Pakistan

افراط زر کی شرح چار ماہ کی بلند ترین سطح پر واپس آ گئی۔

بجلی اور  ایندھن کی قیمتوں میں انتظامی اضافے کی وجہ سے ستمبر میں مہنگائی 31.4 فیصد پر اسلام آباد: بجلی اور پیٹرولم مصنوعات کی قیمتوں میں  اضافے کی وجہ سے ستمبر میں پاکستان میں افراط زر کی شرح 31.4 فیصد پر واپس آگئی – جو کہ چار ماہ کی بلند ترین شرح ہے، جس نے صارفین کو اس وقت سب سے زیادہ نقصان پہنچایا جب غربت اور بے روزگاری پہلے ہی تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ انڈیکس میں بنیادی طور پر توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اضافہ ہوا،       ۔ بجلی کا ایک یونٹ گزشتہ سال ستمبر کے مقابلے میں آج کل 164 فیصد زیادہ مہنگا ہے۔ اسی طرح، گیس کی قیمت ایک سال پہلے کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ ہے – یہاں تک کہ گیس کی قیمتوں میں آئندہ اضافے سے پہلے۔ پیٹرول بھی ایک سال پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ مہنگا ہے، 324 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ غیر خراب ہونے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں، جیسے سیاسی طور پر حساس چینی، اوپر کی رفتار پر رہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) – قومی ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ادارے نے پیر کو اطلاع دی ہے کہ گزشتہ ماہ صارفین کی قیمتوں کا انڈیکس ایک سال پہلے کے مقابلے میں 31.4 فیصد تک بڑھ گیا۔ یہ پچھلے چار مہینوں میں سب سے زیادہ افراط زر کی ریڈنگ تھی اور یہ بھی چار مہینوں میں پہلی بار جب اس نے دوبارہ 30 فیصد رکاوٹ کو عبور کیا۔ تازہ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایک بار پھر شرح سود کو 22 فیصد پر بلند رکھنے سے خزانے اور کاروباری اداروں پر بھاری اخراجات اٹھانے کے باوجود 21 فیصد کے اپنے سالانہ افراط زر کے ہدف کو وسیع مارجن سے کھونے کے لیے تیار ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں میں رہنے والے لوگ یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ سپلائی کے جھٹکے، کرنسی کی قدر میں کمی اور ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری پر کوئی چیک نہ ہونے کی وجہ سے مئی میں پاکستان کی سالانہ افراط زر کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح 38 فیصد تک پہنچ گئی۔ عبوری وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال تک 95 ملین افراد یا تقریباً 40 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ مہنگائی ایک بار پھر اپنے عروج پر ہے جب روزی روٹی کے مواقع کم ہیں اور پچھلے دو سالوں میں لوگوں کی قوت خرید میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ پی بی ایس کے مطابق مہنگائی کی شرح شہروں میں 29.7 فیصد اور دیہی علاقوں میں 34 فیصد تک پہنچ گئی جہاں ملک کی بڑی اکثریت رہتی ہے۔ پی بی ایس کے مطابق، خوراک کی افراط زر شہری علاقوں میں 34 فیصد اور دیہی علاقوں میں 34.4 فیصد رہی۔ پی بی ایس نے رپورٹ کیا کہ گزشتہ ماہ چینی ایک سال پہلے کے مقابلے میں 94 فیصد تک مہنگی ہوئی تھی – پی ایم ایل (ن) کی گزشتہ حکومت کے چینی برآمد کرنے کے غلط فیصلے کی بدولت۔ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کے پیچھے اشیا کی عالمی قیمتیں، سبسڈی کا خاتمہ، بجلی کے ساتھ ساتھ گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کرنسی کی قدر میں کمی اہم وجوہات تھیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیچھے نوٹوں کی ضرورت سے زیادہ چھپائی بھی ایک وجہ ہے۔ مرکزی بینک نے شرح سود 22 فیصد مقرر کی تھی جو کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے لیکن وہ انڈیکس کو گرفت میں نہیں لے سکا۔ شاید ہی کوئی قابل استعمال سامان ہو جس نے حالیہ مہینوں میں اپنی قیمتوں میں اضافہ نہ دیکھا ہو۔ بنیادی افراط زر، جس کا شمار غیر مستحکم توانائی اور خوراک کی قیمتوں کو چھوڑ کر کیا جاتا ہے، ستمبر میں شہری علاقوں میں 18.6% اور دیہی علاقوں میں 27.3% تک بڑھ گئی – مرکزی بینک کی شرح سود سے بہت زیادہ۔ شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود بنیادی افراط زر میں کمی نہیں آئی۔ کھانے اور غیر الکوحل مشروبات کی قیمتوں میں گزشتہ ماہ 33 فیصد اضافہ ہوا۔ غیر خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں 38.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا لیکن بہتر سپلائی کی وجہ سے خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں 5 فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا۔ ایندھن کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کنزیومر پرائس گروپ کے لیے افراط زر کی شرح 31.3 فیصد تھی۔ گندم کے آٹے – لوگوں کی اکثریت کے لیے اہم خوراک – کی قیمتوں میں 88 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا۔ مصالحہ جات کی قیمتوں میں 79 فیصد اور چائے کے نرخوں میں 73 فیصد اضافہ ہوا۔ پی بی ایس کے مطابق، چاول – ایک اور اہم غذائی شے – کی قیمتوں میں تقریباً دو تہائی اضافہ دیکھا گیا۔ پی بی ایس کے مطابق، نان فوڈ کیٹیگری میں، بجلی کے چارجز میں 164 فیصد اضافہ ہوا، نصابی کتابیں 102 فیصد مہنگی ہوئیں، اور گیس کے چارجز میں 63 فیصد اضافہ ہوا۔ رواں مالی سال کے جولائی تا ستمبر کے عرصے کے لیے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہنگائی کی اوسط شرح 29 فیصد رہی جو کہ رواں مالی سال کے 21 فیصد کے سرکاری ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں پہلی سہ ماہی میں مہنگائی کی اوسط شرح 32 فیصد تھی جبکہ شہری علاقوں میں یہ 27 فیصد تھی۔

