پاکستان کے صوبہ پنجاب میں رواں برس بھی موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی سموگ نے ڈیرے ڈال لیے ہیں اور صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ ہفتوں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کی مقدار انتہائی خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔
حالیہ ڈیٹا کے مطابق رواں ماہ لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا۔
ماہرین کے مطابق سموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔
یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے سنہ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع اوسط عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے جبکہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔
دوسری جانب فضائی آلودگی کو جانچنے کے پیمانے ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) کے مطابق لاہور اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے شہریوں کی زندگی فضائی آلودگی کی وجہ سے سات سال کم ہو رہی ہے۔
سموگ انسانی صحت کے لیے کس حد تک خطرناک؟
نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جبکہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔
ڈاکٹروں کے مطابق بچے اور بوڑھے افراد سموگ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اس لیے جب سموگ بڑھ جائے تو انھیں گھروں میں ہی رہنا چاہیے۔
ماحولیات کے اُمور پر کام کرنے والے کارکن، وکیل اور ماہر رافع عالم نے بی بی سی سے گفتگو میں انڈیا میں ہونے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دہلی میں تین سے 14 سال تک کے عمر کے بچوں پر ایک تحقیق کی گئی جس میں دیکھا گیا کہ سموگ ان کے پھیپڑوں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے 48 فیصد بچوں کے پھیپھڑے کالے تھے یعنی بلیک لنگز۔
’اب آپ خود اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ فضائی آلودگی کی یہ قسم کس حد تک انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔‘
’یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے‘
لاہور میں حالیہ سموگ اور فضائی آلودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے شہریوں کی زندگی اور صحت کو کیسے متاثر کیا اس بارے میں چند رہائشیوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی تکلیف بیان کی۔
ڈیڑھ برس کی بیٹی کی والدہ سارہ ذیشان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بیٹی بُری طرح سموگ سے متاثر ہوئی۔ جس کی وجہ سے اس کا گلا خراب، کھانسی، بخار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے منھ میں چھالے بھی نکل آئے ہیں اور اسے کھانے پینے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سارہ اور ان کے خاندان کی طرح لاہور شہر میں بسنے والے لاکھوں افراد سموگ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ امیر حمزہ جو ایک سیلز مین ہیں، کہتے ہیں کہ ان کا روزگار منسلک ہی ایسے کام سے ہے جس کے لیے سارا دن گھر سے باہر رہ کر موٹر سائیکل چلانا ہوتی ہے۔
’میں مختلف پوانٹس پر جا کر پراڈکٹس کی مارکیٹنگ کرتا ہوں اور جب دن بھر کام کر کے گھر جاتا ہوں تو فضائی آلودگی اور سموگ کے باعث آنکھیں سرخ اور جلن کا شکار ہوتی ہیں۔ ابھی بھی مجھے زکام، گلا خراب اور کھانسی ہے۔ آئے روز بیمار رہنے کے باعث کام بھی متاثر ہوتا ہے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے آنکھوں میں جلن اور پانی آنے کے باعث جگہ جگہ بائیک روک کر پانی سے آنکھیں دھونی پڑتی ہیں۔ اب تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ زہریلی فضا ہماری زندگیوں کا حصہ ہی بن گئی ہے۔‘
سموگ اور ایئر کوالٹی انڈیکس کا مطلب کیا ہے؟
رافع عالم کے مطابق سموگ دراصل فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسیوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔
’دراصل جب دھواں اور درجہ حرارت کم ہونے کے باعث بننے والی دھند (فوگ) آپس میں ملتے ہیں تو یہ سموگ بناتے ہیں۔ اسے ’فوٹو کیمیکل سموگ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب نائٹروجن آکسائیڈز جیسے دیگر زہریلے ذرات سورج کی روشنی سے مل کر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔‘
یہ چھوٹے کیمیائی اجزا سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ پی ایم 2.5 کے ذرات اس قدر چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ نہ صرف سانس کے ذریعے آپ کے جسم یں داخل ہو جاتے ہیں بلکہ آپ کی رگوں میں دوڑتے خون میں بھی شامل ہو جاتے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے صحت نے ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن کے مطابق 24 گھنٹوں کے دوران کسی بھی شہر یا علاقے کی فضا میں موجود پی ایم 2.5 ذرات کی تعداد 25 مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
ایئر کوالٹی انڈیکس فضائی آلودگی میں موجود کیمائی گیسز، کیمائی اجزا، مٹی کے ذرات اور نہ نظر آنے والے وہ ان کیمائی ذرات کی مقدار ناپنے کا معیار ہے جنھیں پارٹیکولیٹ میٹر (پی ایم) کہا جاتا ہے۔ ان ذرات کو ان کے حجم کی بنیاد پر دو درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی پی ایم 2.5 اور پی ایم 10۔
ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین فضا میں موجود مختلف گیسوں اور پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کے تناسب کو جانچ کر کیا جاتا ہے۔ ایک خاص حد سے تجاوز کرنے پر یہ گیسیں فضا کو آلودہ کر دیتی ہیں۔
پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا معیار کیا ہے؟
ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کا تعین دو طریقوں یا پیمانوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ اس ملک کی ایئر کوالٹی انڈیکس میں پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی تعداد 24 گھنٹوں کے دوران زیادہ سے زیادہ کتنی ہونی چاہیے۔
اور دوسرا یہ کہ اس ملک نے ایئر کوالٹی انڈیکس کو کس اور کتنی درجہ بندیوں میں تقسیم کر رکھا ہے یعنی فضائی آلودگی کی تعداد کیا ہو گی۔
پاکستان میں ایئر کوالٹی انڈیکس پر کام سنہ 2006 میں اس وقت کیا گیا جب صوبہ پنجاب میں سموگ نے ڈیرے ڈال لیے اور لاہور ہائیکورٹ نے ازخد نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کو ائیر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے جامع حکمت عملی اور معیار مقرر کرنے کی ہدایت دینے کے ساتھ ساتھ سموگ کمیشن کے قیام کا حکم صادر کیا۔
پاکستان کی انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی یعنی ادارہ برائے ماحولیاتی تحفظ کی جانب سے جاری ایئر کوالٹی انڈیکس میں پی ایم 2.5 (فضا میں موجود ذرات) کی تعداد 24 گھنٹوں کے دوران زیادہ سے زیادہ 35 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر مقرر ہے۔
جبکہ ای پی اے کی جانب سے اس کی درج بندی درج ذیل ہے۔
یاد رہے کہ اس ماہ میں لاہور شہر کی ائیر کوالٹی کئی مرتبہ 300 سے 500 کے درمیان رہ چکی ہے جو ہر عمر کے شخص کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔
سموگ سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات اور دعوے
حالیہ دنوں میں سموگ کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر پی ڈی ایم اے اور پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب کے مختلف اضلاع میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سموگ کو آفت قرار دیا گیا ہے جبکہ لاہور، شخوپورہ، ننکانہ، قصور، گجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ اور نارووال کے اضلاع میں چار روز کی چھٹی کا اعلان کیا ہے۔
لاہور ڈویژن اور دیگر چار اضلاع میں تعلیمی ادارے اورسرکاری و نجی دفاتر بند رہیں گےجبکہ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کئیر کی طرف سے چھٹی سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے ادارے کھلے رہیں گے۔
دوسری جانب لاہور ڈویژن میں دفعہ 144 کا نافذ کر دیا گیا ہے جس کے تحت ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے فضائی آلودگی کا سبب بننے والے افراد کے خلاف مشترکہ کارروائیاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔
خصوصی طور پر وہ افراد جو فصلوں کی باقیات جلا کر فضا کو آلودہ کر رہے ہیں، دھواں چھوڑنے والے گاڑیاں چلا رہے ہیں یا پھر ایسی فیکٹریوں کے مالکان جن کے صنعتی یونٹ سے نکلنے والا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔
گزشتہ سال بھی پنجاب حکومت کی جانب سے اسی نوعیت کے اقدامات سامنے آئے تھے تاہم اس کے باوجود بھی آج تک کوئی ایسی خاطر خواہ پالیسی نہیں اپنائی گئِی، جس سے سموگ میں کمی لائی جا سکے۔
’حکومتی پالسیاں صرف جلد بازی میں بنائی گئیں جن کا فائدہ نہیں‘
پنجاب حکومت کے ان اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہر ماحولیات رافع عالم نے تنقید کی کہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتی۔
’جب تک آپ کسی مسئلے کو مسئلہ ہی نہیں سمجھیں گے تو اس کو ٹھیک کیسے کریں گے۔ پانی چھڑکنے یا سکول ہفتے میں تین دن بند کرنے سے کیا سموگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘
رافع عالم کا کہنا تھا کہ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ماحولیات سے جڑے مسائل کو حل کرنے کے لیے منصوبہ بندی اور طویل عرصے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو واقعی ہی کار آمد ثابت ہوں۔
’جو پالسیاں یہ حکومت بنا رہی ہے، ان کا کوئی فائدہ نہیں۔‘
رافع عالم کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں درست ڈیٹا کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارے پاس نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 2018 میں سابقہ حکومت سموگ پالیسی بنا کر گئی تھی لیکن اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔
ان کے مطابق پاکستان پر ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 43 فیصد فضائی آلودگی ٹرانسپورٹ کے شعبے سے آتی ہے جبکہ 20 سے 30 فیصد فضائی آلودگی انڈسٹریل سیکٹر سے آئی ہے۔
’لیکن ہم نے ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے کچھ نہیں کیا۔ ہاں اس حکومت نے الیکٹرک وہیکل پالسی ضرور بنائی ہے لیکن ابھی تک اس پر کام شروع نہیں ہوا۔‘