Ali Sher

Usman Rafiq

ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں

ٹین ڈبہ بیچ، ردی اخبار بیچ، روٹی چھان بورا بیچ۔۔۔ گلی محلوں میں پھیری والوں کی جانب سے بلند ہونے والی یہ صدا یقیناً تمام پاکستانیوں سے سُن رکھی ہو گی۔ کباڑ اکٹھا کرنے والے ریڑھی بان عموماً اسی آواز اور انداز میں اپنا بزنس چلاتے ہیں لیکن کیا کبھی یہ خیال آپ کے ذہن میں آیا کہ آپ یہ کام کرتے ہوئے بھی اچھے پیسے کما سکتے ہیں؟ اگرچہ کباڑ خریدنے والوں کی یہ مخصوص آوازیں لگ بھگ روزانہ میرے کانوں میں پڑتی ہیں مگر کبھی بھی میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا کہ یہ بزنس آخر ہے کیا، لیکن لاہور میں رہنے والے 17 سالہ عثمان رفیق یہی نہیں بلکہ ایسے ہی کئی دیگر کاموں کو بغیر کسی عذر کے انجام بھی دے رہے ہیں اور اُن کے مطابق اس سے پیسے بھی کماتے ہیں۔ ناصرف یہ بلکہ وہ اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں کو نئے کاروبار کرنے کے طریقے انتہائی پریکٹیکل انداز میں سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اخراجات زندگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ملک میں شدید مہنگائی کے باعث اکثر افراد کا جینا دو بھر ہے وہیں عثمان محنت مزدوری کے ذریعے پیسے کمانے کو عام کرنے اور اس کام میں شرم محسوس نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مشکل مالی صورتحال سے نکلنے کی ترکیب شاید ہر کسی کے پاس ’کاروبار‘ ہوتی ہے لیکن پیسا کہاں لگایا جائے، اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے اکثر افراد ہمت ہی ہار دیتے ہیں۔ عثمان اس بارے میں صارفین کے سامنے کسی بھی کاروبار کی اصلی تصویر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عثمان رفیق اپنے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینل پر ایسے ہی لوگوں کو ’ہر روز نیا کاروبار‘ کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کس کس کاروبار میں پیسے لگا کر اپنا روزگار چلا سکتے ہیں۔ مگر عثمان یہ سب کیسے کر رہیں ہیں اور اُن کو یہ خیال کیسے آیا اُس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ اُنھوں نے وی لاگنگ کب شروع کی تھی؟ ہر روز نیا بزنس کرنے کا خیال کیسے آیا؟ عثمان اس وقت سترہ سال کے ہیں لیکن آج سے چار سال قبل اُنھوں نے یوٹیوب کے ذریعے وی لاگنگ یعنی ویڈیوز بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کے کام کو عوام کی جانب سے خوب پسند کیا گیا اور اس کی بنیادی وجہ ان کے مطابق اُن کے چینل کا نام اور زندگی گزارنے کا انداز تھا۔ عثمان کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور اس لیے اُنھوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل کا نام بھی ’مڈل کلاس عثمان‘ رکھا ہے جو دیکھنے والوں کے لیے اپنائیت کا احساس پیدا کرنے کے لیے اہم تھا۔ چار سال پہلے شروع ہونے والا یہ سفر اب عثمان کو انسٹاگرام پر ایک انفلوئینسر بنا چکا ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے جب وی لاگنگ شروع کی تھی تو میرے پاس ایک مائیک خریدنے کے پیسے بھی نہیں تھے۔‘ ’مگر اب تو میرے پاس تمام ضروری آلات، لائٹس اور اچھے کیمروں والے فون موجود ہیں۔ میں نے اپنے پیسوں سے چھوٹی گاڑی خریدی ہے اور اپنے سارے خرچے بھی خود ہی پورے کرتا ہوں۔‘ عثمان کے والد گذشتہ 12 سال سے چپس اور سموسے پیچنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ عثمان بھی اپنے دن کا آغاز اپنے والد کی دکان پر چیزیں فراہم کرنے سے کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میں منڈی جا کر اُلو، پیاز اور دیگر چیزیں خرید کر لاتا ہوں، اور پھر چیزیں تیار کروا کے پڑھنے چلا جاتا ہوں اس کے بعد میں کچھ گھنٹے پڑھ کر ویڈیوز بنانا شروع کر دیتا ہوں۔‘ پاکستان میں ایسے کتنے ہی نوجوان ہیں جو ایک کامیاب وی لاگر بننا چاہتے ہیں، جس کے لیے وہ ایک عرصے سے محنت کر رہے ہیں مگر عثمان نے صرف چار سال میں ہی ایسی کامیابی حاصل کر لی ہے کہ پاکستان کے کئی مشہور وی لاگرز اُن کے ساتھ مل کر ویڈیوز بنا رہے ہیں۔ ان کی کامیانی کی وجہ ان کا مواد ہے، جسے دیکھ کر لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ یہ تو وہ خود بھی کر سکتے ہیں۔ اگر عثمان کی جانب سے بنائے گئے مواد کی بات کریں تو انھوں نے کچھ عرصے پہلے انسٹاگرام ریلز کے ذریعے ویڈیوز بنانی شروع کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں روزانہ دیکھتا تھا کہ لوگ نوکری تلاش کر رہے ہیں، کبھی کوئی نیا بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا ہے، مگر کسی بڑے بزنس میں پیسے لگانے سے ہر کوئی ڈر رہا تھا، پھر میں نے سوچا کیوں نہ ایسے لوگوں کو میں خود روزانہ ایک نیا بزنس کر کے آئیڈیا دوں۔‘ عثمان نے جب یہ کام شروع کیا تو انھیں احساس ہوا کہ ’اکثر افراد ٹھیلوں پر چیزیں بیچنے میں ہچکچاٹ محسوس کرتے ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہتے جس سے پاکستان جیسے معاشرے میں احساس شرمندگی جڑا ہو۔‘ عثمان کہتے ہیں کہ ’میں روز مرہ کی جو بھی اشیا بیچ رہا ہوتا ہوں مجھے معلوم ہے کہ لوگ اس طرح محنت کرنے میں کتراتے ہیں، مگر میں لوگوں کو یہی بتانا چاپتا ہوں کہ محنت کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے، اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ کام بڑا ہے یا چھوٹا۔‘ عثمان کے مطابق وہ ایک مہینے میں اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا سے مجموعی طور پر ایک سے دو لاکھ روپے کما لیتے ہیں۔ اچھا بزنس مین بننے کا خواب کیلے لے لو، ٹماٹر لے لو، جوتے پالش کروا لو۔۔۔ اس طرح کے بے شمار آوازیں آپ کو عثمان کے انسٹاگرام اور یوٹیوب چینلز پر سننے کو ملیں گی۔ گھر میں استعمال ہونے والی کوئی عام سی چیز بیچنے سے لے کر کباڑ اکٹھا کرنے کے کام تک عثمان نے ہر قسم کا کاروبار کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں ہر روز نئے نئے کاروبار کرتا ہوں، اُس کے لیے میں ایک دو دن پہلے سے ہی پلان بنا لیتا ہوں کہ میں نہ کیا کاروبار کرنا ہے اور اس میں ایک دن میں کتنا پیسا لگانا ہے۔‘ ’پھر میں صبح کام شروع کرتا ہوں اور

