National

پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپس پر پابندی لگا دی

لاہور: پنجاب حکومت نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے الرٹ کے جواب میں پانچ “زہریلے” کھانسی کے شربت کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے، یہ پیش رفت صرف دو ماہ کے اندر صوبے میں منشیات سے متعلق دوسرا بڑا سکینڈل ہے۔ لاہور کی ایک دوا ساز کمپنی کے تیار کردہ کھانسی کے سیرپ میں الکحل کی مقدار زیادہ پائی گئی۔ یہ شربت Mucorid، Ulcofin، Alergo، Emidone Suspension اور Zincell ہیں۔ یہ تشویشناک دریافت مالدیپ کی شکایات کے بعد ڈبلیو ایچ او کی تحقیقات کے بعد ہوئی، کیونکہ یہ شربت خطے کے دیگر ممالک کو بھی برآمد کیے گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے محکمہ صحت کے حکام کو فوری طور پر ٹیمیں روانہ کرنے، مارکیٹوں سے زیر بحث ادویات کا پورا ذخیرہ ضبط کرنے اور مینوفیکچرر کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ واقعہ ستمبر میں ایک سابقہ ​​کیس کو ذہن میں لاتا ہے، جہاں ایک ملاوٹ شدہ انجیکشن والی دوائی نے پنجاب میں آنکھوں کے 80 سے زائد مریضوں کی بینائی سے سمجھوتہ کیا تھا۔ اس نے صحت کے حکام کی ادویات کی تیاری اور تقسیم کے عمل کی نگرانی میں نمایاں خامیوں کو بے نقاب کیا، خاص طور پر ان ادویات کی فراہمی کے لیے استعمال ہونے والی غیر رسمی نقل و حمل۔ یہ فرم لاہور شہر کے اندر موٹر سائیکلوں پر اور صوبے کے باقی حصوں میں مسافر بسوں پر ادویات فراہم کر رہی تھی۔ پنجاب کے نگراں وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ حکومت نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کی سفارشات پر فوری طور پر کھانسی کے شربت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ انہوں نے کہا، “ڈریپ کی سفارش پر، پنجاب حکومت نے نہ صرف صوبے میں ان پانچ شربتوں کی فروخت روک دی ہے بلکہ مینوفیکچرنگ فیکٹری کو سیل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔” ڈان کی طرف سے دیکھی جانے والی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈریپ نے ان کھانسی کے شربتوں کے مخصوص بیچوں کو ڈائیتھیلین گلائکول (ڈی ای جی) اور ایتھیلین گلائکول (ای جی) جیسے نقصان دہ مادوں سے مشتبہ آلودگی کی وجہ سے واپس منگوایا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے ایلرگو سیرپ کے بیچ نمبر B220 میں ڈی ای جی اور ای جی کی نجاست کی مشتبہ موجودگی کی بھی نشاندہی کی ہے، جس کی شناخت مالدیپ میں کی گئی ہے اور لاہور کی فارمکس لیبارٹریز (پرائیویٹ) لمیٹڈ نے تیار کی ہے۔ ڈریپ کے لاہور یونٹ کی ابتدائی تحقیقات میں شبہ ہے کہ یہ نجاست دیگر بیچوں اور مصنوعات میں بھی موجود ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ “یہ یاد دہانی ایک احتیاطی اقدام ہے جو صحت عامہ کو ان نجاستوں کے ممکنہ نقصان دہ اثرات سے بچانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔” مینوفیکچرنگ کمپنی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر مذکورہ مصنوعات کے ناقص بیچز کو مارکیٹ سے واپس منگوائے۔ رپورٹ میں ڈسٹری بیوشنز اور فارمیسیوں میں کام کرنے والے تمام فارماسسٹوں اور کیمسٹوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے اسٹاک کو چیک کریں اور مشتبہ مصنوعات کے ان بیچوں کی سپلائی بند کریں۔ بقیہ اسٹاک کو قرنطین کیا جائے اور سپلائر یا کمپنی کو واپس کیا جائے، اس نے مزید کہا کہ ڈریپ اور صوبائی محکمہ صحت کی ریگولیٹری ٹیموں کو اس معاملے پر بریفنگ دی گئی ہے اور مارکیٹ میں نگرانی بڑھانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ خراب مصنوعات کی مؤثر واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ڈریپ نے ان اداروں، فارمیسیوں اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات کی سپلائی چینز کے اندر چوکسی بڑھانے کی تجویز بھی دی ہے جو زیر بحث ان مصنوعات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ “اس پروڈکٹ کے استعمال کے ساتھ پیش آنے والے منفی رد عمل یا کوالٹی کے مسائل کی اطلاع Drap کے نیشنل فارماکوویجیلنس سینٹر کو دی جا سکتی ہے، Adverse Event رپورٹنگ فارم کا استعمال کرتے ہوئے یا دیے گئے لنکس کے ذریعے آن لائن”۔ اس نے صارفین کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ متاثرہ بیچ نمبر والی پروڈکٹ کا استعمال بند کر دیں اور اپنے معالجین یا صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں سے رابطہ کریں اگر انہیں کوئی ایسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو زیر بحث دوائیوں کو لینے یا استعمال کرنے سے متعلق ہو سکتا ہے۔

