پنجاب کے شہر فیصل آباد کی تحصیل چک جھمرہ سے لگ بھگ دو کلومیٹر کے فاصلے پر کھرڑیانوالہ روڈ پر چک نمبر 188 ’رب نَلے والا‘ واقع ہے۔ علامہ اقبال کے’خادمِ خاص‘ علی بخش اسی گاؤں کے قبرستان میں دفن ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام یہاں پر گزارے اور یہیں دو جنوری 1969 کو اُن کی وفات ہوئی۔
اس گاؤں کی آبادی سڑک کے دونوں اطراف پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں انڈیا کے شہر ہوشیار پور سے نقل مکانی کر کے آنے والے چند خاندان بھی آباد ہیں اور علی بخش کا خاندان بھی ان میں سے ایک ہے۔
علی بخش کون تھے اور یہاں کیسے پہنچے؟
علی بخش کے چھوٹے بھائی کا نام مہر دین تھا۔ مہر دین کے بیٹے محمد اقبال (یعنی علی بخش کے بھتیجے) کو علی بخش نے اپنا بیٹا بنایا اور پالا پوسا۔
محمد اقبال کے بیٹے زاہد اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارا خاندان ضلع ہوشیارپور کے علاقہ اٹل گڑھ میں رہتا تھا جہاں گھر میں غربت تھی۔ لاہور میں ایک گھڑی ساز نے ہمارے دادا علی بخش کو کام کے سلسلے میں لاہور بلوایا تھا۔ایک روز جب علی بخش علامہ اقبال کے پاس پہنچے تو انھوں نے دیکھ کر کہا ’منڈیا تو کم کر لیئں گا‘ (یعنی لڑکے تم کام کر لوگے؟)۔ اس وقت علی بخش کی عمر لگ بھگ 11، 12 سال تھی۔
علامہ اقبال کے فرزند جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’اپنا گریباں چاک‘ میں لکھا ہے کہ ’علی بخش نے غالباً 1900 میں میرے والد کے پاس ملازمت اختیار کی۔ سنہ 1905 میں جب میرے والد تعلیم کی خاطر انگلستان گئے تو انھیں اپنے بھائی شیخ عطا محمد کے پاس چھوڑ گئے۔‘
’مگر وہ زیادہ عرصہ ان کے ساتھ نہ رہے اور بعد ازاں 1908 میں جب میرے والد واپس آئے اور وکالت شروع کی تو ان کو دوبارہ بلا لیا۔‘
آج جس گھر میں زاہد اقبال اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں، یہ لگ بھگ ایک کنال جگہ پر مشتمل ہے۔ یہ جگہ علی بخش نے خرید کر خود گھر بنایا تھا۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اسی چک میں آ کر قیام پذیر ہو گئے تھے جہاں ان کو زرعی زمین الاٹ ہوئی تھی۔
’علی بخش میں تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا‘
جاوید اقبال اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ ’علی بخش نے ساری عمر شادی نہ کی‘ تاہم علی بخش کے خاندان کے مطابق ایسا نہیں تھا۔
زاہد اقبال کے مطابق ’علی بخش نے شادی کی مگر ان کی بیوی جلد ہی فوت ہو گئیں، البتہ انھوں نے کبھی دوسری شادی نہ کی۔‘
زاہد اقبال نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’اگر دادا جی (علی بخش) دوسری شادی کر لیتے تو علامہ صاحب کی خدمت کون کرتا۔ وہ اُن کو مذاق میں کہتے تھے علی بخش! تمھارے لیے ولایت سے میم لاؤں گا۔ ہمارے خاندان والے بتاتے ہیں کہ دادا جی، علامہ صاحب سے دوسری شادی کی بات کرتے رہتے تھے۔‘
علامہ اقبال کی وفات کے بعد اُن کی فیملی نے علی بخش کا کتنا خیال رکھا؟
زاہد اقبال بتاتے ہیں کہ ’آفتاب اقبال، دادا جی کو یومِ اقبال پر کراچی بلایا کرتے تھے مگر ہمارا رابطہ جاوید اقبال کی فیملی سے نہیں۔ البتہ آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال چک میں آتے ہیں اور دادا جی کی قبر پر فاتحہ بھی کرتے ہیں۔‘
آفتاب اقبال کے بیٹے آزاد اقبال جو بیرون ملک مقیم ہیں، نے ہمیں بتایا کہ ’میرے لیے بڑی خوشی کا مقام تھا جب میں علی بخش کی فیملی کے ہاں گیا تھا۔ میں مستقبل قریب میں دوبارہ اُن کے ہاں جانے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔‘
علامہ اقبال کے چاہنے والوں میں سے آپ کے خاندان سے کن کا رابطہ زیادہ رہا؟ اس سوال کے جواب میں زاہد اقبال کا کہنا ہے ’صوفی برکت علی کا ہمارے ہاں آنا جانا زیادہ تھا۔ میرے والد کی وفات تک کوئی نہ کوئی آتا رہتا تھا، بعد میں کوئی نہ آیا۔‘
