اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) انتخابات کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو ختم کرتے ہوئے عام انتخابات کا شیڈول نا صرف جاری ہو چکا ہے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی شروع ہو گیا ہے۔
ملک بھر میں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی وصولی شروع ہو چکی ہے جو 22 دسمبر تک جاری رہے گی، سپریم کورٹ آف پاکستان نے عام انتخابات کی راہ میں حائل تمام آئینی اور قانونی رکاوٹیں دور کر دیں۔
ماضی میں حلقہ بندیوں سے متعلق ہائیکورٹس کے فیصلے انتخابی عمل کو شدید متاثر کرتے رہے مگر اس مرتبہ عدالت عظمیٰ نے ایک اصول طے کر دیا ہے کہ انتخابی شیڈول آنے کے بعد انتخابی عمل کو ڈی ریل نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ حلقہ بندیوں سے متعلق اپیلیں انتخابات کے بعد سنی جائینگی، حلقہ بندیوں کے مسائل عام انتخابات سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے، صرف یہی نہیں بلکہ انتخابی شیڈول آنے سے قبل بھی سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے بیوروکریسی کے زیر انتظام انتخابات کرانے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو بحال کر دیا تھا۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار عمیر نیازی کو توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے واضح پیغام دیا گیا کہ انتخابی عمل کو ڈی ریل کرنے والے کسی بھی شخص یا ادارے کے خلاف کارروائی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے عام انتخابات کی 8 فروری 2024 کی تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دینے کے دعوے کو سچ کر دکھایا اور اپنے کہے کا پہرا دیا مگر وکلا کی چار بڑی تنظیمیں یعنی پاکستان بار کونسل، پنجاب بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حلقہ بندیوں اور لیول پلئنگ فیلڈ کے معاملے پر میدان کود پڑیں اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے خلاف اعلامیے جاری کر دیئے۔
چاروں وکلا تنظیموں نے سکندر سلطان راجہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انکی موجودگی میں شفاف انتخابات نہیں ہو سکتے، تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، آبادی کے تناسب سے حلقہ بندیاں درست طریقے سے نہیں کی گئیں، جہلم ، گوجرانوالہ اور ضلع راولپنڈی سمیت کئی اضلاع کی نشستوں کی تقسیم میں عدم توازن رکھا گیا۔
آبادی کے تناسب سے موجودہ حلقہ بندیاں انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہی ہیں مگر پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے، ان سیاسی جماعتوں کو شاید اس بات کا ادراک ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا اس مرحلے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد کیلئے مشکلا ت پیدا کر سکتا ہے۔
ترجمان تحریک انصاف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تحریک انصاف انتخابات کو التوا کا شکار کرنے کی کسی بھی کوشش کا حصہ نہیں بنے گی۔
وکلا تنظیموں کے یہ الزامات کیا واقعی جائز ہیں؟ سب سے پہلے تو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو لیول پلئنگ فیلڈ مل رہی ہے، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں میں سے ایک پاکستان تحریک انصاف شکوہ کرتی نظر آتی ہے کہ اسے اپنے امیدوار کھڑے کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
نگران کابینہ میں موجودہ کئی شخصیات پر الزام لگایا جا چکا ہے کہ ان کا تعلق ن لیگ سے ہے جبکہ سابق نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے الیکشن شیڈول جاری ہونے سے چند گھنٹے قبل استعفیٰ دے کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ آئندہ عام انتخابات میں حصہ لیا جا سکے، حالانکہ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت نگران کابینہ کا کوئی بھی رکن آنے والے عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔
سرفراز بگٹی کی سیاسی قسمت کا فیصلہ تو ریٹرننگ افسر یا اسکے بعد عدالتیں کرینگی جبکہ احد چیمہ اور فواد حسن فواد کا معاملہ الیکشن کمیشن میں آیا، الیکشن کمیشن کئی ہفتوں بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ احد چیمہ گزشتہ کابینہ کا حصہ رہے آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، نگران حکومتوں میں سیاسی جماعتوں سے وابستگی رکھنے والی شخصیات کی اس حد تک موجودگی پہلے نہیں دیکھی گئی۔
دوسری جانب ایگزیکٹو سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کا معاملہ ہے، اگرچہ اب اسکے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک ایسے وقت میں حلقہ بندیوں کی تکمیل اور ریٹرننگ افسروں کی تعیناتی کی ہے کہ ان پر نظر ثانی کا نتیجہ انتخابات کے بروقت انعقاد کو نقصان پہنچا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے نا صرف ریٹرننگ افسران سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا بلکہ حلقہ بندیوں سے متعلق درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حلقوں سے متعلق اعتراضات کو الیکشن کے بعد سنا جائے گا۔
مگر یہ الیکشن کمیشن اور ایگزیکٹو سے لئے گئے ریٹرننگ افسران کا امتحان ہے کہ وہ عام انتخابات کا انعقاد ناصرف شفاف طریقے سے کرائیں بلکہ یہ شفاف نظر بھی آنے چاہئیں ورنہ زہر آلود سیاسی ماحول میں کسی بھی قسم کا منفی تاثر جلتی پر تیل کا کام کر سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر سیاسی عدم استحکام اور سیاسی انتشار کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
لیول پلئنگ فیلڈ سے جڑا ایک معاملہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی ہیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر چکا ہے اور تحریک انصاف سے پارٹی انتخابات سے متعلق 40 سوالات کے جوابات مانگے گئے ہیں، اگر اس کیس کے منفی اثرات تحریک انصاف کے انتخابی نشان بلے پر آتے ہیں تو یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا دیگر سیاسی جماعتوں کے انتخابات کو جانچنے کا پیمانہ بھی یہی ہے یا نہیں۔
ان سوالات اور اعتراضات کو نظر انداز کر کے انتخابات تو ہو جائیں گے مگر 8 فروری 2024 کے بعد ملک میں سیاسی استحکام لانا شاید ایک خواب ہی رہے گا ملک جسکا اب متحمل نہیں ہو سکتا۔