Australian war Memorial

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں

 

Rowan Morris
رون مورس

 

آپریشن جے وک ایک دلیرانہ منصوبہ تھا جو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادیوں کے سب سے کامیاب سبوتاژ آپریشنز میں سے ایک تھا۔

اس آپریشن کی کہانی کسی ایکشن فلم جیسی لگتی ہے: 14 برطانوی اور آسٹریلوی کمانڈوز آسٹریلیا سے ہزاروں کلومیٹر دور ایک کشتی کے ذریعے سنگاپور پہنچتے ہیں جو اس وقت جاپان کے قبضے میں تھا۔

ان کمانڈوز کو لنگیاں پہنا کر چہرے پر بھورا رنگ ملنے کو کہا گیا تاکہ وہ مقامی مچھیرے لگیں۔ پھر انھوں نے اپنی کشتی سنگاپور سے کچھ دور چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں ایک بندرگاہ میں گھسنا تھا۔

اس مشن کا آخری لمحہ وہ تھا جس میں ان کمانڈوز نے جاپانی بحری جہازوں پر ٹائم بم لگا کر وہاں سے غائب ہونا تھا۔

یہ کام 26 ستمبر 1943 کی رات کو ہوا جس کے اگلے دن سات بحری جہاز 30 ہزار ٹن سامان سمیت تباہ ہوئے یا ڈوب گئے۔

یہ 14 افراد کامیابی سے آسٹریلیا واپس پہنچے جہاں انھوں نے اپنے 48 دن کے سفر کی کہانی سنائی جس کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب ایک جاپانی جنگی جہاز انڈونیشیا کے پانیوں میں ان کے بہت قریب سے گزرا تو کمانڈوز دھماکہ خیز مواد سے لدی ہوئی اپنی کشتی کو تباہ کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے۔

BRIAN YOUNG
ریڈیو آپریٹر ہوری ینگ کی 1999 میں وفات ہوئی

80 سالہ برائن ینگ اسی عملے میں شامل ریڈیو آپریٹر ہوری ینگ کے بیٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد نے ایک صحافی کو بتایا کہ اگر ہم ایسا کرتے تو ہمای کشتی کے ساتھ جاپانی جہاز بھی تباہ ہو جاتا لیکن وہ جہاز چلا گیا اور ان سب نے اپنی قسمت پر شکر ادا کیا۔‘

اس پرخطر مشن کو 80 سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک یہ ایک مشہور موضوع ہے جس پر لاتعداد کتابیں، ڈاکومنٹریز، ٹی وی اور فلمیں بن چکی ہیں۔ کریٹ، وہ کشتی جس پر ان کمانڈوز نے سفر کیا تھا، 1988 سے آسٹریلیا کے نیشنل میری ٹائم میوزیئم میں موجود ہے۔

بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’دشمن کی دفاعی لائن کے دو ہزار میل پیچھے ایسے جرات مندانہ مشن کی منصوبہ بندی اور تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔‘

اس مشن کو ٹاسک فورس زیڈ سپیشل یونٹ کی مدد سے مکمل کیا گیا تھا جو اتحادیوں کی جانب سے سبوتاژ کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ یونٹ تھی۔ اس کے سربراہ کیپٹن ایوان لیون تھے جنھوں نے مشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کو چنا اور پھر ان کی تربیت کی۔

سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ملٹری سٹڈیز کے این لی کا خیال ہے کہ آپریشن جے وک ایسی جنگی حکمت عملی کی مثال ہے جس میں غیر روایتی طریقوں سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

روس کیخلاف یوکرین کی سپیشل فورسز کے چھوٹے دستوں کے حملوں کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جے وک کی طرح ان حملوں کی علامتی اہمیت ہوتی ہے جس سے دشمن کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ آپریشن جے وک سے بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکا کیوںکہ زیادہ تر جاپانی جنگی جہاز ہفتوں میں مرمت ہونے کے بعد قابل استعمال ہو چکے تھے۔

تاہم اس حملے کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہوا کیوںکہ یہ بندرگاہ ایک محفوظ مقام مانا جاتا تھا جہاں تک اتحادی فوج کی رسائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔

بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’جاپانی کبھی یہ دریافت ہی نہیں کر پائے کہ یہ حملہ کیسے ہوا جس کا مطلب تھا کہ جنگ کی باقی ماندہ مدت کے دوران کافی وقت اور افرادی قوت اس بندرگاہ کو محفوظ بنانے پر استعمال ہوئی جو کہیں اور نہیں لڑ سکتی تھی۔‘

تاہم اس حملے کے نتائج سنگاپور میں بسنے والے عام شہریوں کو بھگتنا پڑے کیوں کہ اتحادیوں نے اس آپریشن کی خبر عام کرنے کا فیصلہ تبدیل کر دیا تاکہ وہ مستقبل میں ایسے ہی حملے کر سکیں۔ جاپانی حکام کو یقین تھا کہ مقامی جیل کے قیدی ہی اس حملے کے ذمہ دار ہیں اور 10 اکتوبر کو 57 قیدیوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔

ان میں سے 15 تشدد سے ہلاک ہو گئے جسے ڈبل ٹینتھ واقعہ کہا جاتا ہے۔

جب برائن ینگ پیدا ہوئے تو ان کے والد اسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اپنے جنگی تجربات پر شازونادر ہی بات کیا کرتے تھے۔ ’ایک بات وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ انھیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مقامی لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔‘

1944 میں لیون کی سربراہی میں، جو اس وقت تک لیفٹینینٹ کرنل بن چکے تھے، اس بندرگاہ پر ایک اور حملے کی کوشش کی گئی لیکن اس بار جاپانیوں نے بروقت انھیں دیکھ لیا۔ 23 افراد پر مشتمل اس ٹیم کے تمام اراکین مارے گئے یا انھیں گرفتار کرنے کے بعد مار دیا گیا۔

کریٹ کشتی کا عملہ تو اب نہیں رہا لیکن یہ ایسی کہانی ہے جس کی بازگشت ان کے بچوں میں اب بھی سنائی دیتی ہے۔

 

برائن ینگ کہتے ہیں کہ ’میرے والد اور ان کے ساتھی ایک جیسے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ اس مشن پر جانے والے آرتھر جونز اکثر ان سے ملنے آتے اور ’وہ دونوں اس وقت کو یاد کرتے جب انھیں اپنے جسم پر رنگ ملنا پڑا تھا۔‘

’وہ کہتے تھے کہ اگر کوئی جاپانی ہم سے 100 میٹر قریب تک آ جاتا تو وہ جان لیتا کہ ہم مقامی نہیں۔‘

رون مورس کے بیٹے ایوان مورس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی وفات کے بعد ہی میں نے اس مشن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ یہ بہادری کی کہانی ہے۔‘

Australian war Memorial

ان کی تحقیق اب ایک کتاب کی صورت میں چھپی ہے جس کا نام ’دی ٹائیگرز ریونج‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ کتاب انھوں نے اپنے خاندان اور پوتوں کے لیے لکھی ہے۔

رون مورس نے بھی جنگ کے بارے میں زیادہ بات نہیں کی لیکن ان کے بیٹے کو ان کی ایک بات یاد ہے: ’ہیرو نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اگر آپ کو ڈر نہیں لگ رہا تو آپ بیوقوف ہیں۔‘

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *