کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل اور کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے ممکنہ طور پر انڈین اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد گذشتہ ماہ جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی تو اس تناظرمیں انڈیا کے پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ کا انڈیا کا دورہ بھی منسوخ کر دیا گیا۔
اس دورے کو ملتوی کرنے کی وجہ ایک تنازع تھا جو ایک پرانی سوشل میڈیا پوسٹ پر شروع ہوا جس میں انھوں نے انڈیا کا غلط نقشہ شیئر کیا ہوا تھا۔
کینیڈا میں شوبھ کے نام سے پہچانے والے سنگر پر خالصتان (سکھوں کاعلیحدہ وطن کے مطالبے) کی حمایت کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ خالصتان انڈیا میں ایک حسّاس موضوع ہے اور 1980 کی دہائی میں اس تحریک میں شدت آنے سے پرتشدد مظاہرے بھی سامنے آئے تھے۔
کینیڈا میں انڈیا کی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے سکھ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور اسی لیے اسے پنجابی موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکاروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
یہ فنکار نہ صرف اپنا وقت اور فن دونوں ممالک میں بانٹتے کرتے ہیں بلکہ گاہے بگاہے کینیڈا سے انڈیا کا سفر ان کی زندگی کا اہم حصہ ہے جہاں ان فنکاروں کے مداحوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
چنانچہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ ان کا ملک ان ’قابل اعتماد الزامات‘ کی تحقیقات کررہا ہے جو سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل سے انڈیا کا تعلق جوڑ رہے ہیں تو اس سفارتی محاذ نے دونوں ممالک کو اپنا گھر کہنے والے موسیقاروں کو پریشان کردیا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا نے کینیڈا کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کی تردید کی ہے تاہم اس بیان کے بعد سے انڈیا نے کینیڈا کے شہریوں کو ویزا جاری کرنا بند کر دیا ہے۔
پنجابی ریپرشوبھنیت سنگھ عرف شوبھ نے لوگوں سے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ ہر پنجابی کو علیحدگی پسند یا ملک دشمن قرار دینے سے گریز کریں تاہم اس کے بعد سے اب انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اور بات صرف تنقید پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ شوبھ کو اپنا پسندیدہ فنکار کہنے والے انڈین کرکٹر ویرات کوہلی سمیت بعض انڈین کرکٹرز نے سوشل میڈیا پر ان کو فالو کرنا چھوڑ دیا ہے۔
اسی طرح لاکھوں ’فین فالوورز‘ رکھنے والے ایک اور انڈین نژاد کینیڈین ریپراے پی ڈھلون کو بھی اس وقت سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا جب انھوں نے شبھ کے کنسرٹ کے منسوخ ہونے کے بعد اپنی پوسٹ میں سنگرز پر ہر بارشک و شبہہ کرنے کے بارے میں پوسٹ کیا۔
شوبھ اور ڈھلون دونوں کینیڈا کے نوجوان ہپ ہاپ موسیقاروں میں شامل ہیں جنھوں نے پچھلی ایک دہائی کے دوران پنجابی میوزک انڈسٹری کو عروج پر پہنچایا ہے۔
ان کے فنک، ہپ ہاپ اور ہارڈ راک میں پیش کیے گئے میوزک میں پنجابی دھنوں اور منظر کشی کے ساتھ ساتھ سکھوں کی ثقافت کا رنگ موجود ہے جو نہ صرف سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے بلکہ یہی افرادیت انھیں اکثر بین الاقوامی میوزک چارٹس میں شامل رکھتی ہے۔