ہر روز ایک نیا بزنس: پاکستانی یوٹیوبر جو نوجوانوں کو محنت طلب کاروبار کے گُر سکھاتے ہیں Read More »

Torkham Border

پاکستان افغان مسافروں کے لیے ’سنگل دستاویزی نظام‘ متعارف کرائے گا۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت برطانوی دور کے نظام سے نجات حاصل کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے جو افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کو ایک اور اقدام میں بغیر ویزے کے سفر کرنے کی اجازت دیتا ہے جس کا مقصد دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدگی کے دوران لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت کو منظم کرنا ہے۔ اس پیشرفت سے واقف ایک سینئر اہلکار نے پیر کو ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ حکومت نے افغانستان کے ساتھ تمام بین الاقوامی سرحدی گزرگاہوں پر “سنگل دستاویزی نظام” نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت، افغان باشندے “تذکرہ” کا استعمال کرتے ہوئے مخصوص سرحدی کراسنگ پر بغیر ویزے کے پاکستان کا سفر کر سکتے ہیں، یہ خصوصی اجازت نامہ برطانوی دور میں سہولت کے حقوق کے تحت دہائیوں سے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس اقدام کا مقصد اصل میں دونوں اطراف کے خاندانوں اور قبائل کو تقسیم کرنے میں سہولت فراہم کرنا تھا جب برطانیہ نے ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانے والی سرحد کی حد بندی کی۔ تاہم، اس سہولت کا غلط استعمال کیا گیا کیونکہ لوگ اکثر ان سہولتوں کے حقوق کے تحت اجازت شدہ علاقوں سے باہر سفر کرتے ہیں۔ دونوں ممالک پرانے نظام کو ختم کرنے اور ایک دستاویزی نظام متعارف کرانے کے لیے گزشتہ چند سالوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طورخم بارڈر کراسنگ پر سنگل دستاویز کی پالیسی پہلے سے موجود ہے۔ درست ویزوں کے ساتھ دونوں اطراف کے لوگ طورخم پر مرکزی سرحدی کراسنگ استعمال کر سکتے ہیں۔ تاہم، ہزاروں لوگ اب بھی چمن بارڈر کراسنگ پر سفر کرنے کے لیے تذکرہ – دستی اور ای دستاویز دونوں استعمال کرتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں افراد خصوصی اجازت نامے پر دونوں ممالک کے درمیان شٹل کے لیے سرحدی کراسنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ سرحد کے قریب رہنے والے پاکستانی بھی انہی دستاویزات پر سرحد پار کرتے ہیں۔ بہت سے پاکستانیوں کا سرحد پار کاروبار ہے۔ وہ روزانہ پڑوسی ملک جاتے ہیں اور شام کو واپس آتے ہیں۔ تاہم، پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ افغان اس پالیسی کا غلط استعمال کرتے ہیں کیونکہ اکثر تذکرہ پر سفر کرنے والے لوگ ملک کے دیگر حصوں میں گھومتے ہیں۔ تازہ ترین اقدام اس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے وفاقی کابینہ پہلے ہی نئی پالیسی کی منظوری دے چکی ہے۔ نئی پالیسی کے تحت پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام افغان باشندوں کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔ حکومتی اندازوں کے مطابق، تقریباً 1.1 ملین افغانوں کی شناخت ہو چکی ہے جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ ان کے پاس نہ تو پناہ گزین کی حیثیت ہے اور نہ ہی کوئی اور دستاویز۔ ایک اہلکار نے کہا کہ پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مقصد افغانوں کے لیے ہے۔ عہدیدار نے کہا کہ حکومت نے محض، قانون کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اہلکار نے پوچھا، “کون سا ملک لوگوں کو غیر قانونی طور پر رہنے کی اجازت دیتا ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ درست دستاویزات رکھنے والوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم ان تمام اقدامات کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بار بار سرحد پار دہشت گردانہ حملوں پر پریشان ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر اسلام آباد مایوس ہے۔

