International

ELENA ZAKHARENKA

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسے اعتراف جرم کے باوجود بری کر دیا گیا یوری گاروسکی نے بیلاروس میں ایک ’ہٹ سکواڈ‘ کا حصہ ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ یہ وہ سکواڈ تھا جس نے ملک کی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں کو جبری طور پر لاپتہ کر دیا تھا لیکن اس اعتراف کے باوجود انھیں سزا نہیں ہوئی اور عدالت نے انھیں بری کر دیا۔ گذشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ میں مقدمے کی سماعت کے دوران سپیشل فورسز کے اس سابق فوجی نے سنہ 1999 میں تین افراد کے اغوا اور قتل کے بارے میں تفصیلی بیان دیا۔ تاہم انھوں نے ان افراد کے قتل کا حکم دینے کے الزام کی تردید کی ہے۔ جب وہ اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو عدالت میں ان سے کچھ فاصلے پر پیچھے قتل ہونے والے سیاستدانوں کی بیٹیاں بیٹھ کر یہ کارروائی خود سن اور دیکھ رہی تھیں۔ ان سیاستدانوں کی بیٹیوں نے اپنے سر سے شفقت کا سایہ چھیننے والوں کی حقیقت تک پہنچنے کے لیے 24 برس جدوجہد کی۔ تاہم جمعرات کو عدالت نے تمام کارروائی کے بعد یوری گاروسکی کو بری کر دیا۔ حیرت انگیز فیصلے میں جج نے کہا کہ اعترافی بیان دینے والے بیلاروسی ملزم کے مختلف بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ان جبری گمشدگیوں اور قتل کے پیچھے بیلا روسی حکام کی ملی بھگت بھی شامل ہے۔ تاہم جج کے مطابق عدالت کو شک سے بالاتر ثبوتوں کے ساتھ اس بات پر مطمئن نہیں کیا جا سکا کہ یوری گاروسکی اس مقدمے میں مجرم ہیں۔ والیریا کراسوسکایا، جن کے والد اناتولی لاپتہ افراد میں سے ایک ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ ’انتہائی مضیحکہ خیز‘ اور عقل کے منافی ہے۔ اعتراف جرم اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب سنہ 2019 میں اس سابق فوجی نے خود صحافیوں سے رابطہ کر کے انکشاف کیا کہ وہ ملک کے سابق وزیرداخلہ یوری زیخارینکو، حـزب اختلاف کے رہنما وکٹر گونچر اور معروف بزنس مین ایناتولے کراسووسکی کے اغوا میں ملوث ہے۔ اس وقت یوری گاروسکی سوئٹزرلینڈ میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش کر رہے تھے اور وہ حکام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ سچ بتا رہے ہیں۔ انھیں شاید یہ امید تھی کہ تشہیر سے انھیں کچھ تحفظ بھی مل سکے گا کیونکہ ایک برس قبل وہ بیلاروس میں ایک کار حادثے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد وہ دو ہفتے تک کوما میں رہے تھے۔ ابھی بھی وہ ایک چھڑی کے سہارے چلتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ حادثہ انھیں جان سے مارنے کی کوشش تھی۔ اس مقدمے سے جڑے ہوئے کرداروں کے لیے یوری گاروسکی کی کہانی سچ کے قریب تھی۔ دو جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بیلا روسی اشخاص کی بیٹیوں نے سوئس وکلا کے کے ذریعے اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت ٹرائل شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ یوری کو قید کرنے کے بعد ان سے تحقیقات کی گئیں اور پھر ان پر فرد جرم عائد کیا گیا۔ لاپتہ باپ والیریا کراسوسکایا کو آج بھی یاد ہے کہ وہ 24 سال پہلے آدھی رات کو جاگ رہی تھیں کہ ان کی ماں نے پولیس، ہسپتالوں اور شہر کے مردہ خانے کو فون کیا کیونکہ ان کے شوہر واپس گھر نہیں آئے تھے۔ اناتولی، الیگزینڈر لوکاشینکو کے ناقد وکٹر گونچار کے ساتھ ’منسک‘ شہر کے ایک حمام میں گئے تھے۔ یہ وہ دن تھے جب الیگزینڈر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے۔ اگلی صبح والیریا کی ماں کو جائے وقوعہ پر خون کے دھبے اور ٹوٹا ہوا شیشہ ملا۔ ان کے شوہر اپنے دوست سمیت غائب ہو چکے تھے۔ گھر والوں کو اناتولی کراسوسکی کی لاش کبھی نہ مل سکی۔ ’آپ نہیں جانتے، کیا وہ زندہ ہیں یا نہیں؟ اور اگر وہ مر گئے ہیں تو پھر کیسے اور اب ان کی لاش کہاں ہے‘؟ والیریا کے ان سوالات سے متاثرہ خاندانوں کے کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ والیریا کے مطابق ’آپ یہ باب بند نہیں کر سکتے، اس لیے آپ اس کے ساتھ جینا سیکھ لیں۔ لیکن یہ بہت مشکل ہے۔‘ والیریا سوئٹزرلینڈ کی عدالت میں یوری گاروسکی کو سننے گئی تھیں کہ کس طرح ان کی سپیشل فورسز یونٹ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ وکٹر گونچار کے ساتھ ان کے والد کو حراست میں لے کر انھیں شہر سے باہر لے جائیں۔ اپنے پہلے بیان کے برعکس سابق فوجی یوری گاروسکی نے عدالتی کارروائی کے دوران متعدد بار اپنی صفائی میں یہ کہا کہ انھوں نے گولی نہیں چلائی اور نہ ہی گاڑی سے بندوق نکالی تھی۔ قید کی صعوبت دیکھ کر اب وہ اس سارے مقدمے میں اپنے کردار کو کم سے کم کر رہے تھے۔ لیکن انھوں نے اغوا اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا اعتراف کیا۔ ان کے مطابق انھوں نے وکٹر گونچار کا منھ زمین پر پٹخ دیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح ’منسک‘ کی سرحد پر دو افراد کو پیٹھ میں گولی ماری گئی تھی۔ یوری گاروسکی نے کہا کہ انھوں نے لاشوں کو ایک گڑھے میں دفن کرنے میں مدد کی، جو پہلے سے کھودا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے کپڑے جلا دیے گئے تھے۔ اس کا انداز سفاکانہ تھا۔ والیریا نے یہ سب غور سے سنا، ہر نکتے کو وہ لکھ رہی تھیں۔ ایک دوست انھیں تسلی بھی دے رہے تھے۔ انھوں نے اس عدالتی سماعت سے قبل مجھے بتایا کہ ’اگرچہ میں بالکل نارمل اور خوشگوار زندگی گزار رہی ہوں، پھر بھی مجھے اپنے والد کی گمشدگی کا خیال جھنجھوڑتا ہے۔ ’جب بھی میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے بہت دُکھ ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عام بات ہے۔ لیکن میں ہلکا محسوس کرنا چاہتی ہوں‘۔ ’انھوں نے کہا کھانا لگا دیں، بس میں گھر پہنچ ہی گیا ہوں‘ ایلینا زخارینکا کے لیے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب انھوں نے چونکا دینے والا بیان سنا ہو۔ جن صحافیوں سے یوری گاروسکی نے پہلی بار خود اپنی کہانی سنانے کے لیے رابطہ