اس سال کے آغاز میں اداکار اور گلوکاردلجیت دوسانجھ نے کیلیفورنیا کے مشہور میوزک فیسٹیول کوچیلا میں پرفارم کرنے والے پہلے پنجابی سنگر کا اعزاز اپنے نام کیا تھا۔
’جو ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی اور ثقافت کو دبانے کی زندہ
مثال ہے‘
موسیقی کی صنعت سے منسلک افراد اور ماہرین دہلی اور اوٹاوا کے درمیان تنازع کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق کشیدہ صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہت متاثر کیا ہے۔
رولنگ سٹون انڈیا کی سابق ایگزیکٹیو ایڈیٹر نرمیکا سنگھ کا اس ساری صورت حال پر کہنا ہے کہ ’جب بھی دو ممالک کے درمیان کوئی تنازع سامنے آتا ہے چاہے وہ کم سطح کا ہو یا سخت نوعیت کا، اس صورت حال میں سب سے ذیادہ متاثر ہونے والی چیز ثقافتی تجارت (کلچرل ٹریڈ) ہے، جس کی مثال ہم نے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دیکھی ہے۔‘
واضح رہے کہ انڈین اور پاکستانی موسیقاروں اور فلم سازوں کے درمیان ثقافتی تعاون گذشتہ چند سالوں سے منقطع ہے۔
تاہم لوگوں کی بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اس کے مقابلے میں انڈیا اور کینیڈا کے درمیان پنجابی میوزک انڈسٹری کئی ذیادہ گنا متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ پنجابی نغمہ نگار پالی گدرباہا اس معاملے کو خالص سیاسی قرار دیتے ہیں۔
’جو کچھ بھی یہ ہو رہا ہے وہ خالصتاً سیاسی ہے اور ثقافت کو دبانے کی زندہ مثال ہے۔‘
پالی گدرباہا کے مطابق ’ سننے والے اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں اور پنجابی موسیقی ہمیشہ پیش کرتی ہے۔‘
اس بیان کی نشاندہی 2022 کے وہ اعداد و شمار کرتے ہیں جو میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی نے سب سے ذیادہ سنے جانے والے گانوں کے حوالے سے جاری کیے تھے۔
’شائقین ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے‘
میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم سپاٹی فائی کے مطابق 2022 میں انڈیا میں سب سے زیادہ سٹریم کیے جانے والے ہر 10 میں سے چار گانے پنجابی تھے اور ان میں ڈھلون اور گرندرگل سمیت انڈین نژاد کینیڈین سنگرز کے ٹریک شامل تھے۔
ان کے مطابق یہ ڈیٹا بہت متاثر کن ہونے کے ساتھ ساتھ انڈیا میں ہونے والی ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کر رہا ہے جہاں بالی وڈ گانے روایتی طور پر میوزک چارٹس پر حاوی رہتے تھے۔
’میوزک کے شائقین کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ سفارتی سطح پر کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف ایک اچھا راگ اور تفریح چاہتے ہیں جو پنجابی موسیقی کا خاصہ ہے۔‘
مقبول پنجابی موسیقی کی نوعیت خود بھی ان دوہری ثقافتوں سے متاثر ہوئی ہے جہاں سے یہ موجود ہے۔
1980 اور 90 کی دہائیوں میں امر سنگھ چمکیلا جیسے پنجابی لوک گلوکار کینیڈا میں سکھوں میں بہت مقبول تھے۔ دلیر مہندی جیسے موسیقار کا وہاں کا دورہ ایک معمول کا حصہ تھا۔
جیسے جیسے کمیونٹی میں اضافہ ہوا وہاں ایک نئی نسل نے روایتی پنجابی موسیقی کے عناصر کے ساتھ جدید ہپ ہاپ آوازوں کو ملانا شروع کیا۔
بہت سے لوگوں نے سیاسی مسائل پر روشنی ڈالنے، اپنی شناخت کو اجاگر کرنے اور مذہبی تشدد کے لیے بھی موسیقی کا استعمال کیا۔
تاہم ناقدین نے بعض پنجابی موسیقاروں پر تشدد کو پرکشش بنانے اور نفرت کا پرچار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