پنجاب حکومت نے کھانسی کے پانچ سیرپس پر پابندی لگا دی Read More »

Is Nawaz Shareef Statment against women the narrative of PML(N)

خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟

’ہمارے جلسے بھی ہوتے ہیں اور وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں۔ وہ آتی ہیں جلسہ سنتی ہیں اور پُرامن بیٹھتی ہیں۔ وہاں کوئی دھمال یا ناچ گانا نہیں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان کا کلچر نہیں ہے۔‘ سابق وزير اعظم اور مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شريف نے کوئٹہ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ انھوں نے خواتین سے متعلق اس نوعیت کا کوئی بیان دیتے ہوئے اپنے حریف عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو نام لیے بغیر نشانہ بنایا ہو۔ گذشتہ ماہ جب وہ چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان پہنچنے تو انھوں نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’دیکھیں ہماری بہنیں کتنی آرام سے جلسہ سن رہی ہیں، کوئی ڈھول کی تھاپ پر ناچ گانا نہیں ہو رہا، میری بات سمجھ گئے یا نہیں سمجھے؟‘ اب کوئٹہ میں دوبارہ ایسے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر نواز شریف کے خلاف ردعمل آیا ہے اور کئی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ آیا خواتین کے حوالے سے یہ موقف آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے نئے بیانیے کا حصہ ہے۔ریف کے بیان کی مذمت کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ناصر چغتائی نے تبصرہ کیا کہ ’یہ ان کی اندرونی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو وہ ہر مرتبہ یہ بات کیوں کر رہے ہیں؟‘ شمع جونیجو نے لکھا ’میاں نواز شریف کا جلسوں میں اپنے لیڈران (جن میں وہ خود بھی شامل ہیں) کے لیے دھمال ڈالنے والی خواتین کو دوسری بار ٹارگٹ بنانا انتہائی مایوس کُن ہے۔ ہمیں وہ دن نہیں بھولے جب نیند میں سونے والے سین میں بھی پی ٹی وی کے ڈراموں میں ہمیں سر پر دوپٹہ پہنا کے ریکارڈنگ کروائی جاتی تھی۔۔۔ یہ انیس سو نوے نہیں، دو ہزار تیئس ہے میاں صاحب!‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’خُوشی اور عقیدت کی دھمال پاکستان کا کلچر ہے۔ قلندر کی درگاہ ہو یا داتا دربار، دھمال صرف مردوں کے لیے نہیں!‘ صحافی مطیع اللہ جان نے پاکستان کے قومی لیڈران کے ایسے بیانات پر تبصرہ کیا کہ ’پس ثابت ہوا کہ انسان کے سیکھنے کے لیے لندن یا آکسفورڈ میں رہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔‘ انھوں نے نواز شریف اور عمران خان دونوں کے بیانات پر طنز کیا کہ ’کچھ خواتین ناچ گانا نہیں کرتی، اور کچھ مرد روبوٹ نہیں ہوتے۔ واہ رے ووٹروں کی قسمت جائیں تو کہاں؟‘ تاہم سماجی کارکن ایمان مزاری کے مطابق نواز شریف کی طرف سے اس قسم کے ’بدتمیزی پر مبنی تبصرے مسلم لیگ ن کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘ وہ اس بارے میں شمع سے اتفاق کرتی ہیں کہ ’نواز شریف 90 کی دہائی میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہی تقریریں کر رہے ہیں۔‘ دریں اثنا خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت مارچ نے مینارِ پاکستان جلسے کے دوران نواز شریف کے خواتین مخالف بیان کی مذمت میں لکھا تھا کہ ’خواتین کو ’اچھی‘ اور ’بُری‘ عورت میں تقسیم کرنا پتھروں کے زمانے کا طریقہ کار ہے۔‘ ’ناچ گانے کا شوق رکھنے سے عورت یا کسی بھی انسان کے ذاتی کردار پر سوال اٹھانا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔‘ کیا پاکستانی سیاست میں خواتین کو ’پُرامن طریقے سے بٹھانا‘ ہی مسلم لیگ ن کا بیانیہ ہے؟ عمران خان ہوں یا نواز شریف، جب بھی پاکستان میں کوئی بڑا سیاسی لیڈر اس قسم کا بیان دیتا ہے تو عموماً جماعت کے دیگر رہنما اس پر وضاحت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب بی بی سی نے مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری سے نواز شریف کے بیان کا مطلب پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ میاں صاحب نے اس سیاق و سباق میں بات کرنے کی کوشش کی ہے کہ ورکرز کنونشن میں خواتین بھی موجود تھیں، اس کے باوجود مسلم لیگ ن کا طرز تحریک انصاف سے مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے جلسے پاکستانی کلچر سے مطابقت رکھتے ہیں اور اسی تناظر میں میاں صاحب نے کہا ہے کہ ’وہاں عورتیں دھمال ڈالتی ہیں مگر ہماری عورتیں چپ کر کے بیٹھتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔‘ عظمیٰ بخاری کے مطابق ’میاں صاحب نے کلچر اور (مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان) فرق کی بات کی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ غلط ہے یا صحیح ہے۔‘ انھوں نے سوال کیا کہ آپ خود دیکھیں تحریک انصاف کے جلسوں میں ’کیا کچھ نہیں ہوتا رہا؟ خواتین پر جس نوعیت کے تبصرے ہوتے ہیں، ان سے جیسا سلوک ہوتا تھا، وہ بھی سب کو معلوم ہے۔۔۔ ہم اس لیے اس کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کی ایک مخصوص کلاس ہے جو اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔‘ جب بی بی سی نے عظمیٰ بخاری سے پوچھا کہ کیا خواتین سے متعلق یہ موقف مسلم لیگ ن کے بیانیے کا حصہ ہے تو انھوں نے اس سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماڈرن ہونا صرف یہی نہیں کہ آپ ناچ گانا کریں کیونکہ مخصوص حالات میں ہمارے معاشرے میں اس پر ردعمل بھی آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نظریاتی طور پر ان کی جماعت ترقی پسند خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ کنیکٹ کرتی ہے۔ ’ہمارا بیانیہ یہی ہے کہ آپ نظریاتی طور پر جدت اور ترقی کا سفر طے کریں۔‘ سابق رکن قومی اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں حلقے کی سیاست کے دوران ایک لمحے کے لیے بھی یہ بات نہیں بھولتی کہ میں ایک خاتون ہوں۔‘ انھوں نے گذشتہ الیکشنز میں بطور امیدوار حصہ لینے کے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ ’لوگوں کی اکثریت مجھے بغیر چادر کے قبول نہیں کرے گی۔ اگر میں اپنے کلچر کے ساتھ منسلک نہیں رہوں گی تو میں پاکستان میں سیاست نہیں کر سکوں گی۔‘ سائرہ افضل کے مطابق ان کی کامیابی کی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے خود کو اپنی تہذیب سے جوڑے رکھا ہے۔ ’میاں صاحب نے جو بات کی وہ کلچر سے منسلک ہونے سے متعلق ہے۔ پی ٹی آئی کے ہر جلسے میں بدمزگی ہوتی ہے اور خواتین خود کو