سیاستدانوں کو اغوا کرنے والے ’خصوصی ہِٹ سکواڈ‘ کا رکن جسکا اعتراف جرم Read More »

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی برطانیہ مقیم پاکستانی

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی۔۔۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد شہریوں میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ کیا؟ برطانیہ کی ہاؤس آف کومنز ریسرچ لائبریری کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں رہنے والی تمام نسلی اکائیوں میں پاکستانی نژاد افراد کی بے روزگاری کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں اکتوبر سے دسمبر سنہ 2022 میں بے روزگاری کی شرح 3.8 فیصد تھی جس میں سفید فام آبادی کی شرح 3.1 فیصد جبکہ باقی سب نسلی اقلیتوں کی شرح 7.5 فیصد تھی لیکن جو بات سب سے زیادہ حیرت کی تھی وہ پاکستانی نژاد آبادی کی شرح تھی جو کہ 8.7 ہے۔ برطانوی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاروں کی تعداد نو جوانوں اور خواتین کی تھی۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد لوگ ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی پہلی آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی جب تباہ شدہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور لیبر کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد مسلسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ کو اپنا گھر بناتی رہی ہے۔ برطانیہ کی حکومت ملک کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانی کمیونٹی کی خدمات کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن بیشتر پاکستانی ثقافتی اور روایتی وجوہات کی بنا پر اپنے مخصوص علاقوں میں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم پاکستانی تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے‘   رپورٹ میں چھپنے والے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ میں سولہ سے چوبیس برس کے تقریباً چودہ لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں، یعنی بیس فیصد پاکستانی نژاد نوجوان بے روزگار ہیں جو سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے مقابلے میں انڈین اور چینی نژاد نوجوان، ملازمتوں میں دوسری اقلیتوں سے بہت آگے ہیں۔ خواتین میں بے روزگاری کا تناسب پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد خواتین میں سب سے زیادہ ہے اور ان میں یہ شرح تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ بی بی سی اردو نے مشرقی لندن کے مصروف علاقے الفورڈ میں پاکلستانی نژاد شہریوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستانی نژاد برطانوی شہری بے روزگاری کی شرح میں دوسری برادریوں سے اتنے پیچھے ہیں۔ ایک شہری نے کہا کہ شاید اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ’جب وہ اس ملک میں آتے ہیں تو شاید اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہاں رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔‘ ایک اور شہری نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی اپنی خواتین کو نوکری کرنے کے لیے اتنا سپورٹ نہیں کرتے جتنی دوسری برادریاں کرتی ہیں۔ ایک پاکستانی نژاد شہری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’ہم تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے۔‘ ایک خاتون نے کہا کہ جب پاکستانی کسی ملازمت کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انھیں اگر انٹرویو کی کال آ بھی جائے تو وہ انٹرویو میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔ دردانہ انصاری نے بھی اس بات پھر زور دیا کہ جہاں حکومت اس پر بات کر رہی ہے کہ بے روزگاری ہے تو اسے یہ بھی چاہیے کہ وہ مسئلے کو صحیح طرح سمجھے اور اسے حل کرے لیکن اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو مسئلہ جوں کا توں رہے گا۔‘ وجہ نسلی امتیاز یا کم قابلیت؟ برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی کے لیے کام کرنے والی کارکن اور برطانوی رائل نیوی میں پہلی مسلمان اور پاکستانی اعزازی کیپٹن دردانہ انصاری نے اپنے تجربے کی روشنی میں پاکستانی برطانویوں کی بے روزگاری کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہم مین سٹریم میں شامل ہونے سے جھجکتے ہیں۔ ’ہم اپنے دائروں میں رہتے ہیں۔ دوسرا ماں باپ بھی بچے کو نئی راہیں ڈھونڈنے سے روکتے ہیں۔‘ انھوں نے مثال دی کہ جب بھی میں کہوں کہ بچے مسلح افواج جانے کی کوشش کریں تو ماں باپ اکثر کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ ’اس طرح بچہ مین سٹریم سے دور ہی رہتا ہے اور جہاں دنیا میں انتہائی مقابلہ ہے تو وہاں ہم مقابلے سے ہی دور ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ آپ کو زیادہ تر پاکستانی بچے ٹیکسی چلاتے ہوئے ملیں گے، خصوصاً ملک کے شمالی شہروں میں۔ ’اگرچہ ٹیکسی چلانا کوئی برا کام نہیں لیکن بہت سوں کی سوچ ’کوئک منی‘ یا تیزی سے آنے والے پیسے کی طرف ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تعلیم حاصل کر کے بھی اسی طرف دوڑتے ہیں۔‘ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانوی حکومت کی اپنی ہی دیگر رپورٹس کے مطابق نسلی اقلیتوں کو روزگار کے حصول میں نسلی امتیاز کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ ایک سفید فام کو جس درخواست اور سی وی پر نوکری مل سکتی ہے، ضروری نہیں کہ ایک پاکستانی نژاد شخص کو بھی ملے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سب کے لیے برابر مواقعوں کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

نسلی امتیاز یا قابلیت میں کمی برطانیہ مقیم پاکستانی Read More »

