سچے جذبوں،محبت اورخوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کی آج اکہترویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔
کراچی میں 24نومبر 1952 کوپیدا ہونے والی پروین شاکر اُن خوش نصیب شعرا میں سے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں ہی مقبولیت کے آسمان کو چھو لیا۔
پروین شاکرسے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنے خوبصورت اور بے باک انداز ميں بيان نہیں کيا۔ نسوائی شاعری پران کی چھاپ اب بھی برقرار ہے۔
شاعرافتخار عارف اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ بہت اہم ادبی شخصیت ہیں اور ان کا بہت اثر ہے ان کے بعد میں بہت کم خواتین ایسی ہیں جو ان کے اثر سے آزاد ہو کر شعر کہہ رہی ہیں۔ وگرنہ جو بھی لڑکی شعر کہنا شروع کرتی ہے اس میں وہ آپ بہت آسانی سے پروین کے اثرات دیکھ سکتے ہیں یہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔
پروین کی شاعری خوشبو سے شروع ہو کر صد برگ، خودکلامی، انکار اور کف آئینہ سے ہوتی ہوئی ادبی افق پر ‘‘ ماہ تمام ’’ کی صورت طلوع ہوئی ۔ انہیں پہلی کتاب پرہی آدم جی ایوارڈ ملا۔صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
میں اس کی دسترس میں ہوں مگر وہ
مجھے میری رضا سے مانگتا ہے
پروین شاکر کے صاحبزادے مراد اپنے خیالات میں کہتے ہیں کہ میری امی نے مجھے الفاظ کی طاقت اور جذبات کو خوبصورتی سے بیان کرنے کی نفاست سکھائی۔ وہ خوشبو کے طور پر ابھی بھی میرے اور میرےبچوں کے ساتھ ہیں۔ وہ مجھے بہت یاد آتی ہیں۔ اماں آپ کو سالگرہ مبارک ہو۔
پروین نے سادہ الفاظ میں نسائی انا،خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔ان کے کلام کی خوشبو کئی گلوکاروں نے بھی کوبہ کو پھیلائی ہے 26 دسمبر1994 کو اسلام آباد میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوگئیں۔مگر اپنے پیچھے خوشبو سے لبریز اشعار کا ایک خزانہ چھوڑ گئیں۔