڑیاں‘ فروخت کی جاتی ہیں۔
بی بی سی نے ڈینس سے رابطہ کیا تو وہ ہم سے بات کرنے پر راضی ہو گئے تاہم بعد میں انھوں نے انٹرویو منسوخ کر دیا اور پیغام بھیجا کہ ’میں یقینی طور پر ایک ہفتے میں اتنا کماتا ہوں جتنا آپ ایک سال میں کماتے ہیں۔‘
برطانیہ کی اینگلیا رسکن یونیورسٹی کے ڈاکٹر سائمن کارک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سیمگلوٹائیڈ وزن کم کرنے کا قلیل مدتی حل نہیں اور یہ صرف ان لوگوں کے لیے موزوں ہے جو ’موٹاپے‘ کے مرض کا شکار ہوں۔
’اس (کاسمیٹک استعمال) کو خود غرضی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اسے استعمال کرنے والے لوگ واقعی وزن کم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس دوا کو ایسے لوگوں کی مدد کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ گھر میں وزن کم کرنے والی دوائیوں کو ملانے اور انجیکشن لگانے سے ’سنگین خطرات‘ ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ پر غیر قانونی طور پر فروخت ہونے والی سیمگلوٹائیڈ کی شیشیوں پر مریضوں کو زیادہ مقدار لینے سے روکنے کے لیے ہدایات بھی درج نہیں ہوتی ہیں۔
22 برس کی ٹلی نے اس وقت سیمگلوٹائیڈ کا استعمال بند کرنے کا فیصلہ کیا جب انھوں نے غلطی سے اس کی زیادہ مقدار لے لی۔
’جب میرے پاس دوا پہنچی تو اس پر کوئی ہدایات درج نہیں تھیں۔ مجھے کافی حیرت ہوئی۔ میں نے کمپنی کو میسج بھی کیا کہ مجھے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے۔‘
ٹلی نے بتایا کہ ان کے سر میں شدید درد ہونے لگا اور وہ دباؤ محسوس کرنے لگیں۔
برطانیہ کی میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی (MHRA) کا کہنا ہے کہ وہ عوام کے تحفظ کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں گے اور اس دوا کا غیر قانونی استعمال کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