افراط زر کی شرح چار ماہ کی بلند ترین سطح پر واپس آ گئی۔ Read More »

Interim Interior Minister Sarfraz Bugti

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا حکم

نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے پاکستان میں موجود غیر قانونی غیر ملکیوں کو رضا کارانہ طور پر 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔ ان کے مطابق اب پاکستان میں کوئی بھی غیر ملکی بغیر ویزا اور پاسپورٹ کے داخل نہیں ہوسکے گا۔ ان کے مطابق 10 اکتوبر سے لے کر 31 اکتوبر تک افغان شہریوں کے لیے ای تذکرہ یا الیکٹرانک تذکرہ ہے، یہ کمپیوٹرازڈ ہو گا، کاغذی تذکرہ نہیں چلے گا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ’ہم 10 سے 31 اکتوبر تک اس کی اجازت دے رہے ہیں اور اس کے بعد پاسپورٹ اور ویزا پالیسی لاگو ہو گی۔ منگل کو وزارت داخلہ میں وزیراعظم کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی اجلاس کے بعد ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ کسی بھی پاکستانی کی فلاح اور سکیورٹی ہمارے لیے سب سے زیادہ مقدم ہے اور کسی بھی ملک یا پالیسی سے زیادہ اہم پاکستانی قوم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر غیرملکی افراد کو ہم نے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ اس تاریخ تک رضاکارانہ طور پر اپنے اپنے ممالک میں واپس چلے جائیں اور اگر وہ یکم نومبر تک واپس نہیں جاتے تو ریاست کے جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے وہ اس بات کا نفاذ یقینی بناتے ہوئے ایسے افراد کو ڈی پورٹ کریں گے۔ وزیر داخلہ کے مطابق ’یکم نومبر ہی پاسپورٹ اور ویزا کی تجدید کی ڈیڈ لائن ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کسی اور دستاویز پر کسی ملک میں سفر کریں، ہمارا ملک واحد ہے جہاں آپ بغیر پاسپورٹ یا ویزا کے اس ملک میں آتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم نومبر کے بعد کوئی بھی شخص، کسی بھی ملک کا رہنے والا پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ہمارے ملک میں داخل نہیں ہو گا اور صرف پاسپورٹ چلے گا‘۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ یکم نومبر کے بعد ہمارا ایک آپریشن شروع ہو گا، جس میں وزارت داخلہ میں ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے، جس کے تحت پاکستان میں غیرقانونی طریقے سے آ کر رہنے والے افراد کی جتنی بھی غیرقانونی املاک ہیں، انھوں نے جتنے بھی غیرقانونی کاروبار کیے ہیں، ہمارے ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں یا وہ کاروبار جو غیر قانونی شہریوں کے ہیں لیکن پاکستانی شہری ان کے ساتھ مل کر یہ کاروبار کررہے ہیں۔ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کو ڈھونڈیں گے اور ہم ان کاروبارواور جائیدادوں کو بحق سرکار ضبط کریں گے۔ وزیرداخلہ کے مطابق اس کے علاوہ جو بھی پاکستانی اس کام کی سہولت کاری میں ملوث ہو گا، اس کو پاکستان کے قانون کے مطابق سزائیں دلوائی جائیں گی۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جس طرح سے شناختی کارڈ کا اجرا ہوتا رہا ہے، اس میں بہت زیادہ بے ضابطگیاں تھیں اور غیرقانونی طریقے سے بہت سے جعلی شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں اور ان شناختی کارڈ پر سفری دستاویزات اور پاسپورٹ بنائے گئے ہیں۔ لوگ ان پاسپورٹ پر باہر ممالک کا سفر کرتے ہیں اور کئی جگہوں پر ایسی مثالیں ہیں جہاں لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں پکڑے گئے ہیں اور جو پکڑے گئے ہیں وہ پاکستانی شہری نہ تھے لیکن ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا جو انھیں نادرا سے ملا۔

پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا حکم Read More »

Chief Justice of Pakistan

چیف جسٹس اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے۔یہ بات انہوں نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی براہِ راست سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہی ۔عدالت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز پر ہو گا، اختیارات کو کم نہیں بانٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہو گا، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے جبکہ کچھ ایسا نہیں سمجھتے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سب نے اپنے جوابات قلم بند کر دئیے ہیں، ہمارے سامنے اٹارنی جنرل اور سینئر وکلا ہیں، سب کو سنیں گے، خواجہ طارق رحیم صاحب! پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں، خواجہ صاحب! آپ اپنے دلائل کا حق محفوظ رکھیں۔وکیل اکرام چوہدری نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی کو بلڈوز کیا، پارلیمنٹ نے اپنے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی ہے، جب یہ ایکٹ منظور ہوا اس وقت کی پارلیمنٹ کی صورتِ حال دیکھنا بھی ضروری ہے، پارلیمنٹ میں کی گئی باتوں کو لائیو رپورٹ بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا آپ اپنے دلائل اخباری خبروں کی بنیاد پر دیں گے؟وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے پوچھا کہ آپ نے اسپیکر کو تحریری کارروائی کے ریکارڈ کیلئے درخواست کی؟ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارے ہیں، اگر آپ نے اپنے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکر کو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں کہ پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر بے بنیاد دلیل سنے۔عدالت میں وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ میں پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں۔اکرام چوہدری نے سابق وزیرِ اعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وہ خبریں نہ پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نہ کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی یہ خیال ہے کہ اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آ گئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کروں گا، ہماری پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے میٹنگ ہوئی جس میں سینئر جج سردار طارق مسعود بھی موجود تھے، وکلا نے شکایت کی کہ ان کی بات نہیں سنی جاتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کہا گیا کہ جب وکلا بات کر رہے ہوں انہیں بات مکمل کرنے دی جائے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتی تھی یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس ایکٹ کالعدم قرار دینے کا مکمل اختیار ہے، راولپنڈی بار کیس میں آئینی ترمیم کو دیکھا گیا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں عدالت نے قرار دیا کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کا بھی جائزہ لے سکتی ہے، عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہے تو بات ختم ہو گئی، آپ کی دلیل ہے کہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائے تو ٹھیک ہے، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا لوگوں کے لیے ہوتی ہے؟انہوں نے کہا کہ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیے نہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر کل پارلیمنٹ قانون بناتی ہے کہ بیوائوں کے کیسز کو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی؟ قانون سازی انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوار کر رہی ہے تو یہ بتائیں، کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس کتاب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ پہلے مارشل لا ء کے بعد لکھی گئی، سپریم کورٹ نے اس مارشل لا کی توثیق کی، کیا یہ کتاب مارشل لا کے اثر میں لکھی گئی تھی؟عدالت میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کتاب مئی 1958میں لکھی گئی اور مارشل لا اکتوبر 1958میں لگا، کتاب میں جوڈیشری ڈیپارٹمنٹ کا لفظ امریکی قانون کا حوالہ ہے، لفظ کا مطلب عدلیہ کو محکمہ کہنا نہیں، ہر ملک کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہے۔ وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ یہ میرا کیس نہیں پوری قوم کا ہے، پوری قوم کی طرف سے بات کر رہا ہوں، عوام کی منشا آئین کی بنیاد ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ اپنا کیس لڑیں، آپ قوم کے نمائندہ نہیں نہ آپ بول سکتے ہیں، آپ فریق بنائے بغیر کسی کے خلاف الزام نہیں لگا سکتے۔عدالت میں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں سوال قانون سازی کے اختیار کا ہے، آئین میں ٹیکنیکل اصطلاح ہے مقننہ قانون سازی کے اختیار سے تجاوز کرے تو یہ فراڈہے، پارلیمنٹ کل بھلے کہے سپریم کورٹ اس قانون کو ترجیح دے یا اس کو، سوال یہ ہے کیا پارلیمنٹ اتنی باریکی سے سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کر سکتی ہے؟سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جو کمنٹری آپ پڑھ رہے ہیں اس سے 1973 کے آئین کی رو سے بتائیں یہ ایکٹ کیسے متصادم ہے؟، اس ملک کی اصطلاح کو چھوڑیں، اپنے آئین سے ثابت کر دیں کہ یہ ایکٹ کیسے آئین کے خلاف ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے

چیف جسٹس اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، چیف جسٹس پاکستان Read More »

Torkham Border

پاکستان افغان مسافروں کے لیے ’سنگل دستاویزی نظام‘ متعارف کرائے گا۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت برطانوی دور کے نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے جو افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کو ایک اور اقدام میں بغیر ویزے کے سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کا مقصد دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کے دوران لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت کو منظم کرنا ہے۔ اس پیشرفت سے واقف ایک سینئر اہلکار نے پیر کو ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ حکومت نے افغانستان کے ساتھ تمام بین الاقوامی سرحدی گزرگاہوں پر “سنگل دستاویزی نظام” نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت، افغان باشندے “تذکرہ” کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص سرحدی کراسنگ پر بغیر ویزے کے پاکستان کا سفر کر سکتے ہیں، یہ خصوصی اجازت نامہ برطانوی دور میں سہولت کے حقوق کے تحت دہائیوں سے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس اقدام کا مقصد اصل میں دونوں اطراف کے خاندانوں اور قبائل کو تقسیم کرنے میں سہولت فراہم کرنا تھا جب برطانیہ نے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانے والی سرحد کی حد بندی کی۔ تاہم، اس سہولت کا غلط استعمال کیا گیا کیونکہ لوگ اکثر ان سہولتوں کے حقوق کے تحت اجازت شدہ علاقوں سے باہر سفر کرتے ہیں۔ دونوں ممالک پرانے نظام کو ختم کرنے اور ایک دستاویزی نظام متعارف کرانے کے لیے گزشتہ چند سالوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طورخم بارڈر کراسنگ پر سنگل دستاویز کی پالیسی پہلے سے موجود ہے۔ درست ویزوں کے ساتھ دونوں اطراف کے لوگ طورخم پر مرکزی سرحدی کراسنگ استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم، ہزاروں لوگ اب بھی چمن بارڈر کراسنگ پر سفر کرنے کے لیے تذکرہ – دستی اور ای دستاویز دونوں استعمال کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں افراد خصوصی اجازت نامے پر دونوں ممالک کے درمیان شٹل کے لیے سرحدی کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ سرحد کے قریب رہنے والے پاکستانی بھی انہی دستاویزات پر سرحد پار کرتے ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں کا سرحد پار کاروبار ہے۔ وہ روزانہ پڑوسی ملک جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں۔ تاہم، پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ افغان اس پالیسی کا غلط استعمال کرتے ہیں کیونکہ اکثر تذکرہ پر سفر کرنے والے لوگ ملک کے دیگر حصوں میں گھومتے ہیں۔ تازہ ترین اقدام اس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وفاقی کابینہ پہلے ہی نئی پالیسی کی منظوری دے چکی ہے۔ نئی پالیسی کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام افغان باشندوں کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ حکومتی اندازوں کے مطابق، تقریباً 1.1 ملین افغانوں کی شناخت ہو چکی ہے جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان کے پاس نہ تو پناہ گزین کی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی اور دستاویز۔ ایک اہلکار نے کہا کہ پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مقصد افغانوں کے لیے ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ حکومت نے محض، قانون کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اہلکار نے پوچھا، “کون سا ملک لوگوں کو غیر قانونی طور پر رہنے کی اجازت دیتا ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ درست دستاویزات رکھنے والوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ان تمام اقدامات کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بار بار سرحد پار دہشت گردانہ حملوں پر پریشان ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اسلام آباد مایوس ہے۔

