ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی
یہ آٹھ اگست 1963 کی بات ہے جب ایک ٹرین گلاسگو سے اپنے سفر پر روانہ ہوئی۔ صبح تین بج کر تیس منٹ پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے اسے روکا اور وہ 26 لاکھ پاؤنڈ کی دولت لے اڑے۔ 60 برس قبل 26 لاکھ پاؤنڈ کی مالیت آج کے پچاس لاکھ پاؤنڈ کے برابر ہے۔ اس واقعے کو اب 60 برس گزر چکے ہیں لیکن اس ڈکیتی کی یاد اب بھی برطانوی افراد کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس ڈکیتی کو بعد میں ’دی گریٹ ٹرین رابری‘ یا عظیم ٹرین ڈکیتی کا نام دیا گیا۔ اس واقعے پر متعدد فلمیں اور ڈرامہ سیریل بنائے جا چکے ہیں۔ یہ بدنامِ زمانہ ڈکیتی آج بھی اکثر افراد کے لیے ایک افسانے کی طرح ہے۔ ڈکیتوں نے اس کی منصوبہ بندی کیسے کی؟ اس دن کیا ہوا اور اس کے بعد ڈکیتوں کے ساتھ کیا ہوا؟ یہ وہ سوال ہیں جو سب کے ذہنوں میں گردش کرتے رہے۔ یہ 15 لوگوں کا گینگ تھا اور بروس رینلڈز اس کے سرغنہ تھے۔ انھیں ریلوے کے ایک ملازم کی جانب سے تمام معلومات بتائی جا رہی تھیں لیکن اس اہلکار کی شناخت آج تک نہیں کی جا سکی۔ اس اہلکار کی جانب سے دی گئی معلومات کی بنیاد پر بروس نے ڈکیتی کی منصوبہ بندی کی۔ انھوں نے ریلوے سگنلز کے نظام میں تبدیلی کی اور ٹرین کو بکنگھم شائر کے پاس روکنے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈکیتوں نے اس دوران اسلحہ یا پستولوں کا استعمال نہیں کیا لیکن انھوں نے ٹرین ڈرائیور کے سر پر سلاخ سے ضرب لگائی۔ ڈرائیور بچ تو گیا لیکن کبھی بھی مکمل طور پر صحتیاب نہیں ہو سکا یہ منصوبہ کیسے بنایا گیا؟ بروس رینلڈز اس ڈکیتی کے سرغنہ اور منصوبہ ساز تھے۔ انھوں نے گلاسگو سے آنے والی ٹرین کو روکنا تھا۔ ایک سکیورٹی افسر جو اس ٹرین میں موجود رقم کے بارے میں معلومات رکھتے تھے اور اس کو محفوظ رکھنے کے لیے کیے گئے انتظامات کے بارے میں بھی جانتے تھے گینگ کے لوگوں کو سب کچھ بتا رہے تھے۔ برائن فیلڈ نے اس سکیورٹی افسر کو گورڈن گوڈی اور رانلڈ ’بسٹر‘ ایڈورڈز سے ملوایا جو اس گینگ کا حصہ تھے۔ اس ڈکیتی کی منصوبہ بندی کرنے میں کئی ماہ لگ گئے۔ بروس رینلڈز، گورڈن گوڈی، بسٹر ایڈورڈز اور چارلی ولسن اس گینگ کے سب سے اہم اراکین تھے۔ وہ جرائم کی دنیا میں نئے نہیں تھے لیکن انھیں کسی ٹرین کو روک کر اس پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ ہرگز نہیں تھا۔ اس لیے اس کے لیے دیگر گینگز کی مدد لی گئی۔ اس گینگ میں ٹامی وسبی، باب ویلش اور جم ہسی شامل تھے۔ اس گینگ کو ’ساؤتھ کوسٹ ریڈرز گینگ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اور انھیں ٹرینوں پر ڈکیتی کرنے کا تجربہ تھا۔ اس کے بعد کچھ اور لوگوں کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنایا گیا اور یوں اس ٹیم میں 16 افراد تھے۔ اس ٹرین میں کیا تھا؟ اس ٹرین کا نام ’رولنگ پوسٹ آفس‘ رکھا گیا۔ اس کے ذریعے خط، پارسل، منی آرڈر اور کیش ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجا جاتا تھا۔ اس ٹرین میں عملے کے کل 72 افراد تھے اور اس میں 12 کوچز تھیں۔ وہ سٹیشن سے پارسل اور خطوط کے بیگ ٹرین پر لوڈ کرتے اور جب ٹرین چل رہی ہوتی اس دوران انھیں ترتیب دیتے۔ ٹرین کو کسی صورت نہ روکنے کے لیے اس میں بڑے بڑے ہُک لگائے جاتے اور ان پر بیگ لٹکا دیے جاتے اور بعد میں ان میں سے یہ خطوط اور پارسل اندر رکھ لیے جاتے۔ اس ٹرین میں انجن سے منسلک ایک بوگی میں رقم رکھی جاتی تھی۔ عام طور پر ٹرین میں تین لاکھ پاؤنڈ کی رقم منتقل کی جاتی تھی لیکن سات اگست 1963 کو کیونکہ بینک کی چھٹی تھی اس لیے اس پر 26 لاکھ پاؤنڈ کی رقم موجود تھی ٹرین کو کیسے روکا گیا؟ ڈکیتوں نے پٹڑی پر موجود سگنل کو گلوّز کے ذریعے ڈھانپ دیا اور بیٹری سے چلنے والی سرخ لائٹس کے ذریعے ٹرین کو روکنے کا اشارہ کیا۔ ٹرین ڈرائیور جیک ملر نے جب سرخ سگنل دیکھا تو انھوں نے آٹھ اگست کی صبح لگ بھگ تین بجے ٹرین روک دی۔ انھیں اس بات کی امید نہیں تھی کہ ٹرین کو ایسے راستے میں روکا جائے گا۔ اس لیے وہ اور ان کے اسسٹنٹ ڈیوڈ وھٹبی ٹرین سے اترے اور قریبی سٹیشن کال کرنے کے لیے ٹریک پر لگے فون کی جانب بڑھے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ کسی نے ٹیلی فون لائن ہی کاٹ دی ہے۔ جب تک ڈیوڈ واپس آئے تو ڈکیت انجن کیبن میں داخل ہو چکے تھے۔ جیک ملر نے جب ایک ڈکیت کو روکنے کی کوشش کی تو انھوں نے ان کے سر پر سلاخ دے ماری۔ ڈکیتوں کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اس کوچ کو باقی ٹرین سے علیحدہ کر کے اسے برڈگو پول لے جائیں جو وہاں سے صرف آٹھ سو میٹر دور تھا اور پھر رقم لوٹ کر نکل جائیں۔ اس کے لیے وہ ایک ریٹائرڈ ٹرین ڈرائیور بھی اپنے ساتھ لے کر آئے تھے لیکن ڈکیتی کے وقت انھیں احساس ہوا کہ اس ڈرائیور کو یہ جدید قسم کی ٹرین چلانے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس وقت تک ڈکیتوں نے پچھلی بوگیوں میں جا کر تمام اہلکاروں کو ایک طرف کونے میں بٹھا لیا تھا، دو سکیورٹی گارڈز کو باندھ دیا گیا۔ اب ان بوریوں کو خالی کرنے کی باری تھی جن میں دولت موجود تھی۔ اس ٹرین کی پہلی بوگی میں 128 بوریاں تھیں۔ انھوں نے پہلے اس میں سے 120 بوریاں نکالیں اور ایک ایک کر کے انھیں پل کے نیچے کھڑے ٹرک میں خالی کرنے لگے۔ صرف تیس منٹ میں انھوں نے یہ ڈکیتی مکمل کر لی تھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے مزید دو ٹرکس مختلف سمتوں میں بھیجے تاکہ عینی شاہدین کو بیوقوف بنایا جا سکے۔ پیسوں سے بھرے بیگ خالی کرنے کے بعد ڈکیتوں نے ایک سنسان سڑک پکڑی۔ اس دوران پولیس ریڈیو کے ذریعے سننے کی کوشش کر رہی تھی کہ انھیں کوئی معلومات ملتی ہیں یا نہیں۔ ڈکیت ایسپس لیدرسلیڈ فارم صبح چار بج کر
ڈکیتی کی وہ سنسنی خیز واردات جس میں پیسوں سے بھری پوری ٹرین غائب کر دی گئی Read More »