Operation Wrath of God

آپریشن فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘

آپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیا رواں سال 18 جون کو خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں اس قتل کے پیچھے انڈین ایجنسیوں کے ہاتھ ہونے کا امکان ظاہر کیا تاہم انڈیا نے نہ صرف ایسے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا بلکہ اس قتل میں کسی بھی کردار سے انکار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب کسی ملک نے دوسرے کسی ملک پر انٹیلیجنس آپریشنز کا الزام لگایا گیا ہو۔ ماضی میں انڈیا اور پاکستان کئی بار ایک دوسرے پر انٹیلیجنس مشن کے تحت مختلف سرگرمیاں کرنے کا الزام بھی لگا چکے ہیں تو آئیے خفیہ ایجنسی  کے دو  خطرناک مشنز کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں کیے گئے۔ 1960: ’آپریشن فائنل‘ سنہ 1957 میں مغربی جرمنی کی ریاست ہیسے کے چیف پراسیکیوٹر فرٹز باؤر نے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے رابطہ کر کے اطلاع دی کہ ایڈولف ایکمان زندہ ہیں اور ارجنٹائن میں واقع ایک خفیہ اڈے میں مقیم ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل ایڈولف ایکمان ایک طویل عرصے تک ہٹلر کی بدنامِ زمانہ ریاستی خفیہ پولیس ’گسٹاپو‘ میں ’جیوئش ڈیپارٹمنٹ‘ کے سربراہ رہے۔ ان کے دور میں ’فائنل سلوشن‘ (یعنی آخری حل) کے نام سے یہودیوں پر ظلم پر مبنی ایک انتہائی خطرناک پروگرام شروع کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت جرمنی اور دیگر ہمسایہ ممالک میں مقیم ہزاروں یہودی شہریوں کو ان کے گھروں سے حراستی کیمپوں میں لے جا کر قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ سنہ 1933 اور سنہ 1945 کے درمیان نازی جرمن حکومت اور ان کے حامیوں کی طرف سے ہولوکاسٹ کے تحت تقریبا 40 لاکھ سے زائد یورپی یہودیوں پر ریاستی سرپرستی میں منظم طور پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوا اور انھیں قتل کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد ایڈولف ایکمان کو تین بار پکڑنے کی کوشش کی گئی تاہم وہ ہر بار گرفتاری سے بال بال بچ نکلتے۔ فریٹز بوور کو ارجنٹینا میں ایڈولف ایکمان مین کے قیام کی خبر وہاں رہنے والے ایک مقامی یہودی سے ملی جن کی بیٹی اور ایڈولف کے بیٹے کے درمیان افیئر چل رہا تھا۔ ابتدا میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ان معلومات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا تھا لیکن بعد میں جب انھوں نے اس کی اپنے طریقے سے چھان بین کی تو انھیں اس کی حقیقت پر یقین آ گیا۔ چارلس ریورس اپنی کتاب ’دی کیپچر اینڈ ٹرائل آف ایڈولف ایکمن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ایڈولف ایکمان بھلے ہی لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے کے افسر رہے ہوں تاہم نازی دور میں ان کا رتبہ کسی جنرل سے کم نہ تھا۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے وہ ہٹلر کی سب سے قریبی ساتھیوں کو براہ راست رپورٹ کیا کرتے تھے۔‘ ارجنٹائن میں ایکمان کے روپوش ہونے کی خبر کی تصدیق ہونے کے بعد اسرائیل کے موساد کے سربراہ نے رفیع ایتان کو اس مشن کا کمانڈر مقرر کیا اور انھیں احکامات جاری کیے گئے کہ ایجنٹ انھیں زندہ پکڑ کر اسرائیل واپس لانے کی کوشش کریں گے۔ موساد کی ٹیم نے بیونس آئرس میں ایک گھر کرائے پر لیا، جسے خفیہ رکھنے کے لیے ’کیسل‘ کا نام دیا گیا۔ اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ ارجنٹائن 20 مئی کو اپنی آزادی کی 150 ویں سالگرہ منائے گا۔ اس خبر کے سامنے آنے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسرائیل بھی وزیر تعلیم عبا ابن کی قیادت میں ایک وفد ارجنٹینا بھیجے گا۔ انھیں وہاں لے جانے کے لیے اسرائیل کی ایئرلائن نے اپنے خصوصی طیارے ’وسپرنگ جائنٹ‘ کا انتظام کیا۔ اس حوالے سے ایک منصوبہ تیار کیا گیا جس میں طے پایا کہ اسرائیلی وزیر تعلیم کے علم میں لائے بغیر ایکمان کو اغوا کر کے اس طیارے میں واپس اسرائیل لایا جائے۔ ایکمان ہر شام تقریباً سات بج کر 40 منٹ پر بس نمبر 203 کے ذریعے گھر واپس آتے اور پھر اپنے گھر پہنچنے کے لیے تھوڑا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔ اس معمول کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بنایا گیا کہ اس آپریشن میں دو کاریں حصہ لیں گی اور انھیں ایک کار میں اغوا کر لیا جائے گا۔ ایکمان کو بس سے اترتے ہی اغوا کر لیا گیا۔ 20 مئی کی رات ایکمان کو اسرائیلی ایئرلائن کے کارکن کا لباس پہنایا گیا تھا۔ زیف ذکرونی کے نام سے ایک جعلی شناختی کارڈ ان کی جیب میں رکھا گیا اور اگلے دن ان کا طیارہ تل ابیب میں اُترا۔ یہ خبر ان کے اسرائیل پہنچنے کے دو دن بعد دنیا کے سامنے رکھی گئی۔ کئی ماہ تک چلنے والے مقدمے میں 15 کیسز میں قصوروار پائے جانے کے بعد انھیں بلآخر موت کی سزا سنائی گئی۔ آپریشن ’رتھ آف گاڈ‘ سال 1972 کا تھا اور جرمنی میں میونخ اولمپکس کھیلوں کے مقابلے جاری تھے۔ پانچ ستمبر کی رات کو میونخ اولمپک ویلیج میں اسرائیلی کھلاڑی اپنے فلیٹ میں سو رہے تھے کہ اچانک پوری عمارت مشین گنوں کی آوازوں سے گونج اٹھی۔ ’بلیک ستمبر لبریشن آرگنائزیشن‘ کے آٹھ فلسطینی جنگجو کھلاڑیوں کے لباس پہن کر اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 11 اسرائیلی کھلاڑی اور ایک جرمن پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے کے صرف دو دن بعد اسرائیل نے شام اور لبنان میں پی ایل او کے 10 ٹھکانوں پر بمباری کر کے انھیں تباہ کر دیا۔ کئی سال بعد جاری ہونے والی اسرائیلی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا ذکر ہے کہ اسرائیل نے اس وقت دراصل کیا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت کی اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا میر نے جوابی کارروائی کے لیے ’کمیٹی‘ تشکیل دی تھی جس کے انچارج موساد کے اس وقت کے سربراہ تھے۔ سائمن ریو کی کتاب ’ون ڈے ان ستمبر‘ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے اس آپریشن کی تیاری میں ایک طویل وقت صرف کیا تھا تاکہ دنیا کے

آپریشن فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ Read More »

