پاکستان کی ٹیم تو ورلڈ کپ سے باہر ہو چکی ہے تاہم پاکستانی شائقین ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ مرحلے کو بڑے انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔
انڈیا نے گذشتہ روز نیوزی لینڈ کو 70 رنز سے شکست دے کر ورلڈ کپ کی تاریخ میں چوتھی مرتبہ فائنل میں جگہ بنا لی تھی۔
تاہم اس میچ سے پہلے تنازع اس وقت بنا تھا جب ایک برطانوی جریدے دی ڈیلی میل کی جانب سے ایک خبر شائع کی گئی تھی جس میں انڈیا پر سیمی فائنل کے لیے آئی سی سی کی منظوری کے بغیر پچ تبدیل کرنے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
عموماً آئی سی سی ٹورنامنٹس میں پچ کی دیکھ بھال اور اس کی نوعیت کے حوالے سے ذمہ داری آئی سی سی کی جانب سے نامزد کیے گئے آزاد نمائندے کی ہوتی ہے۔
یہ تنازع ابھی تھما نہیں تھا کہ پاکستان کے سابق کرکٹر سکندر بخت کی جانب سے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا گیا جس میں انھوں نے ٹاس کے وقت انڈین کپتان پر ٹاس کے وقت سکہ ایک مخصوص انداز میں پھینکنے کا الزام عائد کیا۔
سکندر بخت نے یہ ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے پہلے میزبان سے کہا کہ کیا میں ایک شرارت کر سکتا ہوں اور پھر کہا کہ ’وہ (روہت) ہمیشہ سکہ اچھالتا ہے اور حریف ٹیم کا کپتان کبھی فائنل نتیجہ دیکھنے نہیں جاتا۔‘ یہ ویڈیو انھوں نے اپنے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے شیئر بھی کی۔
تاہم اس تنازعے کے حوالے سے بھی متعدد سابق کھلاڑیوں نے تردید بھی کی اور پاکستانی سابق کرکٹرز کی جانب سے اس قسم کے الزامات عائد کرنے پر تنقید بھی کی گئی۔ وسیم اکرم نے کہا کہ ’مجھے اس قسم کی باتیں سن کر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔‘
اس سے قبل حسن رضا کی جانب سے بھی انڈین بولرز کو مختلف گیندیں دینے کے حوالے سے تنازع کھڑا ہوا تھا جس پر سابق کپتان وسیم اکرم سمیت کئی سابق کرکٹرز اور خود محمد شامی نے بھی وضاحت پیش کی تھی اور تنقید بھی کی تھی۔
خیال رہے کہ ورلڈ کپ کی میزبان ٹیم ہونے کا فائدہ، گراؤنڈ میں شائقین سے ملنے والی زبردست حمایت، پچ اور موسم کی اچھی معلومات وہ تمام عوامل ہیں جو انڈین ٹیم کی اس ٹورنامنٹ میں مدد کرتے آئے ہیں۔
ٹیم انڈیا کے سات سے آٹھ کھلاڑی زبردست فارم میں ہیں اور انہی وجوہات کی بنا پر سابق کوچ روی شاستری نے اپنے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’(ٹیم انڈیا کے لیے) یہ ورلڈ کپ جیتنے کا صحیح وقت ہے۔‘
دوسری جانب سوشل میڈیا پر چند افراد انڈین ٹیم کی ان پے در پے کامیابیوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے افراد کا اعتراض خالصتاً انڈین ٹیم کی انتہائی عمدہ بولنگ پر ہے جس کا اظہار ہم نے پورے ٹورنامنٹ میں دیکھا ہے۔
ٹورنامنٹ میں انڈیا کی بہترین بولنگ اور پاکستان میں تنازع کا آغاز
انڈین کرکٹ ٹیم کی مضبوط بلے بازی کی ایک طویل روایت رہی ہے لیکن رواں برس پہلی مرتبہ انڈین بولرز نے اس ٹورنامنٹ میں بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
انڈیا کے پاس محمد شامی، محمد سراج اور جسپریت بمراہ جیسے تیز بولرز ہیں جو بڑی سے بڑی مدمقابل ٹیم کو کچل کر رکھ سکتے ہیں، اور اس کا اظہار انھوں نے اس ورلڈ کپ کے لیگ میچوں میں متعدد مرتبہ کیا اور داد سمیٹی۔
اور ان کے ساتھ کلدیپ یادو اور جدیجہ جیسے دو سپنرز بھی جن کا سامنا حریف ٹیموں کے لیے پورے ٹورنامنٹ میں ایک بڑا چیلنج رہا ہے۔ اس لیے کرکٹ ماہرین کی متفقہ رائے یہی ہے کہ انڈین ٹیم کے پاس اب تک کا سب سے مضبوط بولنگ اٹیک موجود ہے۔
تاہم ان تمام تر کامیابیوں کے باوجود انڈین بولنگ اٹیک کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کی ابتدا پاکستان سے اس وقت ہوئی جب سابق پاکستانی کرکٹر حسن رضا نے انڈین ٹیم کے سری لنکا کو 55 رنز پر آؤٹ کرنے کے بعد شکوک کا اظہار کیا۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں چلنے والے حسن رضا کے انٹرویو میں انھیں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ انڈین بولرز کو دی گئی گیندوں کے حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں۔ انڈین بولرز گیند کو زیادہ سوئنگ کر رہے ہیں۔ رضا نے دعویٰ کیا کہ میتھیوز بھی ممبئی کے میچ میں شامی کی سوئنگ دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔
ان کا مزید دعویٰ تھا کہ انڈین بولرز کو دوسری اننگز میں آئی سی سی یا بی سی سی آئی سے مدد مل رہی ہے اور انھیں دوسری گیند دی جا رہی ہے جو زیادہ سوئنگ کر رہی ہے۔ ’مجھے لگتا ہے کہ تھرڈ امپائر بھی انڈین ٹیم کی مدد کر رہے ہیں۔‘
حسن رضا کا موقف تھا کہ انڈین بولرز کو شائننگ گیند ملتی ہے جو انھیں سوئنگ کرنے میں مدد دیتی ہےاور اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