پاکستان افغان مسافروں کے لیے ’سنگل دستاویزی نظام‘ متعارف کرائے گا۔ Read More »

حکومت نے فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی

اسلام آباد (این این آئی)نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد بجلی مہنگی کرنے کا اپنا فیصلہ جاری کردیا جس کے مطابق فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی گئی ،نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دی تھی،اب وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نیپرا نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی صارفین کو 6 ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی، بجلی صارفین اکتوبر 2023 تا مارچ 2024 تک ادائیگیاں کریں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا اطلاق کے الیکڑک صارفین پر بھی ہو گا۔  

حکومت نے فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی Read More »

Interim Interior Minister Sarfraz Bugti

آرمی چیف نے سمگلنگ میں ملوث اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا کہا ہے، نگران وزیر داخلہ

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف نے کہا ہے کہ جو اہلکار سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاروائیوں میں ملوث ہوں گے اُن کا کورٹ مارشل ہوگا۔‘ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’جو لوگ اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث ہیں، اُن کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’فوج اپنے احتساب کے نظام کو 9 مئی کے واقعات کے خلاف کاروائی میں ثابت کر چُکی ہے۔‘ سمگلنگ اور حوالہ ہنڈی سے متعلق بات کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ ’چینی اور گندم کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے موثر انداز میں کام کر رہے ہیں۔ حوالہ ہنڈی کا کام کرونے والوں کے خلاف 168 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’حوالہ ہنڈی کے خلاف کچھ اقدامات سے ڈالر کی قیمتیں کنٹرول ہوئی ہیں۔‘ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’سمگلنگ اونٹوں پر نہیں ٹرکوں پر ہو رہی تھی، اور اس غیر قانونی کاروبار میں سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے نام بھی شامل ہیں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’سمگلنگ سے متعلق ہونے والی تحقیقات میں کچھ نکلا تو حقائق سامنے لائے جائیں گے۔‘ پریس کانفرنس کے اختتام پر پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق ہونے والے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’میاں صاحب اگر واپس آکر سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔‘ تاہم پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں سیکورٹی خدشات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’الیکشن میں پولنگ سٹیشنز کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘

آرمی چیف نے سمگلنگ میں ملوث اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا کہا ہے، نگران وزیر داخلہ Read More »

Special Investment Facilitation Counci SIFCl

خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کا زرعی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ایک نقطہ نظر

خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کا زرعی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ایک نقطہ نظر   پاکستان کو فوری طور پر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت دینے اور موجودہ سرمایہ کاری کے فرق کو پر کرنے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی سرمایہ کاری زرعی اور صنعتی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بہت ضروری ہے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، اور اضافی ٹیکس محصولات ہوتے ہیں۔ زرعی شعبہ FDI کے لیے ایک کلیدی شعبے کے طور پر ابھرا ہے، خاص طور پر حالیہ میڈیا رپورٹس کی روشنی میں۔ کئی عوامل، جیسے جاری خوراک کا بحران، وسیع غیر کاشت شدہ زمین، لاگت سے موثر افرادی قوت، اور سازگار زرعی موسمی حالات، زراعت میں ایف ڈی آئی کو فروغ دینے کے لیے ایک مجبور کیس بناتے ہیں۔ اعلی توانائی کی لاگت کے باوجود بہت سے شعبوں پر منفی اثر پڑتا ہے، زراعت کے اندر مخصوص ذیلی شعبے بشمول کارپوریٹ فارمنگ، اب بھی سرمایہ کاری کے قابل عمل مواقع پیش کرتے ہیں۔ تاہم، کارپوریٹ فارمنگ اور زرعی صنعتوں کے درمیان فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ ہر راستے کی اپنی پیچیدگیاں اور فوائد ہیں۔ کارپوریٹ فارمنگ پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے آسان طریقہ کار کی وجہ سے نسبتاً سیدھا راستہ پیش کرتی ہے، خاص طور پر جب زرعی صنعتوں کو قائم کرنے اور چلانے میں شامل پیچیدگیوں کے مقابلے میں۔ کارپوریٹ فارمنگ میں بنیادی طور پر صوبائی محکمہ محصولات، محکمہ آبپاشی، اور بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے ساتھ تعاملات شامل ہوتے ہیں، جب کہ زرعی صنعتی منصوبوں کے لیے متعدد سرکاری محکموں، سپلائرز، خریداروں اور ملازمین کے ساتھ مشغولیت کی ضرورت ہوتی ہے، جو اکثر طویل قانونی تنازعات کا باعث بنتے ہیں۔ نئی قائم کردہ خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل (SIFC) کا مقصد سرمایہ کاروں کے لیے خاص طور پر کارپوریٹ فارمنگ میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ چیلنجوں کے باوجود، کارپوریٹ فارمنگ میں سرمایہ کاری میں زمین کے حصول، زرعی مشینری کی خریداری، زمین کی ترقی، اور آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کے لیے اہم سرمائے کے اخراجات شامل ہیں۔ خصوصی زرعی مشینری کی درآمد، جو پاکستان میں دستیاب نہیں، سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ایک وسیع تر نقطہ نظر سے، کارپوریٹ فارمنگ میں ایف ڈی آئی پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے وعدہ کی حامل ہے۔ جب کہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مخصوص فصلوں کا تعین ہونا باقی ہے، دو اسٹریٹجک شعبے نمایاں ہیں۔ سب سے پہلے، پاکستان زرعی تحقیق اور بیج کی پیداوار کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے ہے، جس کی وجہ سے زیادہ پیداوار والے بیجوں کی درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، ہندوستان اور انڈونیشیا کی طرح، ان بیجوں کی مقامی پیداوار کو بڑھا سکتی ہے، جس سے فصلوں کی پیداواری صلاحیت اور کسانوں کی آمدنی کو نئی کاشت کی ترقی کی پیچیدگیوں کے بغیر یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دوم، سازگار زرعی موسمی حالات کے باوجود، محدود دستیاب زمین اور گندم جیسی اہم فصلوں کے ساتھ مسابقت کی وجہ سے پاکستان سالانہ کافی مقدار میں خوردنی تیل اور تیل کے بیج درآمد کرتا ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے تیل کے بیجوں کی پیداوار کو بڑھانا غیر ملکی زرمبادلہ کے اخراجات کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ تاہم، ایف ڈی آئی کے ذریعے زرعی صنعتوں کا قیام بھی اتنا ہی اہم ہے۔ زرعی اشیاء کے لیے درآمدات پر پاکستان کا انحصار اور زرعی برآمدات میں ویلیو ایڈیشن کی کمی ایگرو پروسیسنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ ملک کا زرعی شعبہ، اگرچہ کافی زیادہ ہے، صنعتی نفاست اور پیمانے کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درآمدی بلوں اور دیہی غربت جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے زرعی آدانوں اور زرعی پروسیسنگ دونوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں، حکومت نے سرمایہ کاری کی پالیسی 2023 کی منظوری دی، جس میں ایکسپورٹ پر مبنی اور درآمدی متبادل ایف ڈی آئی کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کاری پر توجہ دی گئی۔ تاہم، سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سازگار سرمایہ کاری کا ماحول اور سازگار کاروباری ماحول ضروری ہے۔ ان عوامل کے بغیر، سرمایہ کار پاکستان کے زرعی شعبے میں کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک اچھی طرح سے سوچی جانے والی پالیسی اور اسٹریٹجک ردعمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سرمایہ کاری کو زیادہ خطرہ سمجھ سکتے ہیں۔

خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کا زرعی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ایک نقطہ نظر Read More »

