ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات سچ مانتے تھے اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔
’ڈرائیور بھیج دوں گاڑی لانے کے لیے؟‘
’اچھا، میری گاڑی بالکل چلنے کے قابل نہیں۔‘
’چلیں آپ دیکھیں کیا کرنا ہے۔‘
’اچھا ٹریلر پر بھیج دیں‘، ارشد شریف کی سرگوشی نما آواز سنائی دی۔
میں اس وقت ارشد شریف کے ڈرائنگ روم میں تھا اور ساجد گوندل کے ساتھ ارشد کے والد کی میت کو ایک چارپائی سے دوسری چارپائی پر منتقل کررہا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ارشد ڈرائنگ روم کے باہر سیڑھیوں کے پاس کھڑا کسی سے دھیمے لہجے میں فون پر بات کر رہا تھا۔
ارشد کے والد نیوی سے ریئر ایڈمرل ریٹائرڈ ہوئے تھے اور صبح وفات پاگئے تھے۔
میں اس وقت ڈان نیوز ٹی وی میں بطور رپورٹر کام کر رہا تھا اور ارشد ڈان کا بیورو چیف تھا لیکن اس کا سب کے ساتھ تعلق بھائیوں والا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی ارشد کے والد کے انتقال کی خبر نیوز روم پہنچی تو ایک، دو رپورٹرز کو چھوڑ کر ہم سب ارشد کے گھر پہنچ گئے۔
کچھ ہی دیر بعد پتا چلا کہ ارشد کے چھوٹے بھائی جو فوج میں میجر تھے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ دراصل جب انہیں والد کے انتقال کی خبر ملی تو وہ اپنی کورے گاڑی میں اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے اور تیز رفتاری کے سبب گاڑی بے قابو ہوگئی اور ارشد کے بھائی اس اندوہناک سانحے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
اور اب گھر میں ان کی میت کا انتظار تھا۔
مجھے ہمت نہ ہوئی کہ ارشد کو دلاسہ دے سکوں۔
گھر میں باپ کی لاش پڑی ہو اور چھوٹے بھائی کی لاش کا انتطار ہو، تو بھلا اس قیامت خیز گھڑی میں کوئی کسی کو کیا دلاسہ دے سکتا ہے؟ آج بھی اس لمحے کا سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔
’ایسا تو فلموں میں ہوتا ہے‘، ارشد سپاٹ لہجے میں اسد کو کہہ رہا تھا۔ اسد ڈان کے ٹیکنیکل شعبے کے سربراہ تھے۔
میں قرآن پڑھتے کن انکھیوں سے ارشد کو تک رہا تھا کہ کس بلا کا حوصلہ ہے اس شخص کا۔
اگلے دن ارشد کے بھائی کو جب تمام فوجی اعزازات کے ساتھ دفن کیا گیا تب بھی ارشد نے بڑے ضبط کا مظاہرہ کیا۔
ارشد ایک نڈر شخص تھا۔ یہ اس کی ہی آشیر باد تھی کہ ہم وہ خبر بھی چلا دیتے تھے جسے چلانے کا دوسرے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ میں گمشدہ افراد پر ایک پروگرام کر رہا تھا جس کے لیے شہر سے باہر جانا پڑتا تھا۔ ارشد اس وقت تک بے چین رہتا تھا جب تک میں مع عملہ واپس نہ پہنچ جاؤں۔
ایک رات جب ہم فیصل آباد سے رات گئے لوٹے تو ارشد دفتر میں میرا انتظار کررہا تھا۔ کیمرا اور دیگر سامان دفتر میں جمع کرواتے صبح کے 4 بج گئے لہٰذا میں اور ارشد ڈان کے نیوز روم میں ہی قالین پر سو گئے۔ اگلے دن اس نے مجھے تو گھر بھیج دیا مگر خود کام میں جتا رہا۔
ارشد عجز و انکساری سے بھرپور انسان تھا۔ ایک رات میں دفتر میں تھا تو معلوم ہوا ایک چینی کا پُراسرار حالات میں قتل ہوگیا ہے۔ میں نے ارشد کو فون کیا کہ چینی کا قتل ہوگیا، میں نے خبر بریک کرنی ہے لیکن کیمرا مین نہیں ہے۔
