اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قانون کے مطابق ٹرائل جیل یا اوپن کورٹ میں ہوسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل دو رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین صفحات پر مشتمل اپنے محفوظ فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق ٹرائل جیل یا اوپن کورٹ میں ہوسکتا ہے،غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جاسکتا ہے۔
فیصلے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی درست قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 13نومبرکوکابینہ منظوری کےبعدجاری نوٹیفکیشن کاماضی پراطلاق نہیں ہوگا۔
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
منگل کے روز سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل کرنے کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے، جیل ٹرائل کا پہلا قدم جج ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے، جج کو جیل ٹرائل کی وجوہات پر مبنی واضح آرڈر جاری کرنا چاہئے، پھر چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے اور کابینہ سے منظوری ملے تو پھر ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ جج نے 8 نومبر کو آخری خط لکھا تھا، جج کا خط جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہئے تھا لیکن جیل ٹرائل سے متعلق آج کے دن تک جوڈیشل آرڈر نہیں آیا ، مان لیں کہ 12نومبر سے کابینہ کی منظوری کے طریقہ کار پر عمل ہوا، اس صورت میں بھی پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہوگی۔
سلمان اکرم راجہ نے جج ابو الحسنات ذوالقرنین کا 8 نومبر کا خط بھی پڑھ کر سنایا۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر ہمارا مؤقف سننے کا حق دیتا ہے، 16 اگست کو جوڈیشل ریمانڈ کی کارروائی اوپن کورٹ میں ہوئی، 16 اگست کی سماعت کے بعد اسے ٹرائل جیل میں منتقل کردیا گیا، میرے خیال میں جیل ٹرائل کی پہلی درخواست پراسکیوشن کی طرف سے آتی ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر جج کو اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی حق ملے گا۔
عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کابینہ کو خط اس وقت لکھا گیا جب انٹرا کورٹ اپیل زیر سماعت تھی؟ جس پر سلمان اکرم نے بتایا کہ جی بالکل اپیل پر سماعت بھی چل رہی تھی۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جج نے لکھا کہ مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے جیل ٹرائل کی منظوری دی جائے، کابینہ کی منظوری کے باوجود نوٹیفکیشن کا ماضی سے اطلاق نہیں ہوگا، جج بھی اپنے خط میں ماضی کی نہیں بلکہ مستقبل کی بات کررہے ہیں، یہ خط چیف کمشنر نے وزارت داخلہ کو بھجوایا، وہاں سے وزارت قانون کو گیا، 10نومبر کو سمری تیار کرکے کابینہ کو بھجوائی گئی، 10 نومبر کی تیار کردہ سمری میں بھی ماضی کے جیل ٹرائل کا ذکر نہیں، وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی جس کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، ماضی کی کارروائی پر 13 نومبر کے نوٹیفکیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔
عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ 13نومبر کا نوٹیفکیشن قانونی ضروریات پورا کرتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں ایسا نہیں سمجھتا ، کابینہ کی منظوری جوڈیشل آرڈر کے بغیر ہے۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ روز رجسٹرار ہائیکورٹ سے 2 سوالات پوچھے تھے، رجسٹرار نے بتایا کہ جج تعیناتی کا عمل اسلام آباد ہائیکورٹ سے شروع ہوا، یہ بھی بتایا کہ جج نے جیل سماعت سے پہلے بھی ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اتفاق کرتا ہوں جیل ٹرائل کو بند کمرے کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیئے، اس سےبھی متفق ہوں کہ جو کوئی سماعت دیکھنا چاہےاجازت ہونی چاہیئے، 2 اکتوبر کو چالان جمع ہوا ، 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہوئی،16 اگست کو ملزم کی تحویل تفتیشی ایجنسی کو نہیں دی گئی، ملزم پہلے سے ہی جیل میں تھا اس لئے کوئی حق متاثر نہیں ہوا، اس وقت کیس ہی یہ ہے کہ ٹرائل اس مقام پر نہیں ہوا جہاں ہونا چاہئے تھا۔
جسٹس ثمن رفعت نے ریمارکس دیئے کہ قانونی بے ضابطگیاں تو بہر حال موجود ہیں ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس پوائنٹ پر عدالت کی معاونت کروں گا ، جج نے اپنے 3 آرڈرز میں لکھا کہ ٹرائل جیل میں ہو رہا ہے ،
بعدازاں ، عدالت عالیہ نے فریقین دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ آج ہی 5 سے ساڑھے 5 کے درمیان مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