Multiple Seeds, seed-breeders

زراعت میں انقلاب: پاکستان میں مقامی بیج کی پیداوار میں اضافہ

زراعت میں انقلاب: پاکستان میں مقامی بیج کی پیداوار میں اضافہ       “وفاقی حکومت نے کمپنیوں کے لیے سرکاری اجازت ملنے کے بعد کسی بھی درآمدی بیج کی قسم کی مقامی پیداوار کو کل حجم کے کم از کم 50 فیصد تک لے جانے کا پابند بنایا ہے۔ وفاقی سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، اس اقدام کا مقصد درآمد شدہ اقسام کی مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ بیجوں کی درآمدات پر انحصار کو بتدریج کم کیا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان مختلف فصلوں کے بیجوں کی درآمد پر سالانہ 50 ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ سال ہائبرڈ مکئی، چاول اور سبزیوں سمیت مختلف فصلوں کے لیے 70,000 میٹرک ٹن بیج درآمد کیے تھے۔ فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد اعظم خان نے دوسرے روز ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ خود انحصاری حاصل کرنے اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت میں مدد کرے گا۔” کراپ لائف پاکستان نے نتھیا گلی میں “زراعت میں چیلنجز اور جدید ٹیکنالوجیز کا کردار” کے موضوع پر ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ اعظم خان نے زرعی شعبے میں بہتری لانے کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات پر روشنی ڈالی جس میں نئی ​​اقسام کی تیز رفتار منظوری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے اور کاشتکار برادریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی امید افزا قسم کو اس کی ترقی کے ایک سال کے اندر کسانوں کو متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیاں محکمہ کی نگرانی میں جانچ کے سال کے دوران بیج کی پیداوار شروع کر کے منظوری کے اسی سال کے دوران اپنی ورائٹی متعارف کروا سکتی ہیں۔ اس سے پہلے، کسی بھی نئی قسم کی اجازت دو سال کے لگاتار فصلوں کے موسم کے بعد دی جاتی تھی۔ اگر پالنے والے ایسی قسمیں لاتے ہیں جس کی پیداوار میں کوانٹم جمپ ہو یا کسی بیماری کے خلاف مزاحمت ہو، تو اسے بیج کی ضرب کے لیے ایک فصل کے موسم کے بعد اجازت دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسل دہندگان کے اعتماد کی تعمیر کے لیے، رجسٹریشن کے لیے ڈی این اے پروفائلنگ کو لازمی اور اندراج کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بحری قزاقی سے بچنے کے لیے محکمہ ڈی این اے پروفائلنگ کی سافٹ کاپی اپنے پاس رکھے گا۔ اسی طرح، حکومت صحیح مالکان کا تعین کرنے کے لیے موجودہ اقسام کے مورفولوجیکل اور مالیکیولر ڈیٹا بیس قائم کرے گی۔ کراپ لائف پاکستان کے ڈی جی راشد احمد نے 91 ممالک میں کام کرنے والی تنظیم کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کے ذریعے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مناسب مقدار میں خوراک اگانے کے قابل بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

زراعت میں انقلاب: پاکستان میں مقامی بیج کی پیداوار میں اضافہ Read More »

Petrol and Diesel Prices

پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان

پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان     پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے کی کمی کی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے کمی کے بعد اب نئی قیمت 323 روپے 38 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے کی کمی کے بعد نئی قیمت 318 روپے 18پیسے فی لیٹر مقررکی گئی

پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان Read More »

ایچ ای سی نے ماسٹرز، پی ایچ ڈی طلباء کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا

ایچ ای سی نے ماسٹرز، پی ایچ ڈی طلباء کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا   ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے سال 2023 کے لیے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگرامز کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا ہے۔ CSC نے 30,000 سے زیادہ افراد کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور مہارت حاصل کرنے، علم حاصل کرنے، اور عالمی ترقی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نیٹ ورکس بنانے کے لیے مالی اعانت فراہم کی ہے۔ ایچ ای سی کی ویب سائٹ کے مطابق ماسٹرز کے لیے 26، پی ایچ ڈی کے لیے 30 اور ٹیچنگ فیکلٹی پی ایچ ڈی کے لیے 10 نامزدگیاں دستیاب ہیں۔ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر (AJK) کے طلباء وظائف کے لیے CSC پورٹل پر 17 اکتوبر (منگل) تک درخواست دے سکتے ہیں۔ درخواست دہندگان اس لنک پر جا کر ماسٹرز، پی ایچ ڈی اور ٹیچنگ فیکلٹی (پی ایچ ڈی) اسکالرشپس کے لیے درخواست دے سکتے ہیں: کامن ویلتھ اسکالرشپس یوکے میں کامن ویلتھ اسکالرشپ کمیشن (سی ایس سی) بین الاقوامی ترقی کے مقاصد کے تحت یوکے حکومت کی دولت مشترکہ اسکالرشپ اسکیم فراہم کرتا ہے۔

ایچ ای سی نے ماسٹرز، پی ایچ ڈی طلباء کے لیے کامن ویلتھ اسکالرشپس کا اعلان کیا Read More »