Australian war Memorial

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں     آپریشن جے وک ایک دلیرانہ منصوبہ تھا جو دوسری عالمی جنگ کے دوران اتحادیوں کے سب سے کامیاب سبوتاژ آپریشنز میں سے ایک تھا۔ اس آپریشن کی کہانی کسی ایکشن فلم جیسی لگتی ہے: 14 برطانوی اور آسٹریلوی کمانڈوز آسٹریلیا سے ہزاروں کلومیٹر دور ایک کشتی کے ذریعے سنگاپور پہنچتے ہیں جو اس وقت جاپان کے قبضے میں تھا۔ ان کمانڈوز کو لنگیاں پہنا کر چہرے پر بھورا رنگ ملنے کو کہا گیا تاکہ وہ مقامی مچھیرے لگیں۔ پھر انھوں نے اپنی کشتی سنگاپور سے کچھ دور چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں ایک بندرگاہ میں گھسنا تھا۔ اس مشن کا آخری لمحہ وہ تھا جس میں ان کمانڈوز نے جاپانی بحری جہازوں پر ٹائم بم لگا کر وہاں سے غائب ہونا تھا۔ یہ کام 26 ستمبر 1943 کی رات کو ہوا جس کے اگلے دن سات بحری جہاز 30 ہزار ٹن سامان سمیت تباہ ہوئے یا ڈوب گئے۔ یہ 14 افراد کامیابی سے آسٹریلیا واپس پہنچے جہاں انھوں نے اپنے 48 دن کے سفر کی کہانی سنائی جس کے دوران ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب ایک جاپانی جنگی جہاز انڈونیشیا کے پانیوں میں ان کے بہت قریب سے گزرا تو کمانڈوز دھماکہ خیز مواد سے لدی ہوئی اپنی کشتی کو تباہ کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوئے۔ 80 سالہ برائن ینگ اسی عملے میں شامل ریڈیو آپریٹر ہوری ینگ کے بیٹے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے والد نے ایک صحافی کو بتایا کہ اگر ہم ایسا کرتے تو ہمای کشتی کے ساتھ جاپانی جہاز بھی تباہ ہو جاتا لیکن وہ جہاز چلا گیا اور ان سب نے اپنی قسمت پر شکر ادا کیا۔‘ اس پرخطر مشن کو 80 سال گزر چکے ہیں لیکن اب تک یہ ایک مشہور موضوع ہے جس پر لاتعداد کتابیں، ڈاکومنٹریز، ٹی وی اور فلمیں بن چکی ہیں۔ کریٹ، وہ کشتی جس پر ان کمانڈوز نے سفر کیا تھا، 1988 سے آسٹریلیا کے نیشنل میری ٹائم میوزیئم میں موجود ہے۔ بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’دشمن کی دفاعی لائن کے دو ہزار میل پیچھے ایسے جرات مندانہ مشن کی منصوبہ بندی اور تکمیل کی مثال نہیں ملتی۔‘ اس مشن کو ٹاسک فورس زیڈ سپیشل یونٹ کی مدد سے مکمل کیا گیا تھا جو اتحادیوں کی جانب سے سبوتاژ کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ یونٹ تھی۔ اس کے سربراہ کیپٹن ایوان لیون تھے جنھوں نے مشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کو چنا اور پھر ان کی تربیت کی۔ سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ملٹری سٹڈیز کے این لی کا خیال ہے کہ آپریشن جے وک ایسی جنگی حکمت عملی کی مثال ہے جس میں غیر روایتی طریقوں سے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ روس کیخلاف یوکرین کی سپیشل فورسز کے چھوٹے دستوں کے حملوں کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جے وک کی طرح ان حملوں کی علامتی اہمیت ہوتی ہے جس سے دشمن کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ کہیں بھی محفوظ نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ آپریشن جے وک سے بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکا کیوںکہ زیادہ تر جاپانی جنگی جہاز ہفتوں میں مرمت ہونے کے بعد قابل استعمال ہو چکے تھے۔ تاہم اس حملے کا نفسیاتی اثر بہت زیادہ ہوا کیوںکہ یہ بندرگاہ ایک محفوظ مقام مانا جاتا تھا جہاں تک اتحادی فوج کی رسائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ بحری امور کے ماہر سٹرلنگ سمتھ کہتے ہیں کہ ’جاپانی کبھی یہ دریافت ہی نہیں کر پائے کہ یہ حملہ کیسے ہوا جس کا مطلب تھا کہ جنگ کی باقی ماندہ مدت کے دوران کافی وقت اور افرادی قوت اس بندرگاہ کو محفوظ بنانے پر استعمال ہوئی جو کہیں اور نہیں لڑ سکتی تھی۔‘ تاہم اس حملے کے نتائج سنگاپور میں بسنے والے عام شہریوں کو بھگتنا پڑے کیوں کہ اتحادیوں نے اس آپریشن کی خبر عام کرنے کا فیصلہ تبدیل کر دیا تاکہ وہ مستقبل میں ایسے ہی حملے کر سکیں۔ جاپانی حکام کو یقین تھا کہ مقامی جیل کے قیدی ہی اس حملے کے ذمہ دار ہیں اور 10 اکتوبر کو 57 قیدیوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔ ان میں سے 15 تشدد سے ہلاک ہو گئے جسے ڈبل ٹینتھ واقعہ کہا جاتا ہے۔ جب برائن ینگ پیدا ہوئے تو ان کے والد اسی مشن پر گئے ہوئے تھے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اپنے جنگی تجربات پر شازونادر ہی بات کیا کرتے تھے۔ ’ایک بات وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ انھیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ مقامی لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔‘ 1944 میں لیون کی سربراہی میں، جو اس وقت تک لیفٹینینٹ کرنل بن چکے تھے، اس بندرگاہ پر ایک اور حملے کی کوشش کی گئی لیکن اس بار جاپانیوں نے بروقت انھیں دیکھ لیا۔ 23 افراد پر مشتمل اس ٹیم کے تمام اراکین مارے گئے یا انھیں گرفتار کرنے کے بعد مار دیا گیا۔ کریٹ کشتی کا عملہ تو اب نہیں رہا لیکن یہ ایسی کہانی ہے جس کی بازگشت ان کے بچوں میں اب بھی سنائی دیتی ہے۔   برائن ینگ کہتے ہیں کہ ’میرے والد اور ان کے ساتھی ایک جیسے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کے ساتھ اس مشن پر جانے والے آرتھر جونز اکثر ان سے ملنے آتے اور ’وہ دونوں اس وقت کو یاد کرتے جب انھیں اپنے جسم پر رنگ ملنا پڑا تھا۔‘ ’وہ کہتے تھے کہ اگر کوئی جاپانی ہم سے 100 میٹر قریب تک آ جاتا تو وہ جان لیتا کہ ہم مقامی نہیں۔‘ رون مورس کے بیٹے ایوان مورس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کی وفات کے بعد ہی میں نے اس مشن کے بارے میں جاننے کی کوشش کی۔ یہ بہادری کی کہانی ہے۔‘ ان کی تحقیق اب ایک کتاب کی صورت میں چھپی ہے جس کا نام ’دی ٹائیگرز ریونج‘ ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ کتاب انھوں نے اپنے خاندان اور پوتوں کے لیے لکھی ہے۔ رون مورس نے بھی جنگ کے

آپریشن جے وک: دوسری عالمی جنگ کا ناقابل یقین مشن، جس کی کہانی کسی ایکشن فلم سے کم نہیں Read More »

