ہمارے سپہ سالار کے شب و روز
اگر وہ کسی نیم نارمل ملک کے سپہ سالار ہوتے تو صبح ناشتے کی میز پر اپنے سرحدی کمانڈورں کی رپورٹ ملتی کہ کسی دشمن نے رات کے اندھیرے میں بھی ہماری طرف میلی نظر سے نہیں دیکھا۔
دفتر پہنچتے، کافی پیتے، دن کے ایجنڈے پر ایک نظر ڈالتے، معمول کی میٹنگ کی صدارت کرتے، کسی کو شاباش دیتے، کسی کو ڈانٹ پلاتے۔
پھر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر ایک فوجی مشق کا جائزہ لیتے، جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے، ان کے ساتھ گھل مل جاتے، پاکستان زندہ باد کے نعرے لگواتے، دوپہر کا کھانا کسی آفیسرز میس میں تناول کرتے یا جوانوں کے ساتھ بڑے کھانے میں شریک ہوتے، پھر ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر کسی سرحدی چوکی کا دورہ کرتے، توپوں ٹینکوں کا تیل پانی چیک کرتے۔
سہ پہر کو دفتر واپس آتے۔ کسی بیرونی مک سے آئے ہوئے اپنے ہم منصب سے مذاکرات کرتے، شیلڈ پیش کرتے، وصول کرتے، تصویر بنواتے۔ بیچ میں اگر کوئی سیاستدان، کوئی صحافی، کوئی سیٹھ رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تو سٹاف آفیسر ڈانٹ پلا دیتا کہ ہم وزارت دفاع کے اندر آتے ہیں، کچھ پوچھنا ہے تو وہاں رابطہ کرو۔
آخری فائل پر نوٹ لکھتے، ٹھیک پانچ بجے دفتر سے اٹھتے اور سیدھے گالف کورس کا رخ کرتے۔
لیکن ہمارے سپہ سالار کے نصیب میں اتنی پرسکون زندگی کہاں۔ اسلام آباد کے جید صحافی ہمیں چلا چلا کر بتا رہے ہیں کہ ہمارے سپہ سالار کو متحرک ہونا پڑا۔ انھوں نے سیٹھوں کی جیبوں سے ڈالر نکلوائے ہیں، زراعت، معدنیات، ڈالر کا ریٹ، بجلی کے بل، سوشل میڈیا پر بیٹھے سازشی، یہ سارے کام ہم نے سپہ سالار کے ذمے لگا دیے ہیں۔
ایسے میں سپہ سالار کا دن کب شروع ہوا، وہ دفتر سے جا کر گالف کیسے کھیلے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہماری افواج نے چند انتہائی شاندار گالف کورس بنا رکھے ہیں لیکن میں نے کئی سال سے کسی حاضر سروس سپہ سالار کو گالف کورس پر نہیں دیکھا۔
آخری سپہ سالار جن کو گالف کورس پر شاٹ لگاتے دیکھا گیا تھا وہ مرحوم جنرل ضیا الحق تھے۔ ان کے بعد آنے والوں کو اس قوم نے اتنا متحرک کر رکھا ہے کہ وہ اپنی تین سال کی مدت ملازمت گزار کے بھی اپنے فرائص پورے نہیں کر پاتے۔ اس لیے کبھی مانگ تانگ کر تو کبھی ڈنڈے کے زور پر ایکشن لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
دن بھر کی مشقت کر کے جب ہمارا تھکا ہارا سپہ سالار گھر پہچنتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ سارے دن کی محنت اکارت گئی، خزانہ ابھی بھی خالی ہے۔