Pakistan

پنجاب  رواں سال 2023 میں 2 ارب ڈالر  مالیت کا چاول برآمد کرے گا۔

پنجاب  رواں سال 2023 میں 2 ارب  امریکی  ڈالر  مالیت کا چاول برآمد کرے گا۔   لاہور: نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کی قیادت میں پنجاب حکومت نے زرعی شعبے میں شاندار ترقی حاصل کرتے ہوئے کپاس کے بعد چاول کی پیداوار میں اہم سنگ میل عبور کیا۔ کامیابی کی یہ کہانی صوبے کی نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ جاری ہے بلکہ اس سال 2 بلین امریکی ڈالر مالیت کے چاول برآمد کرنے کے لیے بھی تیار ہے، جس سے پاکستان کی مجموعی طور پر 3 بلین ڈالر مالیت کے چاول برآمد ہوئے ہیں۔ یہ پچھلے سال پنجاب سے چاول کی برآمدات میں ایک بلین ڈالر کے مقابلے میں 100 فیصد اضافے کی نمائندگی کرتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کپاس میں کامیابیوں کے بعد چاول کی پیداوار میں اس قابل ذکر کامیابی پر سیکرٹری زراعت اور سرشار ٹیم کو مبارکباد دی۔ انہوں نے مزید اس امید کا اظہار کیا کہ اگلے دو سالوں میں پاکستان کی چاول کی برآمدات ممکنہ طور پر 5 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ مزید برآں، پنجاب اس سال روئی کی گانٹھوں میں گزشتہ کے مقابلے میں 125 فیصد اضافہ دیکھنے کے لیے تیار ہے۔ اس کی روشنی میں سی ایم نقوی نے روئی کی قیمت کو مستحکم کرنے اور بڑھانے کے لیے کوششوں کی ہدایت کی ہے۔ صوبائی وزیر صنعت و زراعت ایس ایم تنویر سیکرٹری زراعت کے ہمراہ اس معاملے پر وفاقی حکومت سے رابطہ کریں گے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان سے روئی کی فوری خریداری شروع کرنے کے لیے رابطہ کیا جائے گا۔ پنجاب میں گندم کی پیداوار کا ابتدائی ہدف 40 ملین ٹن ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، سفارش کی گئی ہے کہ معیاری بیج استعمال کیے جائیں اور 15 نومبر تک گندم کی بوائی شروع کی جائے۔ مزید برآں، صوبے نے 19 لاکھ ایکڑ اراضی پر تیل کے بیجوں کی کاشت کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ایک خصوصی اجلاس میں نگران وزیراعلیٰ نے فصلوں کی زیادہ پیداوار کے حصول کے لیے اہم اقدامات کی منظوری دی۔ اجلاس میں صوبائی وزیر صنعت و زراعت ایس ایم تنویر کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ، سیکرٹریز زراعت، آبپاشی اور خزانہ سمیت اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

پنجاب  رواں سال 2023 میں 2 ارب ڈالر  مالیت کا چاول برآمد کرے گا۔ Read More »

Latest News and Updates

  شیر افضل مروت اور سینیٹر افنان کی ٹی وی پر  دوران سیاسی پروگرام میں  لڑائی 

  شیر افضل مروت اور سینیٹر افنان کی ٹی وی پر  دوران سیاسی پروگرام میں  لڑائی  براہ راست ٹیلی ویژن نشریات کے دوران واقعات کے ایک چونکا دینے والے موڑ میں، پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے سینیٹر افنان اللہ خان اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شیر افضل مروت کے درمیان جسمانی جھگڑا ہوگیا۔ یہ واقعہ چند روز قبل ایکسپریس نیوز کے اینکر جاوید چوہدری کے ٹاک شو “کل تک” کے دوران پیش آیا، جس نے ناظرین اور میڈیا برادری کو بے یقینی میں ڈال دیا۔ یہ جھگڑا، سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہونے والے ایک وائرل ویڈیو کلپ میں پکڑا گیا، جب شو کے دوران دو مہمانوں، سینیٹر افنان اللہ خان اور شیر افضل مروت کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔ تنازعہ تیزی سے بڑھ گیا، جس کے نتیجے میں مروت نے سینیٹر افنان پر جسمانی حملہ کیا۔ اسلام آباد کیپیٹل پولیس کے ترجمان کے مطابق سینیٹر افنان کی درخواست پر آبپارہ تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506 اور 352 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) اسلام آباد کو اپنی درخواست میں، جس میں ، سینیٹر افنان نے الزام لگایا کہ مروت نے ان پر حملہ کیا، جھگڑے کے دوران انہیں تین تھپڑ مارے۔ سینیٹر نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنے چہرے اور سر پر چوٹوں کا طبی علاج کروانا پڑا کیونکہ وہ جھگڑے کے دوران بے ہوش ہو گئے۔ ٹاک شو کے میزبان جاوید چوہدری نے واقعات کے موڑ پر اپنی حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اگرچہ سیاسی ٹاک شوز میں زبانی جھگڑا کوئی معمولی بات نہیں ہے، لیکن انہیں کبھی بھی یہ توقع نہیں تھی کہ تصادم جسمانی تشدد تک بڑھ جائے گا۔ مزید یہ بھی پڑھیے جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی     مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کے حامیوں نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر جھڑپ میں اپنے اپنے نمائندوں کی جیت کا دعویٰ کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، دستیاب ویڈیو کلپس میں جسمانی جھگڑے کی اکثریت مبہم ہے۔ سینیٹر افنان اور پی ٹی آئی کے وکیل مروت دونوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔ سینیٹر خان نے دعویٰ کیا کہ مروت نے حملہ شروع کیا تھا لیکن انہوں نے صرف مناسب جواب دیا تھا۔ “جب کہ میں عدم تشدد پر پختہ یقین رکھتا ہوں، میں نواز شریف (پی ایم ایل این سپریمو) کا ایک سرشار سپاہی ہوں۔ مروت کو جو سبق ملا ہے وہ پی ٹی آئی کے تمام اراکین خاص طور پر عمران خان کے لیے ایک اہم یاد دہانی ہے۔ وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔” اپنے چہروں کو دکھانے کے لیے اور انہیں [داغ چھپانے کے لیے] رنگین چشمے پہننا ہوں گے،” سینیٹر افنان نے ایک ٹویٹ میں کہا۔ اپنے یوٹیوب چینل پر جاوید چوہدری نے زور دے کر کہا کہ افنان نے مروت کو مؤثر طریقے سے زیر کر لیا، صورتحال کو قابو میں لایا۔ جواب میں مروت نے ٹی وی میزبان پر واقعے کے حوالے سے غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ سینیٹر افنان نے ہاتھا پائی کے دوران بالادستی حاصل کی تھی، یہ کہتے ہوئے کہ افنان اللہ خان اسٹوڈیو سے بھاگ گیا تھا اور قریبی کمرے میں پناہ لی تھی۔ اپنے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد، مروت نے جاوید چوہدری سمیت بعض میڈیا شخصیات کی طرف سے بنائے گئے بیانیے پر سوال اٹھایا اور سینیٹر افنان کے گرد “بلیک بیلٹ” کے بیانیے پر وضاحت طلب کی۔ “کیا وسیم بادامی، جاوید چوہدری، اور منصور علی خان بلیک بیلٹ افنان کے بیانیے پر اپنی پوزیشن واضح کریں گے؟ سینیٹر افنان نے اپنی شکایت میں آپ کی مکمل تردید کی ہے کیونکہ آپ سب نے اپنے مختلف وی لاگز میں دعویٰ کیا تھا کہ فاتح بلیک بیلٹ تھا۔ تاہم، بلیک بیلٹ نے اپنی شکایت (مشال یوسفزئی کی طرف سے مجھ سے شیئر کی گئی شکایت) میں دعویٰ کیا کہ اسے بے دردی سے مارا گیا، زخمی کیا گیا، اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ بلیک بیلٹ کے اس بیانیے نے آپ کی پیشہ ورانہ سالمیت پر عوام کے اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا ہے؟” مروت نے اپنے آفیشل ایکس ہینڈل پر لکھا۔