پاکستان افغان مسافروں کے لیے ’سنگل دستاویزی نظام‘ متعارف کرائے گا۔ Read More »

ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتے

’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہ کیدو کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ’ایگیارنے‘ تھا، جس کا تاتاری زبان میں مطلب ’روشن چاند‘ ہے۔ یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی، اور سونے پر سہاگا یہ کہ اتنی مضبوط اور بہادر بھی تھی کہ اس کے والد کی پوری سلطنت میں کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو طاقت کے کارناموں میں اس سے آگے نکل سکے۔‘ یہ وہ الفاظ ہیں جن میں اطالوی تاجر، مہم جو اور مصنف مارکو پولو نے اپنی کتاب ’بک آف ونڈرز‘ میں ایک ایسی شہزادی کی کہانی سنانی شروع کی جو دنیا کے سب سے طاقتور خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتی ہے۔ اسے ’ختلون‘ کہا جاتا تھا، حالانکہ وہ کئی دوسرے ناموں سے بھی جانی جاتی تھی، جن میں سے ایک ایگیارنے بھی تھا جو مارکو پولو نے استعمال کیا۔ 13 ویں صدی میں منگول سلطنت یورپ میں ہنگری کی سرحدوں سے لے کر مشرقی بحیرہ چین تک پھیلی ہوئی تھی اور اس پر چنگیز خان کے جانشینوں کی حکومت تھی۔ ختلون چنگیز خان کی چوتھی نسل سے تھیں اور اوگودے کی پڑپوتی تھی، جنھیں چنگیز نے خود اپنا جانشین مقرر کیا تھا، اس لیے ان کے والد سب سے طاقتور منگول خانوں (اعلیٰ حکمران) میں سے ایک تھے۔ لیکن ان کے نسب سے بڑھ کر، یہ ان کی غیر معمولی شخصیت تھی جس نے مارکو پولو کو موہ لیا، نہ صرف اس وجہ سے کہ وہ چند بہترین جنگجوؤں میں سے ایک تھیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے اس وقت تک شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا ’جب تک کہ انھیں کوئی ایسا مہربان آدمی نہ ملے جو انھیں شکست دے دے۔‘ یہ کوئی آسان بات نہیں تھی کیونکہ، تمام منگول مردوں اور عورتوں کی طرح، وہ ایک ماہر تیر انداز اور بہترین گھڑسوار ہونے کے علاوہ منگولیا کی فری سٹائل کشتی، بوک کی ایک عظیم جنگجو تھیں جس میں زمین کو چھونے والا پہلا شخص ہار جاتا ہے۔ یہ کسی بھی دعویدار کے لیے کھلا چیلنج تھا کہ اگر وہ انھیں ہرا دیتا ہے تو وہ اس سے شادی کر لیں گی لیکن اگر وہ ہار گیا تو اسے 100 گھوڑے دینے پڑیں گے۔ یہ بات تمام مملکتوں میں پھیل گئی اور اتنے نوجوانوں نے چیلنج قبول کیا کہ ناقابل شکست ختلون کے پاس 10,000 گھوڑے جمع ہو گئے۔ مارکو پولو کے مطابق، ایک شہزادے نے 100 کے بجائے ایک ہزار گھوڑوں کی شرط لگائی، کیونکہ ’وہ جانتا تھا کہ وہ کیا جیتنا چاہتا ہے۔‘ ن کا کہنا ہے کہ ’کیدو بہت خوش تھے ’کیونکہ وہ ایک خوبصورت نوجوان اور ایک عظیم بادشاہ کا بیٹا تھا‘ اس لیے انھوں نے اپنی بیٹی سے منت کی کہ اسے جیتنے دیں۔‘ ختلون نے یقیناً انکار کر دیا اور ایسے شائقین کے گھیرے میں لڑنے گئیں جو سب چاہتے تھے کہ وہ ہار جائیں ’تاکہ اتنا خوبصورت جوڑا ایک ساتھ ہو سکے۔‘ ’ختلون اور نوجوان لڑنے کے لیے آئے اور انھوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں لے کر بہت خوبصورت آغاز کیا، لیکن اس نوجوان کو مقابلہ ہارنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔‘ جلد ہی ختلون کو 1000 گھوڑے مل گئے اور نوجوان شہزادہ شرمندہ ہو کر اپنے ملک چلا گیا۔ اگرچہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے، یہ کوئی دیو مالائی کہانی نہیں ہے نہ ہی یہ کسی افسانے کا پلاٹ ہے، حالانکہ تاریخی اعتبار سے مارکو پولو کو بہت زیادہ قابل اعتماد ذریعہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ان کی مقبول کتاب بہت سے لوگوں کے لیے، شروع میں، ایک افسانہ تھی، جزوی طور پر اس لیے کہ اس میں منگولوں کو اس طرح بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے یعنی بے رحم، خونخوار عفریت جو پوری دنیا کو کھا جانا چاہتے تھے بلکہ اس کتاب میں یہ قابل تعریف اور مہذب انسان تھے۔ لیکن اگرچہ مارکو پولو کی یادداشتیں کبھی کبھی جھوٹ لگتیں ہیں، وہ جھوٹے نہیں تھے۔ تاہم ان کی تحریریں ان کے تجربے کا ایک رومانوی ورژن ہیں۔ اور ختلون کی پروفائل اگرچہ افسانوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن اس کی بنیاد تاریخی تحریروں پر ہے، خاص طور پر راشد الدین ہمدانی کی تحریروں پر، جنھوں نے انھیں اپنی کتاب ’جامع التواریج‘ میں جگہ دی، جو 14 ویں صدی میں منگول سلطنت کے بارے میں ایک منفرد ماخذ تھا۔ تاہم ان میں ایسی تفصیلات موجود ہیں جو میل نہیں کھاتی ہیں۔ بنیادی ذرائع کی کمی کی وجہ سے، باہر کے لوگ منگولوں کے بارے میں لکھتے تھے جن میں سے اکثر ان کے دشمن ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا ختلون کی کہانی آدھی افسانوں اور آدھی امکانات پرمبنی ہے، لیکن اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ م جانتے ہیں کہ وہ کیدو کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ایک سیاسی مشیر، عدالت میں، اور حکمت عملی کے طور پر، جنگ میں وہ ان کی پسندیدہ تھیں حالانکہ ان کے 14 بڑے بھائی تھے۔ بادشاہ انھیں بہت سی لڑائیوں میں لے گئے جو انھوں نے لڑیں، خاص طور پر اپنے رشتہ دار قبلائی خان کے خلاف، جو یوآن خاندان کے پہلے شہنشاہ تھے۔ مارکو پولو کہتے ہیں ’کبھی کبھی وہ دشمن کی فوج کی طرف بڑھتیں، وہاں ایک آدمی کو پکڑتیں، اور اسے اپنے باپ کے پاس لے جاتیں، جیسے عقاب کسی پرندے پر جھپٹتا ہے۔ ‘ ان کے جسم کے بارے میں مارکو پولو نے یہ لکھا کہ وہ ’اتنی لمبی اور مضبوط تھی کہ اسے تقریباً ایک دیو ہی سمجھا جا سکتا تھا۔‘ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آخر کار وہ شادی کرنے پر راضی ہو گئیں، ہارے بغیر ہی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کے دشمنوں نے یہ افواہیں پھیلائی تھیں کہ ان کے اور ان کے والد کے درمیان ناجائز تعلق ہے اور انھوں نے ان کی تردید کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کا شوہر کون تھا۔ راشد بتاتے ہیں کہ ختلون کو غازان سے محبت تھی، جو 1295 میں فارس کے خان بن گئے، لیکن ان دونوں نے شادی نہیں کی۔ کچھ تاریخی حوالوں میں کہا گیا ہے کہ ’یہ خوش قسمت آدمی ایک خوبصورت قاتل تھا جسے قبلائی نے اپنے