بیرون ملک دشمنوں کو مارنے میں ریاستیں

بیرون ملک دشمنوں کو مارنے میں ریاستیں زیادہ ڈھٹائی کا شکار ہو رہی ہیں۔ کچھ ممالک سیاسی قتل کے نئے جواز تلاش کر رہے ہیں۔   جون میں کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسند کارکن ہردیپ سنگھ ننجر کے قتل نے کینیڈا اور بھارت کے درمیان دھماکہ خیز تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ اس نے نئی دنیا کے عارضے: قتل و غارت گری کے ایک آگ لگانے والے پہلو کو بھی تیزی سے راحت بخشی ہے۔ مخالفین اور دہشت گردوں کا قتل، اور سیاسی یا عسکری شخصیات اتنی ہی پرانی ہیں جتنی کہ خود سیاست، لیکن ان کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ یوکرین اور روس ایک دوسرے کی قیادت کا شکار کر رہے ہیں۔ یورپ میں جنگ کے بعد ابھرتی ہوئی طاقتوں کا ایک نیا گروہ، بشمول سعودی عرب اور بھارت، بیرون ملک طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں مغربی دوہرے معیارات کو دیکھتے ہوئے ناراض ہیں۔ نئی ٹیکنالوجیز، بشمول جدید ڈرونز، حکومتوں کے لیے دور سے درستگی کے ساتھ لوگوں کو دستک دینا پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا رہی ہیں۔ پھر بھی جیسے جیسے قتل آسان ہوتے جا رہے ہیں، اور شاید زیادہ کثرت سے، ان پر حساب کتاب ہمیشہ کی طرح دھندلا رہتا ہے۔ اس طرح کی ہلاکتوں پر صرف مغرب کے ردعمل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ روس کی طرف سے 2006 میں برطانیہ میں ایک سابق kgb ایجنٹ الیگزینڈر لیٹوینینکو کے قتل نے ایک شور مچا دیا اور اس پر پابندیاں لگ گئیں۔ امریکہ میں مقیم ایک جلاوطن سعودی صحافی جمال خاشقجی کے 2018 میں بہیمانہ قتل کے بعد، جو بائیڈن نے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ایک پاریہ جیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ اس کے باوجود پچھلے سال اس نے سعودی ولی عہد اور ڈی فیکٹو حکمران محمد بن سلمان کو مٹھی سے ٹکرا دیا تھا، اور اسے اسرائیل کے ساتھ صلح کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دریں اثنا، بھارت مسٹر نجار کی موت میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے اور اس سے متعلق کسی بھی سنگین نتائج سے بچ سکتا ہے۔ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک مغرب کے لیے ایک اقتصادی شراکت دار کے طور پر اور چین کے لیے جغرافیائی سیاسی کاؤنٹر ویٹ دونوں کے لیے اہم ہے۔ یہ تضادات ریاستی حمایت یافتہ ہلاکتوں پر ایک دیرینہ اخلاقی اور قانونی بھولبلییا کی عکاسی کرتے ہیں۔ بائبل اسرائیلی ایہود کو ایگلون، جابر اور “بہت موٹے” موآبی بادشاہ کو قتل کرنے کے لیے تعریف کر سکتی ہے۔ پھر بھی یہ اتھارٹی کی فرمانبرداری کا بھی حکم دیتا ہے، ’’حکمران اچھے کاموں سے نہیں بلکہ برائیوں کے لیے دہشت ہوتے ہیں۔‘‘ قتل، بغیر کسی قانونی عمل کے سیاسی مقصد کے لیے کسی ممتاز شخص کو قتل کرنے کے معنی میں، بے وفائی کا مفہوم رکھتا ہے۔ ڈینٹ نے جولیس سیزر کے قاتلوں کو جہنم کے سب سے گہرے دائرے میں جوڈاس کے ساتھ رکھا، ان کی لاشوں کو لوسیفر نے کاٹ لیا۔ اس کے باوجود ریاستیں بیرون ملک ممتاز دشمنوں کو مار دیتی ہیں—مختلف وجوہات اور مختلف طریقوں سے۔ 2016 میں وارنر شلنگ اور جوناتھن شلنگ کے ایک مقالے میں 14 ممکنہ مقاصد کی فہرست دی گئی ہے، انتقام سے لے کر دشمن کو کمزور کرنا یا حریف ریاست کو تباہ کرنا۔ قتل اور مجرموں کی شناخت کے مسائل کے پیش نظر قتل کے نمونوں اور ان کی وجوہات کے بارے میں قابل اعتماد اعداد و شمار کا آنا مشکل ہے۔ بینجمن جونز اور بینجمن اولکن کے ایک مقالے کے مطابق جو 2009 میں امریکن اکنامک جرنل نے شائع کیا تھا، 1875 سے 2004 کے درمیان قومی رہنماؤں پر 298 قتل کی کوششیں رپورٹ ہوئیں۔ . دوسرے طریقوں سے جنگ برطانیہ کی ناٹنگھم یونیورسٹی کے روری کورمیک کے لیے، کینیڈا میں فائرنگ قتل کے خلاف بین الاقوامی اصولوں کے کمزور ہونے کا ثبوت ہے: “ہر ہائی پروفائل قتل کے ساتھ ممنوعہ تھوڑا سا ختم ہو جاتا ہے،” وہ کہتے ہیں۔ انہوں نے دو وجوہات کا حوالہ دیا: آمرانہ حکومتیں لبرل اصولوں کو چیلنج کرنے میں “زیادہ ڈھٹائی کا شکار” ہوتی جا رہی ہیں۔ اور جمہوریتوں کے ٹارگٹ کلنگ کا سہارا “دیگر ریاستوں کی حوصلہ افزائی” کرتا ہے۔ دیگر عوامل، جیسے کہ سفر میں آسانی اور ڈرون جو طویل فاصلے تک نگرانی اور حملوں کو ممکن بناتے ہیں، شاید مسئلہ کو مزید خراب کرتے ہیں۔ کئی سالوں میں امریکہ نے ڈرون کے ذریعے ہزاروں مشتبہ جہادیوں اور بہت سے عام شہریوں کو بھی ہلاک کیا ہے۔ ابراہم لنکن کے قتل کے بعد برطانوی سیاست دان بنجمن ڈزرائیلی نے کہا کہ ’’قتل نے دنیا کی تاریخ کو کبھی نہیں بدلا۔‘‘ پھر بھی کچھ قتل کا ڈرامائی اثر ہو سکتا ہے۔ جون 1914 میں سربیا کے ایک قوم پرست کی طرف سے چلائی گئی گولی نے آسٹریا کے آرچ ڈیوک فرانز فرڈینینڈ کو ہلاک کر دیا، پہلی جنگ عظیم کا دھماکہ ہوا۔ اور قتل سے انتقامی کارروائی کا خطرہ ہے: مائیک پومپیو اور جان بولٹن، بالترتیب امریکہ کے سابق وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر، دونوں مبینہ طور پر ایرانی قتل کی سازش کا نشانہ بنے ہیں۔ برطانیہ کی ڈومیسٹک انٹیلی جنس سروس، ایم آئی 5 کا کہنا ہے کہ ایران “حکومت کے دشمن سمجھے جانے والے برطانوی یا برطانیہ میں مقیم افراد کو اغوا کرنے یا قتل کرنے کے عزائم رکھتا ہے”۔ چادر اور خنجر جب بات طریقوں کی ہو تو روس کو زہر پسند ہے۔ اس کے ایجنٹوں نے تابکار پولونیم کا استعمال کرتے ہوئے Litvinenko کو قتل کیا۔ انہوں نے تقریباً 2018 میں ایک اور سابق ڈرپوک، سرگئی اسکریپال اور اس کی بیٹی یولیا کو نوویچوک، ایک اعصابی ایجنٹ کے ساتھ مار ڈالا۔ شمالی کوریا بھی زہر کا حامی ہے۔ اس نے 2017 میں کوالالمپور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ملک کے رہنما کم جونگ اُن کے سوتیلے بھائی کم جونگ نم کو ایک اور اعصابی ایجنٹ وی ایکس سے مسمار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ امریکہ بموں اور گولیوں کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کی اسپیشل فورسز نے پاکستان میں ایک محفوظ گھر پر چھاپہ مارا اور 2011 میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔

بیرون ملک دشمنوں کو مارنے میں ریاستیں Read More »

مراکش میں ریکٹر اسکیل پر 6.8 شدت کے طاقتور زلزلے کے جھٹکے

سرکاری ٹی وی نے وزارت داخلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جمعہ کو مراکش میں آنے والے زلزلے میں کم از کم 632 افراد ہلاک اور 329 زخمی ہوئے۔ وزارت نے بتایا کہ زخمی ہونے والوں میں سے 51 کی حالت تشویشناک ہے، 6.8 شدت کے زلزلے کے بعد جو سیاحتی مقام مراکیش سے 72 کلومیٹر (45 میل) جنوب مغرب میں آیا تھا۔ ساحلی شہروں رباط، کاسا بلانکا اور ایساویرا میں بھی زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔ مراکش میں ایک 33 سالہ عبدلحاک العمرانی نے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو بتایا، “ہم نے بہت پرتشدد زلزلہ محسوس کیا، اور میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک زلزلہ تھا۔” “میں عمارتوں کو حرکت کرتے دیکھ سکتا تھا۔ ضروری نہیں کہ ہمارے پاس اس قسم کی صورتحال کے لیے اضطراب موجود ہوں۔ پھر میں باہر گیا تو وہاں بہت سارے لوگ موجود تھے۔ تمام لوگ خوف و ہراس میں مبتلا تھے۔ بچے رو رہے تھے اور والدین پریشان تھے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “بجلی 10 منٹ کے لیے چلی گئی، اور اسی طرح (ٹیلی فون) نیٹ ورک بھی چلا گیا، لیکن پھر وہ واپس آ گیا۔” “سب نے باہر رہنے کا فیصلہ کیا۔” ناقابل برداشت’ چیخیں۔ ایک انجینئر فیصل بدور نے بتایا کہ انہوں نے اپنی عمارت میں تین بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے۔ انہوں نے کہا کہ “اس مکمل خوف و ہراس کے فوراً بعد لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور ایسے خاندان بھی ہیں جو ابھی تک باہر سو رہے ہیں کیونکہ ہم اس زلزلے کی طاقت سے بہت خوفزدہ تھے۔” ’’ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ٹرین ہمارے گھروں کے قریب سے گزر رہی ہو۔‘‘ فرانسیسی شہری 43 سالہ مائیکل بیزٹ، جو ماراکیش کے پرانے شہر میں تین روایتی ریاڈ مکانات کے مالک ہیں، نے اے ایف پی کو بتایا کہ زلزلے کے وقت وہ بستر پر تھے۔ “میں نے سوچا کہ میرا بستر اڑ جائے گا۔ میں نیم برہنہ حالت میں گلی میں نکلا اور فوراً اپنی رائیڈیں دیکھنے چلا گیا۔ یہ مکمل افراتفری، ایک حقیقی تباہی، پاگل پن تھا، “انہوں نے کہا۔ 43 سالہ نوجوان نے گلیوں میں منہدم دیواروں سے ملبے کے ڈھیروں کی ویڈیو شیئر کی۔ سوشل میڈیا پر آنے والی فوٹیج میں تاریخی شہر کے جماعۃ الفنا سکوائر پر ایک مینار کا ایک حصہ منہدم ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اے ایف پی کے ایک نمائندے نے دیکھا کہ سینکڑوں لوگ آفٹر شاکس کے خوف سے رات گزارنے کے لیے چوک پر جمع ہو رہے ہیں، کچھ کمبل اوڑھے ہوئے ہیں جبکہ دیگر زمین پر سو رہے ہیں۔ ایک مقامی رہائشی ہودہ اوطاف نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ چوک کے ارد گرد چہل قدمی کر رہے تھے جب زمین ہلنے لگی۔ “یہ واقعی ایک حیران کن احساس تھا۔ ہم محفوظ اور صحت مند ہیں، لیکن میں اب بھی صدمے میں ہوں،‘‘ انہوں نے کہا۔ “میرے خاندان کے کم از کم 10 افراد ہیں جو مر چکے ہیں… میں شاید ہی اس پر یقین کر سکتا ہوں، کیونکہ میں ان کے ساتھ دو دن پہلے نہیں تھا۔” مراکش کے ایک اور رہائشی فیصل بدور نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب زلزلہ آیا تو وہ گاڑی چلا رہے تھے۔ “میں رک گیا اور محسوس کیا کہ یہ کیسی آفت تھی… چیخنا اور رونا ناقابل برداشت تھا،” اس نے کہا۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ حکام نے “متاثرہ علاقوں میں مداخلت اور مدد کے لیے تمام ضروری وسائل کو متحرک کر دیا ہے”۔ مراکیش کے علاقائی خون کی منتقلی کے مرکز نے رہائشیوں سے زخمیوں کے لیے خون کا عطیہ دینے کی اپیل کی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق، زلزلے کے مرکز کے قریب الحوز قصبے میں، ایک خاندان اپنے مکان کے منہدم ہونے کے بعد ملبے میں پھنس گیا۔ اہم نقصان کا امکان ماراکیش سے 200 کلومیٹر مغرب میں واقع ایساویرا کے ایک رہائشی نے اے ایف پی کو بتایا کہ “ہم نے زلزلے کے وقت چیخیں سنی تھیں۔” “لوگ چوکوں میں، کیفے میں ہیں، باہر سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگواڑے کے ٹکڑے گر گئے ہیں۔” USGS PAGER سسٹم، جو زلزلوں کے اثرات کے بارے میں ابتدائی تشخیص فراہم کرتا ہے، نے اقتصادی نقصانات کے لیے ریڈ الرٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ بڑے پیمانے پر نقصان کا امکان ہے اور تباہی کا امکان وسیع ہے۔ امریکی سرکاری ایجنسی کے مطابق، اس الرٹ کی سطح کے ساتھ ماضی کے واقعات کو قومی یا بین الاقوامی سطح پر ردعمل کی ضرورت ہے۔ عالمی انٹرنیٹ مانیٹر نیٹ بلاکس کے مطابق، بجلی کی کٹوتی کی وجہ سے مراکش میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی منقطع ہوگئی۔ مراکش کے میڈیا کے مطابق یہ ملک میں اب تک کا سب سے طاقتور زلزلہ تھا۔ جرمن چانسلر اولاف شولز نے تعزیت پیش کی، جب کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ وہ زلزلے کی خبر سے “درد” ہیں۔ زلزلے کے جھٹکے پڑوسی ملک الجزائر میں بھی محسوس کیے گئے جہاں الجزائر کے سول ڈیفنس نے کہا کہ اس سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ 2004 میں، شمال مشرقی مراکش میں الحوسیما میں زلزلے سے کم از کم 628 افراد ہلاک اور 926 زخمی ہوئے، اور 1960 میں اگادیر میں 6.7 شدت کے زلزلے سے 12,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔  1980  میں پڑوسی ملک الجزائر میں آنے والا 7.3 شدت کا ال اسنام زلزلہ علاقائی طور پر حالیہ تاریخ کے سب سے تباہ کن زلزلوں میں سے ایک تھا۔