وسیم اکرم کی تردید اور گیند کی تبدیلی کے بارے میں قوانین
پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی اس نوعیت کے خدشات کو مضیحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور جو باتیں کر رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں جو جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔
پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے حسن رضا کی جانب سے اٹھائے گئے شکوک کا جواب دے دیا ہے۔
ایک نجی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں وسیم اکرم نے کہا کہ ’میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کو انڈین کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر شک ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’گیند کو منتخب کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ چوتھا امپائر 12 گیندوں کے باکس کے ساتھ میدان میں آتا ہے۔ اگر ٹاس جیتنے والا کپتان پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اس ٹیم کا کپتان میدان میں موجود تھرڈ امپائر کے سامنے دو گیندوں کا انتخاب کرتا ہے۔‘
اس کے بعد فیلڈ امپائر ایک گیند کو دائیں جیب میں رکھتا ہے اور دوسری گیند بائیں جیب میں، باقی گیندیں چوتھا امپائر لے جاتا ہے۔ دوسری اننگز میں بھی اسی طرح اس ڈبے سے فیلڈنگ ٹیم کا کپتان دو نئی گیندوں کا انتخاب کرتا ہے۔‘
ان تمام تنازعات کے پسِ منظر میں ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ٹی ٹوئنٹی، ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں کتنی گیندوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک میچ میں کتنی گیندیں استعمال ہوتی ہیں؟
ٹی20 میچ کی ہر اننگز میں ایک نئی گیند کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ٹیسٹ میچ میں 80 اوورز کے بعد نئی گیند کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
آئی سی سی کے نئے قوانین کے مطابق ون ڈے میچوں میں ہر اننگز میں دو گیندیں استعمال کی جاتی ہیں۔
اس سے پہلے ایک اننگز میں صرف ایک گیند کا استعمال کی جاتی تھی لیکن 2011 میں آئی سی سی نے اس اصول کو تبدیل کر دیا تھا۔
اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ سفید گیند جلدی خراب ہو جاتی ہے اور چمڑے کی گیند پر سلائی پھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے، اور اس کی رنگت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔
اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے آئی سی سی نے فیصلہ کیا کہ ہر اننگز میں دو گیندیں استعمال کی جائیں۔ بولنگ ٹیم فیصلہ کرتی ہے کہ دونوں گیندوں کا خیال کیسے رکھا جائے گا۔
سفید گیند ابتدائی طور پر سرخ گیند سے زیادہ سوئنگ کرتی ہے لیکن عموماً پانچ سے 10 اوورز کے بعد گیند کی سوئنگ ہونا بند ہو جاتی ہے۔
اس سے قبل ون ڈے کرکٹ میں امپائرز کو 35 سے 36 اوورز کے بعد گیند کو تبدیل کرنا پڑتا تھا۔
کرکٹ میچ کے دوران بلے باز کی شاٹ لگانے پر گیند میدان سے باہر بھی جا سکتی ہے یا میدان میں موجود تماشائیوں کے درمیان گم ہو سکتی ہے۔ اس وقت امپائر نئی گیند نہیں دیتا بلکہ وہ گیند دیتا ہے جو اتنی ہی پرانی ہوتی ہے۔
خیال رہے امپائر کے باکس میں مختلف اوورز تک استعمال ہونے والی گیندیں موجود ہوتی ہیں۔
اگر گیند باز یا بولنگ ٹیم کا کپتان شکایت کرتا ہے کہ گیند کی شکل خراب ہے تو امپائر گیند کا معائنہ کر کے نئی گیند دے سکتا ہے
اگر امپائر سے گیند کو تبدیل کرنے کی اپیل کی جاتی ہے، تو میدان میں موجود امپائر آئی سی سی کرکٹ بال رول نمبر 4.5 کے مطابق گیند کا معائنہ کرتا ہے۔
گیند کو چیک کرنے کے لیے ’گیج سکیل رِنگ‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ گیند کے فریم اور سائز کی پیمائش کرتا ہے۔ گیند کو تبدیل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے اگر گیند کی شکل خراب ہے، سلائی پھٹ گئی ہے یا طویل استعمال کے بعد تقسیم ہو گئی ہے تو اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
گیند کو تبدیل کرتے وقت، امپائر فیلڈنگ ٹیم کے کپتان اور بلے بازوں کو مطلع کرتا ہے۔ آئی سی سی کے قوانین کے مطابق اگر گیند کھیلنے کے قابل نہ ہو تو شکل بدل گئی ہو یا وزن کم ہو تو اسے تبدیل کیا جاتا ہے۔
گیند کے سائز کو جانچنے کے لیے استعمال ہونے والی ’بال گیج‘ کی انگوٹھی کا ایک فریم گیند کے سائز سے بڑا اور دوسرا گیند کے سائز سے تھوڑا چھوٹا ہوتا ہے۔ امپائر ان فریمز میں سے گیند کو گزار کر اس کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے کہ آیا یہ ٹھیک بھی یا نہیں۔