گذشتہ سال قتل کیے جانے والے ریپر سدھو موسے والا اکثر ایسے گانوں کے باعث شہ سرخیوں کا حصہ بنتے تھے جنھیں سکھ عسکریت پسندی کو پروان چڑھانے کا سبب جانا جاتا ساتھ ہی ان پر گن کلچر کی ثقافت کو بڑھاوا دینے کا الزام لگایا جاتا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہپ ہاپ کے الفاظ خود تنقید کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔
ماہرین تعلیم ہرجیت گریوال اور سارہ گریوال ایک ایسی کتاب پر کام کر رہے ہیں جو عالمی تناظر میں سکھ ہپ ہاپ پر روشنی ڈالتی ہے۔
ان کے مطابق ’ہپ ہاپ مزاحمت کی موسیقی ہے جسے سیاہ فام امریکیوں کی سماجی، سیاسی اور معاشی حقیقتوں کے ساتھ ساتھ امریکہ میں اس حوالے سے موجود دوہرے معیار پر طنز کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
دوسری جانب بیرون ملک پرورش پانے والے پنجابیوں کے لیے موسیقی بھی ان کی شناخت کو ظاہر کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
’فنکاروں کو حالات سے نمٹنے کے لیے حساس ہونا چاہیے‘
کینیڈا میں مقیم سکھوں کی تعداد میں 1970 کی دہائی میں اس وقت اضافہ سامنے آیا جب انڈیا میں خالصتان کی تحریک زور پکڑنے لگی۔
تارکین وطن اور ان کی اگلی نسل کو نہ صرف نئی زندگیوں کا اغاز کرنا تھا بلکہ نسل پرستی اور اعتماد کے فقدان سے بھی نمٹنا تھا۔
بہت سے ہپ ہاپر ان تجربات کو عام فہم زبان (سٹریٹ لینگویج) میں بیان کر کے اس جدوجہد کی تجربات کو شیئر کرتے ہیں۔
ڈھلون کے ہٹ گانے براؤن منڈے کی ویڈیو میں انھیں دیگر ریپرز کے ساتھ میکینک ،فوڈ ڈیلیوری کے کچن اور تعمیراتی مقامات پر محنت مزدوری جیسے محنت طلب کام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
گریوال کہتے ہیں ’ایک فنکار نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے زندہ تجربات کا اظہار اپنی وراثت میں ملی ثقافت سے جڑ سکتا ہے بلکل ایسے ہی اسی موسیقی کو خوشی اور طنز کے اظہار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘
کینیڈا میں مقیم سنیماٹوگرافرز روپن بھردواج اور سوکرن پاٹھک دوسانجھ اور موسے والا جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ موسیقی شہری زندگی میں موجود تاریک اور تلخ حقیقتوں کو دکھانے کی بھی کوشش کرتی ہے۔
’موسیقی ان پنجابیوں کو اکٹھا کرتی ہے جنھوں نے ’گھر سے اپنے جغرافیائی فاصلے کو الگ کرنے کی اجازت دی ہوتی ہے تاہم ایک باہر والے کو یہ تصادم اور اشتعال انگیز معلوم ہو سکتا ہے۔‘
تاہم بنیاد پرست پنجابی دانشورانہ روایت کے مورخ سمیل سنگھ سدھو کا کہنا ہے کہ ممکنہ اشتعال دلانے والا مواد غیر ملک میں نوجوان پنجابیوں کے ’اجنبی پن‘ کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کینیڈا کے معاشرے کے ساتھ تعلق رکھنے کے بجائے ، بہت سے لوگوں کو چھوٹی عمر میں ہی ان روایات میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے وہ سکھ ہونے کی پہچان پر قائم رہ سکیں۔
ان کے مطابق ان کا یہ اٹوٹ تعلق کا اظہار انھیں ایذا رسانی کے احساس میں الجھانے کا باعث بن سکتا نرمیکا سنگھ کہتی ہیں کہ ذاتی نظریات کو پیشہ وارانہ کاموں پر حاوی ہونے دینا ہپ ہاپ موسیقاروں کو ایک مشکل مقام پر پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے۔
تاہم وہ ہ مزید کہتی ہیں کہ ان کے لیے سیاسی مسائل سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔
’زیادہ سیاسی تناؤ کے واقعات کے دوران بہت سی وجوہات اور معقولیت معطل ہو جاتی ہے اور لوگ پھر ہر چیز سے مشتعل ہو جاتے ہیں اس لیے فنکاروں کو حالات سے نمٹنے کے لیے حساس ہونا چاہیے۔‘