’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بادشاہ کیدو کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ’ایگیارنے‘ تھا، جس کا تاتاری زبان میں مطلب ’روشن چاند‘ ہے۔ یہ لڑکی بہت خوبصورت تھی، اور سونے پر سہاگا یہ کہ اتنی مضبوط اور بہادر بھی تھی کہ اس کے والد کی پوری سلطنت میں کوئی ایسا آدمی نہیں تھا جو طاقت کے کارناموں میں اس سے آگے نکل سکے۔‘
یہ وہ الفاظ ہیں جن میں اطالوی تاجر، مہم جو اور مصنف مارکو پولو نے اپنی کتاب ’بک آف ونڈرز‘ میں ایک ایسی شہزادی کی کہانی سنانی شروع کی جو دنیا کے سب سے طاقتور خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتی ہے۔
اسے ’ختلون‘ کہا جاتا تھا، حالانکہ وہ کئی دوسرے ناموں سے بھی جانی جاتی تھی، جن میں سے ایک ایگیارنے بھی تھا جو مارکو پولو نے استعمال کیا۔
13 ویں صدی میں منگول سلطنت یورپ میں ہنگری کی سرحدوں سے لے کر مشرقی بحیرہ چین تک پھیلی ہوئی تھی اور اس پر چنگیز خان کے جانشینوں کی حکومت تھی۔
ختلون چنگیز خان کی چوتھی نسل سے تھیں اور اوگودے کی پڑپوتی تھی، جنھیں چنگیز نے خود اپنا جانشین مقرر کیا تھا، اس لیے ان کے والد سب سے طاقتور منگول خانوں (اعلیٰ حکمران) میں سے ایک تھے۔
لیکن ان کے نسب سے بڑھ کر، یہ ان کی غیر معمولی شخصیت تھی جس نے مارکو پولو کو موہ لیا، نہ صرف اس وجہ سے کہ وہ چند بہترین جنگجوؤں میں سے ایک تھیں بلکہ اس لیے کہ انھوں نے اس وقت تک شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا ’جب تک کہ انھیں کوئی ایسا مہربان آدمی نہ ملے جو انھیں شکست دے دے۔‘
یہ کوئی آسان بات نہیں تھی کیونکہ، تمام منگول مردوں اور عورتوں کی طرح، وہ ایک ماہر تیر انداز اور بہترین گھڑسوار ہونے کے علاوہ منگولیا کی فری سٹائل کشتی، بوک کی ایک عظیم جنگجو تھیں جس میں زمین کو چھونے والا پہلا شخص ہار جاتا ہے۔
یہ کسی بھی دعویدار کے لیے کھلا چیلنج تھا کہ اگر وہ انھیں ہرا دیتا ہے تو وہ اس سے شادی کر لیں گی لیکن اگر وہ ہار گیا تو اسے 100 گھوڑے دینے پڑیں گے۔
یہ بات تمام مملکتوں میں پھیل گئی اور اتنے نوجوانوں نے چیلنج قبول کیا کہ ناقابل شکست ختلون کے پاس 10,000 گھوڑے جمع ہو گئے۔
مارکو پولو کے مطابق، ایک شہزادے نے 100 کے بجائے ایک ہزار گھوڑوں کی شرط لگائی، کیونکہ ’وہ جانتا تھا کہ وہ کیا جیتنا چاہتا ہے۔‘
ن کا کہنا ہے کہ ’کیدو بہت خوش تھے ’کیونکہ وہ ایک خوبصورت نوجوان اور ایک عظیم بادشاہ کا بیٹا تھا‘ اس لیے انھوں نے اپنی بیٹی سے منت کی کہ اسے جیتنے دیں۔‘
ختلون نے یقیناً انکار کر دیا اور ایسے شائقین کے گھیرے میں لڑنے گئیں جو سب چاہتے تھے کہ وہ ہار جائیں ’تاکہ اتنا خوبصورت جوڑا ایک ساتھ ہو سکے۔‘
’ختلون اور نوجوان لڑنے کے لیے آئے اور انھوں نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں لے کر بہت خوبصورت آغاز کیا، لیکن اس نوجوان کو مقابلہ ہارنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔‘
جلد ہی ختلون کو 1000 گھوڑے مل گئے اور نوجوان شہزادہ شرمندہ ہو کر اپنے ملک چلا گیا۔
اگرچہ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے، یہ کوئی دیو مالائی کہانی نہیں ہے نہ ہی یہ کسی افسانے کا پلاٹ ہے، حالانکہ تاریخی اعتبار سے مارکو پولو کو بہت زیادہ قابل اعتماد ذریعہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔
ان کی مقبول کتاب بہت سے لوگوں کے لیے، شروع میں، ایک افسانہ تھی، جزوی طور پر اس لیے کہ اس میں منگولوں کو اس طرح بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے یعنی بے رحم، خونخوار عفریت جو پوری دنیا کو کھا جانا چاہتے تھے بلکہ اس کتاب میں یہ قابل تعریف اور مہذب انسان تھے۔