ختلون: منگول شہزادی جس نے رشتے کے طلبگاروں کو کشتی میں ہرانے کا چیلنج دیکر ہزاروں گھوڑے جیتے Read More »

حکومت نے فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی

اسلام آباد (این این آئی)نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد بجلی مہنگی کرنے کا اپنا فیصلہ جاری کردیا جس کے مطابق فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی گئی ،نیپرا نے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دی تھی،اب وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد نیپرا نے بجلی مہنگی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ نیپرا نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی صارفین کو 6 ماہ میں اضافی ادائیگیاں کرنا ہوں گی، بجلی صارفین اکتوبر 2023 تا مارچ 2024 تک ادائیگیاں کریں گے۔نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں اضافے کا اطلاق کے الیکڑک صارفین پر بھی ہو گا۔  

حکومت نے فی یونٹ بجلی 3 روپے 28 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی Read More »

Satyajit with a farmer

دبئی: بینکر سے ملیں جس نے کھیتی باڑی کرنے کے لیے 7 فیگر کی تنخواہ چھوڑ دی۔

  وہ فی الحال ہندوستان میں 2,000 کسانوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں  تاکہ انہیں نامیاتی پیداوار کے ذریعے پہلے کی نسبت 180% زیادہ آمدنی حاصل کرنے میں مدد ملے۔ جب ستیہ جیت ہانگےکو  بچپن میں بورڈنگ اسکول بھیج دیا گیا تو  کو اس کے والدین نے صرف ایک بات کی نصیحت کی تھی – کبھی کسان نہ بنیں۔ لیکن ایک کامیاب بینکر کے طور پر جس نے 7 فیگر کی تنخواہ حاصل کی، لیکن  وہ پھر بھی ناخوش تھا۔ اسی وقت اپنی نوکری چھوڑنے اور کھیتی باڑی پر واپس  اپنے بھائی اجنکیا کے ساتھ  جانے کا فیصلہ کیا۔ آج، برادران ہندوستان میں 2,000 سے زیادہ کسانوں کو ذمہ دارانہ اور پائیدار کاشتکاری کی مشق کرنے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں، اور انھیں ملک کی چند سرکردہ شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔ اب، بینکر سے کسان بننے والا، ہندوستان کے چھوٹے فارموں سے مصنوعات اس ملک میں لانے کے لیے دبئی میں ہے۔ “ہماری مصنوعات ہندوستان کی 16 ریاستوں میں 2,000 سے زیادہ کسانوں کے ذریعہ بنائی جاتی ہیں اور نامیاتی گھی سے لے کر آٹے اور قدرتی میٹھے تک مختلف ہوتی ہیں،” ستیہ جیت نے ایگنایٹ پاکستان سے بات کرتے ہوئے کہا۔ “ہمارا متحدہ عرب امارات اور امریکہ میں ایک بہت بڑا کسٹمر بیس ہے۔ دبئی میں ہمارے ایک گاہک، جو برسوں سے ہماری مصنوعات استعمال کر رہی ہے اور اپنی صحت میں فرق محسوس کر رہی ہے، اس برانڈ کو یہاں لانے کے لیے ہم سے رابطہ کیا۔” کٹھن سفر اپنی تمام تر ترقی کے باوجود، ستیہ جیت تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا سفر آسان نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے والدین کسان تھے لیکن وہ ہمارے لیے صرف ایک چیز چاہتے تھے کہ کبھی بھی ان کے نقش قدم پر نہ چلیں۔ “انہوں نے محسوس کیا کہ کسانوں کو معاشرے میں عزت نہیں دی جاتی اور وہ مالی طور پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا، انہوں نے وائٹ کالر نوکریاں کرنے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کی۔ تاہم، بھائیوں نے محسوس کیا کہ ان کی کارپوریٹ ملازمتوں میں کچھ گڑبڑ ہے اور انہوں نے چند سالوں میں اسے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ “پہلے، اجنکیا نے اپنی نوکری چھوڑ دی اور پھر میں نے ایک سال بعد اس کی پیروی کی،” ستیہ جیت نے کہا۔ “ہماری بیویاں یہ سمجھنےسے قاصر رہی تھیں کہ ہم اپنی اچھی تنخواہ والی نوکریاں کیوں چھوڑ دیں گے اور کھیتوں میں واپس جائیں گے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ ہمارے والدین اس کے سخت خلاف تھے کیونکہ انہوں نے کھیتی باڑی میں اتنی اچھی زندگی کا تجربہ نہیں کیا تھا، لیکن ہم اس کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کرتے وقت ان کے دماغ میں صرف جذبہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم کھیتی باڑی میں گئے کیونکہ اسی چیز سے ہمیں مزہ آیا اور ہمارے ذہن میں آخری چیز ایک برانڈ بنانا تھی۔” “یہ ایسی چیز تھی جس نے ہمیں خوشی بخشی اور ہمیں خوش کرتی رہتی ہے۔” ستیہ جیت نے کہا کہ کیریئر میں تبدیلی کے بعد انہیں ایسا لگا جیسے وہ ایک نیا شخص ہوں۔ “جسمانی طور پر، میں پہلے سے بہتر ہوں،” انہوں نے کہا۔ “ذہنی طور پر، میں خوش ہوں. فکری طور پر، میں بہت سی نئی چیزیں سیکھ رہا ہوں۔ روحانی طور پر، میں محسوس کرتا ہوں کہ میں بہتر جذباتی ہوں۔ ایسا لگتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ میں دوسری زندگی گزار رہا ہوں۔ فرق کرنا ایک بار جب انہوں نے سوئچ کیا، تو یہ بھائیوں کے لیے سیکھنے کا ایک بڑا موڑ تھا۔ “ابتدائی طور پر اتار چڑھاؤ تھے،” انہوں نے کہا۔ “ہمیں اسے معاشی کامیابی اور سماجی پہچان حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔” بھائیوں کے لیے، دوسرے کسانوں کو پڑھانا کبھی بھی منصوبے کا حصہ نہیں تھا۔ “جب خشک سالی اور سیلاب کے بعد، ہمارے فارم اور نامیاتی طریقے اچھی پیداوار دیتے رہے، کسانوں نے تجاویز کے لیے ہم سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔” بہت ہی نامیاتی انداز میں، زبانی مدد سے، بھائیوں نے 2,000 سے زیادہ کسانوں کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ستیہ جیت نے ایک کسان کی مثال دی جس نے اپنے 6 ایکڑ کے کھیت میں کھجور کا بیج لگایا تھا۔ “وہ اس سے بنا ہوا مشروب بیچنے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا،” اس نے کہا۔ “لہذا، وہ پوری چیز کو ہٹانے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا. اس وقت میرے ایک گاہک نے نولن گڑ کے لیے کہا – ایک گڑ جو کھجور کے رس سے بنا ہے۔” ستیہ جیت کھجور سے بنے گڑ سے ناواقف تھے لیکن انہوں نے اسے کسان کے متبادل کے طور پر تجویز کیا۔ اس نے مزید بنگال سے مزدوروں کو بھرتی کرکے کسان کی حمایت کی۔ “اس سال، اس نے 9,000 کلو کھجور کا گڑ بنایا،” انہوں نے کہا۔ “آج، کسان، جو اس کھیت سے صرف 250,000 روپے (تقریباً 12,500 درہم) کما رہا تھا، اسی کھیت سے 4.5 ملین روپے (تقریباً 225,000 درہم) کما رہا ہے۔”

دبئی: بینکر سے ملیں جس نے کھیتی باڑی کرنے کے لیے 7 فیگر کی تنخواہ چھوڑ دی۔ Read More »

Interim Interior Minister Sarfraz Bugti

آرمی چیف نے سمگلنگ میں ملوث اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا کہا ہے، نگران وزیر داخلہ

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف نے کہا ہے کہ جو اہلکار سمگلنگ اور دیگر غیر قانونی کاروائیوں میں ملوث ہوں گے اُن کا کورٹ مارشل ہوگا۔‘ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’جو لوگ اسمگلنگ اور حوالہ ہنڈی میں ملوث ہیں، اُن کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔‘ اُن کا کہنا تھا کہ ’فوج اپنے احتساب کے نظام کو 9 مئی کے واقعات کے خلاف کاروائی میں ثابت کر چُکی ہے۔‘ سمگلنگ اور حوالہ ہنڈی سے متعلق بات کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ نے کہا کہ ’چینی اور گندم کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے موثر انداز میں کام کر رہے ہیں۔ حوالہ ہنڈی کا کام کرونے والوں کے خلاف 168 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’حوالہ ہنڈی کے خلاف کچھ اقدامات سے ڈالر کی قیمتیں کنٹرول ہوئی ہیں۔‘ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’سمگلنگ اونٹوں پر نہیں ٹرکوں پر ہو رہی تھی، اور اس غیر قانونی کاروبار میں سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے نام بھی شامل ہیں۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’سمگلنگ سے متعلق ہونے والی تحقیقات میں کچھ نکلا تو حقائق سامنے لائے جائیں گے۔‘ پریس کانفرنس کے اختتام پر پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق ہونے والے ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’میاں صاحب اگر واپس آکر سیاست میں آنا چاہتے ہیں تو یہ ایک حوصلہ افزا بات ہے۔‘ تاہم پاکستان میں آئندہ عام انتخابات میں سیکورٹی خدشات سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’الیکشن میں پولنگ سٹیشنز کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔‘

آرمی چیف نے سمگلنگ میں ملوث اہلکاروں کے کورٹ مارشل کا کہا ہے، نگران وزیر داخلہ Read More »

Special Investment Facilitation Counci SIFCl

خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کا زرعی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ایک نقطہ نظر

خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کا زرعی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ایک نقطہ نظر   پاکستان کو فوری طور پر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت دینے اور موجودہ سرمایہ کاری کے فرق کو پر کرنے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی سرمایہ کاری زرعی اور صنعتی پیداوار کو بڑھانے کے لیے بہت ضروری ہے، جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے، اور اضافی ٹیکس محصولات ہوتے ہیں۔ زرعی شعبہ FDI کے لیے ایک کلیدی شعبے کے طور پر ابھرا ہے، خاص طور پر حالیہ میڈیا رپورٹس کی روشنی میں۔ کئی عوامل، جیسے جاری خوراک کا بحران، وسیع غیر کاشت شدہ زمین، لاگت سے موثر افرادی قوت، اور سازگار زرعی موسمی حالات، زراعت میں ایف ڈی آئی کو فروغ دینے کے لیے ایک مجبور کیس بناتے ہیں۔ اعلی توانائی کی لاگت کے باوجود بہت سے شعبوں پر منفی اثر پڑتا ہے، زراعت کے اندر مخصوص ذیلی شعبے بشمول کارپوریٹ فارمنگ، اب بھی سرمایہ کاری کے قابل عمل مواقع پیش کرتے ہیں۔ تاہم، کارپوریٹ فارمنگ اور زرعی صنعتوں کے درمیان فرق کرنا بہت ضروری ہے۔ ہر راستے کی اپنی پیچیدگیاں اور فوائد ہیں۔ کارپوریٹ فارمنگ پاکستان میں سرمایہ کاروں کے لیے آسان طریقہ کار کی وجہ سے نسبتاً سیدھا راستہ پیش کرتی ہے، خاص طور پر جب زرعی صنعتوں کو قائم کرنے اور چلانے میں شامل پیچیدگیوں کے مقابلے میں۔ کارپوریٹ فارمنگ میں بنیادی طور پر صوبائی محکمہ محصولات، محکمہ آبپاشی، اور بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے ساتھ تعاملات شامل ہوتے ہیں، جب کہ زرعی صنعتی منصوبوں کے لیے متعدد سرکاری محکموں، سپلائرز، خریداروں اور ملازمین کے ساتھ مشغولیت کی ضرورت ہوتی ہے، جو اکثر طویل قانونی تنازعات کا باعث بنتے ہیں۔ نئی قائم کردہ خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل (SIFC) کا مقصد سرمایہ کاروں کے لیے خاص طور پر کارپوریٹ فارمنگ میں سازگار ماحول پیدا کرنا ہے۔ چیلنجوں کے باوجود، کارپوریٹ فارمنگ میں سرمایہ کاری میں زمین کے حصول، زرعی مشینری کی خریداری، زمین کی ترقی، اور آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کے لیے اہم سرمائے کے اخراجات شامل ہیں۔ خصوصی زرعی مشینری کی درآمد، جو پاکستان میں دستیاب نہیں، سرمایہ کاری کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ایک وسیع تر نقطہ نظر سے، کارپوریٹ فارمنگ میں ایف ڈی آئی پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے وعدہ کی حامل ہے۔ جب کہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مخصوص فصلوں کا تعین ہونا باقی ہے، دو اسٹریٹجک شعبے نمایاں ہیں۔ سب سے پہلے، پاکستان زرعی تحقیق اور بیج کی پیداوار کی جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے ہے، جس کی وجہ سے زیادہ پیداوار والے بیجوں کی درآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، ہندوستان اور انڈونیشیا کی طرح، ان بیجوں کی مقامی پیداوار کو بڑھا سکتی ہے، جس سے فصلوں کی پیداواری صلاحیت اور کسانوں کی آمدنی کو نئی کاشت کی ترقی کی پیچیدگیوں کے بغیر یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دوم، سازگار زرعی موسمی حالات کے باوجود، محدود دستیاب زمین اور گندم جیسی اہم فصلوں کے ساتھ مسابقت کی وجہ سے پاکستان سالانہ کافی مقدار میں خوردنی تیل اور تیل کے بیج درآمد کرتا ہے۔ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے تیل کے بیجوں کی پیداوار کو بڑھانا غیر ملکی زرمبادلہ کے اخراجات کو کافی حد تک کم کر سکتا ہے۔ تاہم، ایف ڈی آئی کے ذریعے زرعی صنعتوں کا قیام بھی اتنا ہی اہم ہے۔ زرعی اشیاء کے لیے درآمدات پر پاکستان کا انحصار اور زرعی برآمدات میں ویلیو ایڈیشن کی کمی ایگرو پروسیسنگ میں سرمایہ کاری کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے۔ ملک کا زرعی شعبہ، اگرچہ کافی زیادہ ہے، صنعتی نفاست اور پیمانے کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بڑھتے ہوئے درآمدی بلوں اور دیہی غربت جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے زرعی آدانوں اور زرعی پروسیسنگ دونوں میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے جواب میں، حکومت نے سرمایہ کاری کی پالیسی 2023 کی منظوری دی، جس میں ایکسپورٹ پر مبنی اور درآمدی متبادل ایف ڈی آئی کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کاری پر توجہ دی گئی۔ تاہم، سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے سازگار سرمایہ کاری کا ماحول اور سازگار کاروباری ماحول ضروری ہے۔ ان عوامل کے بغیر، سرمایہ کار پاکستان کے زرعی شعبے میں کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے کے لیے ایک اچھی طرح سے سوچی جانے والی پالیسی اور اسٹریٹجک ردعمل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سرمایہ کاری کو زیادہ خطرہ سمجھ سکتے ہیں۔

خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل کا زرعی صلاحیت کو بہتر بنانے کا ایک نقطہ نظر Read More »

Multiple Seeds, seed-breeders

زراعت میں انقلاب: پاکستان میں مقامی بیج کی پیداوار میں اضافہ

زراعت میں انقلاب: پاکستان میں مقامی بیج کی پیداوار میں اضافہ       “وفاقی حکومت نے کمپنیوں کے لیے سرکاری اجازت ملنے کے بعد کسی بھی درآمدی بیج کی قسم کی مقامی پیداوار کو کل حجم کے کم از کم 50 فیصد تک لے جانے کا پابند بنایا ہے۔ وفاقی سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق، اس اقدام کا مقصد درآمد شدہ اقسام کی مقامی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے تاکہ بیجوں کی درآمدات پر انحصار کو بتدریج کم کیا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان مختلف فصلوں کے بیجوں کی درآمد پر سالانہ 50 ارب روپے خرچ کر رہا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ سال ہائبرڈ مکئی، چاول اور سبزیوں سمیت مختلف فصلوں کے لیے 70,000 میٹرک ٹن بیج درآمد کیے تھے۔ فیڈرل سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد اعظم خان نے دوسرے روز ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “یہ خود انحصاری حاصل کرنے اور قیمتی زرمبادلہ کی بچت میں مدد کرے گا۔” کراپ لائف پاکستان نے نتھیا گلی میں “زراعت میں چیلنجز اور جدید ٹیکنالوجیز کا کردار” کے موضوع پر ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ اعظم خان نے زرعی شعبے میں بہتری لانے کے لیے کیے گئے مختلف اقدامات پر روشنی ڈالی جس میں نئی ​​اقسام کی تیز رفتار منظوری بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدامات کا مقصد خوراک کی حفاظت کو یقینی بنانے اور کاشتکار برادریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی امید افزا قسم کو اس کی ترقی کے ایک سال کے اندر کسانوں کو متعارف کرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمپنیاں محکمہ کی نگرانی میں جانچ کے سال کے دوران بیج کی پیداوار شروع کر کے منظوری کے اسی سال کے دوران اپنی ورائٹی متعارف کروا سکتی ہیں۔ اس سے پہلے، کسی بھی نئی قسم کی اجازت دو سال کے لگاتار فصلوں کے موسم کے بعد دی جاتی تھی۔ اگر پالنے والے ایسی قسمیں لاتے ہیں جس کی پیداوار میں کوانٹم جمپ ہو یا کسی بیماری کے خلاف مزاحمت ہو، تو اسے بیج کی ضرب کے لیے ایک فصل کے موسم کے بعد اجازت دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نسل دہندگان کے اعتماد کی تعمیر کے لیے، رجسٹریشن کے لیے ڈی این اے پروفائلنگ کو لازمی اور اندراج کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ بحری قزاقی سے بچنے کے لیے محکمہ ڈی این اے پروفائلنگ کی سافٹ کاپی اپنے پاس رکھے گا۔ اسی طرح، حکومت صحیح مالکان کا تعین کرنے کے لیے موجودہ اقسام کے مورفولوجیکل اور مالیکیولر ڈیٹا بیس قائم کرے گی۔ کراپ لائف پاکستان کے ڈی جی راشد احمد نے 91 ممالک میں کام کرنے والی تنظیم کے مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کے ذریعے بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے مناسب مقدار میں خوراک اگانے کے قابل بنانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

زراعت میں انقلاب: پاکستان میں مقامی بیج کی پیداوار میں اضافہ Read More »