خواتین کے ’ناچ گانے‘ سے متعلق بیان: کیا ’90 کی دہائی میں پھنسے‘ نواز شریف کا یہی سیاسی بیانیہ ہے؟ Read More »

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری کی تاریخ تو دے دی ہے لیکن ابھی شیڈول کا اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اکثر سیاسی جماعتوں نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے ٹکٹ کے حصول میں دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے درخواستیں طلب کرنی شروع کر دی ہیں۔ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ نون نے تین نومبر کو جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے پانچ دسمبر تک درخواستیں طلب کیں ہیں۔ یہ درخواستیں عام انتخابات میں حصہ لینے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے جب کوئی امیدوار اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور سیاسی جماعت اس کی مقبولیت اور دیگر پہلووں کا جائزہ لے کر اسے ٹکٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلے کرتی ہے۔ لیکن جہاں قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں جیسے کہ پیپلز پارٹی اس درخواست کے ساتھ قومی اسمبلی کے ٹکٹ کے لیے 40 ہزار اور صوبائی اسمبلی کے لیے 30 ہزار روپے کا بینک ڈرافٹ بھیجنے کی ہدایت دے رہی ہیں، ملک کے پسماندہ صوبے بلوچستان کی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے قومی اور صوبائی حلقوں کے درخواست گزاروں کے لیے بلترتیب ڈیڑھ اور ایک لاکھ کی فیس مقرر کی ہے۔ سابق حکمراں جماعت اور اس بار کی مبینہ طور پر فیورٹ سمجھی جانے والی مسلم لیگ نون نے قومی اسمبلی کی نشست کے ٹکٹ کے لیے دو لاکھ اور صوبائی کے لیے ایک لاکھ روپے کی ٹکٹ فیس مقرر کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی غریب آدمی اپنے جیسے عوام کے مسائل کے حل کے لیے اگر انتخابات میں حصہ لینے کا سوچتا ہے تو اسے پہلے تو یہ بڑی رقم جمع کرانا ہوگی بعد میں انتخابی مہم کے اخراجات تو الگ ہیں۔ کیا بلوچستان کا کویی غریب آدھی الیکشن میں حصہ لے سکے گا؟ باپ پارٹی نے اقومی اخبارات میں مہنگے اشتہارات کے ذریعے درخوستیں طلب کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے درخواستیں اس سال مارچ کو طلب کی تھیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا امکان موجود تھا۔ پارٹی نے یہ درخواستیں سابق صدر آصف علی زرداری کے نام بھیجنے کا کہا اور ساتھ میں شناختی کارڈ کی کاپی اور رابطہ نمبر کا تقاضہ بھی کیا۔ اس حوالے سے سینیئر صحافی نے ایگنایٹ پاکستان  کو بتایا کہ ‘غریب کو الیکشن لڑنا ہے تو چندا اور ادھار لینا ہوگا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی کی ہر نشست پر انتخاب لڑنے کے لیے لاکھوں کی فیس بطور رجسٹریشن کے دینا ہو گی۔ جس کا مطلب ہے کہ مسائل۔ بدحالی کا شکار غریب خود سیاست میں آکر اپنے جیسوں کی قسمت بدلنے کا خوب تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے گا۔‘

پارٹی ٹکٹ فیس لاکھوں میں تو کیا غریب پاکستانی الیکشن لڑ سکتا ہے؟ Read More »