لیکن اگرچہ مارکو پولو کی یادداشتیں کبھی کبھی جھوٹ لگتیں ہیں، وہ جھوٹے نہیں تھے۔ تاہم ان کی تحریریں ان کے تجربے کا ایک رومانوی ورژن ہیں۔
اور ختلون کی پروفائل اگرچہ افسانوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن اس کی بنیاد تاریخی تحریروں پر ہے، خاص طور پر راشد الدین ہمدانی کی تحریروں پر، جنھوں نے انھیں اپنی کتاب ’جامع التواریج‘ میں جگہ دی، جو 14 ویں صدی میں منگول سلطنت کے بارے میں ایک منفرد ماخذ تھا۔
تاہم ان میں ایسی تفصیلات موجود ہیں جو میل نہیں کھاتی ہیں۔
بنیادی ذرائع کی کمی کی وجہ سے، باہر کے لوگ منگولوں کے بارے میں لکھتے تھے جن میں سے اکثر ان کے دشمن ہوا کرتے تھے۔
لہٰذا ختلون کی کہانی آدھی افسانوں اور آدھی امکانات پرمبنی ہے، لیکن اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔
م جانتے ہیں کہ وہ کیدو کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ایک سیاسی مشیر، عدالت میں، اور حکمت عملی کے طور پر، جنگ میں وہ ان کی پسندیدہ تھیں حالانکہ ان کے 14 بڑے بھائی تھے۔
بادشاہ انھیں بہت سی لڑائیوں میں لے گئے جو انھوں نے لڑیں، خاص طور پر اپنے رشتہ دار قبلائی خان کے خلاف، جو یوآن خاندان کے پہلے شہنشاہ تھے۔
مارکو پولو کہتے ہیں ’کبھی کبھی وہ دشمن کی فوج کی طرف بڑھتیں، وہاں ایک آدمی کو پکڑتیں، اور اسے اپنے باپ کے پاس لے جاتیں، جیسے عقاب کسی پرندے پر جھپٹتا ہے۔ ‘
ان کے جسم کے بارے میں مارکو پولو نے یہ لکھا کہ وہ ’اتنی لمبی اور مضبوط تھی کہ اسے تقریباً ایک دیو ہی سمجھا جا سکتا تھا۔‘
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آخر کار وہ شادی کرنے پر راضی ہو گئیں، ہارے بغیر ہی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے والد کے دشمنوں نے یہ افواہیں پھیلائی تھیں کہ ان کے اور ان کے والد کے درمیان ناجائز تعلق ہے اور انھوں نے ان کی تردید کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ان کا شوہر کون تھا۔
راشد بتاتے ہیں کہ ختلون کو غازان سے محبت تھی، جو 1295 میں فارس کے خان بن گئے، لیکن ان دونوں نے شادی نہیں کی۔
کچھ تاریخی حوالوں میں کہا گیا ہے کہ ’یہ خوش قسمت آدمی ایک خوبصورت قاتل تھا جسے قبلائی نے اپنے والد کو قتل کرنے کے لیے رکھا تھا، جسے بہادری کا مظاہرہ کرنے پر معاف کر دیا گیا۔‘
زیادہ تر مؤرخین جس بات پر متفق ہیں وہ یہ ہے کہ کیدو اپنی بیٹی ختلون کو وارث بنانا چاہتے تھے لیکن نہ صرف ان کے بھائی اس بات کے مخالف تھے بلکہ وہ خود بھی اس قسم کی طاقت میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں، ان کی تو بادشاہی میدان جنگ میں تھی۔
ناقابل شکست جنگجو ختلون 1306میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہلاک ہوئیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ ان کی موت مشکوک حالات میں ہوئی۔
تب سے اب تک کئی افسانے ان کی کہانی سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔
21ویں صدی میں وہ کامکس، ویڈیو گیمز اور ادب میں ایک ہیروئین کے طور پر پہچانی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ’شہزادی ختلون (2017)‘ ہے جو ملٹی ایوارڈ یافتہ منگول صحافی، مصنف، فلم ساز اور کارکن شودرٹسیگ باتارسون کی ہے۔
یہ تاریخی ناول پورے ایک سال تک منگولیا کی بیسٹ سیلر فہرست میں سب سے اوپر رہا ، اور اس پر فلم بنائی گئی۔ اس کا نام ’ختلون ، دی واریئر پرنسس‘ (2021) تھا۔