  شیر افضل مروت اور سینیٹر افنان کی ٹی وی پر  دوران سیاسی پروگرام میں  لڑائی  Read More »

Relatives are standing next to blast victim at a hospital in Quetta on September 30, 2023, a day after suicide bomber targeted a 12th Rabiul Awwal procession in Mastung district.

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں را   ملوث ہے، وزیر داخلہ

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں را   ملوث ہے، وزیر داخلہ   عبوری وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے ہفتے کے روز الزام لگایا کہ بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں ہندوستان کی غیر ملکی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (را) ملوث ہے۔ کوئٹہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے، انہوں نے دعویٰ کیا: “وہ لوگ جو سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو بھی یہ کر رہا ہے – چاہے وہ کوئی بھی ہو، آپ اسے جو بھی کہیں – وہ سب ہمارے لیے ایک ہیں، سب کی اصل ایک ہے، سب ایک ہیں۔ ایک جگہ سے ہینڈل کیا جا رہا ہے، ان سب کے پیچھے را کا ہاتھ ہے۔ وزیر نے مزید کہا، “اس سے پہلے ہونے والے تمام واقعات… وہ سب بے نقاب ہو گئے – تمام بڑے واقعات جو بلوچستان میں ہوئے – اور ان سب کے پیچھے RAW کا ہاتھ رہا ہے، اور وہ قوتیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔” انہوں نے اپنے بیانات کی حمایت کے لیے کوئی ثبوت یا ثبوت فراہم نہیں کیا۔ بگٹی کا یہ تبصرہ بلوچستان کے مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس کو نشانہ بناتے ہوئے ایک خوفناک خودکش دھماکے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے جس میں ایک پولیس افسر سمیت 55 افراد کی جانیں گئیں۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ تاہم، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے، جو پاکستان میں ہونے والے کچھ خونریز حملوں کی ذمہ دار ہے، نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ بلوچستان کی نگراں حکومت نے حملے کے بعد تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسرا بم حملہ کل خیبر پختونخواہ کے ہنگو میں ہوا، جس میں شہر میں ایک پولیس اسٹیشن کی مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں مسجد کی چھت گرنے سے 5 افراد جاں بحق اور 12 زخمی ہوگئے۔ آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے، بگٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دہشت گردوں کو ان کے “گھروں” تک لے جائیں گے اور خوش کرنے کی پالیسی “اب نہیں چلے گی”۔ “ہم کیا جانتے ہیں کہ یہ خوشامد کی پالیسیوں پر عمل کیا گیا – جو ہم نے پچھلے دو تین سالوں میں دیکھا – اس کے لئے کوئی رواداری نہیں ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ ریاست جانتی ہے کہ دہشت گرد کہاں سے کام کر رہے ہیں اور انہوں نے زور دے کر کہا، “ہم ان کے اڈوں میں جائیں گے، جہاں ان کی پرورش ہوتی ہے اور جو ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، اور ہم ان کے خلاف جائیں گے۔” یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ بعض اوقات ایک تنظیم کی طرف سے حملہ کیا جائے گا اور دوسری اس کی ذمہ داری قبول کرے گی، وزیر داخلہ نے کہا کہ حالیہ حملوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ “چاہے وہ داعش ہو یا ٹی ٹی پی یا کوئی اور… کوئی بھی کسی بھی جھنڈے تلے تشدد کر رہا ہے… تشدد صرف ریاست کرے گی،” بگٹی نے دہشت گردوں کا شکار کرنے کا عہد کرتے ہوئے کہا۔ اس ماہ کے شروع میں ہونے والے ایک حملے کو یاد کرتے ہوئے جس میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) کے رہنما حافظ حمد اللہ زخمی ہوئے تھے، وزیر نے کہا کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ بعد میں مارا گیا۔ انہوں نے دہشت گرد عناصر کے ساتھ نمٹنے کے دوران ریاست کی جانب سے “خوشامد کی پالیسی” کی طرف جانے کے ماضی کے واقعات پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا: “میں آپ کو ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ایک خاص سطح تک پہنچ جاتے ہیں – چاہے وہ قوم پرستی کے نام پر دہشت گردی ہو یا مذہب کے نام پر – ہم طاقت کی ایک خاص پوزیشن پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر اچانک، ہماری ریاست۔ خوشامد کی پالیسی پر سوئچ کرتا ہے اور ہم اپنی [کارروائی] کو کم کرتے ہیں۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ صوبائی وزیر اطلاعات جان اچکزئی “ڈی سیز (ڈسٹرکٹ کمشنرز) اور ایس پیز (پولیس سپرنٹنڈنٹس) کو معطل کرنے کے معاملے کے بارے میں تفصیل سے بتا سکتے ہیں، اور زور دے کر کہا کہ اس کی “مکمل تحقیقات” کی جائیں گی۔ وزیر نے روشنی ڈالی کہ کل کا دھماکا “بلوچستان میں 12 ربیع الاول کے حوالے سے پہلا” تھا اور نوٹ کیا کہ ماضی میں ہزارہ برادری اور محرم کے جلوسوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس ماہ کے شروع میں ڈیرہ بگٹی ضلع سے اغوا کیے گئے فٹبالرز کے معاملے کے بارے میں بات کرتے ہوئے بگٹی نے تصدیق کی کہ ان میں سے چار واپس آچکے ہیں۔ جب ایک رپورٹر کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بازیاب ہو گئے ہیں یا اغوا کاروں نے رہا کر دیا ہے، بگٹی نے کہا، “چار [واپس] آ چکے ہیں اور باقی دو کو بھی، انشاء اللہ بازیاب کرایا جائے گا۔” سی ٹی ڈی نے مستونگ دھماکے کی ایف آئی آر درج کر لی   دریں اثنا، بلوچستان کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے کہا کہ اس نے مستونگ حملے کی پہلی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کر لی ہے جس میں کل ایک پولیس افسر سمیت 55 افراد کی جانیں گئیں۔ آج جاری ہونے والے ایک بیان میں، سی ٹی ڈی نے کہا کہ ایک نامعلوم حملہ آور کے خلاف قتل اور دہشت گردی کے الزامات کے ساتھ ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ اس مہلک حملے کے نتیجے میں کم از کم 55 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔ آج بلوچستان اسمبلی، وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس اور بلوچستان ہائی کورٹ سمیت سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں کر دیا گیا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ مستونگ کا پورا علاقہ “غم میں ڈوبا ہوا” ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دل ٹوٹنے کے باوجود، “جرات

بلوچستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے میں را   ملوث ہے، وزیر داخلہ Read More »

Mastung Attack Balochistan Pakistan

‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘

مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے تھے‘   ’وہاں جو صورتحال تھی وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ ایسے سمجھ لیں کہ قیامت کا منظر تھا۔ لاشیں اور زخمی ایک دوسرے کے اُوپر پڑے ہوئے تھے، کسی کا سر نہیں تھا تو کسی کے ہاتھ پاؤں نہیں تھے۔‘ یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے دھماکے کے ایک عینی شاہد برکت علی کا۔ مستونگ شہرمیں کوڑا خان روڈ پر واقع مدینہ مسجد کے سامنے لوگ عید میلاد النبی کے سلسلے میں نکلنے والے ایک جلوس میں شرکت کے لیے اکھٹے ہو رہے تھے جب زوردار دھماکہ ہوا۔ مستونگ کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر رشید محمدشہی نے بتایا کہ دھماکے میں 52 افراد ہلاک جبکہ 70 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق زخمیوں میں سے 52 افراد کو سول ہسپتال کوئٹہ کے ٹراما سینٹرمنتقل کیا گیا جبکہ بعض زخمیوں کو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا۔ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر احمد جمالی نے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے کے بارے میں تحقیقات ہو رہی ہیں۔ انسپیکٹر جنرل پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے کیا جانے والا ایک واقعہ ہے۔ عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟   مستونگ سے تعلق رکھنے والے برکت علی اُن لوگوں میں شامل تھے جو کہ عیدمیلاد النبی کی جلوس میں شرکت کے لیے مدینہ مسجد پہنچے تھے۔ وہ خود تو اس دھماکے کے نتیجے میں محفوظ رہے تاہم جائے وقوعہ سے زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو ایمبولینسوں میں منتقل کرنے کے دوران اُن کے کپڑے خون آلود ہو گئے جبکہ وہ غم کی شدت سے نڈھال تھے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ دھماکے کی جگہ سے کچھ فاصلے پر تھے اسی لیے وہ بچ گئے لیکن وہاں جو حالات تھے وہ بالکل ناقابل بیان تھے۔ ’آج میں نے قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دھماکے کے بعد جب حواس بحال ہوئے تو سامنے بہت درد ناک مناظر تھے، ہر طرف لاشیں اور زخمی پڑے ہوئے تھے۔‘ اس واقعے کے حوالے سے سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ درجنوں افراد عید میلاد النبی کے جلوس کا حصہ ہیں۔ جلوس میں موجود گاڑی پر نعتیہ کلام بلند آواز سے چل رہا تھا جبکہ بہت سے شرکا کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے۔ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوتا ہے اور انسانی اعضا فضا میں بلند ہوتے ہیں۔ بی بی سی اس ویڈیو کی آذادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔ سیف اللہ بھی اسی جلوس کا حصہ تھے اور وہ دھماکے کے بعد اپنے زخمی ہونے والے بھائی کے ہمراہ ٹراما سینٹر کوئٹہ آئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ اس واقعہ میں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے 10 کے قریب ان کے رشتہ دار ہیں۔ سیف اللہ کا کہنا تھا کہ ’ہم جلوس کی روانگی کے انتظار میں تھے کہ اس دوران زور دار دھماکہ ہوا۔ میں دھماکے کی جگہ سے لگ بھگ ڈیڑھ سو فٹ کے فاصلے پر تھا اس وجہ سے دھماکے کی زد میں نہیں آیا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جس مسجد کے سامنے یہ دھماکہ ہوا اس کے خطیب بھی اس واقعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ جن زخمیوں کو ٹراما سینٹر لایا گیا تھا ان میں جامعہ مدینہ کے مدرس مولانا شیر احمد حبیبی بھی شامل تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عید میلاد النبی کا جلوس بڑی دھوم دھام کے ساتھ اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے والا تھا جب دھماکہ ہوا۔ ہمارے ساتھی درود کا ورد کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔‘ سرفراز ساسولی دھماکے کا نشانہ بننے والے جلوس کی سکیورٹی پرمامور تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جلوس سے ایک ڈیڑھ کلومیٹرکے فاصلے پر تھے اور جلوس کے راستے کو کلیئر کرنے کے کام میں مصروف تھے جب انھیں دھماکے کی آواز سنائی دی۔ انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے وہ تو محفوظ رہے لیکن جلوس میں ہونے کی وجہ سے ان کے دو بھائی اس میں زخمی ہوئے۔دھماکے کی نوعیت کے بارے میں حکام کا کیا کہنا ہے ؟ بلوچستان کے نگراں وزیر داخلہ میر زبیر جمالی نے سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ دھماکے بارے میں تحقیقات جاری ہیں لیکن غالب امکان یہی ہے کہ یہ ایک خود کش دھماکہ تھا۔ بلوچستان پولیس کے انسپیکٹر جنرل عبدالخالق شیخ نے بتایا کہ ’مستونگ میں پہلے بھی سکیورٹی آپریشن ہو رہے ہیں اور ہماری جوٹیمیں وہاں کام کر رہی ہیں انھوں نے بہت ساری مفید معلومات حاصل کی ہیں جن کی روشنی میں مزید آپریشن کیے جائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ مستونگ کہاں واقع ہے؟ مستونگ بلوچستان کے ضلع کوئٹہ سے متصل جنوب میں واقع ایک ضلع ہے۔ یہ مقام پر یہ دھماکہ ہوا وہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ضلع مستونگ کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پرمشتمل ہے۔ بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ضلع مستونگ میں بھی بدامنی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ ضلٰع مستونگ میں رواں مہینے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمداللہ پربم حملہ ہوا تھا جس میں حافظ حمداللہ سمیت 13افراد زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ مستونگ کے علاقے کانک میں 2018 کے عام انتخابات سے قبل بھی ایک بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت 125سے زائد افراد ہلاک اور بہت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے تھے۔ مستونگ میں رونما ہونے والے واقعات میں سے بعض کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں جبکہ بعض کہ ذمہ داری مذہبی شدت پسندتنظیموں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ تاہم اس واقعے کی ذمہ داری فی الحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان

‘مستونگ حملے میں 52 ہلاک، درجنوں زخمی: ’قیامت کا منظر تھا، ‘ Read More »

