پریکٹس اینڈ پروسیجرز ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے اور اس کے سپریم کورٹ کی انتظامی صورتحال پر اثرات کے بارے میں مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے کثرت رائے سے اس ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے تاہم اس ایکٹ میں شامل ایک شق، جو کہ ماضی میں از خود نوٹسز پر دیے گئے فیصلوں کے خلاف اپیلوں سے متعلق تھی، کو کثرت رائے سے کالعدم قرار دیا ہے۔
بعض آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عدالتی فیصلے سے عدلیہ میں ایک شخص یعنی چیف جسٹس کی اجارہ داری ختم ہو گئی ہے جبکہ کچھ کے مطابق اس ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کر کے پارلیمان کو عدالتی امور میں ’مداخلت کرنے‘ کا اختیار دے دیا گیا ہے۔
’ماضی کے چیف جسٹس اپنے اختیارات کی طرف دیکھنے بھی نہیں دیتے تھے‘
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اس فیصلے کے بارے میں کہا کہ اس سے عدلیہ ’مضبوط اور خود مختار‘ ہو گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اس عدالتی فیصلے میں عدلیہ نے پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا ہے اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ اور پارلیمان اس معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے لے کر حال ہی میں سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال تک کے ادوار میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز میں ایک واضح صف بندی نظر آتی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ انھی ججز کی طرف سے کیے جانے والے فیصلوں سے ملک سیاسی اور معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوا ہے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ سروسیجر ایکٹ کے فیصلے کے بعد موجودہ چیف جسٹس کی پوزیشن کمزور نہیں ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انھوں نے اس معاملے میں فل کورٹ تشکیل دے کر اور پھر ان درخواستوں کی سماعت کو ٹی وی پر براہِ راست دکھا کر فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ان ججز کے چہروں کو پہچان لیں جو ملک اور پارلیمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور جو اپنے ذاتی ایجنڈے کو لے کر اپنی مرضی کے فیصلے عوام پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ سابق چیف جسٹس صاحبان کے ’ہم خیال ججز اپنا ذہن اس بات پر تیار کر کے بیٹھے تھے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تعیناتی کے 13 ماہ گزرنے کے بعد وہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو واپس لے آئیں گے لیکن ان کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔‘
کیا عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ٹکراؤ ختم ہوگا؟
سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس کے مطابق سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو مجموعی طور پر مسترد کر کے پارلیمان کے لیے سپریم کورٹ کے امور میں مداخلت کے دروازے کھول دیے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مستقبل میں جب بھی کبھی سپریم کورٹ اور پارلیمان کا ٹکراؤ ہو گا تو وہ عدالتی معاملات میں مداخلت قانون سازی کرے گی اور اس ضمن میں سپریم کورٹ سے مشاورت کے امکانات بھی بہت کم نظر آ رہے ہیں۔‘
احمد اویس کا کہنا تھا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بھی عدلیہ اور پالیمان ٹکراؤ کے نتیجے میں ہی بنایا گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان صوبوں میں بروقت انتخابات سے متعلق سپریم کورٹ نے جو از خود نوٹس لے کر اس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا تھا اس پر ہی اس وقت کی حکومت اور سپریم کورٹ میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے جس کی بنا پر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو پارلیمان سے منظور کروایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کیے جانے کا عدالتی فیصلہ مستقبل کے ججز پر بھی لاگو ہو گا جب تک پندرہ رکنی بینچ سے کوئی بڑا سپریم کورٹ کا بینچ اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں میں اس کے خلاف فیصلہ نہیں دے دیتا۔
واضح رہے کہ اس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ پانچ کے مقابلے میں دس کے تناسب سے آیا تھا جبکہ اس ایکٹ کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل دینے کے حق کا فیصلہ نو-چھ کے تناسب سے اور ماضی میں از خود نوٹس پر کیے گئے فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی اپیل کو مسترد کرنے کا فیصلہ آٹھ-سات کے تناسب سے سامنے آیا تھا۔
احمد اویس کا کہنا تھا کہ وکلا برادری شروع دن سے ہی اس نقطے پر متفق تھی کہ مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل کے معاملے پر چیف جسٹس کو دیگر سینئیر ججز کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر تین معاملات میں ججز میں جو تقسیم نظر آئی ہے اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی پوزیشن ویسی مضبوط نہیں ہے جیسی ان کا عہدہ سنبھالنے کے بعد تصور کی جا رہی تھی۔‘
سابق ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ ’مستقبل میں عدلیہ اور پارلیمان کا جب بھی ٹکڑاؤ ہو گا تو اس ٹکڑاؤ کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان جس فریق کو ہو گا وہ سپریم کورٹ ہی ہو گی۔‘
سپریم کورٹ میں مقدمات کی کوریج کرنے والے صحافی ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ جب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تھی تو اس وقت ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ ان درخواستوں پر فیصلہ متفقہ نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ان درخواستوں کی سماعت کرنے والوں میں وہ سات جج بھی شامل تھے جو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں قائم آٹھ رکنی بینچ کا حصہ تھے جنھوں نے محض مختصر سماعت کر کے اس ایکٹ کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ اس آٹھ رکنی بینچ میں شامل جسٹس مظہر علی اور جسٹس اظہر حسن رضوی نے بعد ازاں فل کورٹ میں سماعت کے دوران اپنے مؤقف کو تبدیل کیا اور پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کیا۔
انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ ان کے لیے حیران کن تھا۔
ناصر اقبال کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران زیادہ تر سوالات ان ججز کی طرف سے کیے گئے جنھوں نے مستقبل میں چیف جسٹس بننا ہے۔
ان ججز میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں اور یہ تینوں ججز ان پانچ اقلیتی ججز میں شامل ہیں جنھوں نے اس ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ سماعت کے دوران یہ تینوں ججز جس طرح کے سوالات کر رہے تھے، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ بطور چیف جسٹس اپنے اختیارات میں کسی اور کو شامل نہیں کرنا چاہتے۔
واضح رہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اگلے سال اکتوبر میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کے بعد جسٹس اعجاز الااحسن پاکستان کے نئے چیف جسٹس ہوں گے۔
جسٹس اعجاز الااحسن سینیارٹی کے اعتبار سے چیف جسٹس کے بعد تیسرے نمبر پر ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود جو سنیارٹی کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہیں، موجودہ چیف جسٹس کی موجودگی میں ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔
ناصر اقبال کا کہنا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں ججز کے درمیان جو تقسیم ہے اس سے موجودہ چیف جسٹس کی پوزیشن کمزور نہیں ہو گی چونکہ ابھی بھی انتظامی اختیارات چیف جسٹس کے پاس ہی ہیں۔