علامہ اقبال کے کبوتر اور استعمال کی اشیا
علامہ اقبال کو کبوتروں سے خاص اُنسیت تھی۔ علی بخش نے جب اپنا گھر بنوایا تو وہاں بھی کبوتر رکھے، جو آج بھی موجود ہیں۔
زاہد اقبال نے علامہ اقبال کی چھڑی، چائے کا کپ، دو چاندی کے کڑے اور سر پر باندھنے والا کپڑا جو بہت نفاست سے محفوظ کیے ہوئے تھے، کی بابت بتایا کہ ’یہ ساری چیزیں علامہ صاحب نے داداجی کو دی تھیں۔ چاندی کے کڑے ولایت سے لائے تھے۔ ہم نے سر پر باندھنے والے کپڑے کو آج تک اس غرض سے نہیں دھویا کہ اس پر علامہ صاحب کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں۔‘
زاہد اقبال نے بتایا کہ ’جب راتوں کو علامہ صاحب لکھتے لکھتے تھک جاتے تو میرے دادا کو بلاتے اور کہتے کہ ایکسرسائز والی مشین لاؤ، اس سے وہ اپنی انگلیوں کو سہلاتے۔‘
مذکورہ ساری اشیا جو علامہ اقبال کے استعمال میں تھیں اور اب علی بخش کے خاندان کے پاس محفوظ ہیں اور اس کی تصدیق آزاد اقبال نے بھی کی۔
چک کا وہ شخص جس کو علی بخش کی باتیں یاد ہیں
اس گاؤں کے پرانے رہائشی محمد رفیق ایک دربار کے متولی ہیں۔ دربار سے ملحقہ قبرستان میں ہی علی بخش مدفون ہیں۔ محمد رفیق کے مطابق انھوں نے علی بخش کا اخیر زمانہ دیکھ رکھا ہے۔
انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’میری تاریخ پیدائش تو 1943 کی ہے مگر شناختی کارڈ پر 1947 ہے۔ میں نے لڑکپن اور جوانی میں بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ جو دونوں سگے بھائی تھے، کے تکیے پر علی بخش کو بیٹھے دیکھا اور ان کی باتیں بھی سُنی ہوئی ہیں۔‘
واضح رہے کہ بابا غلام محمد اور بابا انور شاہ کے دربار میں ایک قدیمی بوہڑ کا پیڑ ہے جس کے نیچے گاؤں کے بزرگوں کی محفلیں جما کرتی تھیں۔
محمد رفیق نے بتایا کہ ’میں جانوروں کا چارا کاٹ کر لایا کرتا اور تکیہ میں رُکتا تو علی بخش بعض مرتبہ وہاں بیٹھے ہوتے۔ مجھے اُن کی چند باتیں یاد ہیں۔ ایک بار اُنھوں نے بتایا کہ ڈاکٹر علامہ صاحب کے پاس بڑے اہم لوگ آیا کرتے تھے، ایک بار مجھے ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ علی بخش تم کو کچھ چاہیے؟‘
’میں نے کہا سرکار، مجھے کچھ نہیں چاہیے، جب انھوں نے اصرار کیا تو میں نے کہا مینوں اک مُٹھ مٹی دی دے دیو، (مجھے مٹھی بھر مٹی دے دیں) تو علامہ صاحب نے یہاں چک میں 27 پیلیاں (ایک مربعہ) زمین الاٹ کروا دی۔‘
محمد رفیق نے ایک اور واقعہ بھی بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’علی بخش کے مطابق وہ ساری رات ڈاکٹر صاحب کی خدمت کے لیے چوکس رہتے، اپنے آخری ایام میں وہ رات کو کم سوتے، قرآن مجید پڑھتے یا پھر لکھتے۔‘
’ایک رات جب وہ کافی دیر تک لکھتے رہے تو میں نے گرم قہوہ پیش کیا تو اُنھوں نے کہا علی بخش، میری بیگم ہوتی تو وہ بھی اتنا خیال نہ رکھتی۔‘
ایک مربعہ زمین اور قبضے کی کہانی
مذکورہ چک میں ایک مربعہ زمین علی بخش کو علامہ اقبال کے کہنے پر الاٹ ہوئی؟ اس حوالے سے جاوید اقبال، اپنی خودنوشت سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ ’میرے والد کی خدمت کے اعتراف کے طور پر صدر سکندر مرزا نے غالباً سنہ 1958میں ضلع فیصل آباد کے کسی چک میں دو مربعہ اراضی عطا کی۔ جو اب بھی ان کے بھائی کی اولاد کے قبضے میں ہے۔ علی بخش کی وفات وہیں غالباً 1973میں ہوئی۔‘
جاوید اقبال نے دو مربعہ اراضی کی بات کی جبکہ علی بخش کے پوتے زاہد اقبال اور چک کی بعض اہم شخصیات کے مطابق یہ زمین ایک مربعہ ہے۔ جاوید اقبال نے وفات کا سنہ 1973 لکھا جبکہ یہ سنہ 1969 ہے۔
علی بخش کو جو زمین الاٹ ہوئی تھی اس پر مقامی لوگوں نے قبضہ کر لیا تھا اور وہ قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ یہ قبضہ قدرت اللہ شہاب جب جھنگ میں جب بطور ڈپٹی کمشنر آئے تو انھوں نے چھڑوایا۔ اس کا تذکرہ ’شہاب نامہ‘ میں موجود ہے۔