Sher Afzal Marwat and Afnan Ullah fight in Talk show

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی: اس ناخوشگوار واقعے کا ذمہ دار کون اور شو میزبان کو کیا کرنا چاہیے؟   پاکستان کے سوشل میڈیا پر ایک نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے پرائم ٹائم ٹاک شو ’کل تک جاوید چودھری کے ساتھ‘ کا ایک کلپ وائرل ہے، جس میں پروگرام کے مہمان آپس میں تلخ کلامی اور سخت جملوں کے تبادلے کے بعد ایک دوسرے پر تھپڑ اور مکے برساتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پروگرام میں ہاتھا پائی کرنے والے یہ مہمان مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی کور کمیٹی کے رکن اور وکیل شیر افضل خان مروت ہیں۔ واضح رہے یہ پروگرام براہ راست نشر نہیں کیا گیا تھا اور دونوں سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ جھگڑا بدھ کے روز ہونے والے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران ہوا تاہم سوشل میڈیا پر اس کا کلپ وائرل ہوا۔ پروگرام کا مختصر کلپ وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا صارفین نے جہاں اس جھگڑے کی مذمت کی تو وہیں کچھ لوگوں نے اس واقعے کی ویڈیو ٹی وی سٹوڈیو سے لیک ہونے اور ایسی صورتحال میں پروگرام اینکر کی ذمہ داری پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔ اس وائرل ویڈیو کلپ میں کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس وائرل ویڈیو کلپ میں پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کے رکن شیر افضل خان مروت اپنی اپنی سیاسی جماعت کے بیانیے پر بحث کر رہے ہیں اور اپنی اپنی سیاسی قیادت کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس دوران بات بڑھتی ہیں اور دونوں مہمان ایک دوسرے کی سیاسی قیادت کی کردار کشی سے متعلق جملے کستے ہیں اور اسی گرما گرمی میں دونوں مہمان ذاتی نوعیت کے لفظی حملے کرنے لگتے ہیں۔ اس دوران پروگرام اینکر جاوید چودھری ایک دو مرتبہ مہمانوں کو ٹوکتے ہوئے تلخ کلامی سے روکتے ہیں۔ اسی اثنا میں پی ٹی آئی کے شیر افضل خان مروت اپنی نشست سے اٹھتے ہیں اور ساتھ بیٹھے مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان کو تھپڑ رسید کر دیتے ہیں۔ جس کے بعد دونوں مہمان دست و گریبان ہو جاتے ہیں اس دوران پروگرام اینکر جاوید چودھری دونوں کو ہاتھا پائی روکنے کا کہتے ہیں اور فوراً سٹوڈیو میں موجود عملے کو اندر آ کر مہمانوں میں بیچ بچاؤ کروانے کا کہتے ہیں۔ کلپ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پروگرام اینکر بھی اپنی نشست سے اٹھ کر دونوں مہمانوں کے قریب آتے ہوئے ڈاکٹر افنان کو شیر افضل خان مروت کو چھوڑنے کا کہتے ہیں۔ جس کے بعد سٹوڈیو میں موجود ایک شخص ڈاکٹر افنان کو پکڑ کے ایک طرف لے جاتا ہے۔ واضح رہے کہ بدھ کی شب ہونے والی اس ریکارڈنگ کے بعد یہ پروگرام ٹی وی پر نشر بھی کیا گیا تھا تاہم اس میں اس لڑائی والے حصے کو کاٹ دیا گیا تھا۔ تاہم یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ سینیئر صحافی و اینکر پرسن جاوید چودھری کے پروگرام میں ایسا ہوا ہو۔ اس سے قبل بھی جون 2021 میں ان کے ایک پروگرام میں اس وقت پی ٹی آئی کی رہنما فردوس عاشق اعوان نے لفظی تکرار کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما قادر مندوخیل کو تھپڑ رسید کر ڈالا تھا۔ ناخوشگوار واقعے پر لڑنے والے سیاستدانوں کا کیا ردعمل ہے؟ نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک جاوید چودھری کے پروگرام میں ہاتھ پائی کرنے والے مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان اور پی ٹی آئی رہنما شیر افضل خان مروت نے وائرل کلپ کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنا ردعمل دیا۔ شیر افضل خان مروت نے اس واقعے پر کہا کہ ’ ایکسپریس ٹی وی کے میزبان جاوید چوہدری گذشتہ رات ہونے والے ناخوشگوار واقعے کے بارے میں غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔‘ ’وہ یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ میرا مخالف کوئی سپرمین تھا۔ وہ یہ نہیں بتا رہے تھے کہ افنان نے سٹوڈیو سے بھاگ کر قریبی کمرے میں پناہ لی، جس کا مجھے آج ان کا پروگرام دیکھ کر پتا چلا۔ میں تقریباً پانچ سے سات منٹ تک سٹوڈیو میں رہا۔ بعد میں،مجھے بتایا گیا کہ اس حصے کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور میں وہاں سے چلا گیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کے متعصب ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جو میں اتوار کو میڈیا سے شیئر کروں گا۔ میں ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ اور مجرمانہ شکایت کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں اور اپنی ریکارڈ شدہ آڈیو گفتگو بھی شیئر کروں گا جو آج ان کے اور میرے درمیان ہوئی۔ میرے پاس اس کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے بہت سی چیزیں ہیں۔ دیکھتے رہنا۔‘ جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان نے اس واقعے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’مروت نے کل ٹاک شو میں مجھ پر حملہ کیا، میں عدم تشدد پر یقین رکھتا ہوں مگر میں نواز شریف کا سپاہی ہوں۔ جو پھینٹا مروت کو لگایا ہے یہ تمام پی ٹی آئی اور بالخصوص عمران خان کے لیے ایک اہم سبق ہے، کہیں شکل دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، بڑی بڑی کالی عینکیں لگانی پڑیں گی۔‘ پروگرام اینکر جاوید چودھری کا کیا موقف ہے؟ اس ناخوشگوار واقعے پر جب ہم نے پروگرام کے اینکر و سینیئر صحافی جاوید چودھری سے سوال کیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ان کے پروگرام میں ایسا واقعہ پیش آیا ہو تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو یہ واقعتاً ایک قابل مذمت واقعہ ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کیونکہ یہ اچانک ہوا اور ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر دو لوگ بیٹھے ہوں تو ایک اچانک اٹھ کر دوسرے پر کافی پھینک دے گا یا ہاتھا پائی کرے تو آپ کو کیسے پتا چل گا یہ وہ یہ قدم اٹھانے لگا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’آج تک ایسی کوئی مشین نہیں بنی جو کسی انسان کی نیت کو جانچ سکے کہ وہ چند لمحوں بعد کیا کرنے والا ہے۔‘

جاوید چوہدری کے پروگرام میں سیاستدانوں کی ہاتھا پائی Read More »

Ex Prime Minister of Pakisan Mian Muhammad Nawaz Sharif

جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد نون لیگ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟

جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد نون لیگ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟ سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کی اکتوبر میں متوقع طور پر پاکستان واپسی سے قبل نئے سوال اور تنازعے جنم لے رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر خود ن لیگ کے بیانات کی وجہ سے ہی پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک جانب جہاں نواز شریف کی واپسی کے بعد ان کی بقیہ سزا کا سوال موجود ہے وہیں ایک تنازع ان کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹینینٹ جنرل فیض حمید، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت موجودہ سپریم کورٹ جج اعجاز الاحسن کے خلاف کارروائی کا عندیہ دینے کی وجہ سے کھڑا ہوا۔ یہ بیان نواز شریف نے لندن میں دیا تھا جس میں انھوں نے ان افراد کو سنہ 2017 میں ان کی حکومت کے خاتمے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل باجوہ، فیض حمید، ثاقب نثار، جسٹس کھوسہ، عظمت سعید، اعجاز الاحسن پاکستان اور 22 کروڑ عوام کے مجرم ہیں۔ نواز شریف کے مطابق ’جب تک اس سازش میں شامل تمام کرداروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا، پاکستان آگے نہیں بڑھ سکے گا۔‘ اس بیان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید احمد شاہ نے پاکستانی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو مشورہ دیا کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہ کرے اور ایسی محاذ آرائی سے گریز کرے۔ ایسے میں ن لیگی رہنماوں سے بھی صحافیوں کے سوالات کا تانتا بندھا تو منگل کے دن ن لیگی رہنما جاوید لطیف نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مٹی ڈالیں۔ تو چلیں 2017 کے کرداروں کا احتساب نہ کریں، اگر کوئی نہیں کروانا چاہتا، ادارے نہیں کرنا چاہتے، سمجھتے ہیں کہ لوگ دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں، کوئی کہتا ہے اس سے پھر ٹکراو کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔‘ جاوید لطیف نے اسی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’میں اور پارٹی میں نوے فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جتنے قصوروار جنرل فیض ہیں، اتنے ہی قصوروار جنرل باجوہ ہیں۔‘ ’ہم تو اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کا کسی طور پر بھی ڈیمانڈ نہیں کر رہے کہ ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔۔۔ ہم تو ڈیمانڈ آج کر رہے ہیں اور پورے زور سے کر رہے ہیں کہ اگر نو اور دس مئی کے کرداروں کو، سہولت کاروں کو اور آج کے موجودہ جو ہیڈ ہیں اس ادارے کے، ان کے خلاف، ادارے کے خلاف بغاوت پر اکسانے والوں کو آپ کیفر کردار تک نہیں پہنچائیں گے ، وہ کوئی بھی ہو۔۔۔ تو کیا کل اداروں میں کوئی انصاف کر سکے گا۔‘ جاوید لطیف کے اس بیان کے بعد یہ تاثر مضبوط ہوا کہ نواز شریف کی جانب سے سابق فوجی افسران اور ججوں کے خلاف کارروائی کی بات پر پارٹی پیچھے ہٹ رہی ہے۔ بدھ کی رات پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کے پروگرام میں میزبان کاشف عباسی نے ن لیگ کے رہنما محمد زبیر سے سوال کیا کہ کیا نواز شریف احتساب چاہتے ہیں یا نہیں تو محمد زبیر نے جواب دیا کہ ’تھوڑا سا انتظار کر لیں، وہ آئیں گے تو پتا چل جائے گا۔‘ نواز شریف نے پاکستان واپسی سے کچھ ہی عرصہ پہلے یہ بیان کیوں دیا اور اب ن لیگ اس بیان سے پسپائی کیوں اختیار کر رہی ہے؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ جب بی بی سی نے جاوید لطیف سے یہی سوال کیا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ادارے قانون کے مطابق کام کریں۔ کسی کو شکایت نہ ہو کہ کسی فرد نے ماورائے آئین کام کیا۔ پاکستان میں چاہے بھٹو کا کیس ہو یا کسی اور کا، ایک طبقہ کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا قصور ہے، ایک طبقہ کہتا ہے سیاست دانوں کا قصور ہے اور عوام کنفیوز ہو جاتی ہے۔ جس کے پاس ذرائع ابلاغ ہوتے ہیں وہ حاوی ہو جاتا ہے۔‘ جاوید لطیف کا کہنا تھا کہ ’ہر ادارے میں خود احتسابی کا طریقہ موجود ہے اور اگر اس طریقے کے مطابق ادارے کام کر لیں تو قوم کو ان سے کبھی بھی شکایت نہیں ہو گی لیکن ان اداروں میں طاقتور لوگ جن سے اصل شکایت ہوتی ہے، احتساب کرنے والے ان کے سامنے کمزور ہو کر احتساب نہیں کر پاتے۔‘ جاوید لطیف نے نواز شریف کے بیانیے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کہہ رہے ہیں کہ عوام کی حمایت سے اگر ہمیں موقع ملا تو ہم کوشش کریں گے کہ اس ادارہ جاتی خود احتسابی کے طریقہ کار کو اتنا موثر کریں کہ کوئی کتنا ہی طاقتور ہو وہ اس سے بچ نہ سکے تاکہ ریاست بھی چلے اور بار بار بیانیے کا سوال بھی نہ اٹھے۔‘ نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل خود ہی جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بحث کیوں چھیڑی؟ لیکن بیانیے کا سوال ن لیگ اور نواز شریف کا پیچھا شاید نہیں چھوڑے گا۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹنشن کا معاملہ ہو یا پھر سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کا، ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کا معاملہ زیر بحث آتا رہے گا۔ تو ایسے میں نواز شریف نے پاکستان واپسی سے قبل خود ہی جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کی بحث کیوں چھیڑی؟ صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ میرے نزدیک بیانیہ بنانے سے زیادہ ایک ’واٹر چیک‘ تھا کیونکہ ’ابھی یہ بات تنظیمی ڈھانچے سے خطاب میں کہی گئی تھی، واضح بیانیہ ابھی سامنے نہیں آیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’بیانیہ بنانے سے پہلے انھیں اپنی صفوں میں بھی چیزیں دیکھنی ہیں کیونکہ نواز شریف کے ساتھ ساتھ اب شہباز شریف کا بھی جماعت پر اثرورسوخ ہے۔‘ ’یہی وجہ ہے کہ جب انھوں

جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کا نعرہ لگانے کے بعد نون لیگ پیچھے کیوں ہٹ رہی ہے؟ Read More »