Pakistan and IMF

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔

اسلام آباد – بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے 3 بلین ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے پر پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق عالمی قرض دینے والے ادارے نے ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں رواں مالی سال کے دوران ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس لگانے پر اصرار کیا۔ آئی ایم ایف کے وفد کو بتایا گیا کہ زرعی شعبے پر ٹیکس لگانے کے لیے صوبوں سے مشاورت ضروری ہے۔ قرض دینے والے نے زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے صوبوں سے ٹائم فریم مانگنے کی تجویز دی۔ آئی ایم ایف کو ٹیکس ریگولیٹر کے دائرہ کار میں ٹیکس پالیسی اور مینجمنٹ ٹاسک فورس کے بارے میں بھی بریفنگ دی گئی۔ اگر آئی ایم ایف جائزہ کے دوران پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہے تو دسمبر تک 700 ملین ڈالر کی دوسری قسط جاری کر دی جائے گی۔ نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور آئی ایم ایف کے مشن چیف ناتھن پورٹر نے اس ہفتے کے دوران فریقین کے وفود کی قیادت کی اور ون آن ون ملاقاتیں کیں۔

آئی ایم ایف نے زراعت، رئیل اسٹیٹ، ریٹیل سیکٹرز پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے دی۔ Read More »

Polluttion in Lahore Smog In Punjab

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔ ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔ دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔ سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟ نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔ ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔ ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔ ’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘ ’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘ لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔ ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔ ’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘ سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟ رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔ ’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘ یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔ پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟

پنجاب میں سموگ: ’اب تو ایسا لگتا ہے یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہے‘ Read More »

Nallay Wala

علی بخش: علامہ اقبال کے ’ملازمِ خاص‘ جن کی پاکستان میں الاٹ ہونے والی زمین پر قبضہ ہوا

پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ سے لگ بھگ دو کلومیٹر کے فاصلے پر کھرڑیانوالہ روڈ پر چک نمبر 188 ’رب نَلے والا‘ واقع ہے۔ علامہ اقبال کے’خادمِ خاص‘ علی بخش اسی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہاں پر گزارے اور یہیں دو جنوری 1969 کو اُن کی وفات ہوئی۔ اس گاؤں کی آبادی سڑک کے دونوں اطراف پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں انڈیا کے شہر ہوشیار پور سے نقل مکانی کر کے آنے والے چند خاندان بھی آباد ہیں اور علی بخش کا خاندان بھی ان میں سے ایک ہے۔ علی بخش کون تھے اور یہاں کیسے پہنچے؟ علی بخش کے چھوٹے بھائی کا نام مہر دین تھا۔ مہر دین کے بیٹے محمد اقبال (یعنی علی بخش کے بھتیجے) کو علی بخش نے اپنا بیٹا بنایا اور پالا پوسا۔ محمد اقبال کے بیٹے زاہد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا خاندان ضلع ہوشیارپور کے علاقہ اٹل گڑھ میں رہتا تھا جہاں گھر میں غربت تھی۔ لاہور میں ایک گھڑی ساز نے ہمارے دادا علی بخش کو کام کے سلسلے میں لاہور بلوایا تھا۔ایک روز جب علی بخش علامہ اقبال کے پاس پہنچے تو انھوں نے دیکھ کر کہا ’منڈیا تو کم کر لیئں گا‘ (یعنی لڑکے تم کام کر لوگے؟)۔ اس وقت علی بخش کی عمر لگ بھگ 11، 12 سال تھی۔ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھا ہے کہ ’علی بخش نے غالباً 1900 میں میرے والد کے پاس ملازمت اختیار کی۔ سنہ 1905 میں جب میرے والد تعلیم کی خاطر انگلستان گئے تو انھیں اپنے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس چھوڑ گئے۔‘ ’مگر وہ زیادہ عرصہ ان کے ساتھ نہ رہے اور بعد ازاں 1908 میں جب میرے والد واپس آئے اور وکالت شروع کی تو ان کو دوبارہ بلا لیا۔‘ آج جس گھر میں زاہد اقبال اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں، یہ لگ بھگ ایک کنال جگہ پر مشتمل ہے۔ یہ جگہ علی بخش نے خرید کر خود گھر بنایا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اسی چک میں آ کر قیام پذیر ہو گئے تھے جہاں ان کو زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی۔ ’علی بخش میں تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا‘ جاوید اقبال اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ ’علی بخش نے ساری عمر شادی نہ کی‘ تاہم علی بخش کے خاندان کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ زاہد اقبال کے مطابق ’علی بخش نے شادی کی مگر ان کی بیوی جلد ہی فوت ہو گئیں، البتہ انھوں نے کبھی دوسری شادی نہ کی۔‘ زاہد اقبال نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’اگر دادا جی (علی بخش) دوسری شادی کر لیتے تو علامہ صاحب کی خدمت کون کرتا۔ وہ اُن کو مذاق میں کہتے تھے علی بخش! تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا۔ ہمارے خاندان والے بتاتے ہیں کہ دادا جی، علامہ صاحب سے دوسری شادی کی بات کرتے رہتے تھے۔‘ علامہ اقبال کی وفات کے بعد اُن کی فیملی نے علی بخش کا کتنا خیال رکھا؟ زاہد اقبال بتاتے ہیں کہ ’آفتاب اقبال، دادا جی کو یومِ اقبال پر کراچی بلایا کرتے تھے مگر ہمارا رابطہ جاوید اقبال کی فیملی سے نہیں۔ البتہ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال چک میں آتے ہیں اور دادا جی کی قبر پر فاتحہ بھی کرتے ہیں۔‘ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال جو بیرون ملک مقیم ہیں، نے ہمیں بتایا کہ ’میرے لیے بڑی خوشی کا مقام تھا جب میں علی بخش کی فیملی کے ہاں گیا تھا۔ میں مستقبل قریب میں دوبارہ اُن کے ہاں جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔‘ علامہ اقبال کے چاہنے والوں میں سے آپ کے خاندان سے کن کا رابطہ زیادہ رہا؟ اس سوال کے جواب میں زاہد اقبال کا کہنا ہے ’صوفی برکت علی کا ہمارے ہاں آنا جانا زیادہ تھا۔ میرے والد کی وفات تک کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا، بعد میں کوئی نہ آیا۔‘ علامہ اقبال کے کبوتر اور استعمال کی اشیا علامہ اقبال کو کبوتروں سے خاص اُنسیت تھی۔ علی بخش نے جب اپنا گھر بنوایا تو وہاں بھی کبوتر رکھے، جو آج بھی موجود ہیں۔ زاہد اقبال نے علامہ اقبال کی چھڑی، چائے کا کپ، دو چاندی کے کڑے اور سر پر باندھنے والا کپڑا جو بہت نفاست سے محفوظ کیے ہوئے تھے، کی بابت بتایا کہ ’یہ ساری چیزیں علامہ صاحب نے داداجی کو دی تھیں۔ چاندی کے کڑے ولایت سے لائے تھے۔ ہم نے سر پر باندھنے والے کپڑے کو آج تک اس غرض سے نہیں دھویا کہ اس پر علامہ صاحب کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔‘ زاہد اقبال نے بتایا کہ ’جب راتوں کو علامہ صاحب لکھتے لکھتے تھک جاتے تو میرے دادا کو بلاتے اور کہتے کہ ایکسرسائز والی مشین لاؤ، اس سے وہ اپنی انگلیوں کو سہلاتے۔‘ مذکورہ ساری اشیا جو علامہ اقبال کے استعمال میں تھیں اور اب علی بخش کے خاندان کے پاس محفوظ ہیں اور اس کی تصدیق آزاد اقبال نے بھی کی۔ چک کا وہ شخص جس کو علی بخش کی باتیں یاد ہیں اس گاؤں کے پرانے رہائشی محمد رفیق ایک دربار کے متولی ہیں۔ دربار سے ملحقہ قبرستان میں ہی علی بخش مدفون ہیں۔ محمد رفیق کے مطابق انھوں نے علی بخش کا اخیر زمانہ دیکھ رکھا ہے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’میری تاریخ پیدائش تو 1943 کی ہے مگر شناختی کارڈ پر 1947 ہے۔ میں نے لڑکپن اور جوانی میں بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ جو دونوں سگے بھائی تھے، کے تکیے پر علی بخش کو بیٹھے دیکھا اور ان کی باتیں بھی سُنی ہوئی ہیں۔‘ واضح رہے کہ بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ کے دربار میں ایک قدیمی بوہڑ کا پیڑ ہے جس کے نیچے گاؤں کے بزرگوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔ ،تصویر کا کیپشنمحمد رفیق کو علی بخش کی چند باتیں یاد ہیں اور ان کے مطابق وہ علی بخش کو مل چکے ہیں محمد رفیق نے بتایا کہ ’میں جانوروں کا چارا کاٹ کر لایا کرتا اور تکیہ میں رُکتا تو علی بخش بعض مرتبہ وہاں بیٹھے ہوتے۔ مجھے اُن کی چند