’اچھا میں آتا ہوں‘، اس نے کہا اور تھوڑی ہی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ امریکا سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیورو چیف ساری رات ایک رپورٹر کے ساتھ بطور کیمرا میں کام کرتا رہا۔
ارشد میں حس مزاح بھی بہت تھی۔ ایک دن کراچی (ہیڈ آفس) سے جھاڑ کھانے کے بعد وہ نیوز روم میں سب پر برسنے لگا کہ ایک اہم خبر اسلام آباد سے مس ہوگئی تھی۔ ’کیا کر رہے ہو تم سب‘، ارشد دھاڑا۔
ریلیکس کر رہا ہوں، میں نے جواب دیا۔
’ریلیکس کر رہے ہو‘، اس نے غصے سے پوچھا۔
بنا کسی بات کے جھاڑ کھانے کے بعد کوئی اور کیا کرسکتا ہے؟ میں نے بھی اسی لہجے میں جواب دیا اور ارشد قہقہے میں لوٹ پوٹ ہوگیا۔
اگر میں یہ کہوں کہ صحافت کی باریکیاں میں نے ارشد سے سیکھیں ہیں تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
ارشد کے مجھ پر بہت احسانات ہیں۔ اس نے مجھے کئی انتہائی نازک مواقعوں پر بچایا ہے۔
ایک دوپہر میں نیوز روم میں داخل ہوا تو ارشد نے ایک خط میرے سامنے کردیا۔ یہ اسلام آباد پولیس کا خط تھا جس میں کہا گیا تھا کہ میں یعنی ڈان نیوز کا رپورٹر عاطف خان ایک تھانے میں زبردستی داخل ہوا اور اس نے ایس ایچ او انسپکٹر فیاض تنولی کو ہراساں کیا اور عاطف خان پر فلاں فلاں قانون کے تحت مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔
اس خط میں اگر ایسا لکھا ہے تو اس میں ایسی کیا بات ہے۔ پولیس ایجنسیوں کی یہ ایک اسٹینڈرڈ کارروائی ہے، میں نے بے اعتنائی سے کہا۔
دراصل ان دنوں میں نے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی خبر بریک کی تھی اور پے درپے رپورٹس کر رہا تھا۔ ایجنسیاں اور پولیس مجھ سے سخت برہم تھے۔
ارشد نے مجھے کہا کہ میں حامد میر سے بات کرکے عاصمہ جہانگیر کے پاس چلا جاؤں اور ارشد کی ان سے بات ہوگئی ہے۔ یعنی اس نے میرے لیے سارا انتظام کر رکھا تھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں، مجھے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کے حوالے سے بننے والے کمیشن میں شامل کرلیا گیا۔ میری رپورٹس کمیشن نے شامل کیں لیکن ہوا وہی جو اس طرح کے کیسوں میں ہوتا ہے۔
کیس تو داخل دفتر ہوگیا لیکن میری گلو خلاصی ہوگئی بلکہ عدالتِ عالیہ نے پولیس کو مجھے گارڈز فراہم کرنے کی ہدایت کی جسے میں نے مسترد کردیا کہ پولیس مجھے پولیس یا ایجنسیوں سے نہیں بچا سکتی۔
اگر میں یہ کہوں کہ ڈان ٹی وی کو ڈان بنانے والا ارشد تھا تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ انگریزی سے اردو میں کامیاب منتقلی کا سہرا ارشد اور اس کی پوری ٹیم کو جاتا ہے۔
ارشد کام کرنے والوں کی دل و جان سے قدر کرتا تھا۔ وہ بہت اچھا مینٹر تھا۔ مطیع اللہ جان، ساجد گوندل، اعزاز سید، فیصل اور دوسرے بہت سارے صحافیوں پر ارشد کے بے شمار احسانات ہیں، اب چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔
ارشد بلکہ ہماری پوری ٹیم کا پیشہ ورانہ زوال اس وقت شروع ہوا جب مطیع اللہ جان نے ارشد کے منع کرنے کے باوجود اپنے پروگرام ’اپنا اپنا گریبان‘ میں صحافی رؤف کلاسرا کو بطور مہمان مدعو کیا۔ ارشد مطیع کو کہہ رہا تھا کہ روف کلاسرا سے اس کے گھریلو تعلقات ہیں اس لیے ان کی شریکِ حیات جو ایک سرکاری عہدے پر فائز ہیں، ان کے حوالے سے اور ان کی کسی مبیّنہ کرپشن کے حوالے سے بات نہیں کرنی چاہیے۔ ارشد سینئر صحافی ضیاالدین صاحب کا قول اکثر سنایا کرتا تھا کہ ’ڈاگز ڈانٹ ایٹ ڈاگز‘۔
لیکن مطیع اللہ بہت پُراعتماد تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ مطیع اللہ نے اب تک کتنے ہی سیاستدانوں اور طاقتوروں کے بخیے ادھیڑ دیے تھے اور اس پروگرام میں بھی وہی ہوا۔ بات کرتے کرتے مطیع اللہ جان رؤف کلاسرا کی ذاتی زندگی پر آگئے۔ انہوں نے کرپشن کے کیا جواب دینے تھے بلکہ انہوں نے تو ڈان پر ہی الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ تلخی بڑھی اور اس حد تک بڑھ گئی کہ سیاست شروع ہوگئی اور ارشد سمیت ان کی پوری ٹیم ڈان سے فارغ کردی گئی۔
یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بطور صحافی زوال کا آغاز ثابت ہوا۔
دراصل ڈان نے ہمارے مزاج اس قدر بگاڑ دیے تھے کہ پھر ہمیں کسی نے برداشت نہیں کیا۔ ارشد ایک اردو ٹی وی میں چلا گیا لیکن انگریزی کا قابل اور عمدہ براڈ کاسٹ صحافی اردو کی سیاست نہیں جھیل پایا۔
ہم میں سے کئی لوگوں نے تو کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیا مگر ارشد جس کی 3 شادیاں تھیں وہ مشکل میں آگیا۔ اگرچہ اس کو والد کی پینشن ملتی تھی لیکن ارشد کو کام چاہیے تھا۔ ڈان میں بطور بیورو چیف کام کرتے ہوئے اس کے تعلقات تو تھے اور وہ ہفتہ وار آبپارہ میٹنگ میں بھی جاتا تھا۔
بس پھر اسے ایسا شیشے میں اتارا گیا کہ وہ بہک گیا۔ یا یوں کہیں کہ اس کے اندر کا سپاہی جاگ گیا۔
ارشد کو اس کے والد نے اصرار کرکے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوایا تھا لیکن وہ وہاں سے بھاگ گیا کہ اسے کچھ اور کرنا ہے۔ ارشد کے والد آخری وقت تک ارشد کے اس فیصلے پر برہم تھے۔
‘یہ صحافت بھی کوئی پیشہ ہوتا ہے؟’، وہ ارشد کے دوستوں کو کہا کرتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ صحافت میں آیا تو پیشے کا حق ادا کردیا۔
پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ارشد سیلیبرٹی بن گیا۔ میں کئی سال پہلے اس کے دفتر میں تھا جب ایک ساتھی نے کہا کہ ارشد جلدی کرو تمہارے بغیر پنڈی کا پروگرام شروع نہیں ہوگا۔ یہ بات اس صحافی دوست نے بطور ازراہ مذاق کہی تھی لیکن اس میں مبالغہ کم ہی تھا۔
ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات کو سچ مانتے تھے۔ اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔
کچھ عرصے قبل مجھے پتا چلا کہ ارشد کو وزارت کا لالچ دیا جا رہا ہے تو میں نے اسے متنبہ کرنے کو کوشش کی مگر اس سے میرا رابطہ نہیں ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مشہوری ملے تو لوگ اکساتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان میں صحافت مشکل ترین پیشہ ہے اور یہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب نوکری سے فارغ کردیا جائے۔ ایسے میں انسان بہک ہی جاتا ہے۔