Petrol and Diesel Prices

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دو ماہ بعد کمی متوقع۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دو ماہ بعد کمی متوقع۔   اسلام آباد: ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) اور پیٹرول کی قیمتوں میں یکم سے 15 اکتوبر کی مدت کے لیے تقریباً 5 سے 19 روپے فی لیٹر تک کمی کا تخمینہ لگایا گیا ہے، دو ماہ میں پہلی کمی کیا ہو سکتی ہے، اس کی بنیادی وجہ روپے کی قدر ہے۔ تعریف دو ضروری ایندھن کی قیمتوں میں آخری بار جولائی کے وسط میں کمی کی گئی تھی جب پیٹرول 9 روپے فی لیٹر کم کرکے 253 روپے اور ڈیزل 7 روپے فی لیٹر کم کرکے 253.50 روپے کر دیا گیا تھا۔ ذرائع نے ایگنایٹ پاکستان کو بتایا کہ موجودہ ٹیکس کی شرحوں اور دیگر اوور ہیڈز کی بنیاد پر، آئندہ جائزے میں پیٹرول کی قیمت میں 15-19 روپے فی لیٹر تک کی کمی آسکتی ہے کیونکہ اس کی بین الاقوامی قیمت میں 101 ڈالر سے 99 ڈالر فی بیرل اور تقریباً 10 روپے تک 2 فیصد کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں 5 کا اضافہ۔ یہ حساب ستمبر کے پہلے 12 دنوں کے اصل اثرات اور آخری دو دنوں کے اندازوں پر مبنی ہے۔ پیٹرول بنیادی طور پر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ، چھوٹی گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ براہ راست متوسط ​​اور نچلے متوسط ​​طبقے کے بجٹ کو متاثر کرتا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 12 روپے اور 19 روپے فی لیٹر تک کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح، اگر حکومت پیٹرولیم لیوی کو 50 روپے فی لیٹر پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کرتی ہے تو HSD کی قیمت بھی 9-12 روپے فی لیٹر تک گر سکتی ہے۔ تاہم، اگر وزارت خزانہ بجٹ کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے لیوی میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ کرتی ہے، تو ڈیزل کی قیمت میں 5 سے 8 روپے فی لیٹر کمی ہو جائے گی۔ پیٹرول کے برعکس، بین الاقوامی مارکیٹ میں HSD کی قیمت حالیہ ہفتوں میں تقریباً 1 ڈالر فی بیرل بڑھ کر 122 ڈالر تک پہنچ گئی۔ ٹرانسپورٹ کا زیادہ تر شعبہ اس قسم کے ڈیزل پر چلتا ہے۔ اس کی قیمت کو انتہائی مہنگائی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ زیادہ تر بھاری ٹرانسپورٹ گاڑیوں، بسوں، ٹرینوں اور زرعی انجنوں جیسے ٹرک، ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور تھریشر میں استعمال ہوتا ہے۔ ایندھن خاص طور پر سبزیوں اور دیگر کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ نگران حکومت کے لیے پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کا یہ پہلا موقع ہوگا۔ 15 اگست اور 15 ستمبر کے درمیان پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب 58.43 روپے اور 55.83 روپے فی لیٹر کا اضافہ ہوا۔ دونوں مصنوعات فی الحال خوردہ مرحلے پر 331-333 روپے فی لیٹر میں فروخت ہو رہی ہیں۔ اس وقت تمام پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی صفر ہے، لیکن حکومت پیٹرول پر 60 روپے فی لیٹر پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی اور ایچ ایس ڈی اور ہائی آکٹین ​​ملاوٹ والے اجزاء اور 95 RON (ریسرچ آکٹین ​​نمبر) پیٹرول پر فی لیٹر 50 روپے وصول کر رہی ہے۔ حکومت پیٹرول اور ایچ ایس ڈی پر تقریباً 22-23 روپے فی لیٹر کسٹم ڈیوٹی بھی وصول کر رہی ہے۔          

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دو ماہ بعد کمی متوقع۔ Read More »

نجی اور سرکاری سکولوں میں کل سے اتوار تک چھٹیوں کا اعلان

نجی اور سرکاری سکولوں میں کل سے اتوار تک چھٹیوں کا اعلان   لاہور(ایگنایٹ پاکستان)پنجاب میں آشوب چشم کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ پر تعلیمی اداروں میں کل سے اتوار تک چھٹیوں کا اعلان کردیا گیا۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق آنکھوں کے وائرس کے باعث نجی اور سرکاری سکولوں میں جمعرات اور ہفتہ کو عام تعطیل کااعلان کردیا گیا،جمعہ کے روز عیدمیلادالنبیﷺ کی چھٹی ہو گی ،اتوار کی ہفتہ وار چھٹی کے بعد سوموار کو دوبارہ سکول کھلیں گے،سوموار کو صبح تمام سکولوں کے باہر بچوں کو داخلے کے وقت اساتذہ چیک کریں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہاکہ جن بچوں میں آشوب چشم کی شکایت ہوئی ان کو واپس گھروں کو بھیجا دیا جائے،چھٹیوں کا اطلاق پورے صوبے پر ہوگا۔

نجی اور سرکاری سکولوں میں کل سے اتوار تک چھٹیوں کا اعلان Read More »

ورلڈ کپ 2023: پاکستانی ٹیم بھارت کے لیے روانہ

ورلڈ کپ 2023: پاکستانی ٹیم بھارت کے لیے روانہ پاکستان 27 ستمبر کو 8 بجکر 15 منٹ پر (مقامی وقت) حیدرآباد، ہندوستان میں لینڈ کرے گا۔   پاکستان کرکٹ ٹیم بدھ کی صبح آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں شرکت کے لیے بھارت روانہ ہو گئی۔ سفری دستہ 18 کھلاڑیوں اور 13 کھلاڑیوں کے معاون اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ مورنے مورکل دبئی میں ٹیم کو جوائن کریں گے۔ مکی آرتھر بھارت میں ٹیم کو جوائن کریں گے۔ پاکستان 27 ستمبر کو 8 بجکر 15 منٹ پر (مقامی وقت) حیدرآباد، ہندوستان میں لینڈ کرے گا۔ بابر اعظم کی ٹیم اپنا پہلا وارم اپ 29 ستمبر کو نیوزی لینڈ کے خلاف اور دوسرا اور آخری 3 اکتوبر کو آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گی۔ پاکستانی اسکواڈ: بابر اعظم، شاداب خان (وی سی)، فخر زمان، امام الحق، عبداللہ شفیق، محمد رضوان (وکٹ)، آغا سلمان، سعود شکیل، افتخار احمد، محمد نواز، اسامہ میر، شاہین آفریدی، حارث رؤف، حسن علی، محمد وسیم جونیئر ریزرو پلیرز : ابرار احمد، محمد حارث، زمان خان پلیئر سپورٹ پرسنل: ریحان الحق (ٹیم منیجر)، مکی آرتھر (ڈائریکٹر – پاکستان مینز ٹیم)، گرانٹ بریڈ برن (ہیڈ کوچ)، اینڈریو پوٹک (بیٹنگ کوچ)، مورنے مورکل (بولنگ کوچ)، آفتاب خان (فیلڈنگ کوچ) )، عبدالرحمٰن (اسسٹنٹ کوچ)، ڈاکٹر سہیل سلیم (ٹیم کے ڈاکٹر)، ڈریکس سائمن (سٹرنتھ اینڈ کنڈیشنگ کوچ)، کلف ڈیکن (فزیو تھراپسٹ)، احسن افتخار ناگی (میڈیا اور ڈیجیٹل کنٹینٹ منیجر)، عثمان انواری (سیکیورٹی منیجر)، مقبول احمد بابری (ماہر نفسیات)، طلحہ اعجاز (تجزیہ کار) اور ملنگ علی (مسیر)۔