علی بخش: علامہ اقبال کے ’ملازمِ خاص‘ جن کی پاکستان میں الاٹ ہونے والی زمین پر قبضہ ہوا Read More »

Elections and Controversies

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟

انتخابی سیاست کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ پاکستان کے آنے والے انتخابات میں اس پارٹی کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے جس کے ساتھ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ یہ اندازہ تازہ ووٹر لسٹوں میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور لوگوں کی زندگیوں میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی بنیاد پر لگایا جا رہا ہے۔ تو کیا نوجوان رائے دہندگان کی بڑی تعداد ان انتخابات میں واقعی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیگی یا اس مرتبہ بھی انتخابی نتائج روایتی نظام سے متاثر رہیں گے؟  کرنے والے سماجی کارکن سرور باری ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ وقت بدل رہا ہے۔  سال 2022 میں صوبہ پنجاب کے 21 حلقوں میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے تجربے کی روشنی میں ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی اور بزرگ اور نوجوان شہریوں کی انتخابی سوچ کا فرق مٹ رہا ہے۔  ’بالکل ایسی تبدیلی محسوس ہو رہی ہے جیسی 1970 میں ہوئی تھی۔ بزرگ ووٹرز اپنے ہی خاندانوں کے نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ گذشتہ انتخابات میں چھ فیصد بزرگ ووٹرز نوجوانوں کی سوچ کی طرف منتقل ہوئے۔‘ ’اسی طرح شہروں کے نوجوانوں کے خیالات قصبوں اور دیہات کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا اور نوجوانوں کی بدلتی سوچ نے شہر اور گاوں کا فرق مٹا دیا ہے۔‘ پنجاب شدید تبدیلی کی لپیٹ میں   پاکستان کی انتخابی اور حلقوں کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز متفق ہیں کہ پاکستان کا روایتی انتخابی نظام ٹوٹنے کے قریب ہے۔ ’میرا نہیں خیال کہ اب مریم نواز یا کوئی اور سوشل میڈیا کے استعمال یا دوسرے طریقوں سے نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔ جب عمران خان اور ان کی جماعت سوشل میڈیا کا ہتھیار استعمال کر رہے تھے اس وقت یہ انہیں ٹوئٹر کی جماعت اور ٹک ٹاک کا وزیراعظم کہتے تھے۔ اب یہ لوگ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا حکمت عملی اپنا کر بھی کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں وقت لگتا ہے، دو تین ماہ میں کچھ نہیں ہوتا۔‘ لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق پی ٹی آئی کے نوجوان ووٹرز کی الجھن یہ ہے کہ انہیں ابھی پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ووٹ ڈالنا بھی ہے یا نہیں اور کس کو ڈالنا ہے۔  نوجوان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے یا گھر بیٹھیں گے  احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ نوجوان ووٹرز کو باہر نکالنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور اگر وہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے تو پھر ضرور کسی بھی چیز کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔  ’پچھلے آٹھ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح تقریبا 45 فیصد رہی ہے اور اس میں نوجوان ووٹروں کی شرح 30 فیصد رہی ہے یعنی وہ 15 فیصد پیچھے ہیں جو کہ اچھی صورتحال نہیں ہے۔‘ ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگلے انتخابات میں نوجوان مایوس ہو کر گھر بیٹھ جائیں گے اور پہلے سے بھی کم تعداد میں ووٹ ڈالیں یا پھر اگر ان کی کوئی حوصلہ افزائی کرے تو پھر باہر نکلیں۔‘