مراکش میں ریکٹر اسکیل پر 6.8 شدت کے طاقتور زلزلے کے جھٹکے Read More »

مراکش حکومت کا کہنا ہے کہ طاقتور زلزلے سے کم از کم 296 افراد ہلاک ہو گئے۔

  مراکش حکومت کا کہنا ہے کہ طاقتور زلزلے سے کم از کم 296 افراد ہلاک ہو گئے۔     مراکش کے ہائی اٹلس پہاڑوں پر جمعہ کو دیر گیے  ایک طاقتور زلزلہ آیا، جس میں کم از کم 296 افراد ہلاک، عمارتیں تباہ ہو گئیں اور بڑے شہروں کے مکینوں کو اپنے گھروں سے بھاگنا پڑا۔ وزارت داخلہ نے کہا کہ یہ تعداد ابتدائی طور پر مرنے والوں کی تعداد ہے اور 153 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ایک مقامی اہلکار نے بتایا کہ زیادہ تر اموات پہاڑی علاقوں میں ہوئیں جہاں تک پہنچنا مشکل تھا۔ زلزلے کے مرکز کے قریب ترین بڑے شہر ماراکیچ کے رہائشیوں نے بتایا کہ پرانے شہر میں کچھ عمارتیں گر گئی ہیں، جو کہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے، اور مقامی ٹیلی ویژن نے تباہ شدہ کاروں پر پڑے ملبے کے ساتھ گرے ہوئے مسجد کے مینار کی تصاویر دکھائیں۔ پین عرب العربیہ نیوز چینل نے نامعلوم مقامی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ایک ہی خاندان کے پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

مراکش حکومت کا کہنا ہے کہ طاقتور زلزلے سے کم از کم 296 افراد ہلاک ہو گئے۔ Read More »

یوکرین کے شہر کوسٹیانتینیوکا پر میزائل حملے

یوکرین کے شہر کوسٹیانتینیوکا  پر میزائل حملے میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ روس کو مورد الزام ٹھہرانے والے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ہلاک ہونے والے معصوم لوگ تھے – اور خبردار کیا کہ ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ یوکرین کے مشرقی ڈونیٹسک کے علاقے کوسٹیانتینیوکا فرنٹ لائن کے قریب ہے۔ “اس روسی برائی کو جلد از جلد شکست دی جانی چاہیے،” مسٹر زیلینسکی نے مزید کہا۔ ماسکو میں حکام نے ابھی تک ان دعوؤں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ہلاک ہونے والے 16 افراد میں ایک بچہ بھی شامل ہے جب کہ کم از کم 28 دیگر کے زخمی ہونے کا خدشہ ہے۔ ” یوکرین کے وزیر اعظم ڈینس شمیہل نے کہا، “آگ پر قابو پا لیا گیا ہے۔” ایک بازار، دکانوں اور ایک دواخانے کو نشانہ بنانے کی اطلاع ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دھماکے کے لمحے اور اس کے بعد کی تصویری جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایک مصروف گلی میں اس وقت ہوا جب لوگ بازار کے اسٹالوں اور کیفے کی چھتوں پر آرہے تھے۔ حملے کی تحقیقات یوکرین کے پراسیکیوٹر جنرل نے شروع کی ہیں، جس کے بارے میں اس کے دفتر کا کہنا ہے کہ “جنگ کے قوانین اور رسم و رواج کی خلاف ورزی پر مجرمانہ کارروائی” کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک بیان میں مزید کہا گیا کہ استغاثہ روسی فیڈریشن کی طرف سے کیے گئے جنگی جرائم کو ریکارڈ کرنے کے لیے تمام ممکنہ اور مناسب اقدامات کر رہے ہیں۔ روس میں حکام نے ابھی تک اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ انہوں نے پہلے بھی اپنے جارحیت کے حصے کے طور پر شہریوں کو نشانہ بنانے سے انکار کیا ہے۔ بدھ کو یہ حملہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے یوکرین کے دارالحکومت کیف کے دورے کے موقع پر ہوا جہاں وہ مسٹر زیلنسکی سے ملاقات کرنے والے تھے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ اپنے دورے کے دوران جنگ زدہ ملک کے لیے نئے امریکی امدادی پیکج کا اعلان کریں گے۔ Kostyantynivka میدان جنگ کے قریب بیٹھی ہے اور اس سال مختلف مواقع پر اسے نشانہ بنایا گیا ہے: 2 اپریل کو: چھ شہری مارے گئے، میزائلوں اور راکٹوں سے 16 اپارٹمنٹ بلاکس اور ایک نرسری اسکول کو نقصان پہنچا 13 مئی کو: دو افراد – ایک 15 سالہ لڑکی سمیت – اسمرچ راکٹوں کے استعمال سے ایک حملے میں مارے گئے جس نے اونچی عمارتوں، مکانات، ایک پٹرول اسٹیشن، ایک دواخانہ اور دکانوں کو نشانہ بنایا۔ 24 جولائی کو: ایک حملے میں دو بچے مارے گئے، جس کے بارے میں یوکرین نے کہا کہ روسی اہلکاروں نے اسے انجام دینے کے لیے کلسٹر گولہ بارود کا استعمال کیا۔ یہ باخموت شہر سے بھی تقریباً 17 میل (27 کلومیٹر) کے فاصلے پر ہے، جہاں کچھ عرصے سے لڑائی شدید تھی۔ ڈونیٹسک شہر 2014 سے روس کے پراکسی حکام کے کنٹرول میں ہے، جو گزشتہ فروری میں روس کے ساتھ جنگ ​​شروع ہونے کے بعد سے یوکرین کی افواج پر بار بار اسے نشانہ بنانے کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ یوکرین کے وزیر داخلہ ایہور کلیمینکو نے ٹیلی گرام پر تصاویر شیئر کیں جن میں انہوں نے کہا کہ امدادی کارکن ملبے کو نکال رہے ہیں۔