ورلڈ کپ 2023: پاکستانی ٹیم بھارت کے لیے روانہ Read More »

ملاوٹ شدہ انجکشن بنانے والے دو ملزمان گرفتار

ملاوٹ شدہ انجکشن بنانے والے دو ملزمان گرفتار غیر صحت مند ماحول میں آنکھوں کی دوا کی پیکنگ کی تحقیقات کے بعد 12 انسپکٹرز معطل ایک صوبائی محکمہ صحت کے اہلکار نے منگل کو بتایا کہ پاکستان میں ذیابیطس کے درجنوں مریضوں کو آلودہ دوا دینے کے بعد بینائی سے محروم ہونا پڑا۔ پولیس اور صحت کے حکام کے مطابق، دوا کی سپلائی کرنے والے دو افراد، آواسٹن کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ دوا کو غیر صحت بخش ماحول میں پیک کیا گیا تھا، 12 سرکاری انسپکٹرز کو معطل کر دیا گیا ہے۔ صوبے کے محکمہ صحت کے ایک ترجمان نے نام ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، “اب تک، انجکشن نے پنجاب میں 68 مریضوں کی بینائی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔” کم از کم 12 افراد نے مکمل اندھے پن کی اطلاع دی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ “انفیکشن کا مکمل علاج ہونے کے بعد ہی ہم انجیکشن سے ہونے والے نقصان کی حقیقی حد کا اندازہ لگا سکیں گے۔” سوئس فارماسیوٹیکل کمپنی روشے کی طرف سے فراہم کردہ، Avastin بنیادی طور پر کینسر کے علاج کے لیے تجویز کی جاتی ہے، تاہم پاکستان میں اسے ذیابیطس کے مریضوں کو آف لیبل دیا جاتا ہے تاکہ آنکھ میں غیر معمولی شریانوں کی نشوونما کو روکا جا سکے۔ یہ 100mg کی خوراکوں میں آتا ہے، لیکن اسے مقامی طور پر چھوٹی خوراکوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور آنکھوں کے بعض حالات کے علاج کے لیے کم لاگت کے اختیار کے طور پر دوبارہ پیک کیا جاتا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں روشے کے ترجمان کارسٹن کلائن نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ دوا آنکھ میں کسی بھی استعمال کے لیے منظور نہیں ہے۔ کلین نے ایک بیان میں کہا، “روشے جعل سازی کے اس مجرمانہ عمل کی سختی سے مذمت کرتا ہے اور مریضوں کو جعل سازی سے بچانے کے لیے حکام کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے اپنی طاقت میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔” صوبائی وزارت صحت نے اب آنکھوں کے علاج کے لیے اس دوا کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ پاکستان میں ہر چار میں سے ایک بالغ کو ذیابیطس ہے – جو دنیا میں سب سے زیادہ شرحوں میں سے ایک ہے – اس کا ذمہ دار ورزش کی کمی اور زیادہ شوگر والی خوراک ہے۔ دریں اثنا، پنجاب کے عبوری وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ آواسٹین کو بغیر اطلاع کی اجازت کے دیا گیا تھا۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ صوبے بھر میں مزید کیسز سامنے آرہے ہیں اور محکمہ صحت کے حکام انہیں سرکاری اعداد و شمار کا حصہ بنانے کے لیے ان کا جائزہ لے رہے ہیں۔ لاہور میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرم نے کہا کہ یہ انجکشن عام طور پر کینسر کے مریضوں کے علاج میں استعمال ہوتا تھا اور آنکھوں کے طریقہ کار میں اس کے استعمال کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ)، بھارتی طبی حکام نے منظور نہیں کیا تھا۔ یا منشیات بنانے والی کمپنی Roche خود۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی انتظامیہ دوا کا “آف لیبل استعمال” ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ڈریپ کے ذریعہ اس طرح کے استعمال کی اجازت لازمی ہے۔ وزیر نے مشاہدہ کیا کہ حالیہ معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور مریضوں سے رضامندی بھی نہیں لی گئی۔ یہ شامل کرتے ہوئے کہ آنکھوں کی انتظامیہ کے لیے اگلے نوٹس تک اس دوا پر پابندی لگا دی گئی تھی، ڈاکٹر اکرم نے کہا: “ہم نے آج فیصلہ کیا ہے کہ جب بھی، اگر، ہم [استعمال] کی اجازت دیں گے، تو ہم مریض کو آگاہی دیں گے، ان کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور بتایا جائے گا کہ خطرات کے بارے میں] اور تحریری باخبر رضامندی کافی نہیں ہوگی، ہمیں ایک ریکارڈنگ کی ضرورت ہوگی کہ اس میں مریض کو فوائد اور خطرات کی وضاحت کی گئی ہے۔ “اور پھر اگر مریض راضی ہو جائے تو اسے استعمال کیا جائے گا۔” وزیر نے کہا کہ مجرموں کے ساتھ “زیرو ٹالرنس” کا مظاہرہ کیا جائے گا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

ملاوٹ شدہ انجکشن بنانے والے دو ملزمان گرفتار Read More »