کیا نوجوان ووٹرز ’برادری اور دھڑے‘ کا دھڑن تختہ کر سکیں گے؟ Read More »

Lahore Polluted City in World

سموگ نے ایک بار پھر لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنادیا

لاہور: (ایگنایٹ پاکستان ) سموگ نے صوبائی دارالحکومت لاہور کو ایک بار پھر دنیا کا آلودہ ترین شہر بنا دیا۔ پنجاب حکومت نے سموگ کی شدت کے پیش نظر لاہور ڈویژن سمیت مخصوص اضلاع میں 4 روز کے لئے ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی، پابندیوں کا اطلاق 9 سے اتوار 12 نومبر تک ہوگا۔ گوجرانوالہ، حافظ آباد، نارووال، قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور سیالکوٹ میں بھی دفعہ 144 نافذ رہے گی۔ اس دوران تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، سینما، پارکس اور ریسٹورنٹ بند رہیں گے جبکہ مارکیٹیں ہفتے کو بند رہیں گی جبکہ بیکریاں اور میڈیکل سٹور کھلیں گے، بسیں اور ویگنیں چلتی رہیں گی۔

سموگ نے ایک بار پھر لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر بنادیا Read More »

Smog Fog in Punjab

لاہور میں اسموگ کے پیش نظر آنکھوں کے مسائل بڑھ گئے

لاہور میں اسموگ کے پیش نظر آنکھوں کے مسائل بڑھ گئے، شہریوں کو آنکھوں کی جلن اور پانی بہنے کی شکایات کا سامنا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کی زہریلی فضا سے آنکھوں کے مسائل بڑھ گئے جبکہ آنکھوں میں جلن کی شکایات عام ہوگئیں اور طبی مراکز پر مریضوں کا رش لگنے لگا۔ ماہرین امراض چشم کا کہنا ہے احتیاط سے ہی آنکھوں کے مسائل پر قابو ممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق سفر کے دوران چشمے کا استعمال لازمی کریں، موٹرسائیکل سوار خاص خیال رکھیں، صاف پانی سے بار بار آنکھیں دھوئیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اسموگ سے لاہور کے رہائشی آنکھوں کی مختلف قسم کی الرجی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

لاہور میں اسموگ کے پیش نظر آنکھوں کے مسائل بڑھ گئے Read More »

Smog Fog in Punjab

سموگ کے سبب پنجاب کے مختلف اضلاع میں جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا

صوبہ پنجاب میں سموگ کی خراب صورتحال کے پیش نظرآٹھ شہروں میں جزوی لاک ڈاؤن لگادیاگیا۔ محکمہ صحت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق لاہور سمیت پنجاب کے سات شہروں میں چار روز مارکیٹیں بند رہیں گی، دیگر شہروں میں شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، گوجرانوالہ، حافظہ آباد اور نارووال شامل ہیں ۔ نوٹیفکیشن کے مطابق کے مطابق مارکیٹ، شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس، جمنزیم، تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے،اس دوران پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ سے ان شہروں میں لوگوں کی نقل و حمل بھی محدود ہوگی۔ محکمہ صحت کے مطابق فارمیسز، میڈیکل سٹورز، ویکسی نیشن سنٹرز، پٹرول پمپس، تیل کے ڈپو،تندور، بیکریز، گروسری سٹورز، کریانہ سٹور ، ڈیری شاپس، سویٹ شاپس، پھل و سبزیوں کی دُکانیں معمول کے مطابق کھلیں گے 

سموگ کے سبب پنجاب کے مختلف اضلاع میں جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا Read More »