یوکرین کے شہر کوسٹیانتینیوکا پر میزائل حملے Read More »

اہئر کنڈیشنڈر کا استعمال اور ماحولیاتی تبدیلیاں

 گزشتہ کچھ برسوں میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں  کی وجہ سے غیر متو قع طور پر شدید گرمیاں پڑنی شروع ہو گیں ہیں۔  شدید گرمی کے مہینوں میں بہت سے لوگوں کے لیے ایئر کنڈیشنر ایک ضرورت بن چکے ہیں، جو چلچلاتی گرمی سے راحت فراہم کرتے ہیں۔ تاہم ایئر کنڈیشنر کا زیادہ استعمال ماحول پر مضر اثرات مرتب کرتا ہے ۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی (IEA) کا اندازہ ہے کہ 2050 تک گلوبل  کولنگ کی عالمی مانگ تین گنا سے زیادہ ہو جائے گی۔    IEA  کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق، بڑھتی ہوئی ٹھنڈک کی طلب “ہمارے وقت کے اہم ترین توانائی کے مسائل میں سے ایک ہے”۔ توانائی کی طلب کو بڑھائے بغیر لوگوں کو ٹھنڈا رکھیں، اس کا جواب “سب سے پہلے اور سب سے اہم” ایئر کنڈیشنرز کی کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کے زیادہ استعمال کا بنیادی اثر توانائی کی کھپت میں اضافہ ہے۔ ایئر کنڈیشنرز کو چلانے کے لیے کافی مقدار میں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے۔ کاربن کا اخراج گلوبل وارمنگ میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس کے ماحول پر دور رس اثرات ہوتے ہیں، بشمول سمندر کی سطح میں اضافہ، قدرتی آفات کی تعدد اور شدت میں اضافہ، اور حیاتیاتی تنوع میں کمی ہے۔ مزید یہ کہ ایئر کنڈیشنر کا استعمال اوزون کی تہہ کو بھی ختم کرتا ہے۔ ائیر کنڈیشنرز میں استعمال ہونے والے ریفریجرینٹس، جیسے کہ کلورو فلورو کاربن (CFCs) اور ہائیڈروکلورو فلورو کاربن (HCFCs)، اوزون کی تہہ کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جو زمین کو نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے۔ اوزون کی تہہ کی کمی سے جلد کے کینسر، موتیا بند اور دیگر صحت کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، ایئر کنڈیشنر کا زیادہ استعمال بھی شہری گرمی کے جزیرے کے اثر میں حصہ ڈالتا ہے۔ شہری گرمی کے جزیرے کا اثر اس وقت ہوتا ہے جب شہری علاقوں کو کنکریٹ اور دیگر مواد کے ذریعے گرمی کو جذب اور برقرار رکھنے کی وجہ سے ارد گرد کے دیہی علاقوں سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایئر کنڈیشنر کا استعمال اس اثر کو مزید بڑھاتا ہے، کیونکہ ایئر کنڈیشنرز سے خارج ہونے والی گرم ہوا شہری علاقوں میں گرمی کے اضافے میں حصہ ڈالتی ہے، جس سے توانائی کی کھپت اور گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے۔ گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کے ضرورت سے زیادہ استعمال کے اثرات کو کم کرنے کے لیے، کئی حل لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، افراد صرف ضرورت کے وقت ایئر کنڈیشنر استعمال کرکے، درجہ حرارت کو اعتدال پر رکھ کر، اور توانائی کے موثر ماڈلز پر سوئچ کرکے اپنی توانائی کی کھپت کو کم کرسکتے ہیں۔ مزید برآں، افراد کولنگ کے متبادل طریقے استعمال کر سکتے ہیں، جیسے پنکھے یا بخارات کے کولر، جو کم توانائی استعمال کرتے ہیں اور نقصان دہ ریفریجریٹس کا اخراج نہیں کرتے۔ مزید برآں، حکومتیں ایئر کنڈیشنرز کے استعمال ، بلڈنگ کوڈز اور ایئر کنڈیشنرز کے لیے توانائی کی کارکردگی کے معیارات پالیسیوں کے ذریعے ریگولیٹ کر سکتی ہیں ۔ حکومتیں کاربن کے اخراج اور توانائی کی کھپت کو کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی توانائی کے استعمال کو بھی فروغ دے سکتی ہیں۔ مزید برآں، مینوفیکچررز زیادہ توانائی کی بچت کرنے والے ایئر کنڈیشنگ ماڈل تیار کر سکتے ہیں اور نقصان دہ ریفریجرینٹس کے استعمال کو ختم کر سکتے ہیں۔ ماحول میں نقصان دہ ریفریجرینٹ کے اخراج کو روکنے کے لیے صارفین ذمہ داری کے ساتھ اپنے ایئر کنڈیشننگ یونٹس کو بھی ری سائیکل کر سکتے ہیں۔ آخر میں، گرمیوں میں ایئر کنڈیشنر کا زیادہ استعمال ماحول پر نقصان دہ اثرات مرتب کرتا ہے، بشمول توانائی کی کھپت میں اضافہ، اوزون کی کمی، اور شہری گرمی کے جزیرے کے اثرات میں اضافہ۔ ان اثرات کو کم کرنے کے لیے، افراد اپنی توانائی کی کھپت کو کم کر سکتے ہیں اور ٹھنڈک کے متبادل طریقے استعمال کر سکتے ہیں، جبکہ حکومتیں ایئر کنڈیشنرز کے استعمال کو ریگولیٹ کر سکتی ہیں اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو فروغ دے سکتی ہیں۔ ان اقدامات کو لے کر، ہم ماحولیات اور اپنے لیے ایک پائیدار مستقبل کو یقینی بنا سکتے ہیں۔

اہئر کنڈیشنڈر کا استعمال اور ماحولیاتی تبدیلیاں Read More »