ELENA ZAKHARENKA

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسے اعتراف جرم کے باوجود بری کر دیا گیا یوری گاروسکی نے بیلاروس میں ایک ’ہٹ سکواڈ‘ کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ وہ سکواڈ تھا جس نے ملک کی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا لیکن اس اعتراف کے باوجود انھیں سزا نہیں ہوئی اور عدالت نے انھیں بری کر دیا۔ گذشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں مقدمے کی سماعت کے دوران سپیشل فورسز کے اس سابق فوجی نے سنہ 1999 میں تین افراد کے اغوا اور قتل کے بارے میں تفصیلی بیان دیا۔ تاہم انھوں نے ان افراد کے قتل کا حکم دینے کے الزام کی تردید کی ہے۔ جب وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو عدالت میں ان سے کچھ فاصلے پر پیچھے قتل ہونے والے سیاستدانوں کی بیٹیاں بیٹھ کر یہ کارروائی خود سن اور دیکھ رہی تھیں۔ ان سیاستدانوں کی بیٹیوں نے اپنے سر سے شفقت کا سایہ چھیننے والوں کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے 24 برس جدوجہد کی۔ تاہم جمعرات کو عدالت نے تمام کارروائی کے بعد یوری گاروسکی کو بری کر دیا۔ حیرت انگیز فیصلے میں جج نے کہا کہ اعترافی بیان دینے والے بیلاروسی ملزم کے مختلف بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان جبری گمشدگیوں اور قتل کے پیچھے بیلا روسی حکام کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ تاہم جج کے مطابق عدالت کو شک سے بالاتر ثبوتوں کے ساتھ اس بات پر مطمئن نہیں کیا جا سکا کہ یوری گاروسکی اس مقدمے میں مجرم ہیں۔ والیریا کراسوسکایا، جن کے والد اناتولی لاپتہ افراد میں سے ایک ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ ’انتہائی مضیحکہ خیز‘ اور عقل کے منافی ہے۔ اعتراف جرم اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب سنہ 2019 میں اس سابق فوجی نے خود صحافیوں سے رابطہ کر کے انکشاف کیا کہ وہ ملک کے سابق وزیرداخلہ یوری زیخارینکو، حـزب اختلاف کے رہنما وکٹر گونچر اور معروف بزنس مین ایناتولے کراسووسکی کے اغوا میں ملوث ہے۔ اس وقت یوری گاروسکی سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ حکام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سچ بتا رہے ہیں۔ انھیں شاید یہ امید تھی کہ تشہیر سے انھیں کچھ تحفظ بھی مل سکے گا کیونکہ ایک برس قبل وہ بیلاروس میں ایک کار حادثے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد وہ دو ہفتے تک کوما میں رہے تھے۔ ابھی بھی وہ ایک چھڑی کے سہارے چلتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ حادثہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش تھی۔ اس مقدمے سے جڑے ہوئے کرداروں کے لیے یوری گاروسکی کی کہانی سچ کے قریب تھی۔ دو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بیلا روسی اشخاص کی بیٹیوں نے سوئس وکلا کے کے ذریعے اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت ٹرائل شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوری کو قید کرنے کے بعد ان سے تحقیقات کی گئیں اور پھر ان پر فرد جرم عائد کیا گیا۔ لاپتہ باپ والیریا کراسوسکایا کو آج بھی یاد ہے کہ وہ 24 سال پہلے آدھی رات کو جاگ رہی تھیں کہ ان کی ماں نے پولیس، ہسپتالوں اور شہر کے مردہ خانے کو فون کیا کیونکہ ان کے شوہر واپس گھر نہیں آئے تھے۔ اناتولی، الیگزینڈر لوکاشینکو کے ناقد وکٹر گونچار کے ساتھ ’منسک‘ شہر کے ایک حمام میں گئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب الیگزینڈر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ اگلی صبح والیریا کی ماں کو جائے وقوعہ پر خون کے دھبے اور ٹوٹا ہوا شیشہ ملا۔ ان کے شوہر اپنے دوست سمیت غائب ہو چکے تھے۔ گھر والوں کو اناتولی کراسوسکی کی لاش کبھی نہ مل سکی۔ ’آپ نہیں جانتے، کیا وہ زندہ ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ مر گئے ہیں تو پھر کیسے اور اب ان کی لاش کہاں ہے‘؟ والیریا کے ان سوالات سے متاثرہ خاندانوں کے کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ والیریا کے مطابق ’آپ یہ باب بند نہیں کر سکتے، اس لیے آپ اس کے ساتھ جینا سیکھ لیں۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے۔‘ والیریا سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں یوری گاروسکی کو سننے گئی تھیں کہ کس طرح ان کی سپیشل فورسز یونٹ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ وکٹر گونچار کے ساتھ ان کے والد کو حراست میں لے کر انھیں شہر سے باہر لے جائیں۔ اپنے پہلے بیان کے برعکس سابق فوجی یوری گاروسکی نے عدالتی کارروائی کے دوران متعدد بار اپنی صفائی میں یہ کہا کہ انھوں نے گولی نہیں چلائی اور نہ ہی گاڑی سے بندوق نکالی تھی۔ قید کی صعوبت دیکھ کر اب وہ اس سارے مقدمے میں اپنے کردار کو کم سے کم کر رہے تھے۔ لیکن انھوں نے اغوا اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ ان کے مطابق انھوں نے وکٹر گونچار کا منھ زمین پر پٹخ دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ’منسک‘ کی سرحد پر دو افراد کو پیٹھ میں گولی ماری گئی تھی۔ یوری گاروسکی نے کہا کہ انھوں نے لاشوں کو ایک گڑھے میں دفن کرنے میں مدد کی، جو پہلے سے کھودا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے کپڑے جلا دیے گئے تھے۔ اس کا انداز سفاکانہ تھا۔ والیریا نے یہ سب غور سے سنا، ہر نکتے کو وہ لکھ رہی تھیں۔ ایک دوست انھیں تسلی بھی دے رہے تھے۔ انھوں نے اس عدالتی سماعت سے قبل مجھے بتایا کہ ’اگرچہ میں بالکل نارمل اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں، پھر بھی مجھے اپنے والد کی گمشدگی کا خیال جھنجھوڑتا ہے۔ ’جب بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عام بات ہے۔ لیکن میں ہلکا محسوس کرنا چاہتی ہوں‘۔ ’انھوں نے کہا کھانا لگا دیں، بس میں گھر پہنچ ہی گیا ہوں‘ ایلینا زخارینکا کے لیے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انھوں نے چونکا دینے والا بیان سنا ہو۔ جن صحافیوں سے یوری گاروسکی نے پہلی بار خود اپنی کہانی سنانے کے لیے رابطہ

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم Read More »

Petrol and Diesel Prices

پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان

پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان     پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے کی کمی کی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے کمی کے بعد اب نئی قیمت 323 روپے 38 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے کی کمی کے بعد نئی قیمت 318 روپے 18پیسے فی لیٹر مقررکی گئی

پیٹرول کی قیمت میں آٹھ روپے اور ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 11 روپے فی لیٹر کمی کا اعلان Read More »